’’ایک ہسپانوی کسان اگر ہزار عیسوی میں لمبی نیند سوتا اور پندرہویں صدی میں آنکھ کھولتا۔ کولمبس کے جہازوں کو پنٹا، نینا، اور سانتا ماریا میں لنگرانداز ہوتے دیکھتا، تو انوکھا پن محسوس نہ کرتا۔ دنیا اُسے اجنبی نہ لگتی۔ کئی تکنیکی تبدیلیوں کے باوجود وہ صورت حال میں زیادہ فرق محسوس نہ کرتا۔ مگر کولمبس کے بحری عملے کا کوئی فرد طویل نیند سوجاتا اور اکیسویں صدی میں آئی فون کی رِنگ ٹون پر بیدار ہوتا، تو وہ خود کو ایک بالکل اجنبی دنیا میں پاتا جہاں کی ہر شے اُس کی سمجھ سے بالاتر ہوتی۔ ’کیا یہ جنت ہے؟‘ وہ شاید خود سے سوال کرتا، ’یا شاید دوزخ؟‘ آخری پانچ صدیوں نے انسان کی قوت میں بے نظیر اور حیرت انگیز ترقی دیکھی ہے۔ سال پندرہ سو عیسوی میں، دنیا بھر کی انسانی آبادی پچاس کروڑ تھی، آج سات ارب ہوچکی ہے۔ پندرہ سو میں دنیا بھر کے انسانوں کی پیداواری قدر دو سو پچاس ارب ڈالر تھی، آج ساٹھ کھرب ڈالر کے قریب ہے۔ سال پندرہ سو میں انسان یومیہ تیرہ کھرب کیلوریز توانائی حاصل کرتے تھے، آج پندرہ سو کھرب کیلوریز کی غذا لیتے ہیں۔ فرض کیجیے آج کا کوئی جنگی بحری جہاز کولمبس کے وقتوں میں چلا جائے، تو اُس وقت کی تمام بڑی طاقتوں کی بحریہ کو سمندر برد کردے، اور اُسے ایک خراش تک نہ آئے۔ پانچ جدید مال بردار جہاز پرانی دنیا کے تمام تجارتی جہازوں کا بوجھ اٹھا سکتے تھے۔ آج کے کسی بھی بڑے بینک کے پاس ماقبل جدید کی تمام بادشاہتوں کے خزانوں سے زیادہ دولت ہے۔ پندرہ سو عیسوی میں چند ہی شہروں کی آبادی ایک لاکھ سے زائد رہی ہوگی۔ اکثر عمارتیں مٹی، لکڑی، اور گھاس پھوس پر تعمیر ہوئی تھیں۔ گندی گلیوں میں دھول اڑا کرتی تھی۔ گھوڑوں، تانگوں، اور مویشیوں سے بھرے راستے تھے۔ عام طور پر جانوروں کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ سورج ڈوبتا تھا تو گھپ اندھیرا چھا جاتا تھا۔ اُس دور کا ایک شہری اگر آج کا ٹوکیو، نیویارک، اور ممبئی دیکھ لے، تو وہ کیا سوچے گا یا سوچے گی؟ ایک واحد واقعہ جو پانچ سو سال کے دوران defining moment بن کر سامنے آیا، وہ تھا امریکہ کا ایٹمی دھماکا۔ انسان نہ صرف تاریخ کا دھارا بدلنے کے اہل ہوگئے تھے بلکہ اس کے خاتمے کی صلاحیت بھی پیدا کرچکے تھے۔۔۔ ہمارے پرانے بڑوں نے قدرتی دنیا پر حکمرانی کرنے والے اصولوں کو جاننے کی اپنی سی کوشش کی۔ مگر جدید سائنس تین حوالوں سے تمام سابقہ علمی روایتوں سے ممتاز ہے: (1) جہالت اور لاعلمی تسلیم کرنے پر آمادگی کا رویہ یعنی کوئی نظریہ یا کلیہ مقدس یا حتمی نہیں ہے۔ )2)مشاہدے اور ریاضیات کی مرکزیت۔ (3) نئی قوتوں کا حصول یعنی محض کُلیوں تک محدود رہنا نہیں بلکہ عملاً نتائج برآمد کرنا ہے۔ ‘‘
(Sapiens, Professor Noah Harari, Chapter Discovery of Ignorance)
