امالہ کے بارے میں ہمارے صحافی ساتھیوں میں اب تک ابہام پایا جاتا ہے کہ اس کا استعمال کہاں اور کیوں کیا جائے۔ اس حوالے سے پہلے بھی کچھ لکھا تھا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ بار بار یاد دہانی ضروری ہے۔
امالہ کا مطلب ہے مائل کرنا۔ عربی کا لفظ ہے۔ الف، ہائے ہوز (ہ) یا الف مقصورہ کو جو الفاظ کے آخر میں آئیں جمع کی حالت میں، یا حرفِ ربط کے ساتھ یائے مجہول سے بدل دینا جیسے بندہ سے بندے، گدھا سے گدھے، کمرہ سے کمرے۔ حرفِ ربط یہ ہیں: سے، میں، تک، پر، نے، کو، کا، کے، کی۔ یاد رہے کہ عربی، فارسی، ترکی کے اصلی الف کسی صورت میں یائے مجہول سے نہیں بدلتے، جیسے دعا، فضا، جزا، پیدا، مرزا، صحرا، آپا (بہن)۔ اس قاعدے سے سودا کا لفظ مستثنا ہے۔ عربی الفاظ کی جمعوں میں امالہ جائز نہیں جیسے طلبہ، اولیا، شرفا، علما وغیرہ۔ عربی فارسی کے اسم فاعل اور اسم مفعول میں بھی کوئی تصرف جائز نہیں، جیسے دانا، بینا، توانا، شنیدہ، مرتضیٰ، مصطفیٰ۔ تاہم اس قاعدے سے مروہ مستثنا ہے۔
عربی کے وہ مصادر جو ہمزہ پر ختم ہوتے ہیں، یا جن مصادر میں الف کے بعد اصل میں ہمزہ ہوتی ہے اور بروزن افعال، افتعال، استفعال ہوتے ہیں، اردو ترکیب میں یائے مجہول سے نہیں بدلے جاتے جیسے منشاء، مبداء، اخفاء، اجرا، ابتدا، انتہا، استہزا وغیرہ۔ اس قاعدے سے املا مستثنا ہے۔ عربی الفاظ جن کے آخر میں ہائے ہوز (ہاتھی والی) پڑھی جاتی ہے یا جو بروزن تفصلہ ہوتے ہیں، یائے مجہول سے بدلے جاتے ہیں جیسے تذکرہ، تبصرہ، جلسہ، فتحہ، کسرہ، فدیہ۔ وہ عربی الفاظ جن کے آخر میں الف مقصورہ (کھڑا الف یا زبر) ہوتا ہے وہ کوئی تصرف قبول نہیں کرتے جیسے طوبیٰ، سلویٰ، اعلیٰ، ادنیٰ۔ اس قاعدے سے دعوے، شکوے، بلوے، تقوے مستثنا ہیں کہ ان میں واؤ کو کسرہ دے کر یائے مجہول کے ساتھ بولتے ہیں۔
بات کچھ ثقیل ہوگئی، جانے اس کے لیے ثقیل کا لفظ مناسب ہے یا نہیں لیکن اپنے قاری کا زیادہ امتحان لینا مناسب نہیں۔ ان اصطلاحات کو یاد رکھنا بھی مشکل ہوگا۔ تھوڑی سی وضاحت اپنے بھولے قارئین کے لیے کردیں کہ یائے مجہول کیا ہے۔ یہ وہی ہے جسے ہم اور آپ بڑی ’’ے‘‘ کہتے ہیں، اور چھوٹی ’’ی‘‘ یائے معروف کہلاتی ہے۔ یہ وضاحت پڑھے لکھے قارئین کے لیے نہیں، جنہیں یہ معلوم ہے۔ پڑھے، لکھے میں بھی یہ یائے مجہول موجود ہے۔
