اٹھارہویں آئینی ترمیم اور قومی وسائل کی تقسیم کا مسئلہ

تحریک انصاف مسلسل اس بات کا اظہار اورتقاضہ بھی کیے جارہی ہے کہ آئین کی اٹھارویں ترمیم کا جائزہ لیا جائے اور اس میں مناسب ترمیم کرکے پارلیمنٹ سے منظور کیا جائے، اس کا خیال ہے کہ مرکز کے بجائے صوبوں کے پاس وسائل زیادہ چلے جانے سے وفاق کو ملکی سلامتی، دفاع، خارجہ، غیر ملکی قرضوں کے علاوہ گلگت بلتستان، آزاد جموں وکشمیر میں اخراجات کے لیے ادائیگی کرنی پڑتی ہے لیکن اس ترمیم کے باعث اسے ضروری اخراجات کے لیے رقم نہیں مل رہی،تحریک انصاف یہ بات کرکے در اصل این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کی رقم میں وفاق کے لیے اور کے پی کے میں فاٹا کے ضم ہوجانے کے باعث مزید وسائل چاہتی ہے۔اگر یہاں صوبوں کے باہمی تقسیم ہونے والے وسائل کا ایک جائزہ لیا جائے تو قاری کے لیے مسائل اور حالات کو سمجھنا آسان رہے گا بلاشبہ قومی مالیاتی کمیشن کا طریقہ کار، وسائل کی تقسیم ایک مشکل اور پیچیدہ موضوع ہے۔ قومی مالیاتی کمیشن کے بارے میں آسان اور عام فہم انداز میں بات کی جائے تو سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ صدرِ پاکستان قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل کرتے ہیں صدر عارف علوی نے حال ہی میں نواں این ایف سی ایوارڈ تشکیل دیا ہے کمیشن وفاق اور صوبوں کے درمیان اور صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم کے قواعد اور ضوابط کو حتمی شکل دیتاہے وفاقی وزیر خزانہ اس کمیشن کے سربراہ ہوتے ہیں اسد عمر کے بعد اب ڈاکٹر حفیظ شیخ اس کے سربراہ ہوں گے وفاقی سیکرٹری خزانہ سرکاری اس کے ممبر جبکہ صوبوں سے ایک ایک ممبر ہوتا ہے کل ملا کر چار آئینی ممبر اور چار ٹیکنیکل ارکان شامل ہیں۔قومی مالیاتی کمیشن کیا ہے؟ پاکستان کی ریاست چار صوبوں پر مبنی فیڈریشن ہے، پنجاب، سندھ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان، اس کے علاوہ گلگت بلتستان، آزاد جموں وکشمیر کے علاقے براہِ راست وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔قومی مالیتی کمیشن کا مقصد قابلِ تقسیم وفاقی ٹیکس آمدن کو وفاق اور صوبوں میں تقسیم کرنا اور صوبائی حصے کو صوبوں کے مابین تقسیم کرنا ہے۔قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ میں وفاقی ٹیکس آمدن ایک قابلِ تقسیم پول میں جمع کی جاتی ہے۔اس پول میں انکم ٹیکس، کارپوریشن ٹیکس، سیلز ٹیکس اور ایکسپورٹ ڈیوٹی وغیرہ شامل ہیں وفاقی حکومت بے پناہ اِنتظامی و مالیاتی اِختیارات کی حامل رہی ہے جس کے نتیجے میں مرکز طاقتور اور صوبے کمزور رہے ہیں۔ٹیکس لگانے اور جمع کرنے کے زیادہ تر اختیارات کے ساتھ بھی یہی صورت حال رہی ہے۔آئین کے آرٹیکل 160 کے تحت صدرِ پاکستان ہر پانچ سال بعد ایک قومی مالیاتی کمیشن قائم کرنے کا پابند ہے جو وسائل کی تقسیم کے لیے اگلے پانچ سال کے لیے متفقہ لائحہ عمل طے کرے گا۔تمام متعلقین میں وسائل کی باہمی تقسیم کے لیے متفقہ فیصلہ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اگلے پانچ برس تک مالیاتی وسائل کی تقسیم صوبوں کے لیے ہوتی ہے اب یہاں اصل سوال ہے کہ۔پاکستان کو مالیاتی وسائل کی تقسیم کے حوالے سے کیا مسائل درپیش ہیں؟ 2010ء کے ایوارڈ میں وفاق کاحصہ 42.5 فیصد اور صوبوں کا مشترکہ حصہ 57.5 فیصد مختص کیا گیا۔ 2010ء تک وسائل کی تقسیم صرف آبادی کے تناسب پر ہوتی تھی، اس وجہ سے وسائل کا ایک بڑا حصہ پنجاب کو ملتا تھا۔قومی مالیاتی کمیشن 2010ء نے آبادی کی بنیاد پر تقسیم سے مختلف اشاریوں پر تقسیم کا فارمولا بنا کر ایک طویل مدت سے متنازع مسئلے کو حل کر دیا۔