نوزائیدہ بچوں کی جان لیوا بیماری ’ببل بوائے‘ کا علاج دریافت

امریکی سائنس دانوں نے بغیر مدافعتی نظام لیے پیدا ہونے والے نوزائیدہ بچوں کی کمیاب بیماری ’ببل بوائے‘ کا علاج ایچ آئی وی کی مدد سے دریافت کرلیا۔ سائنسی جریدے ’نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن‘ میں شائع ہونے والے مقالے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نوزائیدہ بچوں میں مدافعتی نظام بالکل نہ ہونے یا انتہائی ناقص ہونے کی بیماری ’ببل بوائے‘ کا علاج دریافت کرلیا گیا ہے۔ برطانوی اسپتال میں 8 بچوں پر کامیاب تجربہ کیا گیا ہے۔ اس بیماری کے شکار بچوں میں قوتِ مدافعت نہ ہونے کے باعث ہر لمحہ جراثیم سے پاک ’اسٹرائیڈ ماحول‘ میں رہنا ہوتا ہے جیسا کہ آپریشن تھیٹر میں ہوتا ہے، یا منہ کو ایسے جراثیم کُش تھیلے سے ڈھکنا ہوتا ہے جو سانس یا منہ کے ذریعے جراثیم کو جسم میں داخل ہونے سے روک سکے۔ ایسے بچے زیادہ عرصے جی نہیں سکتے تھے۔ امریکی سائنس دانوں نے اس کمیاب لیکن معصوم کلیوں کو کچل دینے والی بیماری کا علاج ڈی این اے تھراپی کے ذریعے نکالا، جس کے لیے نوزائیدہ بچوں کے بون میرو کو جمع کیا گیا اور ڈی این اے میں موجود عیب کو درست کیا گیا اور عیب سے پاک جین کو ایچ آئی وی وائرس کے متبادل ورژن میں داخل کیا گیا۔گو ایچ آئی وی کا ایک کردار ایڈز کے پھیلائو کا سبب بننا بھی ہے، اور دنیا بھر میں اس کی ہلاکت خیزی معروف ہے، تاہم سائنس دان اس وائرس کے مثبت کردار سے ’ببل بوائے‘ میں مبتلا 8 بچوں کا مکمل علاج کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور اب یہ بچے آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ قوتِ مدافعت کی عدم موجودگی یا ناقص ہونے کی بیماریSever Combined Immuno Deficiencyکہلاتی ہے، تاہم 1971ء میں اس مرض میں مبتلا بچے ڈیوڈ ویٹر سے اس مرض کو شہرت ملی، یہاں تک کہ اسی بچے کی عرفیت ’ببل بوائے‘ سے اس بیماری کو عوامی نام مل گیا۔

خلا میں زمین کی جسامت کے برابر پہلا سیارہ دریافت

خلائی سائنس کے جریدے آسٹو فزیکل جرنل لیٹر کے مطابق ناسا کی سیاروں پر نظر رکھنے والی ٹیلی اسکوپ نے زمین کی جسامت کے برابر ایک سیارہ (Exoplanet) ڈھونڈ نکالا ہے۔ یہ سیارہ سب نیپچون کا ساتھی سیارہ ہے، جسے پہلی مرتبہ رواں برس جنوری میں دیکھا گیا تھا، تاہم مسلسل مشاہدے اور دیگر تفصیلات جاننے کے بعد باقاعدہ تصدیق کردی گئی ہے۔
سائنس دانوں نے انکشاف کیا کہ ان دو برسوں میں TESS نے زمین کی جسامت کے برابر یا اس سے بڑے سائز والے تقریباً 300 سیاروں کا مشاہدہ کیا جن میں ایک سیارے کا بغور جائزہ لیا گیا جو زمین سے 13 نوری سال کی مسافت پر زردی مائل سیارے ایچ ڈی 21749 کے گرد مدار میں گھوم رہا ہے۔ سائنس دانوں نے اس دریافت کو اہم کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے نہ صرف ہماری کہکشاں بلکہ خلاء کے رموز و اسرار جاننے کا موقع ملے گا، اور اس مشاہدے سے کائنات میں چھپے رازوں سے پردہ اٹھنے کی بھی امید ہے۔