پروفیسر آسی ضیائی (مرحوم) نے اپنی کتاب ’’درست اردو‘‘ میں امالہ کو اِنصراف کا نام دیا ہے اور لکھا ہے کہ لغت یا قواعد کی بعض کتابوں میں انصراف کو امالہ بھی لکھا گیا ہے، اور بعض حضرات اسے تغیر بھی کہتے ہیں۔ لیجیے یہ نئی بحث شروع ہوگئی۔ پروفیسر آسی ضیائی کا دعویٰ ہے کہ اس کا سب سے موزوں نام انصراف ہی ہے، اور انصراف اس کلی یا جزوی تبدیلی کا نام ہے جو کسی حالتِ مجروری میں آنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اب یہ حالتِ مجروری کیا ہے؟ یہ اس حالت کا نام ہے جب کسی لفظ پر حرفِ جار میں، سے، پر، تک، کا، نے، کو وغیرہ لایا جائے۔ ایسے الفاظ منصرف کہلاتے ہیں۔ ایک مثال سے بات سمجھنے میں آسانی ہوگی: ’’وہ شخص یہاں آیا تھا‘‘۔ ’’اس شخص کو بلا لائو‘‘۔ پہلے جملے کا ’وہ‘ دوسرے جملے میں ’اس‘ بن گیا کیونکہ اس کے اوپر حرفِ جار ’کو‘ لایا گیا ہے۔
ایک اور مثال دیکھیے: ’’لڑکا کرسی پر بیٹھا ہے۔ لڑکے سے غلطی ہوگئی ہوگی‘‘۔ دوسرے جملے میں حرف جار ’سے‘ آنے سے لڑکے بن گیا۔ باقی تفصیلات پھر کبھی سہی۔ امالہ یا انصراف کا استعمال اُن لوگوں کے لیے جاننا ضروری ہے جن کی اردو کمزور ہے۔ مثلاً جب یہ لکھا جائے ’’وہ کمرہ میں گیا‘‘ تو بہت سے لوگوں کو کمرہ ہی کہتے سنا ہے، جب کہ اصولاً اسے ’کمرے‘ کہنا چاہیے۔ شاید کچھ عرصہ پہلے یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ امالہ لگائے بغیر بھی لوگ صحیح پڑھیں گے، مثال کے طور پر کمرہ کو کمرے ہی پڑھیں گے، چنانچہ پرانی تحریروں میں امالہ کا اہتمام نظر نہیں آتا۔
ایک لفظ لوگوں کی زبانوں اور تحریروں میں عام ہے ’کوہ طور‘ یا ’جبل طور‘۔ جب کہ ’طور‘ کہتے ہی پہاڑ کو ہیں۔ قرآن کریم میں طورِ سینا (’س‘ بالفتح) آیا ہے، یعنی سینا کا پہاڑ۔ کوہ طور کی غلطی بہت عام ہے، ہم بھی یہ غلطی کرتے رہے ہیں۔
ہمارے صحافی بھائیوں کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ برعظیم پاک و ہند کے معروف شہروں کے نام تک انہیں نہیں معلوم، حالانکہ اس برعظیم پر مسلمانوں نے کئی سو برس حکومت کی ہے۔ 19 اپریل کے اخبار جنگ میں ایک خبر ’’اڈیشہ‘‘ کی نظر سے گزری۔ یہ بڑا معروف شہر ’اڑیسہ‘ ہے۔ خیال ہے کہ یہ نام انگریزی میں آیا ہوگا اور انگریزی میں ’ڑ‘ کی جگہ D استعمال کیا جاتا ہے، جیسے معروف کرکٹر اور مہاراجا گائیکواڑ کو اردو اخبارات میں گائیکواڈ لکھا دیکھا۔ صحافی کی یہ لاعلمی افسوسناک ہے۔ ایسے ہی ایک ٹی وی چینل پر خبر دی جارہی تھی بھارتی شہر بلند کی۔ ارے بھائی یہ ’بلند شہر‘ ہے، اور یہ بلند نام کا شہر نہیں۔ افسوس ہوتا ہے کہ اب چینل یا اخبارات میں سینئر صحافی اصلاح کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ انگریزی میں ’ث‘ کی جگہ TH استعمال ہوتا ہے، چنانچہ ’ثانی‘ تھانی بن جاتا ہے اور ’عثمان‘ اوتھمان۔