یہ ہے جدید سرمایہ دار مغرب کا نمائندہ بیانیہ، جو جدید سائنسی دور کو انسانیت کی معراج قرار دیتا ہے۔ اس کی بنیادیں دو ہیں: سائنس پرستی اور مادہ پرستی۔ دنیا کی ظاہری چمک دمک، مشینوں کی حکمرانی، کرنسی نوٹوں سے بھرے بینک، بے حساب خوراک، جنگی تباہی کی بہت زیادہ صلاحیت، اور سب سے بڑھ کر وہ لمحہ جب امریکہ نے پہلے ایٹم بم کا تجربہ کیا۔ اوّل تو مذکورہ دعووں میں ہی بڑے بڑے جھوٹ اور جھول ہیں۔ مثال کے طور پر دنیا کی آبادی کی بھاری اکثریت کا تعلق لادین مغربی معاشرے سے نہیں ہے بلکہ مذہبی معاشروں سے ہے جو جدید سائنس کو اپنا سماجی یا تہذیبی رہنما تسلیم نہیں کرتے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی معاشرے ہی انسانیت کی بقا کے ضامن ہیں، مغربی سائنس پرست معاشروں کی آبادیاں تو خودکشی اور خاندانی تباہی کے بحرانات میں گھری ہیں۔ میڈیکل سائنس جتنے افراد کی زندگی بچانے کا دعویٰ کرتی ہے، اُس سے کئی گنا زیادہ انسان روزانہ اپنی زندگی کا خاتمہ خود کرلیتے ہیں۔ پروفیسر صاحب نے ہسپانوی کسان کی آڑ میں مسلم اندلس کی صورت حال پر طنز کی بھونڈی کوشش کی ہے۔ حالانکہ آج اُس دور کی علمی، عملی و تہذیبی کامیابیوں پر اتنا کام سامنے آچکا ہے کہ استشراقی تعصب کی روایت اثرانداز نہیں ہوسکتی۔ ان کے یہاں ترقی کا معیار یہ ہے کہ آج کا جنگی جہاز کتنی تباہی لاسکتا ہے اور ایٹم بم کس طرح دنیا فنا کرسکتا ہے۔ غرض پانچ صدیوں کی ترقی کا لب لباب سرمایہ دارانہ دنیا کی تباہ کن صلاحیتیں ہیں۔ جہاں تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز جنگیں (پہلی اور دوسری عالمی جنگیں) ہیں، جن میں مرنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ جہاں انسانوں کی بدترین نفسیاتی صورتِ حال ہے۔ جہاں خودکشی کے بدترین ریکارڈ ہیں۔ ہندوستان کی محبت میں پروفیسر صاحب ممبئی کی مثال دے گئے، مگر شاید انہوں نے کبھی ممبئی دیکھا نہیں، ورنہ یہ موازنہ محال تھا۔ کہاں ٹوکیو اور نیویارک، اور کہاں ممبئی! ایک بینک میں بادشاہوں کی دولت سے زیادہ روپیہ ہے، مگر کیا یہ روپیہ انسانوں میں برابر تقسیم ہورہا ہے؟ یا ان کا خون پسینہ نچوڑ رہا ہے؟ جدید سائنس کے تین حوالے جو بقول پروفیسر ہراری اسے باقی تاریخ سے ممتاز بناتے ہیں، قطعی طور پر جھوٹ ہیں۔ جدید سائنس دو بے بنیاد مفروضوں پر نہ صرف ایمان لائی ہے بلکہ اس سلسلے میں انتہائی تعصب کا شکار ہے۔ نظریہ ارتقا جو قطعی طور پر ثابت شدہ نہیں ہے اُسے حتمی اور یقینی بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ پروفیسر صاحب نے تو ارتقاء کی بنیاد پر پوری تاریخ لکھ ڈالی ہے۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ خدا کا کوئی وجود نہیں ہے۔ یہ قطعی طور پر ثابت نہیں ہے، بلکہ اس بات کے شواہد انتہائی قوی ہیں کہ کائنات کی ابتدا ہوئی ہے، یعنی یہ خلق ہوئی ہے، یعنی خالق کی گواہی دیتی ہے۔ مگر سائنس پرست مغرب یہ دو حقیقتیں تسلیم کرنے کی اخلاقی جرات بھی نہیں کرسکتا کہ انسان اشرف المخلوق ہے، نہ کہ بندر کی کوئی قسم، اور یہ کہ کائنات کا ایک رب ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے۔ جدید مغرب کی یہ تینوں امتیازی خصوصیات ہرگز امتیازی نہیں ہیں۔ یونان کی زبانی کلامی سائنس کو مسلمان سائنس دانوں نے مشاہدے، عمل، اور تجربی اسلوب عطا کیے۔ اس حقیقت کو برطانوی دانشور رابرٹ بریفالٹ نے بے مثل اسلوب میں پیش کیا ہے:
