امیرمینائی

ابوسعدی

امیر احمد نام اور امیر تخلص کرتے تھے۔ مخدوم حضرت شاہ میناؒ (متوفی 884ھ) کی اولاد سے تھے، اس لیے امیر مینائی کے نام سے مشہور ہوئے۔ 21 فروری 1829ء کو نصیر الدین حیدر شاہ اودھ کے عہد میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی کرم محمد تھے۔ مختلف علما سے علوم و فنون سیکھے۔ عربی کے عالم تھے۔ خاندانِ چشتیہ صابریہ میں حضرت امیر شاہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ بارہ برس کی عمر میں شعر کہنا شروع کیے۔ عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں شعر کہنے کی استعداد تھی۔ شعر گوئی میں مظفر علی خاں اسیر سے تلمذ تھا۔ پچیس برس کی عمر میں حضرت اسیر کی وساطت سے واجد علی شاہ کے دربار میں رسائی ہوئی۔ بادشاہ کے ایما پر دو کتابیں ”ارشاد السلطان“ اور ”ہدایت السلطان“ تصنیف کیں۔ 1851ء میں نواب یوسف علی خاں نے رام پور طلب فرمایا۔ ان کے انتقال پر نواب کلب علی خاں مسند نشیں ہوئے تو امیر کی عزت افزائی میں اور بھی اضافہ ہوا، اور ان کے انتقال پر لکھنؤ چلے آئے۔ آخری عمر میں حیدرآباد پہنچے اور پھر اسی مٹی میں 1900ء میں انتقال کیا اور دفن ہوئے۔ ان کی تصانیف میں مراۃ الغیب، صنم خانہ ٔ عشق، محامد خاتم النبیینؐ اور مینائے سخن مجموعہ ہائے شعر ہیں، جو شائع ہوچکے ہیں۔ شعرائے رام پور کا ایک تذکرہ بعنوان ”انتخاب یادگار“ لکھا۔ آخر عمر میں ایک بڑا کام تدوینِ لغت اردو کا شروع کیا، مگر یہ الف ممدودہ اور مقصورہ سے آگے نہ بڑھ سکا اور ”امیراللغات“ کے نام سے شائع ہوا۔اقبال شاعری میں داغ سے تلمذ کے باوجود امیر مینائی کی شخصیت اور کمالِ شاعری کے معترف تھے۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)

حضرت امام باقرؒ کے یاد رکھنے والی نصائح

حضرت امام باقرؒ کے درج ذیل نصائح غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں:
متکبر روح جب کسی شخص میں داخل ہوتی ہے تو اسی قدر اس کی عقل میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔
رزق سچائی، پاکیزگی اور نیک نیتی میں کمی و بیشی کے مطابق ملتا ہے۔
اپنے اہلِ خاندان سے اچھے سلوک کی وجہ سے عمر میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
خدا یہ بات پسند فرماتا ہے کہ بندے اس سے دعا مانگیں اور اس سے دنیا و آخرت کی بھلائی چاہیں۔ قبولیتِ دعا کا وقت آدھی رات سے سورج نکلنے تک ہے، اس وقت رحمتِ الٰہی کے دروازے کھلے ہوتے ہیں اور ضروریات کی تکمیل ہونے لگتی ہے۔ انہی اوقات میں بندوں کا رزق تقسیم ہوتا ہے اور لوگوں کی بڑی بڑی حاجتوں کے بر لانے اور بڑی بڑی مصیبتوں کے دفع ہونے کا وقت ہے۔
عاجزی اور فروتنی یہ ہے کہ انسان اس جگہ بیٹھنے پر راضی ہوجائے، جو اس کی شخصیت اور مقام و مرتبہ کے لائق و شایانِ شان نہ ہو، دوم یہ کہ وہ ہر ملاقاتی کو سلام کرے۔
جس شخص میں مذکورہ چار صفتوں میں سے ایک بھی صفت ہوگی، خدا کے نزدیک اس کا مرتبہ بلند ہوگا 1)) یتیم کی سرپرستی کرنے والا اور اس کو ٹھکانا دینے والا، (2) بوڑھے اور بے نوا فرد پر رحم کرنے والا، (3) والدین کے ساتھ شفقت کرنے والا، (4) اپنے ماتحتوں سے نرمی و محبت سے پیش آنے والا۔
اللہ تعالیٰ نے تین چیزوں کو تین چیزوں میں پوشیدہ رکھا ہے۔ اپنی رضا اور خوشنودی کو اپنی عبادت میں پوشیدہ رکھا ہے۔ لہٰذا کسی عبادت کو بھی حقیر نہ سمجھو، شاید اسی میں اللہ کی رضا ہو۔ اپنے غصے کو گناہوں میں چھپا رکھا ہے، لہٰذا گناہوں کو معمولی نہ سمجھو، شاید وہی معمولی گناہ تمہارے لیے اللہ کی ناراضی کا سبب بن جائے۔ اس نے اپنے محبوب بندوں کو انسانوں میں چھپا رکھا ہے، لہٰذا کسی انسان کو حقیر نہ جانو، کیونکہ ممکن ہے وہی اللہ کا محبوب بندہ ہو۔
(”اصلاحِ نفس کا لائحہ عمل“۔محمد موسیٰ بھٹو)

حکایت

ایک شخص کے کئی بیٹے تھے۔ یہ ناہموار لڑکے آپس میں ہر روز لڑتے۔ باپ ہر چند سمجھاتا مگر کچھ اثر نہیں ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ باپ نے سب بچوں کو جمع کرکے کچے سوت کی ایک انٹی دی اور کہا کہ اس پر اپنا اپنا زور آزمائو۔
ہر ایک نے کچکچا کچکچا کر بہتیرا زور کیا۔ انٹی کو ایک بھی نہ توڑ سکا۔ باپ نے کہا: ’’دیکھو کچا سوت کتنا کمزور ہوتا ہے۔ مگر بہت سے کمزور مل کر کس قدر مضبوط ہوگئے۔ اسی طرح یاد رکھو کہ تم بھائی بھائی بھی اگر متفق رہوگے تو کوئی دشمن تم کو کسی طرح کا گزند نہ پہنچا سکے گا، اور اگر ایک دوسرے سے جدائی اختیار کرو گے تو ہر ایک آدمی تم پر غالب رہے گا‘‘۔
حاصل: اتفاق میں بڑی قوت ہے۔ (’’منتخب الحکایات‘‘۔نذیر احمد دہلوی)

زبان زد اشعار

قسمت ہی سے لاچار ہوں اے ذوقؔ وگرنہ
سب فن میں ہوں میں طاق مجھے کیا نہیں آتا

(شیخ محمد ابراہیم ذوق)

کیا کہوں کچھ کہا نہیں جاتا
چب رہوں تو رہا نہیں جاتا

(میر تقی میرؔ)
(مرتبہ: ڈاکٹر حسن الدین احمد)