والدین کی جانب سے بچوں میں فرق کرنا خطرناک

تحقیق کے مطابق، وہ بچے جو یہ سوچتے ہیں کہ وہ اپنے والدین کے نزدیک کم پسندیدہ ہیں اور بچپن میں بعض اوقات ان کے ساتھ برا سلوک ہوا تھا، اُن کے لیے صورتِ حال اُس وقت زیادہ خراب ہوجاتی ہے جب گھر والوں کے درمیان بہتر اور مضبوط تعلق کی کمی ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ والدین کی جانب سے ایسا کرنے سے بھائی بہنوں کے آپسی تعلقات بھی بہت زیادہ خراب ہوجاتے ہیں، اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں مزید خرابی آجاتی ہے۔ بے شک آپ اس بات کو جتنا بھی جھٹلا دیں کہ آپ ایسا نہیں کرتے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ والدین کی جانب سے اس طرح کا رویہ بہت عام ہوچکا ہے کہ وہ اپنے تمام بچوں میں کسی ایک کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ آپ اپنے کسی بھی بچے میں کوئی فرق نہ کرتے ہوں، یا ایک کو سب کچھ دیتے ہوں اور دوسرے کو کچھ نہیں، لیکن بچے سے متعلق چھوٹی سے چھوٹی چیز کو یاد رکھنا ضروری ہے۔ جو بچے ڈپریشن یا ذہنی دبائو کا شکار ہوتے ہیں، اُن کے رویّے بعض اوقات بہت زیادہ خراب ہوجاتے ہیں اور انہیں دیگر بچوں کے مقابلے میں سنبھالنا زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ جس بچے کو سنبھالنا آسان ہوتا ہے،آپ اُس سے زیادہ وقت مشکل بچے کو دے دیتے ہیں، جس سے آسان بچہ یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ آپ اس سے زیادہ وقت دوسرے کو دے رہے ہیں۔ جس بچے کو والدین کی جانب سے کم اہمیت اور کم توجہ مل رہی ہوتی ہے اُس کی خوداعتمادی کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔ اگر آپ بطور والدین اپنے ایک بچے کو زیادہ ذہین یا سمجھدار قرار دے دیں، تو یہ دوسرے بچے کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسے بچوں کا طرزِعمل اس وقت ذرا مختلف ہوتا ہے جب یہ بڑے ہورہے ہوتے ہیں، خاص طور پر جب ٹین ایج میں داخل ہورہے ہوتے ہیں تو یہ خود کو ’بْرا بچہ‘ کے طور پر دیکھ رہے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوسکتی ہیں۔ یہ سب کچھ نہ صرف والدین کے تعلقات کو متاثر کرسکتا ہے، بلکہ بہن بھائیوں کو بھی دور کرسکتا ہے۔

دنیا بھر میں خسرہ کے واقعات میں 300 فیصد اضافہ

دنیا بھر میں خسرہ کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس سال گزشتہ برس کے مقابلے میں اب تک 300 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ صرف امریکہ میں ہی 2000ء کے مقابلے میں خسرہ کے سب سے زیادہ واقعات دیکھے گئے ہیں، اور گزشتہ ہفتے نیویارک نے عوامی صحت کی ایمرجنسی نافذ کردی ہے۔ لیکن اِس سال کے صرف تین ماہ میں پوری دنیا میں خسرہ کے 110000 مریض رپورٹ ہوئے ہیں، اور ان میں اکثریت بچوں کی ہے۔ چھوت کا یہ مرض تکلیف دہ اور جان لیوا ثابت ہوتا ہے اور پوری دنیا میں اب بھی سالانہ ایک لاکھ لوگ اس سے لقمہ اجل بن رہے ہیں۔