’’اس میں شک نہیں کہ یونانی اپنے علوم کو مرتب کرتے تھے۔ عمومیت دیتے تھے۔ نظریات قائم کرتے تھے۔ لیکن صابرانہ تحقیق و تفتیش، مثبت علم کی فراہمی، سائنس کی باریک بینی، مفصل و طویل مشاہدات اور تجربی تجسس یہ سب لوازمِ علمی یونانی مزاج سے قطعاً بعید تھے۔ قدیم کلاسیکی دنیا میں صرف ہیلانی اسکندریہ کے اندر سائنسی عمل کی سعی کا سراغ ملتا ہے۔ ہم جس چیز کو سائنس کے نام سے موسوم کرتے ہیں، وہ ان امور کا نتیجہ ہے کہ تحقیق کی نئی روح پیدا ہوگئی۔ تفتیش کے نئے طریقے معلوم کیے گئے۔ تجربے، مشاہدے، اور پیمائش کے اسلوب اختیار کیے گئے۔ ریاضیات کو ترقی دی گئی۔ یہ سب کچھ ایسی شکل میں نمایاں ہوا جس سے یونانی بالکل بے خبر تھے۔ دنیائے یورپ میں اس روح اور ان اسالیب کو رائج کرنے کا سہرا عربوں کے سر ہے۔۔۔ یونانیوں کو صرف نظریے اور تعمیم سے شغف تھا۔ وہ واقعیت سے غافل و بے پروا تھے۔ لیکن اس کے بالکل برعکس عرب محققین نظریے کو چنداں اہمیت نہ دیتے تھے۔ ٹھوس حقائق کی جمع آوری میں مصروف رہتے تھے۔ اپنے علم کی باقاعدگی اور کمیت کی طرف زیادہ توجہ دیتے تھے۔۔۔ انہوں نے مشاہدات کے لیے نہایت کارآمد آلات تیار کیے، جو یونانیوں کے آلات سے بہت بہتر تھے۔ صحت و درستی میں اُن آلات پر فوقیت رکھتے تھے، جو پندرہویں صدی میں نیورمبرگ کے مشہور کارخانے میں تیار کیے گئے تھے۔ ہر محقق بجائے خود اور آزادانہ کام شروع کردیتا۔ مسلسل مشاہدہ نہایت باقاعدگی سے جاری رکھتا۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ دمشق، بغداد، اور قاہرہ کی رصدگاہوں میں یہ مشاہدے بارہ بارہ سال سے بھی زائد عرصہ جاری رہتے۔ وہ اپنی یادداشتوں میں صحت و درستی کو اتنی اہمیت دیتے تھے کہ خاص دلچسپی اور اہمیت رکھنے والی یادداشتوں پر باقاعدہ قانونی حلف اٹھانے کے بعد دستخط کیے جاتے تھے۔‘‘
(انسانیت کی تشکیل، رابرٹ بریفالٹ،257۔261)
پروفیسر نوح ہراری سمیت مغرب کے تمام نمایاں مؤرخ ازمنہ وسطیٰ کی اسلامی تہذیب کا ذکر کیوں غائب کرگئے؟ عملی سائنس کا سہرا جدید مغربی سائنس کے سر کیوں چلا گیا؟ سادہ سی وجہ ہے۔ مغرب تاریخ کی تکمیل میں اسلام کا کوئی کردار تسلیم کرنے کے لیے نہ تیار تھا اور نہ ہے۔ آخر کس طرح صلیبی مغرب مسلمانوں کے خدا کی حاکمیت تسلیم کرے؟ اور کس طرح لادین سائنس محض خدا ہی کی کوئی حاکمیت قبول کرے؟ اس لیے یونان اور روم کی جعلی سرپرستی قبول کرلی گئی۔ آج بھی مغرب کا سائنسی امام یونان اور سیاسی امام روم ہے۔ زوالِ تہذیب کے اس سلسلے نے اگلی صدیوں میں کیا کیا صورتیں اختیار کیں؟ اہم حوالوں کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔
مغرب پر اردو زبان کے عظیم نقاد محمد حسن عسکری کی تفہیم کا کچھ حصہ مستعار لیتے ہیں، انہوں نے اس عہد کے نظریاتی خدوخال اختصار سے بیان کیے ہیں، اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
