ڈاکٹر اشفاق حسن
(معروف ماہر اقتصادیات )
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے بڑے شیئر ہولڈر بعض ممالک چاہتے ہیں کہ پاکستان یا تو سی پیک پر کام کی رفتار کم کردے، یا پھر اس سے الگ ہوجائے۔ لیکن پاکستان اس انتہائی اہمیت کے حامل منصوبے سے باہر نہیں نکل سکتا جو پاکستان کی معیشت اور عوام کے لیے انتہائی اچھا ہے۔ ’’دی نیوز‘‘ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ میں نے ابتدا میں ہی پی ٹی آئی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ اب کی بار وہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے گریز کرے، اس لیے کہ جیو اسٹرے ٹیجک ماحول کلی طور پر تبدیل ہوچکا ہے۔ بعض ممالک کا تمام بڑی معیشتوں پر گہرا اثر رسوخ ہے، جیسے یورپی یونین، جاپان اور بھارت ہیں، جس کا مطلب ہے وہ آئی ایم ایف کو پاکستان کے قرض کے حوالے سے ڈکٹیٹ کرسکتے ہیں۔ آج امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل انڈو پیسفک الائنس دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو روکنا چاہتا ہے، اس لیے بالکل عیاں ہے کہ بعض ممالک پاکستان کو مجبور کریں گے کہ وہ سی پیک پر کام کی رفتار کم کردے یا پھر اس سے الگ ہوجائے۔ سادہ سی بات ہے کہ پاکستان سی پیک کو نہیں چھوڑ سکتا، اس لیے کہ یہ اس کی معیشت اور عوام کے لیے فائدہ مند ہے، ممبر ای اے سی نے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ بھارت نے سرحدوں پر فوجیں جمع کررکھی ہیں تاکہ پاکستان پر دبائوڈالا جاسکے۔ اس کے ردعمل میں پاکستان نے بھی ایسا ہی کیا۔ بھارت کی معیشت فوجوں کی اس تعیناتی کو طویل عرصے تک برداشت کرسکتی ہے لیکن پاکستان کی خستہ حال معیشت اس بوجھ کو برداشت نہیں کرسکتی۔ پاکستان کی حکومت اس صورتِ حال میں ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کرے گی لیکن دفاعی بجٹ کو برقرار رکھا جائے گا، یا پھر اس میں اضافہ کیا جائے گا، تاہم سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتیں اور لوگ تنقید بھی شروع کردیں گے کہ بجٹ کا بڑا حصہ دفاعی مقاصد کے لیے مختص کردیا گیاہے، اس کے نتیجے میں عوام اور مسلح افواج میں خلیج پیدا ہوگی۔ یہ وہ طے شدہ منصوبہ ہے جس پرآئی ایم ایف بڑی معیشتوں کے اثر تلے عمل درآمد چاہتا ہے۔ انٹرنیشنل فنانشل انسٹی ٹیوشن نے پاکستان کی جی ڈی پی کے مختلف اعداد و شمار دیے ہیں، اے ڈی پی نے3.9، عالمی بینک نے3.4 اور آئی ایم ایف نے اسے2.7 قرار دیا ہے۔ اس کا مقصد پاکستان پر آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کو لاگو کرنا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کی شرح نمو سالِ رواں کے لیے 2.7 اور اگلے سال کے لیے2.5 قرار دی ہے، تاہم امکان یہ ہے کہ یہ چار فیصد کے قریب ہوگی۔ آئی ایم ایف حکومت پر دبائو ڈا ل رہا ہے کہ اگلے مالی سال میں ریونیو کا ہدف5400 ارب روپے مقرر کیا جائے۔ آئی ایم ایف نے یہ مذاق کیا ہے۔ ایک طرف وہ انتہائی کم شرح نمو کی پیش گوئی کررہا ہے تو دوسری طرف وہ حکومت سے محصولات میں چالیس فیصد اضافے کا کہہ رہا ہے۔ شرح نمو 2.5 فیصد ہو اور دوسری طرف محصولات کا ہدف بلند ترین مقرر کیا جائے، یہ اقتصادی ماہرین کی سمجھ سے ماوراء ہے۔ اگر پی ٹی آئی حکومت5400 ارب روپے ہدف کے آئی ایم ایف کے دبائو کا شکار ہوگئی تو اس کے بعد اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ ہدف کے حصول کے لیے مزید ٹیکس لگانے کے لیے ہر تین ماہ بعد ایک منی بجٹ پیش کرے۔