روزے کی اہمیت

رشد و ہدایت
رشد و ہدایت

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (ترجمہ) ’’اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کیے گئے ہیں جس طرح اُن لوگوں پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے گزر چکے تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو‘‘۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جب ماہ رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے‘‘ (بخاری۔عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)

اسلامی زندگی کی عمارت کو قائم ہونے اور قائم رہنے کے لیے جن سہاروں کی ضرورت ہے، ان میں سب سے مقدم سہارا یہ ہے کہ مسلمانوں کے افراد میں فرداً فرداً اور ان کی جماعت میں بحیثیتِ مجموعی وہ اوصاف پیدا ہوں جو خدا کی بندگی کا حق ادا کرنے اور دنیا میں خلافتِ الٰہی کا بار سنبھالنے کے لیے ضروری ہیں۔ وہ غیب پر سچا اور زندہ ایمان رکھنے والے ہوں، وہ اللہ کو اپنا واحد فرماں روا تسلیم کریں اور اس کے فرض شناس اور اطاعت کیش بندے ہوں، اسلام کا نظام فکر و نظریۂ حیات ان کی رگ رگ میں ایسا پیوستہ ہوجائے کہ اسی کی بنیاد پر ان میں ایک پختہ سیرت پیدا ہو، اور ان کا عملی کردار اسی کے مطابق ڈھل جائے۔ اپنی جسمانی اور نفسانی قوتوں پر وہ اتنے قابو یافتہ ہوں کہ اپنے ایمان و اعتقاد کے مطابق ان سے کام لے سکیں۔ ان کے اندر منافقین کی جماعت اگر پیدا ہوگئی ہو یا باہر سے گھس آئی ہو تو وہ اہلِ ایمان سے الگ ہوجائے۔ ان کی جماعت کا نظام اسلام کے اجتماعی اصولوں پر قائم ہو اور ایک مشین کی طرح پیہم متحرک رہے۔ ان میں اجتماعی ذہنیت کارفرما ہو۔ ان کے درمیان محبت ہو، ہمدردی ہو، تعاون ہو، مساوات ہو، وحدتِ روح اور وحدتِ عمل ہو، وہ قیادت اور اقتدا کے حدود کو جانتے اور سمجھتے ہوں اور پورے نظم و ضبط کے ساتھ کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔
ان مقاصد کی اہمیت اسلام میں اتنی زیادہ ہے کہ ان کو حاصل کرنے کے لیے صرف نماز کو کافی نہ سمجھا گیا بلکہ اس رکن کو مزید تقویت پہنچانے کے لیے ایک دوسرے رکن روزے کا بھی اضافہ کردیا گیا ہے، نماز کی طرح یہ روزہ بھی قدیم ترین زمانے سے اسلام کا رکن رہا ہے۔ اگرچہ تفصیلی احکام کے لحاظ سے اس کی شکلیں مختلف رہی ہیں، مگر جہاں تک نفسِ روزہ کا تعلق ہے وہ ہمیشہ الٰہی شریعتوں کا جزوِلاینفک ہی رہا۔ تمام انبیا علیہم السلام کے مذہب میں یہ فرض کی حیثیت سے شامل تھا۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے:
(ترجمہ) ’’تم پر روزے فرض کردیئے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیروئوں پر فرض کیے گئے تھے۔‘‘ (البقرہ: 2:183)
اس سے یہ بات خودبخود مترشح ہوتی ہے کہ اسلام کی فطرت کے ساتھ اس طریقِ تربیت کو ضرور کوئی مناسبت ہے۔
زکوٰۃ اور حج کی طرح روزہ ایک مستقل جداگانہ نوعیت رکھنے والا رکن نہیں ہے، بلکہ دراصل اس کا مزاج قریب قریب وہی ہے جو رکنِ صلوٰۃ کا ہے، اور رکنِ صلوٰۃ کے مددگار اور معاون ہی کی حیثیت سے لگایا گیا ہے۔ اس کا کام انہی اثرات کو زیادہ تیز اور زیادہ مستحکم کرنا ہے جو نماز سے انسانی زندگی پر مترتب ہوتے ہیں۔ نماز روزمرہ کا معمولی نظامِ تربیت ہے جو روز پانچ وقت تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے آدمی کو اپنے اثر میں لیتا ہے اور تعلیم و تربیت کی ہلکی ہلکی خوراکیں دے کر چھوڑ دیتا ہے، اور روزہ سال بھر میں ایک مہینے کا غیر معمولی نظامِ تربیت (Special Training Course) ہے جو آدمی کو تقریباً 720 گھنٹے تک مسلسل اپنے مضبوط ڈسپلن کے شکنجے میں کسے رکھتا ہے تاکہ روزانہ کی معمولی تربیت میں جو اثرات خفیف تھے، وہ شدید ہوجائیں۔
(’’اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر‘‘۔ اکتوبر 2004ء، ص64،67)