’’نشاۃ ثانیہ کا اصلی مطلب ہے وحی پر مبنی اور نقلی علوم کو بے اعتبار سمجھنا اور عقلیت اور انسان پرستی اختیار کرنا۔ اسی لیے اس تحریک کا دوسرا نام انسان پرستی ((Humanism بھی ہے۔ اس دور کی عملی اور فکری خصوصیات ہیں: یونانی علوم کو دینی علوم پر ترجیح دینا، انسان پرستی، خدا پر رسمی سا ایمان، نفس پرستی بطور اصولِ زندگی، مطالعہ فطرت، ’سائنس‘ پر زور، جو چیز مشاہدے اور حسی تجربے میں نہ آسکے وہ غیر حقیقی ہے، تسخیر فطرت کے ذریعے طاقت کا حصول، طاقت کے اس اصول کے آگے اخلاقیات کوئی چیز نہیں، جو آدمی طاقت حاصل کرلے وہی اچھا ہے، اس کا ہر طریقہ کار بھی اچھا ہے، اور جو ایسا نہ کرسکے وہ برا ہے، اس کا ہر طریقہ کار بھی برا ہے، اس نئی اخلاقیات کو فلسفے کی شکل اطالوی سفارت کار میکیاولی نے دی، قوم اور قومیت کا جدید تصور پیدا ہوا، وطن کو خدا کی جگہ دے دی گئی، حق اور صداقت کے وجود کا انکار کردیا گیا، اس رجحان کا خالق فرانس کا فلسفی مون ٹین تھا، اس تشکیک کے فلسفے نے مادی ضروریات اور نفسانی خواہشات کے سوا ہر شے پر شک کی بنیاد رکھ دی، انفرادیت پرستی کی حاکمیت حتمی ٹھیری، یعنی کسی بھی قسم کی خدائی حاکمیت کا انکار ہی اس دور کی تمام برائیوں کی جڑ قرار پائی۔‘‘
یہ ہے ان پانچ سو برس کا مجموعی رویہ، جس کا بدترین خمیازہ انسانیت بھگت رہی ہے۔ تاریخِ انسانی کے یہ پانچ سو برس بدترین جنگوں کا دور ہے۔ ان پانچ سو برس میں انسانوں کا بدترین معاشی استحصال ہوا۔ ان پانچ صدیوں میں انسانوں کا بدترین قتل عام ہوا۔ ان پانچ سو سال میں انسان سب سے زیادہ غلام بنائے گئے۔ ہرے بھرے دیہات کی انسانی تہذیب کارخانوں میں دھواں دھواں ہوئی۔ عورت اور بچے سب ہی حقوق کی بھیک مانگتے نظر آئے۔ یہ تھا مغرب کا حال۔ مشرق میں نوآبادیاتی فرنگیت نے دہشت اور استیصال کی نئی تاریخ رقم کی۔ غیر انسانی رویّے پر مبنی استشراقیت نے باقاعدہ تحقیقی موضوع کی حیثیت اختیار کی۔ قوم پرستی کی بدترین تباہی نے یورپ کو برباد کیا، کروڑوں انسان مارے گئے۔ برطانوی سامراج کے بعد امریکی استعماریت نے انسانوں کے لیے زمین تنگ کی۔ ایٹم بم کے دھماکے کیے گئے۔ تہذیبِ مغرب زوالِ تہذیب کا سبب ہوئی۔ یہی زوالِ تہذیب کا مرکزی عنوان ہے۔ بلاشبہ مغربی استعماریت کی زد میں آنے والے سارے معاشرے اور ثقافتیں بھی زوال پذیر ہوئیں۔ مگر مغربی دانشور یہ تسلیم نہیں کرتے، کیوں؟ اس لیے کہ مغربی تہذیب میں مشرق کی کوئی وقعت نہیں، مشرقی مذاہب کی کوئی اہمیت نہیں، مشرقی اقدار کی کوئی قدر نہیں، مشرقی انسان انسان نہیں، مشرقی علوم علوم نہیں، مشرقی تہذیب تہذیب نہیں۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ مشرق ہی تہذیبوں کا گہوارہ ہے۔ سچ یہ ہے کہ مذاہب کا مرکز بھی مشرق ہے۔ اسلام کا سورج بھی مشرق ہی سے طلوع ہوا۔ حکمت و سائنس بھی مشرق کی دین ہے۔ تہذیب کی تکمیل بھی مشرق میں ہی ہوئی۔ مگر تہذیبِ مغرب نے اسے کبھی قبول نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیبِ مغرب کا عروج بمعنی زوالِ تہذیب ہے۔ یہ حالاتِ حاضرہ میں نمایاں ہے۔ بیسویں صدی تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز صدی تھی، اور یہ سب جدید سائنس اور مغربی سامراجیت کی مرہونِ منت تھا۔ اکیسویں صدی کی ابتدائی دو دہائیوں میں ہی فی سال ایک لاکھ سے زائد انسان عالمی اتفاقِ رائے سے قتل کیے گئے ہیں۔ اس سے بڑھ کر انسانی تہذیب کا زوال کیا ہوگا؟
