برطانیہ کی پولیس نے سرکاری راز افشا کرنے والے ادارے ”وکی لیکس“ (Wiki Leaks) کے بانی جولین اسانج کو گرفتار کرلیا ہے۔ جولین اسانج نے گرفتاری سے بچنے کے لیے 2012ء میں لندن میں واقع ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لی تھی، اور وہ گزشتہ سات سال سے وہاں تہہ خانے کے ایک چھوٹے سے کمرے میں مقیم تھے۔ آسٹریلیا کے47 سالہ جولین اسانج نے جو تعلیم اور پیشے کے اعتبار سے کمپیوٹر پروگرامر ہیں، 2006ء میں الیکٹرانک طباعت کے لیے وکی لیکس کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں جنگی جرائم، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور کرپشن کو بے نقاب کرنا تھا۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وکی لیکس دراصل الیکٹرانک نقب زنی یا hacking کے لیے قائم کیا گیا تھا، جس کا کام حساس امریکی اداروں کے کمپیوٹر نظام سے اہم معلومات چرانا تھا۔
وکی لیکس نے 2010ء میں دنیا کو اُس وقت ہلا کر رکھ دیا جب وہ خفیہ ویڈیو افشا کردی گئی جس میں مسلح امریکی فوجی نہتے عراقی شہریوں کو قتل کرتے دکھائے گئے۔ اسی کے ساتھ افغانستان میں نیٹو افواج کی وحشیانہ بمباری کی لرزہ خیز کلپس، امریکی محکمۂ دفاع، خارجہ اور خفیہ اداروں کی سرگرمیوں اور اندرونی خط کتابت سے متعلق ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ دستاویزات انٹرنیٹ پر جاری کردی گئیں۔ ان میں سابق صدر جارج بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی ٹیلی فونک گفتگو کا وہ ٹیپ بھی شامل تھا جس میں یہ دونوں رہنما کہہ رہے تھے کہ عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اور جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
ایک اندازے کے مطابق وکی لیکس نے مجموعی طور پر 17 لاکھ سے زائد امریکی سفارتی دستاویزات اور خفیہ اداروں کی رپورٹیں انٹرنیٹ پر جاری کیں۔ افغان و عراق جنگ اور ہلیری کلنٹن کے ذاتی Serverسے اڑائے جانے والے برقی خطوط کے علاوہ جو دستاویزات جاری کی گئیں ان میں 1973ء سے 1976ء کے درمیانی عرصے کی سفارتی خفیہ رپورٹیں اور اراکینِ کانگریس کی خط کتابت شامل ہیں۔ رپورٹوں میں سب سے دلچسپ و سنسنی خیز انکشافات سابق امریکی وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر کے تحریر کردہ اور انہیں ملنے والے مراسلوں میں سامنے آئے ہیں۔ ان دستاویزات میں پاکستان سمیت دنیا کے تقریباً ہر ملک کے بارے میں امریکی وزارتِ خارجہ اور دیگر محکموں کی رپورٹیں موجود ہیں۔ جولین اسانج نے دعویٰ کیا کہ وکی لیکس کا عملہ امریکہ کےٓ محفوظ دستاویز خانے یا (National Archive) میں موجود ان دستاویزات کی گزشتہ ایک برس سے چھان پھٹک کررہا تھا تاکہ انہیں انٹرنیٹ پر اشاعتِ عام کے لیے جاری کیا جاسکے۔ ان دستاویزات کی اشاعت سے امریکہ کو دنیا بھر میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ضمن میں واشنگٹن کا سرکاری مؤقف یہ ہے کہ اس عمل سے امریکی مفادات اورسلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوئے اور امریکی شہریوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئی تھیں۔
دستاویزات کے افشا کے بعد جب امریکہ کے خفیہ اداروں نے تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ جولین اسانج کو امریکی وزارتِ دفاع و خارجہ میں نصب کمپیوٹر نظام کے مخفی کلمہ شناخت یا Pass Word ایک سابق امریکی فوجی چیلسی میننگ (Chelsea Manning) نے دیے تھے۔ 31 برس کی چیلسی پیدائش کے وقت لڑکا تھیں اور ان کا نام بریڈلی میننگ رکھا گیا۔ بریڈلی بچپن ہی سے باغی طبیعت کا تھا اور اسکول میں قومی ترانے کے وقت نہ تو کھڑا ہوتا اور نہ ہی دعا کے اختتام پر آمین کہتا۔ اس کا خیال ہے کہ دنیا میں ہر خونریزی کے پیچھے مردوں کا ہاتھ ہے، چنانچہ بریڈلی نے آپریشن کے ذریعے اپنی جنس تبدیلی کرالی اور وہ چیلسی کے نام سے پوری لڑکی بن گیا۔ ہمارے مرزا غالب کی طرح چیلسی کا پیشہ آبا بھی سپہ گری تھا۔ اس کے باپ دادا امریکی بحریہ کے افسر رہ چکے تھے، چنانچہ چیلسی بھی فوج میں بھرتی ہوگئی اور اسے عراق بھیج دیا گیا۔ چیلسی کمپیوٹر کی ماہر تھی اور کمپیوٹر کے سیکورٹی نظام پر اس کی گرفت خاصی مضبوط تھی، چنانچہ وہ فوج کے لیے دشمن کی خفیہ معلومات جمع کرنے کا کام کرتی تھی۔