ایوارڈ میں مختلف معاشی اشاریوں پر وسائل کی تقسیم کا کُلیہ بنایا گیا، جس کے تحت آبادی کی بنیاد پر 82 فیصد، غربت کی بنیاد پر 10.3 فیصد، ٹیکس اور ریونیو پر 5 فیصد اور رقبے کی بنیاد پر 2.7 فیصد وسائل کی تقسیم پر اتفاق رائے ہوا۔مئی 2010ء میں اتفاقِ رائے سے ساتویں ایوارڈ کا اعلان کر دیا گیا۔اس کے نتیجے میں پنجاب کے حصے کی رقم میں 5.62 فیصدکمی ہوئی، جو کہ دیگر صوبوں میں کُلیہ کے ذریعے تقسیم کی گئی۔اب بھی کلیے میں آبادی کا تناسب 82 فیصد ہے جو کہ دیگر اشاریوں سے کہیں زیادہ ہے۔مزید منصفانہ کلیے (فارمولے) کے لیے آبادی کے تناسب میں کٹوتی لازمی ہے۔بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی پسماندگی کی وجہ کیا رہی؟حکومتی سرمایہ کاری نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتی ہے۔چوں کہ نو آبادیاتی دور سے ہی بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں سرکاری سرمایہ کاری بہت کم رہی ہے، اسی لیے دونوں صوبے نجی شعبے کی سرمایہ کاری سے محروم رہے ہیں۔جس کی وجہ سے یہ دونوں صوبے معاشی طور پر پیچھے رہے ہیں۔دوسرے یہ کہ ترقیاتی اور غیر ترقیاتی گرانٹ اور قابلِ تقسیم ٹیکس کے علاوہ صوبوں کو سالانہ اُن کے قدرتی وسائل کی رائیلٹی کی مد میں رقم دی جاتی ہے۔ماضی میں بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کو ان کا رائیلٹی کا منصفانہ حق نہیں دیا گیا اور بلوچستان کی گیس کے ذخائر کا استحصال کیا گیا۔ 1990ء کے ایوارڈ میں پہلی نواز حکومت نے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے رائیلٹی کے دیرینہ مسئلے کو حل کیا اور طے یہ پایا کہ ان صوبوں کے حصے کی رقم بقایا جات کی صورت میں ہر سال کے بجٹ میں وفاق کی جانب سے غیر ترقیاتی گرانٹ کی صورت میں ادا کی جائے گی، جو کہ صوابدیدی گرانٹ ہوگی پیپلپزپارٹی کی حکومت کے دوران ایک بار پھر نئے سرے سے اس کا جائزہ لیا گیا، یہ سیاسی جماعت اس بات کا کریڈٹ بھی لیتی ہے کہ ہم نے این ایف سی ایوارڈ دیا اس میں طے کیا گیا تھاآئین کے آرٹیکل 160 کے تحت ہر پانچ سال بعد قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل ایک آئینی ضرورت ہے۔نویں مالیاتی ایوارڈ کمیشن کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، کیوں کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں لہذا وہ زیادہ وسائل مانگ رہے ہیں۔ سابق فاٹا (وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے) خیبر پختونخوا میں ضم ہو چکا ہے جس کے نتیجے فاٹا کی آبادی، رقبے اور غربت کو شامل کر کے تقسیم کے کلیے میں کے پی کا تناسب بڑھ جائے گا۔ساتھ ہی یہ بھی مشکل پیش آرہی ہے کہ وفاقی حکومت کو مالی بحران کا سامنا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے اٹھارویں ترمیم کے بعد نواز شریف کی پہلی حکومت تھی جس نے نئے نظام کے ساتھ مرکز کو چلایا لیکن کوئی صوبہ بھی شکایت لے کر اسلام آباد نہیں پہنچا تھا اب ایسا کیا ہواہے کہ تحریک انصاف اس نظام کو ہی رول بیک کرنا چاہتی ہے سوال نظام کا نہیں ہے تحریک انصاف کی صلاحیتیوں کا ہے جو کسی بھی شعبے میں نظر نہیں آ رہی ہیں۔
حکومت کے ان فیصلوں پر کسی کو اعتراض کا حق نہیں اس صورتحال میں حکومت کو بہرصورت اپنی گورننس بہتر بنانے اور عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کی ضرورت ہے کیونکہ عوام کو غربت، مہنگائی اور روٹی روزگار کے جو گھمبیر مسائل درپیش ہیں، انہیں محض وزارتوں میں ردوبدل جیسے اقدامات سے مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔

عمران خان کی معاشی ٹیم اور بڑھتی ہوئی بد انتظامی