ابتدائی معاشروں اور تہذیبوں کی تباہی میں جن برائیوں نے ایک ایک کرکے حصہ لیا، وہ آج تہذیب کے مجموعی زوال کا مجموعی سبب بن چکی ہیں۔ خالقِ کائنات کا انکار، نسل پرستی، ہم جنس پرستی، طاقت پرستی، مال پرستی، ناپ تول میں کمی، اور ناشکر گزاری اور فرائض سے فرار کی صورتِ حال مشرق سے مغرب تک عالمی فساد بن چکی ہے۔ قرآن حکیم صراحت سے اسبابِ زوال واضح کرتا ہے:
’’تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں، اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو انہیں گھاٹا دیتے ہیں۔ کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ ایک بڑے دن یہ اٹھاکر لائے جانے والے ہیں؟ اُس دن جب کہ سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ ہرگز نہیں! یقیناً بدکاروں کا نامہ اعمال قید خانے کے دفتر میں ہے۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ قید خانے کا دفتر کیا ہے؟ ایک کتاب ہے لکھی ہوئی۔ تباہی ہے اُس روز جھٹلانے والوں کے لیے جو روزِ جزا کو جھٹلاتے ہیں۔“ (المطففین 1۔10)
’’اور لوط کو ہم نے پیغمبر بناکر بھیجا، پھر یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا ’کیا تم ایسے بے حیا ہوگئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو۔‘‘( اعراف ، 80۔81)
’’جب کبھی اُن سے کہا گیا کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ خبردار حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انہیں شعور نہیں ہے۔ اور جب ان سے کہا گیا کہ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں اُسی طرح تم بھی ایمان لاؤ، تو انہوں نے یہی جواب دیا ’کیا ہم بے وقوفوں کی طرح ایمان لائیں؟‘ خبردار! حقیقت میں یہ خود بے وقوف ہیں، مگر یہ جانتے نہیں ہیں۔‘‘(بقرہ، 11۔13)
تہذیب کا یہ مجموعی زوال کس طرح روکا جاسکتا ہے؟ کس طرح تہذیب کا احیاء ممکن ہے؟ قرآن حکیم رہنمائی کرتا ہے:
’’تم میں کچھ لوگ تو ضرور ہی ایسے رہنے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔ ‘‘(آل عمران ،104)
’’تم اللہ کی راہ میں اُن لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اُن سے لڑو جہاں بھی تمہارا اُن سے مقابلہ پیش آئے۔ اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے۔ اس لیے کہ اگرچہ قتل برا ہے، مگر فتنہ اس سے بھی زیادہ بُرا ہے۔‘‘(بقرہ، 190)
’’معلوم ہونا چاہیے کہ دنیوی زندگی کا یہ سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا۔ تم نہ اٹھو گے تو خدا تمہیں دردناک سزا دے گا، اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا، اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘(سورہ توبہ، 39)