مسئلہ بچّوں کا یا بڑوں کا۔۔۔؟

محمد اسعد الدین
’’ہمارے بچے کسی طرح اچھے ہوجائیں‘‘۔ یہ ہے ہمارے سماج میں والدین اور بڑوں کی بنیادی خواہش۔ یہ ’’بڑے‘‘ گھر کے بھی ہیں، خاندان کے بھی۔ محلے، علاقے، بستی، حتیٰ کہ شہر اور ملک میں بھی آپ کو یہ نظر آئیں گے۔ بچوں کو اچھا دیکھنے کی خواہش ایک عمومی بات ہے، لیکن اس ’’اچھے‘‘ کی توقعات کی فہرست بڑی لمبی ہے۔ ماں باپ چاہتے ہیں ان کے بچے تعلیم میں اچھے تو ہوں ہی، اس کے ساتھ ساتھ کھیل کود میں، اسکول، گھر، گلی، محلہ، خاندان میں میل جول کے دوران ان کا رویہ اچھا ہو۔ اچھے باعمل مسلمان بنیں۔ بات کرنے کا انداز اچھا ہو۔ صبح سے شام تک ہر ہر کام اچھے انداز سے کریں۔ قصہ مختصر ہمارے بچے ’’مکمل اچھے‘‘ انسان ہوں۔
ماں باپ اپنی اس دلی خواہش کو حقیقت کی شکل میں دیکھنے کے لیے بڑے جتن کرتے ہیں۔ بچے کے ذرا سمجھ دار ہوتے ہی اس کے لیے معیاری اسکول کی تلاش، مہنگی کتابوں اور دیگر لوازمات کا انتظام… پھر بچہ اچھی پڑھائی کرکے بہترین رزلٹ لائے، اس تمنا کے لیے اسکول کے علاوہ الگ سے ٹیوٹر کا بندوبست، اچھا مسلمان بنانے کے لیے بچے کو مدرسہ میں داخل کروانا، جیب اجازت دے تو گھر پر آکر پڑھانے کے لیے مولوی صاحب کی خدمات حاصل کرنا، مالی حالات کتنے ہی گئے گزرے کیوں نہ ہوں، لیکن کسی نہ کسی طرح کھانے پینے کی ایسی چیزوں کا اہتمام جس سے بچے کی صحت مثالی رہے۔ ٹی وی اشتہارات نے تو اور آسانی کردی… بچے کو فلاں چیز کھلائیں ہڈیاں مضبوط ہوں گی، دماغ تیز ہوگا۔ ماں باپ کی بے تابی اور موقع غنیمت دیکھ کر بہت سے ادارے بھی بچوں کو اچھا بنانے کے لیے میدان میں آگئے (ان اداروں کے کردار کے حوالے سے کسی اور موقع پر بات ہوگی)۔ بچوں کی جملہ ضروریات پوری کرنے کے لیے ماں باپ حقیقتاً بڑے پاپڑ بیلتے ہیں۔ دن رات محنت، فل ٹائم نوکری کے بعد اوورٹائم، پارٹ ٹائم اور پتا نہیں کیا کیا… کولہو کے بیل کی طرح دن رات محض اس لیے محنت کرتے ہیں کہ بچے کے اچھا ہونے میں کوئی کمی اور کسر نہ رہ جائے۔ پھر ساری دوڑ دھوپ کا جواز بھی یہی بتاتے ہیں کہ ’’بچوںکے لیے ہی تو سب کچھ کرتے ہیں‘‘۔ بچوں کی ضروریات، خواہشات پوری کرنے کے لیے مشین بننے کے بعد ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ ماں باپ خوشی سے پھولے نہ سماتے، بے فکر ہوتے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ ماں باپ اور بڑے سب کچھ کرنے کے باوجود بچوں سے غیر مطمئن، کسی قدر ناراض اور شاکی نظر آتے ہیں۔ اکثر والدین تو بچوں کے رویوں، عادات اور معمولات کے حوالے سے باقاعدہ فکرمندی، تشویش، بلکہ دل میں چھپے اپنے خوف کا بھی دبے لفظوں میں اظہار کرتے ہیں کہ بچے کا کیا بنے گا؟ کیا کرے گا؟ کہیں ایسا نہ کردے، کہیں ویسا نہ کردے… اس موقع پر خیال آتا ہے کہ بچے کی خاطر بہت کچھ کرنے، بلکہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی ایسی فکر، بے اطمینانی، ناراضی اور شکووں کا کیا تُک ہے؟ بظاہر دونوں باتیں اپنی جگہ ٹھیک ہیں کہ ماں باپ خواہش رکھتے ہیں تو اُسے پورا کرنے کے لیے اپنا آرام، خوشیاں قربان کردیتے ہیں، جان کھپا دیتے ہیں، پھر بھی بچے کی طرف سے پریشان رہتے ہیں۔ اس الجھن کی وجہ، صورتِ حال، پیچیدگی اور ممکنہ نتائج جاننے سے قبل بچوں کی عادات، رویوں، مسائل اور موجودہ صورتِ حال کے حوالے سے کی گئی اس ریسرچ کا پیش نظر رہنا ضروری ہے، ورنہ مسئلے کی پوری تصویر نگاہوں سے اوجھل اور بات ادھوری رہے گی۔
’’خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کے، سوسائٹی بالخصوص بچوں پر پڑنے والے اثرات‘‘ کے حوالے سے ریسرچ کرنے والے ادارے ’’فار ایور‘‘ کی یہ تحقیق نوعیت کے اعتبار سے بالکل مختلف، نہایت حساس اور مشکل تحقیق ہے۔
2012ء میں شروع کی گئی اس ریسرچ کے دوران شہر کی معاشی لحاظ سے تین حصوں میں درجہ بندی کی گئی (1) لوئر مڈل کلاس، (2) مڈل کلاس، (3) اپر مڈل کلاس۔
(1)لوئر مڈل کلاس کیٹگری میں کورنگی کے منتخب علاقے، بلال کالونی، لیبر اسکوائر، لانڈھی، سرجانی ٹائون، نیوکراچی کے مختلف سیکٹر، اورنگی ٹائون کے کچھ علاقے شامل ہیں۔
(2) مڈل کلاس کیٹگری میں فیڈرل بی ایریا، نارتھ کراچی، لیاقت آباد، شاہ فیصل کالونی، ڈرگ رو ڈ، گلستان جوہر کے علاقے شامل ہیں۔
(3) اَپر مڈل کلاس کیٹگری میں گلشن اقبال، نارتھ ناظم آباد ٹائون کے مختلف بلاک، فیڈرل بی ایریا کے مختلف بلاک، گلبرگ، نارتھ کراچی اور بفرزون کے منتخب سیکٹر شامل ہیں۔
٭ یہ ریسرچ آٹھویں جماعت سے لے کر انٹر تک 2500 طلبہ پر کی گئی (اس میں لڑکے، لڑکیاں دونوں شامل ہیں)۔ لڑکوں کی تعداد 1566، جب کہ لڑکیوں کی تعداد 934 تھی۔
٭ ریسرچ میں تمام ہی سماجی طبقات دنیادار، ماڈرن، روایت پسند، نیم مذہبی، دینی روایات پر سختی سے کاربند (بلکہ اس میں مختلف سیاسی و مذہبی اجتماعیتوں سے وابستگی والے گھرانوں کی مناسب تعداد بھی شامل ہے)، اَن پڑھ، کم پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانوں کے بچے، بچیاں شامل ہیں۔
٭ بچوں کے رویوں، عادات اور معمولات میں جو تبدیلیاں ریسرچ کے دوران نظر آئیں ان کا 12مختلف مقامات پر مشاہدہ اور مطالعہ کیا گیا۔
(1) اسکول، کالج، کوچنگ، لینگویج سینٹر کے نزدیک چائے کے ہوٹل ((2پان، سگریٹ کے کیبن (3)فاسٹ فوڈز سینٹر (4) اسنیک بار(5)وڈیو، فٹ بال گیم کی شاپس (6)گلی محلے میں لڑکوں کے جمع ہونے کی جگہ(7) شاپنگ سینٹر(8)شادی بیاہ کی تقریبات (9)پکنک پوائنٹس (10) پارکس(11)فیس بک چیٹ(12)انفرادی ملاقاتیں۔