حفیظ شیخ ہوں یا حفیظ پاشا یا عشرت حسین، ان کی وابستگی جہاں ہے سب کو علم ہے۔ یہ عالمی ساہوکاروں کے لیے کام کرتے ہیں اور انہی کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں کہ اسد عمر آئی ایم ایف میں کیا معاہدہ کرکے آئے ہیں، تاہم بجٹ میں اس کی ساری گرہیں کھل جائیں گی۔ کابینہ میں تبدیلی کرتے ہوئے یہ عندیہ دیا گیا کہ اسد عمر وزارتِ خزانہ نہیں سنبھال سکے، وہ تحریک انصاف کے اصلاحاتی ایجنڈے کے مطابق کام نہیں کرپائے۔ اٹھ ماہ ہوچکے ہیں تحریک انصاف کا کوئی معاشی لائحہ عمل سامنے نہیں آیا، لہٰذا یہ الزام کہ اسد عمر نے ویژن پر عمل نہیں کیا، ایک بے وزن بات ہے۔ اہم ترین پہلو یہ ہے کہ حکومت معاشی پالیسی اور اینٹی کرپشن کو گڈمڈ کرچکی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے دور کی چوریاں اور مس مینجمنٹ تحریک انصاف کے دور میں مزید بڑھ گئی ہے۔ اس سے کوئی انکار نہیں کہ مس مینجمنٹ کرپشن سے بھی بڑا ایشو ہے۔ حکومت کے لیے سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے مسائل میں گھری ہوئی ہیں، حکومت میں صلاحیت ہوتی تو دیوار سے لگی ہوئی اپوزیشن سے ملاکھڑا کرنے کے بجائے کام پر توجہ دیتی، بلکہ اس کے ناپختہ فیصلوں سے بیوروکریسی میں پختون اور پنجابی کی تقسیم پیدا ہوتی جارہی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے ساتھ کام کرنے والے قابل بیوروکریٹس کو کھڈے لائن لگادیا گیا۔ عام آدمی صرف بے روزگاری اور مہنگائی سے سروکار رکھتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے نو مہینے میں گیارہ لاکھ نوکریاں ضائع ہوئیں جبکہ مہنگائی میں تین گنا اضافہ ہوا۔ مہنگائی کی وجہ سے 41لاکھ مزید لوگ غربت کی لکیر سے نیچے آگئے ہیں۔ سرمایہ دار کو اتنا ڈرایا گیا کہ وہ پیسہ لے کر بھاگ گیا۔ ڈالر کے ذخائر گرنے کا سوال ہو تو کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کے 200ارب ڈالر باہر سے لے آئیں گے۔ یہ حکومت آئی تو 9 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر موجود تھے۔ 9 ارب ڈالر قرضہ بھی لیا گیا۔ اس طرح یہ ذخائر 18ارب ڈالر ہونے چاہیے تھے، جو اب صرف 10.4ارب ڈالر ہیں۔ بجلی کے گردشی قرضہ جات کا علاج نکالنے کے لیے ٹاسک فورس بنائی گئی، لیکن اسٹیک ہولڈرز کا مفاد اس کا علاج نہیں ہونے دے رہا۔ حکومت نے بس ایک کام پکڑا ہوا ہے کہ لوگوں کو احتساب کے نام پر ڈرایا جارہا ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک ایسے قانون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہونے والی ہے جس کے بعد جو چاہے جتنا چاہے سرمایہ بیرون ملک لے جاسکتا ہے۔ 1992ء سے لے کر آج تک لوگوں کو معیشت میں قانونی طریقے سے بلیک منی پیدا کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992ء کے تحت فارن کرنسی اکائونٹ کھولا جاسکتا ہے جس میں کہیں سے بھی پیسہ ڈالا جائے یا دنیا کے کسی حصے میں پیسہ لے جائیں، کوئی ادارہ سوال نہیں کرسکتا۔ سب سے زیادہ کالا دھن رئیل اسٹیٹ اور اسٹاک مارکیٹ میں جارہا ہے، لیکن حکومت کی صفوں میں خاموشی ہُو کا عالم ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ریاست مدینہ کا خواب دکھایا، روٹی، کپڑا، مکان، انصاف اور یکساں نظام تعلیم کا یقین دلایا۔ جو ووٹرز اس نعرے سے مرعوب ہوئے، وہ تحریک انصاف کے کیمپ میں جابیٹھے۔ یہ کام ہونا تھا اور نہ ہوا۔ اس لیے کہ عمران خان کے گھونسلے میں ملک کی سولہ جماعتوں سے وابستہ رہنے والے الیکٹ ایبل جمع کیے گئے۔ ابھی قوم عمران خان کے اس نعرے میں ہی پھنسی ہوئی تھی کہ یکایک اسلامی صدارتی نظام کی بازگزشت سنائی دینے لگی ہے۔ اب کہا جارہا ہے کہ جب اختیار ہاتھ میں ہوگا تو سب اچھا ہوجائے گا۔ صدارتی نظام کی آواز لگا کر اصل میں پہلے مرحلے میں قومی حکومت کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ ردعمل دیکھ کر اگلا قدم اٹھایا جائے گا۔