ششماہی الایام کراچی علمی و تحقیقی جریدہ

نام مجلہ : ششماہی الایام کراچی
علمی و تحقیقی جریدہ
مسلسل عدد 18۔ جولائی دسمبر 2018ء
مدیرہ : نگار سجاد ظہیر
نائب مدیران : ڈاکٹر محمد سہیل شفیق،ڈاکٹر زیبا افتخار
صفحات : 292، قیمت 300 روپے فی شمارہ
سالانہ 500 روپے
ناشر : مجلس برائے تحقیق اسلامی تاریخ و ثقافت
فلیٹ نمبر A-15، گلشنِ امین ٹاور، گلستان جوہر، بلاک 15، کراچی
فون نمبر : 0300-2268075
0300-9245853
ای میل : nigarszaheer@yahoo.com
ویب گاہ www.islamichistory.co.nr
www.alayyam.com.pk
indexed with:iri.aiou.edu.pk
ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر بڑی باہمت اور متحرک اہلِ علم شخصیت ہیں، اس علمی کساد بازاری کے دور میں یہ عمدہ اور معلومات افزا مجلہ پابندی سے شائع کرتی ہیں۔ الایام ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان سے منظور شدہ علمی و تحقیقی جریدہ ہے جس میں متنوع، گراں قدر موضوعات پر تحقیق پیش کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ادبیات کا حصہ بھی جان دار مضامین و مقالات کا حامل ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر نے اِس مرتبہ ایک سلگتی ہوئی سماجی بُرائی پر اداریہ لکھا ہے، وہ تحریر فرماتی ہیں:
’’ایک سماجی مسئلہ جو ہماری اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں تک میں راستہ بنا چکا ہے اور جس کے بارے میں من حیث القوم ابھی ہم نے سوچنا بھی شروع نہیں کیا، منشیات کا مسئلہ ہے۔ یہ منشیات کا عفریت ہے جس نے تعلیمی اداروں میں اپنے پنجے گاڑ کے ہماری نوجوان نسل کو قسطوں میں قتل کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
ڈرگس کی عموماً دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں (1) نباتاتی منشیات (Organic Drugs)، اور (2) کیمیاوی منشیات (Chemical Drugs) ان میں آخرالذکر مہلک ترین ہے۔ اس کی مثالیں آئس اور کرسٹل میتھ ہے۔ یہ وہ زہر ہے جو اب پاکستان میں عام دستیاب ہے۔ پہلے پہل عالمی سطح پر اس کا استعمال دوسری جنگِ عظیم کے دوران مغربی ممالک میں ہوا۔ اپنے سپاہیوں کو جاگتا رکھنے، چست و چالاک رکھنے، بلکہ مائل بہ جارحیت رکھنے کے لیے کرسٹل میتھ فوجیوں کو دی جاتی تھی۔ کرسٹل میتھ ایسا کیمیاوی نشہ ہے جو پینے والے کو بہت زیادہ چاق و چوبند، ایکٹو بلکہ جارح بنادیتا ہے۔ اس کیفیت میں چھوٹے موٹے جرائم سے لے کر قتل تک کی توقع کی جاسکتی ہے۔ پچھلے دنوں ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک نوجوان کو دکھایا گیا تھا جس نے اپنی دونوں بیویوں کو قتل کردیا تھا۔ اس کے بھائی نے بتایا کہ وہ آئس نشے کا عادی تھا۔ معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال بھی ہے۔
پہلے منشیات کے حصول میں کچھ دشواریاں تھیں، لیکن اب تو آن لائن منشیات کی فروخت عام بات ہے۔ کوکین، ہیروئن، چرس سب کچھ بآسانی دستیاب ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی نوجوانوں کو شکار کیا جاتا ہے۔ منشیات فروش، نوجوانوں سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کرتے ہیں، ان کے لیے پارٹی ارینج کرتے ہیں، انہیں دعوت دیتے ہیں کہ آپ آئیں اور اپنے دوستوں کو بھی لائیں۔ ایسی پارٹیوں میں انہیں نشے کا عادی بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح یونی ورسٹی اور کالجوں کو بھی آرگینک اور کیمیاوی منشیات فراہم کی جاتی ہیں۔
اس کا ایک خوفناک پہلو یہ بھی ہے کہ منشیات کے اس نفع بخش کاروبار سے پڑھے لکھے شریف گھرانوں کے بچے اس طرح منسلک ہوگئے ہیں کہ اپنے والدین اور گھر والوں کی ناک کے نیچے وہ یہ دھندا کرتے ہیں اور گھر والوں کو اس کی خبر تک نہیں ہوتی۔ یعنی نوجوان ان بیجوں کو باہر سے منگوا کر اپنے گھروں میں اِن ڈور پودے کی صورت میں کاشت کرتے ہیں اور اس کے بیج فروخت کرتے ہیں (ایک نوجوان سے ملنے والی معلومات کے مطابق) سات عدد بیجوں کی قیمت تقریباً پچیس ہزار روپے ہے۔ گھر والے ان پودوں کو اِن ڈور پودے سمجھتے ہیں اور چونکہ بعض اِن ڈور پودے انتہائی قیمتی ہوتے ہیں لہٰذا گھر کے نوجوان جب ان پودوں/ بیجوں کو فروخت کرکے رقم حاصل کرتے ہیں تو گھر والے اس ’’ہوم انڈسٹری‘‘ کی جس کی حقیقت سے وہ ناواقف ہوتے ہیں، حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
