ڈاکٹر جمیل جالبی کی رخصتی اخباروں اور ٹی وی چینلز کی بہت بڑی خبر نہ تھی، تاہم وہ ہمارے کلچر اور ادب کی پوری صدی کی رخصتی تھی۔ تقسیم ہند کے بعد جو نسل سرحد پار کرکے اِس سرزمین پر اتری، اُس نے اِس مٹی کی رگوں میں جس طرح خونِ زندگی دوڑایا، وہ انسانی تاریخ کا ایک نہایت شاندار باب ہے۔ ایک طرف لاہور جو پہلے ہی تہذیب کا مرکز تھا ایک نیا جنون لیے ہوئے چمن کو مہکا رہا تھا، تو دوسری طرف کراچی جو اُس وقت تک ایک چھوٹا موٹا تجارتی اور ساحلی شہر تھا، دیکھتے ہی دیکھتے تہذیب و ثقافت کا مرکز بن گیا۔ شہر اینٹ اور گارے کا نام نہیں ہوتے۔ یہ اس خون سے عبارت ہوتے ہیں جو ان کی رگوں میں دوڑ رہا ہوتا ہے۔ اس نسل نے ایک وارفتگی کے ساتھ اس نئے عہدکی تعمیر کی۔ میں نے اس نسل کے نمائندوں کو اپنے دورِ آخر میں لاہور اور کراچی دونوں جگہ دیکھا ہے۔ مجھے ان کے جنون، جذبے اور خوابوں کا اندازہ ہے۔ جمیل جالبی اسی نسل کے فرد تھے۔ وہ نسل جس نے پاکستان کی ثقافتی اور روحانی تعمیر کی۔ پھر وہ نسل جانے کہاں کھو گئی، اور وہ عہد بھی جانے کہاں گم ہوگیا۔ ہمارے لڑکپن میں جن کتابوں کا شہرہ تھا وہ ایک تو جالبی صاحب کی ’’پاکستانی کلچر‘‘ تھی، اور دوسری ان کی کتاب ’’ارسطو سے ایلیٹ تک‘‘ تھی۔ یوں سمجھیے یہ پاکستان کی نبض پرہاتھ رکھنے کے مترادف تھا کہ نوجوانو! خود کو سمجھو اور آگے بڑھنے سے پہلے یہ چیزیں بھی ذرا پڑھ لو۔ یہاں مجھے ذرا چِگی بازی کرنے دیجیے۔ یہ لفظ بھی میں نے میرٹھ والوں سے سیکھا ہے۔ اس شہر سے صرف 1857ء کی جنگِ آزادی ہی شروع نہ ہوئی تھی، بلکہ پاکستان بننے سے پہلے ایک ایسی نسل پروان چڑھ رہی تھی جو نئے وطن کی تشکیل کے خوابوں کے تانے بانے بُن رہی تھی۔ تقسیم کے بعد ان میں سے اکثر کراچی آگئے۔ کچھ لاہور بھی آئے۔ پروفیسر کرار حسین، حسن عسکری، سلیم احمد، شمیم احمد، احمد ہمدانی، جمیل جالبی، انتظار حسین… یہ سب لوگ اسی شہر کے روڑے تھے۔ کیا زمانہ ہوگا جب یہاں خاکساروں کے ایک گروپ نے علامہ مشرقی سے بغاوت کردی۔ بڑا نام کمانے والے حمید اختر خاں اور کرار حسین ان میں پیش پیش تھے۔ ’’الامین‘‘ کے نام سے ایک رسالہ نکالا۔ فکری بنیادوں کو، مسلم لیگ کے ویژن کو سمجھنا ہو تو یہ بحثیں پڑھنا ضروری ہے۔ ادب میں یہاں فراق صاحب کا بھی چرچا تھا۔ یہ لوگ اپنے اپنے انداز میں کراچی میں ایک تہذیب گر قوت بن کر ابھرے۔ ہرکوئی اپنے طریقے سے کام کرتا تھا، مگر پاکستان کو تعمیر کرنا چاہتا تھا۔ نئے ملک کے تشخص کا سوال تھا۔ شاید ’’پاکستانی کلچر‘‘ لکھنے کا خیال جالبی صاحب کو اسی لیے آیا ہو گا۔ یہ پہلی کتاب ہے جو انہوں نے محض اپنے کتب خانے میں بیٹھ کر نہیں لکھی ہوگی، میرے علم میں ہے کہ اس کے لیے وہ اُس زمانے میں کس طرح اپنے ہم جولیوںسے گفتگو کیا کرتے تھے۔ آج صبح یوں ہوا کہ برادرم تحسین فراقی کا فون آیا۔ کیا کررہے ہو، ذرا فرصت ہے تو مجلس ترقی ادب آجائو، ہم بیٹھ کر جالبی صاحب کو یاد کرلیں۔ وہاں پہنچا تو اچھے خاصے لوگ اکٹھے تھے۔ ڈاکٹر امجد طفیل، فضل حق قریشی، عالیہ فاروق، تقدس زہرا، ساجد نظامی، دائود ملک، ناصر زیدی، ناصر عباس نیئر اور سبھی جالبی صاحب کی باتیں کررہے تھے، ادب میں ان کے کارناموں کا ذکر کررہے تھے۔ کراچی میں طویل قیام کی وجہ سے بہت سی باتیں مجھے بھی یاد آرہی تھیں۔ دوستوں کی ایک اچھی خاصی محفل جم گئی تھی جو اپنے بزرگ کو غیر رسمی خراج تحسین پیش کررہی تھی۔ کراچی کے دونوں جمیلین مجھ تک سلیم احمد کے ذریعے پہنچے۔ جمیل جالبی اور جمیل الدین عالی دونوں میں بہت فرق تھا۔ مزاج کا بھی فرق تھا، مگر جانے ان کا نام ساتھ ساتھ کیوں ذہن میں آتا ہے۔ جالبی صاحب جم کر بیٹھنے والے آدمی تھے۔ کام کرتے بھی تھے اور دوسروں سے لیتے بھی تھے۔ انکم ٹیکس کی طویل ملازمت کے بعد وہ جب کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے تو ایک آواز ایسی نہ تھی جو یہ کہہ رہی ہوکہ یہ باہر کے آدمی کو کہاں سے لے آئے ہو۔ کراچی یونیورسٹی میں انہوں نے بڑی عزت و آبرو کے ساتھ وقت گزارا۔ پھر جب وہ مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین بنا دیے گئے تو وہاں بھی غیر متنازع ٹھیرے۔ اس زمانے میں انہوں نے انگریزی اردو لغت کو مکمل کیا۔ شاید مولوی عبدالحق والی لغت کے بعد کوئی کام ایسے عمدہ انداز میں نہ ہوا ہوگا۔ اب تو خیر آکسفورڈ پریس نے شان الحق حقّی کی مدد سے ایک اور اچھی لغت تیار کرلی ہے۔ مگر وہ لوگ جنہوں نے ابتدا کی، یقیناً داد کے مستحق ہیں اور آج تک مستند ہیں۔ جالبی صاحب نے جو دوسرا بڑا کام کیا، وہ ان کے مرتب ذہن کی نشاندہی کرتا ہے۔ انہوں نے اردو ادب کی تاریخ مرتب کی جو چار ضخیم جلدوں میں چھپ چکی ہے، مگر ابھی تک مکمل نہیں ہے۔ پوری بیسویں صدی پر کام ہونا باقی ہے۔ ان کا ایک اور بڑا کارنامہ بھی ہے، اور وہ ہے کراچی سے ’’نیا دور‘‘ نام سے ایک جریدے کا آغاز۔ یہ گویا ادب میں دبستانِ کراچی کی تشکیل کا کارنامہ تھا۔ لاہور سے تو بہت سے جریدے نکلتے تھے… ادبی دنیا، فنون، اوراق، ادبِ لطیف، سویرا… مگر کراچی کی پہچان یہی ’’نیا دور‘‘ بنا، اگرچہ بعد میں نسیم درانی کا ’’سیپ‘‘ بھی اس صف میں شامل ہوگیا۔ جب اس نسل کا کوئی فرد رخصت ہوتا ہے تو مجھے فراق گورکھپوری کا ایک شعر بے ساختہ یاد آتا ہے:
آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصرو
تم نے فراق سے باتیں کی ہیں، تم نے فراق کو دیکھا ہے
مجھے یہ شعر ان بڑے لوگوں کی محض عظمتوں کی وجہ سے یاد نہیں آتا، بلکہ اس لیے یاد آتا ہے کہ یہ اس نسل کے نمائندہ تھے جنہوں نے پاکستان کے نک سک سدھارنے میں بنیادی کام کیا، جس طرح یہ لوگ شہر میں ایک گھر سے دوسرے گھر، ایک چائے خانے سے دوسرے چائے خانے، اور ایک بستی سے دوسری بستی میں مارے مارے پھرتے تھے۔ ایک طرف اپنا مستقبل بھی بنارہے تھے، دوسری طرف اس قوم کے مستقبل کے لیے بھی فکرمند تھے۔ اس نسل میں کئی طرح کے لوگ تھے۔ کچھ وہ تھے جو ریڈیو پاکستان سے ریگل تک مختلف کیفوں میں بیٹھتے تھے۔ لالوکھیت کے کیفے حیات اور کیفے دولت میں الگ ہی دنیا تھی۔ ملیر سے لے کر فیڈرل بی ایریا تک گھر گھر محفلیں جمتی تھیں۔ جس طرح دلی کے دورِ آخر کی یادیں زندہ رکھنے والے ایک عجیب کرب آمیز رچائوکے ساتھ بات کرتے ہیں، مجھے کراچی کے اس ’’دورِآخر‘‘ کے وہ لوگ یاد ہیں۔ میں نے ان سے باتیں کی ہیں، میں نے ان کو دیکھا ہے۔ کیا جذبہ تھا ان میں۔ قمرجمیل، ساقی فاروقی، اطہر نفیس، جمال پانی پتی، خدا سلامت رکھے اس دور کی آخری نشانی اسد محمد خان۔ کیا لوگ تھے اور کراچی بھی کیا بستی تھی۔ کراچی مرحوم کو یاد کرتا ہوں تو بہت کچھ یاد آجاتا ہے۔ خدا اس شہرکو سلامت رکھے۔ یہ آج بھی اپنے اندر بہت سے جذبے رکھتا ہے۔ یہ جو پاکستان ہے یہ انہی جذبوں اور ولولوں کا نام ہے۔ جمیل جالبی صاحب کا نوے سال کی عمر میں انتقال ہوا ہے تو یوں لگتا ہے وہ صدی ہم سے رخصت ہوگئی جو پاکستان تھی، اصل اور حقیقی پاکستان، اینٹ اور پتھر کی دیواروں میں دوڑتا وہ لہو اور گودا جس کا نام تہذیب ہے۔ جمیل جالبی اسی تہذیب کا نام تھا۔ وہ تو پاکستانی کلچر تھے۔ وہی تو پاکستانی کلچر ہے۔ پاکستانی کلچر جو تم بھی ہو اور میں بھی ہوں۔ کیا ایسا ہی ہے!
(سجاد میر۔ روزنامہ 92نیوز۔ 23اپریل2019ء)