٭ان مقامات پر مشاہدے اور بچوں سے حاصل ہونے والے حقائق کی درستی جانچنے اور باہمی موازنے کے لیے صورت حال کے دوسرے اور اصل فریق ’’ماں باپ‘‘ کے آپس کے رویّے، بچوں سے سلوک، گھر کے مجموعی ماحول کا براہِ راست اور بالواسطہ جائزہ لیا گیا۔ ریسرچ کے معیار کو یقینی بنانے کے لیے حد درجہ احتیاط کی گئی۔ بعض اوقات کسی بچے یا بچی کے بارے میں حاصل ہونے والی معلومات اور حقائق کی تصدیق کے لیے 16۔17 ماہ تک متواتر مشاہدے کا عمل جاری رکھا گیا۔ والدین سے گفتگو کی گئی، فوکس گروپ سیشنز کا اہتمام کیا گیا۔
٭ ریسرچ کے دوران بچوں کے عمومی مسائل کے حوالے سے جو حقائق سامنے آئے اُن میں: سونے اور جاگنے کے معمولات میں تبدیلی، غذائی عادات میں تبدیلی، رویوں میں بیشتر اوقات ہیجانی کیفیت، زائد از ضرورت تیزی اور جھنجھلاہٹ، قبل از وقت بلوغت اور جسمانی تبدیلیوں میں تیزی شامل ہیں، تاہم 4 ایشوز (تناسب کے فرق کے ساتھ) مشترکہ طور پر نمایاں نظر آئے: (1) نشے کا استعمال (2) مجرمانہ سوچ (3) باغیانہ خیالات، اور (4) جنسی رجحان میں شدت۔ خاص طور پر آخری مسئلے کے حوالے سے صورت حال اتنی تشویش ناک ہے کہ کسی کیس اسٹڈی کے بارے میں تحریر کرنے کے لیے قلم اور ہمت اجازت نہیں دیتے۔
ریسرچ کے چیدہ چیدہ نکات اور صورت حال کی جھلک سامنے آنے کے بعد ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ سب کچھ کب ہوا؟ کیسے ہوا؟ بدقسمتی سے ہماری سوسائٹی میں یہ مسئلہ جتنی گہرائی اور ہولناک مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اس کا حقیقی سدباب تو دور کی بات، جائزہ بھی صحیح نہیں لیا جارہا۔ رسمی اور اُچٹتے ہوئے انداز میں ظاہری چیزوں کو دیکھنا، سطحی رائے قائم کرنا اور ضمنی وجوہات کو اصل جواز قرار دینا، اپنے آپ کو مکمل بری الذمہ اور معصوم قرار دینے کی ہر ممکن کوشش اور بس… یہ ہے سوسائٹی کا عملی رویہ۔ اس حوالے سے یہاں محض عام فرد کی بات نہیں ہورہی۔ پڑھے لکھے، سمجھ دار افراد کا رویہ بھی زیادہ مختلف نہیں، بلکہ ریسرچ میں بچوں، بچیوں کی ایسی کیس اسٹڈیز بھی مشاہدے میں آئیں جن کے تعلیم یافتہ والدین بچوں کی پڑھائی کے معیار، کوچنگ سینٹرز کی فیسوں کے انتظام، امتحان میں بہترین رزلٹ کی تمنا میں ہلکان ہوتے رہے، اور انہیں خبر بھی نہ ہوئی کہ قیامت کب گزری…
