گزشتہ دنوں سینٹرل پولیس آفس پشاور میں ضم شدہ قبائلی اضلاع کے خاصہ داروں اور لیویز کے مختلف رینک کے اہلکاروں کو پولیس کے بیجز لگانے کی تقریب سے خطاب میں آئی جی پی ڈاکٹر محمد نعیم خان کا یہ کہنا ہر طرح کے شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ ان اہلکاروں نے ہر مشکل گھڑی میں ملک کے تحفظ کے لیے اپنی قیمتی جانیں خطرے میں ڈال کر قومی فریضہ ادا کیا ہے۔ آئی جی پولیس ڈاکٹر محمد نعیم خان نے سابقہ لیویز اور خاصہ دار اہلکاروں کے کندھوں پر اُن کے عہدوں کے مطابق پولیس فورس کے مختلف رینک کے بیجز سجائے۔ آئی جی پی نے خوشگوار موڈ میں فرداً فرداً سب سے ہاتھ ملایا اور انہیں پولیس فورس میں خوش آمدید کہا۔ انہوں نے اہلکاروں کو پولیس کی نئی ذمہ داریاں سنبھالنے پر مبارکباد پیش کی۔
درحقیقت لیوی اور خاصہ دار فورس نے مادرِ وطن کی حفاظت اور قبائلی علاقوں میں قیامِ امن کو یقینی بنانے کے لیے پہلی دفاعی لائن کے طور پر جو کارہائے نمایاں انجام دیئے اور دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں شرپسندوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف وہ سینہ تان کر جس عزم اور بہادری کے ساتھ کھڑے رہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آئی جی پی نے اس اقدام کو سنگِ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج صوبے میں پولیسنگ کے حوالے سے ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ہے۔ انہوں نے پولیس کے بیجز پانے والوں پر زور دیا کہ وہ نئی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اپنے فرائضِ منصبی مزید ذمہ داری اور دیانت داری سے انجام دیں، اور اپنے نئے کیریئر کا ایک ایک لمحہ عوام کے جان و مال کے تحفظ اور ملک کی سلامتی اور یک جہتی کے لیے استعمال میں لائیں۔ آئی جی پی نے اعلان کیا کہ وہ صوبے میں جہاں بھی دورہ کریں گے ضم شدہ اضلاع کے اہلکاروں کا دستہ ان کے ساتھ بطور اسپیشل اسکواڈ ڈیوٹی انجام دے گا۔
صوبے میں ضم شدہ قبائلی اضلاع میں 28 ہزار خاصہ داروں اور لیویز فورس کے اہلکاروںکی خیبر پختون خوا پولیس فورس میں شمولیت کا باقاعدہ اعلامیہ جاری ہونے کے بعد نہ صرف وہ احتجاج ختم ہوگیا ہے جو خاصہ دار فورس کے پولیس میں انضمام کا مطالبہ منوانے کے لیے کیا جارہا تھا، بلکہ اس فیصلے سے مکمل انضمام کی راہ میں حائل سب سے بڑی انتظامی رکاوٹ بھی عملاً ختم ہوگئی ہے۔ یاد رہے کہ صوبائی حکومت نے قبائلی علاقوں کے صوبے میں باقاعدہ انضمام کے بعد خاصہ دار اور لیوی فورس کے مستقبل کے فیصلے اور ان کی شکایت کے ازالے کے لیے وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا کے مشیر برائے ضم شدہ اضلاع اجمل وزیر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں محکمہ داخلہ و قبائلی امور، پولیس اور سیکورٹی اداروں کے نمائندے شامل تھے۔ کمیٹی نے معاملے کے تمام پہلوئوں کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد خاصہ دار اور لیوی فورس کے اہلکاروں کو خیبر پختون خوا پولیس میں ضم کرنے کی تجویز دی تھی، جس کی روشنی میں وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان نے گزشتہ دنوں خاصہ دار اور لیوی فورس کو پولیس میں ضم کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا۔یہ اعلان پشاور میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں کیا گیا، جس کا عام قبائل کے ساتھ ساتھ خاصہ دار اور لیوی فورس کے جوانوں کی جانب سے خیرمقدم کیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہاکہ ہماری حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ کسی کو بے روزگار نہیں کیا جائے گا، اور آج وہ وعدہ پورا کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ضم شدہ قبائلی اضلاع میں عوامی خواہشات اور امنگوں کے عین مطابق کام کریں گے۔ اب قبائلی اضلاع صوبے کا حصہ بن چکے ہیں اور وہاں کی 70 سالہ محرومیوں کو دور کرنے کا وقت آگیا ہے۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ خاصہ دار اور لیویز کے ان 28 ہزار اہلکاروں کا پولیس میں انضمام اصل میں 28 ہزار خاندانوں کے لیے روزگار کی فراہمی ہے۔ ہمیں خاصہ دار اور لیویز فورس کو مکمل طور پر مسلح کرنا ہے اور ان کو جدید طرز پر تربیت بھی دینی ہے۔ ان خاصہ دار اور لیویز فورس کو وہی درجہ اور مراعات دی جائیں گی جو صوبے میں تعینات پولیس فورس کو دی گئی ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبائی حکومت نے خاصہ دار اور لیویز فورس کی پولیس میں انڈکشن کے لیے باقاعدہ طور پر قانون سازی بھی کی ہے۔ ہمیں آگے بھی اسی طرح ضم شدہ قبائلی اضلاع میں وہاں کے عوام کے لیے سہولیات فراہم کرنا اور ان کے مسائل حل کرنا ہیں۔
اب جب کہ قبائلی اضلاع آئینی طور پر صوبے کا حصہ بن چکے ہیں تو توقع کی جانی چاہیے کہ ضم شدہ قبائلی اضلاع کے عوام کے لیے زندگی کی دیگر سہولیات مثلاً تعلیم، صحت، روزگار، بجلی اور گیس وغیرہ کی فراہمی کو بھی ترجیح دی جائے گی۔ یہاں یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ نوٹیفکیشن کے مطابق خاصہ دار اور لیویز فورس کے انضمام کا عمل 6ماہ میں مکمل کیا جائے گا۔ اس عرصے کے دوران لیویز اور خاصہ دار فورس کو پولیس کی طرز پر ٹریننگ دینے کے بعد ان کے گریڈ کا تعین کیا جائے گا۔
دوسری جانب یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ لیویز اور خاصہ دار فورس کو محکمہ پولیس میں ضم کرنے سے صوبائی خزانے پر سالانہ چار ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ محکمہ خزانہ خیبر پختون خوا کے حکام کا کہنا ہے کہ صوبائی خزانے پر پڑنے والے اضافی بوجھ کو وفاقی حکومت کی طرف سے خاصہ دار فورس اور لیویز اہلکاروں کو تنخواہوں کے لیے جاری ہونے والے 8 ارب روپے کے فنڈ سے ایڈجسٹ کیا جائے گا۔
دریں اثنا ضلع خیبر میں تعینات ہونے والے قبائلی اضلاع کے پہلے ڈی پی او محمد حسین کا باڑہ پہنچنے پر والہانہ استقبال کیا گیا۔ پولیس میں ضم ہونے والے ڈی ایس پی نواز خان آفریدی، باڑہ کے ایس ایچ او حاجی اکبر خان آفریدی، اور دیگر پولیس اہلکار بھی ڈی پی او خیبرکے ہمراہ تھے۔ باڑہ پہنچنے کے بعد انہوں نے باڑہ پریس کلب کا دورہ کیا جہاں باڑہ پریس کلب کے صدر خیال مت شاہ آفریدی اور دیگر صحافیوں نے ان کا استقبال کیا، جس کے بعد وہ باڑہ بازار کی جانب روانہ ہوئے جہاں خیبر چوک میں باڑہ سے رکن قومی اسمبلی حاجی اقبال آفریدی نے ان کا استقبال کیا اور انہیں کلہ لنگی پہنائی گئی، اور دیکھتے ہی دیکھتے خاصی تعداد میں لوگ جمع ہوگئے اور انہوں نے پولیس کے حق میں نعرہ بازی کی۔ اس موقع پر انہوں نے خیبر چوک میں فیتہ کاٹ کر پولیس کی آمد کا افتتاح بھی کیا۔ افتتاح کے بعد مختلف طبقات کے نمائندوں نے نوتعینات شدہ ڈی پی او محمد حسین کو تحائف پیش کیے، جس کے بعد انہوں نے قبیلہ اکاخیل کی مختلف چیک پوسٹوں کا دورہ کیا جہاں پر سماجی کارکن حاجی یونس خان آفریدی، ملک ظاہر شاہ آفریدی، حاجی گل امین آفریدی اور مقامی قبائل نے پھولوں کی پتیاں نچھاور کرکے ان کا شاندار استقبال کیا اور مختلف چیک پوسٹوں پر انہیں کیک پیش کرکے پولیس فورس میں شمولیت پر مبارکباد دی۔ مختلف چیک پوسٹوں میں پودے بھی لگائے گئے، جبکہ ایس ایچ او باڑہ اکبر آفریدی کی جانب سے ڈی پی اوکو پاکستان کا قومی پرچم بھی پیش کیا گیا۔