یہ مختلف خاصیتوں کے بیج ہوتے ہیں۔ کسی سے سُستی اور نیند مسلط ہوجاتی ہے، کسی کے استعمال سے سرمستی اور خوشی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، اور کسی کے استعمال سے جارحیت اور غیر معمولی فعالیت پیدا ہوجاتی ہے۔
پاکستان میں اس مسئلے کی شدت کو سمجھنے کے لیے یہ اعداد و شمار کافی ہیں کہ یہاں ساٹھ لاکھ سے زائد افراد نشے کے عادی ہیں۔ یہ 2013ء کے اعداد و شمار ہیں، گزشتہ پانچ برسوں میں اس میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ان میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ وہ نوجوان جنہیں تعمیر ملک و ملت کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اپنے وجود تک کو سنبھالنے کے قابل نہیں رہ جاتے۔
منشیات کے عفریت سے نبٹنے کے لیے پاکستان میں بھی اینٹی نارکوٹکس سیل موجود ہے، لیکن حکومت کو اس حوالے سے قوانین سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب اور امارات کی دیگر ریاستوں میں اس کی سزا موت ہے۔ نشہ آور اشیاء فروخت کرنے والا ایک دو افراد کا نہیں، بلکہ نہ صرف سیکڑوں افراد کا قاتل ہوتا ہے بلکہ وہ معاشرے کو ایسے ہیجان و اضطراب میں مبتلا کردیتا ہے جس کے نتائج تباہ کن ہوتے ہیں۔ اس کاروبار سے وابستہ افراد کو قرارِ واقعی سزا ملنی چاہیے۔ ایسی سزا جو سب کو نظر آئے، اور جو اس دھندے سے وابستہ جرائم پیشہ لوگوں کے لیے عذابِ الٰہی کے کوڑے کی مانند ہو‘‘۔
اس شمارے میں (PEER REVIEW ARTICLES) مقالات کی تعداد دس ہے جن میں ایک عربی زبان میں ہے:
’’عہد بنوامیہ و بنو عباس میں عربی ادب میں تنقید کی روایت‘‘۔ حافظ ساجد یعقوب ریسرچ اسکالر بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان
’’شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بحیثیت مصلح‘‘۔ ڈاکٹر فرح ناز سہیل، شعبہ اسلامی تاریخ جامعہ کراچی
’’بہزاد: ایران کا ایک مشہور میناتوری مصّور‘‘۔ ڈاکٹر حمیرا ناز شعبہ اسلامی تاریخ جامعہ کراچی
’’مغرب اور جہاد‘‘۔ محمد رشید، ایم فل علوم اسلامی بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان
’’تحائف اور رشوت: اسلامی تعلیمات اور ہمارے سماجی رویّے‘‘۔ حافظ محمد اسحاق، ریسرچ اسکالر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد
’’مذہب اور ریاست‘‘۔ سائرہ خلیل، ریسرچ اسکالر لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی لاہور
’’اردو افسانے کا اہم نام: صادق الخیری‘‘۔ ڈاکٹر دائود عثمانی، گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج بلدیہ ٹائون کراچی
’’سرسید احمد خان کی تاریخ نگاری کی خصوصیات‘‘۔ ڈاکٹر زیبا افتخار، شعبہ اسلامی تاریخ جامعہ کراچی
’’سیرت اور دُرود کی منفرد امتزاجی صنف پر دوکتب‘‘۔ اعجاز بشیر، ریسرچ اسکالر شعبہ علوم اسلامی جامعہ کراچی
’’سلطنتِ عرب اور اس کا سقوط: تبصراتی مقالہ‘‘۔ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر، مدیرہ الایام کراچی
’’مکانتہ تحفتہ الاحوذی من بین شروحات جامع الترمذی‘‘۔ محمد طاہر آصف/ نصیر احمد اختر، جامعہ کراچی
ادبیات کے تحت
اقبالیات کے تحت… ’’پاکستان، ترکی اور علامہ اقبال‘‘۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، منصورہ لاہور
’’دلی کے نہ کوچے تھے، اوراق مصّور تھے (سفرنامہ)‘‘۔ عارف نوشاہی، ہمک راولپنڈی
’’سید ابوالاعلیٰ مودودی کے خطوط بنام ڈاکٹر انیس احمد‘‘۔ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد
تراجم
’’بیداریٔ عرب‘‘۔ ریحان عمر
’’سلطان عبدالحمید ثانی کی یادداشتیں‘‘۔ منیب حسین