اس صورت حال کی خرابی کی ابتدا تب ہوئی جب ماں باپ نے لاشعوری طور پر بچے کے ساتھ اپنے تعلق کے معنی، عملی مفہوم اور رویہ بدل دیا۔ بچے کا اپنے ماں باپ کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ محض یہ کہ اس نے انہی کے وجود سے جنم لیا اور ’’اولاد‘‘ کا رشتہ قائم کیا؟ بچہ حقیقت میں اپنے ماں باپ کی ذات کی توسیع، تسلسل اور تعارف ہے۔ یہی اس کا اپنے والدین سے اصل تعلق اور رشتہ ہے۔ بدقسمتی سے ماں باپ بچے کو فقط ایک مادی وجود سمجھ بیٹھے۔ میٹریل ازم کے سر چڑھتے جادو، عقل و نظر کو معطل کردینے والی تعبیر اور تشریح کے آگے ڈھیر ہوگئے اور یہ بھول گئے کہ بچہ لاکھ مادی وجود سہی، لیکن اُن کے ساتھ جذبات، دماغ اور روح کے رشتے میں بندھا ہوا ہے۔ جینٹک سائنس نے بھی اس حقیقت کو ثابت کردیا کہ بچہ اپنے ماں باپ بالخصوص ماں کی عادات، مزاج، طبیعت سے حصہ لے کر اس دنیا میں آتا ہے، لیکن نظر کو خیرہ کردینے والے مادیت نے اچھے اچھوں کے تصورات کو دھول بناکر اُڑاتے ہوئے ایک ہی بات دماغوں میں بٹھا دی کہ ’’بچے کو بس ایک مادی وجود ہی سمجھو‘‘۔ پھر ضروریات کی ایک لمبی فہرست اور پورا کرنے کے راستے، طریقے بھی سجا سنوار کر سامنے پیش کردیے، تاکہ ذہن کو زیادہ اِدھر اُدھر دوڑنے، سوچنے کا موقع ہی نہ ملے۔
ماں باپ کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی، یا وہ نتائج کے الزام سے بچنے اور صورتِ حال کی ذمے داری قبول کرنے کے خوف سے سمجھنا نہیں چاہتے کہ بچہ کسی جزیرے میں نہیں، انہی کے اردگرد دیگر بڑوں کے ہاتھوں بنے ہوئے مخصوص ماحول میں آنکھ کھولتا ہے اور ’’دیکھنے‘‘ سے ’’سیکھنے‘‘ کا آغاز کرتا ہے۔ ’’ماں کی گود پہلی درس گاہ، گھر پہلی تربیت گاہ‘‘ اب یہ باتیں ہمارے ہاں فقط سننے، سنانے، ایک دوسرے کو وعظ و نصیحت کرنے کے لیے کتابوں تک محدود ہوگئیں۔ بچہ حقیقت میں ماں کی گود میں لیٹے لیٹے سب کچھ دیکھ کر چیزیںاور مناظر لاشعور میں محفوظ کرتا چلا جاتا ہے۔ ماں باپ کی تکرار، چیخ و پکار، جوتم پیزار دیکھتا ہے۔ کم عمری کی وجہ سے جھوٹ، منافقت، غیبت سمیت دیگر اخلاقی بیماریاں کیا ہیں؟ سمجھ نہیں سکتا، لیکن متعارف ضرور ہوجاتا ہے۔ بچہ دیکھتا ہے کہ ابھی وہ اچھی طرح اپنی کُل کائنات ’’ماں‘‘ کی محبت، باپ کی شفقت، نرمی، پیار کے ذائقے سے آشنا بھی نہیں ہوا تھا کہ نماز سے پہلے تعلیم کو فرض تصور کرتے ہوئے پیمپر باندھ کر ’’تعلیم یافتہ‘‘ بنانے کی شروعات کے نام پر اسے اسکول کی طرف دھکیل دیا گیا۔ ابھی تو اُس کا Belif System اور Value System بھی صحیح سے نہیں بنا تھا۔ پھر وہ کون ہے؟ اللہ کون ہے؟ اس کی قدرت، عظمت، ہیبت کیسی ہے؟ اس کا اللہ سے تعلق کیسا ہونا چاہیے؟ اس کے ساتھ ساتھ گھر اور خاندان کے رشتے کیا ہوتے ہیں؟ اُن کا مقام کیسے پہچانا اور احترام کیسے کیا جاتا ہے؟ رشتوں سے برتائو کس چیز کا نام ہے؟ صبح سے شام تک چھوٹے بڑے کام، ضرورتیں پوری کرنے کے آداب خود عملی طور پر برت کر سکھانے کے بجائے اپنی آزادی اور آسانی کو برقرار رکھنے کے لیے اسکول اور مولوی صاحب کے حوالے کردیا گیا۔ تنخواہ کی فکر اور تنخواہ کی حد تک کام کے قائل لوگ اس کی تعلیم و تربیت کے ذمے دار ٹھیرے۔ ذرا ہوش سنبھالنے کے بعد بچہ دیکھنے سے آگے بڑھ کر ’’سن کر‘‘ اور سمجھ کر سیکھنا شروع کرتا ہے۔ اس موقع پر وہ بالکل ابتدا میں ماں باپ، گھر اور خاندان کے بڑوں کے رویوں، گفتگو اور حرکتوں کو سنی اور سمجھی ہوئی باتوں کے ساتھ ذہنی استعداد کے مطابق ملا کر مطلب نکالتا ہے اور اس سے دھیرے دھیرے اپنی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے۔ یہ سارا مرحلہ اتنے فطری طریقے اور خاموشی سے ہوتا ہے کہ ماں باپ کو، گھر کے بڑوں کو اندازہ تک نہیں ہوتا کہ ’’بچہ‘‘ ان کے آپس کے رویّے، گفتگو، گھر کے ماحول سے سیکھ کر ’’بڑا‘‘ ہوگیا ہے۔
وہ ابتدا میں بچے کی حرکتیں دیکھ کر ’’ابھی بچہ ہے‘‘، ’’شریر ہوتا جارہا ہے‘‘، ’’یہ عادت پتا نہیں کہاں سے سیکھ لی‘‘ جیسے تبصروں سے اپنے آپ کو مطمئن کرتے رہتے ہیں، اور جب بچے کی عادت مسئلہ اور اذیت بننے لگتی ہے تو افسوس، ہائے واویلا اور بچے کے لیے اپنی خدمات، قربانیوں اور اس پر کی جانے والی انویسٹمنٹ کا ذکر کرکے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہیں۔ اور یہ صورت حال ایسا نہیں کہ لڑکوں تک ہی محدود ہے، بچیوں کا معاملہ اس لیے ایک درجے زیادہ اہم ہے کہ وہ نسبتاً حساس، اپنے جذبات، احساسات اور کیفیت کے اظہار سے گریزاں رہتی ہیں۔ دل کے اندر ردعمل کے خیالات پروان چڑھنے کے دوران ماں باپ کے رویّے سے بے زار ہوکر، گھر کے ماحول سے متنفر ہوکر لاشعوری طور پر کسی ہمدرد، خیرخواہ کو تلاش کرکے اُس سے امیدیں وابستہ کرلیتی ہیں اور ماں باپ، گھر کے دیگر افراد بے خبر رہتے ہیں۔ ریسرچ میں اس حوالے سے بہت سی کیس اسٹڈیز ہیں لیکن سرِدست یہ ایک واقعہ پوری صورت حال کو سمجھانے کے لیے کافی ہے:
اکتوبر 2018ء میں کراچی کے ایک مڈل کلاس گھرانے کی نویں جماعت کی طالبہ، جس کی عمر صرف 14 سال تھی، اچانک لاپتا ہوگئی۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب شہر میں بچوں کے اغوا اور گم ہونے کے واقعات رونما ہورہے تھے۔ لڑکی کے دیر تک گھر واپس نہ آنے پر والدین نے اسکول سے رابطہ کیا، جہاں اسکول پرنسپل اور چوکیدار نے بتایا کہ لڑکی تاخیر سے اسکول آئی تھی اس لیے اسے واپس بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد ماں باپ نے اپنے طور پر تلاش شروع کی، لیکن کہیں کچھ پتا نہیں چلا۔ بس پھر کیا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے ہنگامہ کھڑا ہوگیا جس نے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس موقع پر ایک سیاسی جماعت کے مرکزی راہنما بھی جو اسی علاقے کے رہائشی ہیں، موقع سازگار دیکھ کر میدان میں آگئے۔ جلائو گھیرائو، توڑ پھوڑ، پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اور شیلنگ سے علاقہ میدانِ جنگ بن گیا۔ ہڑتال کا سماں تھا۔ میڈیا پر خبریں چلنا شروع ہوئیں، پولیس افسران کی دوڑیں لگ گئیں۔ بات ایس ایچ او سے آئی جی تک پہنچ گئی۔ اسی دوران پتا چلا کہ اُسی اسکول کا ایک لڑکا بھی لاپتا ہے۔ معاملہ اور پیچیدہ ہوگیا۔ پولیس نے چھاپے مارنے شروع کیے، چند گھنٹوں میں لاپتا ہونے والا لڑکا اور لڑکی ایک مضافاتی علاقے کے زیر تعمیر گھر سے بازیاب ہوگئے۔ اُدھر علاقے میں سیاسی راہنما ماحول گرم کرکے خود ٹھنڈے ہونے گھر چلے گئے۔ مشتعل عوام بھی منتشر ہوگئے۔
اب تک کی یہ ساری تفصیل تصویر کا وہ رُخ ہے جو سب نے دیکھا، لیکن دوسرا رُخ… دوسرا رُخ لمحۂ فکریہ ہے اور مقام ِماتم بھی۔ روایتی گھرانے سے تعلق رکھنے والی 14 برس کی لڑکی نے پولیس کو بیان دیا ’’میرے اغوا اور لاپتا ہونے کی باتیں غلط ہیں، میں خود اپنی مرضی سے لڑکے کے ساتھ گئی تھی‘‘۔ کم و بیش ایسا ہی بیان لڑکے نے بھی دیا۔ بات یہاں آکر رکی نہیں، بھری عدالت میں جج کے سامنے جب کہ ایک طرف لڑکی کے ماں باپ آنکھوں میں آنسو لیے کھڑے تھے اور کارروائی دیکھنے والے لوگ موجود تھے، لڑکی نے نہایت اطمینان اور اعتماد سے کہا کہ وہ لڑکے کے ساتھ جانا چاہتی ہے، اس سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ ماں باپ یہ سن کر سکتے میں آگئے اور لڑکی دارالامان پہنچ گئی۔ بات تمام ہوگئی لیکن پیچھے سوالات رہ گئے۔ کیا یہ سب ایک دن میں ہوگیا؟ لڑکا، لڑکی کی ایک دوسرے سے واقفیت کب اور کیسے ہوئی؟ دوستی عہدو پیمان میں کب تبدیل ہوئی؟ گھر سے بھاگنے سے شادی کی منصوبہ بندی تک، اور اس سے پہلے جب دونوں ایک دوسرے سے واقف ہوکر دوست بنے، ماں باپ اس پورے عرصے میں کہاں تھے؟ کیوں اتنے بے خبر رہے؟ دونوں بچوں نے انتہائی قدم کیوں اٹھایا؟ کس چیز نے انہیں والدین کو دل کی بات، جذبات بتانے سے روکے رکھا؟ یہ اور اس جیسے سوالوں کے جواب کون دے گا؟ ’’فارایور‘‘ کی 2500 بچوں، بچیوں پر کی گئی ریسرچ اس صورت حال کی مکمل تصویر ہے۔ تمام بچوں میں شروع میں بیان کیے گئے چار مسائل موجود ہیں تو اس کی وجہ ماں باپ کے آپس میں ناخوشگوار، تلخ یا بے زار کن تعلقات، مار پیٹ کا معمول، گھر کا بے سکون ماحول، ماں باپ کا بچوں کے ساتھ فاصلہ، بے حد سختی یا لاڈ میں مکمل آنکھیں بند کرلینا، بچوں کی جسمانی، ذہنی، جذباتی کیفیت سے بے خبری کے علاوہ اور کچھ سامنے نہیں آئی۔
میڈیا کے لیے، اور وہ جو ابھی محفوظ ہیں، اُن کے لیے یہ صورتِ حال ’’چند واقعات‘‘… جب کہ زد میں آنے والوں کے لیے قیامت ہے۔ کیا اس کے بعد بھی گھر، خاندان، علاقے کے ’’بڑے‘‘ مزید کسی قیامت کے منتظر رہیں گے؟