جمعرات 18اپریل کو وفاقی کابینہ میں ہونے والی تبدیلی میں سب سے اہم اور کسی حد تک عام توقعات کے خلاف وزیر خزانہ اسد عمر کا وزارت سے ہٹایا جانا ہے، جب کہ فواد چودھری کی وزارت کی تبدیلی اور اعظم سواتی کی دوبارہ کابینہ میں شمولیت اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پنجاب میں بعض اہم تبدیلیوں کی افواہوں میں تیزی آگئی ہے۔ وزیراعظم کے اوپننگ بیٹسمین اور ان کے اپنے اعلان کے مطابق اس ٹیم کے ’وسیم اکرم پلس‘ اس ماحول میں نکالے گئے کہ ملکی معیشت کی تباہی یا زبوں حالی کا سارا بوجھ ان کے ناتواں کندھوں پر آپڑا۔ اس بارے میں قسم قسم کی چہ میگوئیاں اور قیاس آرائیاں جمعرات کے روز ہی سے بلکہ اس سے پہلے ہی سے جاری ہیں، تاہم اس بارے میں ان کے کپتان یعنی وزیراعظم عمران خان، ان کے بھائی سابق گورنر سندھ محمد زبیر، اور خود ان کی رائے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ وزیراعظم نے کابینہ میں اس تبدیلی کے اگلے روز اورکزئی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے قوم کو جتوانا ہے اس لیے بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی کی۔ آئندہ بھی جو وزیر ملک کے لیے فائدہ مند نہیں ہوگا اُسے تبدیل کردوں گا۔ گویا اسد عمر ملک کے لیے فائدہ مند نہیں تھے اس لیے ذاتی دوستی، طویل وفاداری اور قابلیت کے باوجود انہیں تبدیل کردیا گیا۔ ان کے بھائی محمد زبیر کا کہنا ہے کہ اسد عمر پروگریسو، لبرل اور بڑی حد تک کمیونسٹ سوچ کے مالک ہیں۔ اُن کے بقول انہیں کمیونسٹ تو نہیں کہیں گے لیکن ان کی سوچ یہی ہے، اس سوچ اور تحریک انصاف کے منشور میں زمین آسمان کا فاصلہ تھا، وہ اپنی سوچ پر عمل کرتے تو تحریک انصاف کا منشور، کپتان کا تصور اور پارٹی کی مصالحانہ پالیسیاں پیچھے رہتی تھیں، پارٹی منشور پر عمل کرتے تو اپنی سوچ سے دست بردار ہونا پڑتا۔ ان دو کشتیوں میں سوار ہونے کے باعث ان کا انجام وہی ہوا جو اس طرح کی صورت حال میں ہوتا ہے۔ خود اسد عمر کا تاثر یہ تھا جیسے انہوں نے آئی ایم ایف وغیرہ کی شرائط نہیں مانیں اور پاکستان کے مؤقف پر ڈٹے رہے۔ یہ چیزیں تو بعد میں سامنے آئیں گی لیکن ایک دن پہلے تک وہ خود بلکہ وزیراعظم اور وزیر اطلاعات تک ان کا دفاع کررہے تھے۔ اعلان سے صرف چند گھنٹے قبل وزیراعظم نے انہیں اپنے فیصلے سے آگاہ کیا جس سے یہ تاثر ابھرا جیسے یہ فیصلہ وزیراعظم کا نہیں تھا، کہیں اور سے آیا تھا، سو وزیراعظم نے اُن کی قربانی دے دی، جیسے ماضی میں نوازشریف مجبوراً شجاعت عظیم، مشاہد اللہ خان، پرویز رشید، طارق فاطمی، رائو تحسین، نہال ہاشمی اور اسی طرح کے دیگر لوگوںکی قربانیاں دیتے رہے ہیں۔ لیکن اِس بار بھی ایک بات مشترک رہی، اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کے سخت ترین ریمارکس پر وزیراعظم نوازشریف نے شجاعت عظیم کو وزارت چھوڑنے پر آمادہ کیا، مگر افتخار چودھری کے جاتے ہی انہیں واپس لے آئے۔ اِس بار بھی اعظم سواتی کو چیف جسٹس کے سخت ریمارکس پر استعفیٰ دینا پڑا، لیکن اُن کے جاتے ہی عمران خان دوبارہ اعظم سواتی کو کابینہ میں لے آئے۔
وفاقی کابینہ میں تبدیلی کی خبر کے بعد سے اب تک ایک غلغلہ مچا ہوا ہے۔ حکومت کے مخالف اور حامی ایسے ایسے حملے اور جوابی وار کررہے ہیں کہ توبہ ہی بھلی۔ ایسے ایسے نکتے تلاش کیے جارہے ہیں جیسے پورا ملک کابینہ سے نکالے گئے ایک شخص اور وزارتیں تبدیل ہونے والے سات آٹھ وزراء پر کھڑا تھا، اور ایک وزیر خزانہ کے ہٹائے جانے سے ملکی معیشت زمین بوس ہوجائے گی، یا اس ایک شخص نے اس معیشت کو زمین بوس کردیا ہے۔ یہ طوفان اس انداز میں آگے بڑھایا جارہا ہے جیسے یہ کوئی انہونی ہوئی ہے، یا پہلی بار ایسا ہوا ہے۔ حالانکہ ماضی کی تمام حکومتیں ایسا ہی کرتی رہی ہیں۔ بیشتر نے اپنے اوپننگ بیٹسمین تبدیل کیے۔ مسلم لیگ (ق) نے تو اپنے وزیراعظم میر ظفراللہ خان جمالی کو تبدیل کردیا۔ شاہ محمود قریشی پیپلزپارٹی حکومت کے اوپننگ بیٹسمین تھے مگر اُن کو وزارت تبدیل کرنے کی پیش کش ہوئی تو وہ کابینہ سے باہر آگئے۔ اسد عمر نے بھی ایسا ہی کیا۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اسد عمر نہ صرف ایک قابلِ قبول سیاست دان ہیں، پارٹی کے اندر اچھی شہرت رکھتے ہیں بلکہ سابق لیفٹیننٹ جنرل غلام عمر کے بیٹے بھی ہیں، اس لیے شاید مقتدر قوتیں انہیں مستقبل میں کسی بڑے کام کے لیے اِس وقت تھوڑا پیچھے لائی ہوں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر کسی موقع پر فیصلہ ساز قوتوں نے حکومت کو تبدیل کیا تو ان کی خواہش ہوگی کہ سسٹم کو لپیٹے بغیر پارٹی کے اندر ہی سے تبدیلی لے آئیں، اس مقصد کے لیے اسد عمر ایسے امیدوار ہوسکتے ہیں۔ تاہم ان حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اس حوالے سے شاہ محمود قریشی پر پہلے ہی سے کام جاری ہے، اور وہ کبھی کبھار اس حوالے سے تھوڑا سا سر بھی اٹھاتے نظر آتے ہیں۔
کابینہ میں دوسری بڑی تبدیلی فواد چودھری کی وزارت کی تبدیلی ہے، جس کے بعد اب تحریک انصاف کی کابینہ میں پیپلزپارٹی کے 6 وزیر نمایاں انداز میں نظر آرہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت اپنے پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کی سخت بیانی سے زیادہ خوش نہیں تھی۔ اپوزیشن کی ناراضی کی وجہ بھی یہی وزراء بن رہے تھے، جس پر پہلے فیاض الحسن چوہان اور پھر فواد چودھری کو تبدیل کیا گیا، لیکن حکومت اپنا سابقہ کام جاری رکھے گی جس کے لیے وزیراعظم عمران خان اب شیخ رشید کو تھپکیاں دے رہے ہیں۔ شاید حکومت یہ سمجھتی ہے کہ دو ایک وزراء اپوزیشن کو الجھائے رکھیں اور حکومت اپنا کام جاری رکھے۔ مگر سوال یہ ہے کہ حکومت کام کب کررہی ہے اور کب کرنا چاہتی ہے؟ اب تک تو اس کی سمت بھی واضح نہیں ہوسکی۔ معاشی بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے، عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا۔
اس وقت اسد عمر اور فواد چودھری کی تبدیلی سے بھی زیادہ اہم پنجاب میں متوقع تبدیلیاں ہیں۔ اگرچہ حکومت ان کی تصدیق نہیں کررہی، لیکن جو حکومت 12 گھنٹے قبل تک اسد عمر کی تبدیلی کی تردید کررہی تھی اُس سے کسی تبدیلی کی تردید کرتے کرتے تبدیل کردینے کی توقع اتنی بے جا نہیں۔ اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب کے ساتھ ساتھ گورنر پنجاب چودھری سرور کی تبدیلی کی خبریں بھی سیاسی حلقوں ہی نہیں، حکومتی جماعت کے اندر بھی گردش کررہی ہیں۔ عثمان بزدار کی کارکردگی سے کپتان سمیت کوئی خوش نہیں لیکن کپتان انہیں سو فیصد اپنی مرضی کے مطابق چلا سکتے ہیں، یہی واحد وجہ ان کے اب تک اقتدار میں رہنے کی ہے، لیکن اب ان سے حکومتی ارکان، بیوروکریسی اور اتحادی جماعتوں کی شکایات مزید بڑھ گئی ہیں، اس لیے کم از کم ان کی تبدیلی اب زیرغور ضرور ہے چاہے اس میں کچھ وقت لگ جائے۔ گورنر چودھری سرور سابقہ دور (مسلم لیگ (ن) کے دور کی گورنری) کی طرح اب بھی اپنے بے اختیار ہونے کے شاکی ہیں۔ پنجاب میں آئی جی کی حالیہ تبدیلی نے انہیں زیادہ مشتعل کردیا ہے، کیوں کہ سابق آئی جی امجد سلیمی کی تعیناتی کے پیچھے وہی تھے۔ اس وقت گورنر کسی تقریب میں کوئی وعدہ بھی نہیں کرپا رہے۔ ظفر علی خان ٹرسٹ میں انہوں نے آکر کہا کہ آپ بہت اچھا کام کررہے ہیں، ہم سے جو تعاون ہوا، کریں گے۔ مگر وہ اس تعاون کی وضاحت سے گریزاں رہتے ہیں۔ گورنر ہائوس میں ادبی قسم کی تقریبات اور ملاقاتوں میں وقت گزارتے ہیں، تارکین وطن کے مسائل کے حل کے لیے وہ بے چین ہیں، مگر اِس بار بھی اُن کے پاس کوئی اختیار نہیں، اس لیے شاید وہ جلد ہی گورنری سے معذرت کرلیں، یا پھر کسی اور کو باری دینے کے لیے اُن سے معذرت کرلی جائے۔