عوام کو بے روزگار کرنے کی ملکی لہر

آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے اپنی سونے کی زنجیروں سے جکڑے ہوئے ہمارے ملکی حکمرانوں کو ایک اور نئی اصطلاح سکھائی ہے جس کا انگریزی میں نام Down Sizing ہے، جس کے مطابق وفاق، صوبوں اور تمام خودمختار اداروں سے سرکاری اخراجات کم کرنے کے نام پر ملازمین اور افرادی قوت کی برطرفی کی جارہی ہے، اور شاید اسی مقصد سے بے نظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کی تائید اور موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی تحسین ان عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے کی جارہی ہے، کیونکہ بے نظیر حکومت کے پاس نہ تو بھاری مینڈیٹ تھا، نہ طاقت تھی اور نہ حوصلہ کہ وہ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں کارکنوں کو بے روزگار کرے اور عوامی غضب سے محفوظ بھی رہے، کیونکہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں ذوالفقار علی بھٹو کی وارث مقبولِ عوام جماعت پیپلزپارٹی اب زوال کا شکار ہے۔ ہر نئے دن کہیں گولڈن شیک ہینڈ کے نام پر اور کہیں اضافی یا ’’سرپلس پول‘‘ کے نام پر لوگوں کو بے روزگار کرنے کا سلسلہ جاری ہے، اور نجکاری کے نام پر مقامی اور غیر ملکی ساہوکاروں کو ادارے فروخت کردینے کے بعد جن افراد کے روزگار کے تحفظ کے وعدے نئے مالکوں سے لیے گئے تھے ان وعدوں کا ایفا بھی نہیں کیا جارہا، اور عوام کو اقتصادی ٹائیگر کا خواب دکھا کر ان سے دو وقت کی روٹی کا آسرا بھی چھینا جارہا ہے، اور بے روزگار کرنے کا عمل معاشی اور اقتصادی ترقی کے نام پر ہورہا ہے۔ اس سلسلے میں اقتصادی اور تجارتی ترقی کے نام پر جمعہ کی تعطیل کے خاتمے کے ذریعے اور بھارت کے ساتھ دوستی، کشمیر کا امریکی حل اور دفاعی قوت کو محدود کرکے ملکی سلامتی کا سودا کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا ہے۔ حالانکہ کسی بھی حکومت کی اقتصادی پالیسی کا مرکزی نکتہ ملک کے عوام کو روزگار فراہم کرنا ہے۔ ہر ملک کے اپنے مسائل ہوتے ہیں اور ان کے حل کے لیے الگ الگ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ مشرقی یورپ کے کم آبادی اور برف اور کیچڑ سے بھرے ہوئے علاقوں کے مسائل کے حل کا فارمولا پاکستان پر صادق نہیں آسکتا جو کثیر آبادی کا ملک ہے، جس کے پاس بہترین ذہنی صلاحیت کے ساتھ پُرجوش اور محنت کرنے والی افرادی قوت بھی موجود ہے۔ بہترین ہنرمند کارکن ہیں اور قدرتی وسائل کی ہمہ اقسام نعمتیں موجود ہیں، لیکن ملک کے وسائل اور اثاثوں کو غیر ملکی قوتوں کے ہاتھوں اونے پونے داموں فروخت کیا جارہا ہے اور 50 سال کے اندر تمام خرابیوں کے باوجود اداروں کو تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔ ایک طرف قوم کے اربوں ڈالر لوٹ کر غیر ملکی بینکوں میں جمع کرنے والے سابق اور موجودہ حکمران… جن میں سول اور فوجی بیوروکریٹ اور ان کی اولادیں بھی شامل ہیں اور سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی شکل میں زرعی اور صنعتی اشرافیہ بھی شامل ہے… کبھی محصولات کی کمی کا رونا روتے ہیں اور عوام پر روز بروز نئے ٹیکس عائد کررہے ہیں، اور کبھی قومی اداروں کو سفید ہاتھی قرار دے کر عوام سے سہولیات چھین رہے ہیں اور 16 کروڑ کی آبادی اپنے لیے بہ مشکل دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرپارہی ہے، بے روزگاری کا مہیب اور خوفناک عفریت نوجوانوں کو بیوی بچوں سمیت خودکشی جیسے جہنم میں ڈالنے والے کام پر مجبور کررہا ہے، اور حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور وہ احتجاج کی سکت نہیں رکھتے، اور وہ ان کی بڑھکوں سے امن اور چین کی بانسری بجاتے رہیں گے۔ لیکن انہیں سمجھنا چاہیے کہ روزگار کے متبادل ذرائع فراہم کیے بغیر سامراجی اور استعماری مالیاتی خدائوں کی تابعداری میں آسمان کو چھوتی مہنگائی کے ساتھ لاکھوں افراد کے روزگار کو چھین لینا نہ صرف یہ کہ خدا کے غیظ و غضب کو دعوت دینے کا باعث ہوگا، بلکہ ایسی انارکی بھی پیدا ہوگی جس پر قابو پانا حکمرانوں کے بس کی بات نہیں ہوگی۔ پہلے سے روزگار سے محروم افراد کے لیے روزگار کا بندوبست کرنے کے بجائے برسرروزگار افراد کی برطرفی کے سلسلے کا حکومت نے آغاز کردیا ہے۔ لیکن یہ بھی المیہ ہے کہ ہماری مزدور تحریکیں دائیں اور بائیں بازو میں اب بھی منقسم ہیں حالانکہ کمیونزم اپنے گھر میں زمین بوس ہوگیا ہے اور نئی سفاکانہ سرمایہ داریت کا مقابلہ کرنے کے لیے مزدور تحریک بھی زوال پذیر ہوچکی ہے۔ اس مرحلے پر پاکستان میں مزدور تحریک کو دائیں بائیں کی تقسیم کو ختم کرکے اور مخلص اور عوام دوست سیاسی قوتوں کو اپنے ساتھ ملاکر عالمی اداروں کے منصوبوں کو ناکام بنانے اور عوام کو روزگار سے محروم کرنے کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مزاحمتی کردار ادا کرنا ہوگا، اور اس مزاحمتی کردار کے لیے خصوصاً اسلامی مزدور تحریک کو اپنا ایجنڈا نئے سرے سے مرتب کرنا ہوگا۔
(5تا11 ستمبر 1997ء)