فوج میں اسے مرد سپاہیوں نے بہت تنگ کیا۔ جیسے ہمارے یہاں خواجہ سراوں تحقیرآمیز پھبتی کسی جاتی ہے، ایسی ہی ذلت کا نشانہ چیلسی کو بھی بنایا گیا۔ اس سے دست درازی ایک عام سی بات تھی اور اکثر اوقات ان زیادتیوں میں افسران بھی اپنے جوانوں کا ساتھ دیتے۔ اسے کئی بار مار پیٹ کا سامنا بھی کرنا پڑا، اور ان مظالم کا بدلہ لینے کے لیے اُس نے الیکٹرانک نقب زنی کے گُر سیکھنے شروع کردیے۔ وہ کمپیوٹر کی ماہر تو تھی ہی، لہٰذا جلد ہی اس نے حساس خفیہ کلماتِ شناخت تک رسائی حاصل کرلی اور لاکھوں کی تعداد میں انتہائی محٖفوظ و حساس دستاویزات چرا کر جولین اسانج کو بھیج دیں، جسے اس نے وکی لیکس پر شائع کردیا۔
جولین اسانج کا دعویٰ تھا کہ وہ ایک صحافی ہیں اور انھوں نے یہ معلومات اپنے ذرائع سے حاصل کی ہیں۔ لندن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے جولین اسانج نے کہا کہ صحافتی ضابطہ اخلاق کے تحت وہ معلومات کا ذریعہ مشتہر کرنے کے پابند نہیں۔ تاہم امریکہ کے خفیہ اداروں کی نشاندہی پر چیلسی میننگ کو قومی راز چرانے کے جرم میں عراق سے گرفتار کرکے کورٹ مارشل کے لیے کویت کے امریکی فوج اڈے منتقل کردیا گیا۔ فوجی عدالت نے چیلسی کو 25 سال قید کی سزا سنائی لیکن 2017ء میں صدر اوباما نے اس کی سزا معاف کردی۔
چیلسی کی گرفتاری کے ساتھ ہی واشنگٹن نے امریکی حکومت کے کمپیوٹر نظام میں نقب لگانے، قومی راز کی چوری، امریکہ کی سالمیت کو نقصان پہنچانے اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کے الزامات میں جولین اسانج پر مقدمہ قائم کردیا اور تحویلِ مجرمان کے معاہدے کے تحت برطانیہ سے جولین کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ اگر یہ الزامات ثابت ہوگئے تو جولین اسانج کو سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے۔
نومبر 2010ء میں سوئیڈن کی حکومت نے انکشاف کیا کہ جولین نے قیام سوئیڈن کے دوران دو خواتین پر مجرمانہ حملے کیے تھے جس کی بنیاد پر سوئیڈن کی حکومت نے اسانج کے وارنٹ گرفتاری جاری کررکھے ہیں۔ پروانہ گرفتاری وصول ہونے پر برطانیہ نے جولین کی سوئیڈن حوالگی پر رضامندی ظاہر کردی۔ مسٹر اسانج نے عصمت دری کے الزام کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ سوئیڈن کے حکام بے ہودہ الزامات کا سہارا لے کر ان کو امریکہ کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔ 7 دسمبر 2010ء کو وہ برطانوی پولیس کے سامنے پیش ہوگئے جس نے انھیں گرفتار کرکے ملک بدری کی کارروائی شروع کردی۔ جولین نے ان اقدامات کو عدالت میں چیلنج کردیا اور دس دن بعد وہ ضمانت پر رہا کردیے گئے۔ مقدمہ چلتا رہا اور جولین نے انکشافات کا سلسلہ جاری رکھا۔ سماعت کے آخری دنوں میں جولین کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ مقدمہ ہارجائیں گے اور یہ بات یقینی تھی کہ عدالتی فیصلہ آتے ہی انھیں سوئیڈن کے حوالے کردیا جائے گا، چنانچہ وہ 8 جون 2012ء کو لندن کے ایکواڈؤر سفارت خانے میں داخل ہوئے اور سیاسی پناہ کی درخواست دے دی۔ ایکواڈور حکومت کے نام انھوں نے اپنی درخواست میں کہا کہ وہ ایک صحافی ہیں اور امریکی حکومت تنقید سے مشتعل ہوکر ان پر جھوٹے الزامات لگارہی ہے۔ سوئیڈن میں ان کے خلاف امریکہ کے ایما پر مجرمانہ حملوں کا جھوٹا اور من گھڑت مقدمہ قائم کیا گیا ہے، جس کا بنیادی مقصد ان کی امریکہ منتقلی ہے جہاں انھیں سزائے موت دے دی جائے گی۔ دوماہ بعد ایکواڈور نے ان کی سیاسی پناہ کی درخواست منظور کرلی اور وہ اس کے بعد سے وہیں سفارت خانے میں مقیم بلکہ محصور تھے۔
ایکواڈور کی جانب سے جولین کو سیاسی پناہ دینے پر برطانیہ نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ برطانوی وزارتِ خارجہ نے دھمکی دی کہ ان کی حکومت قانون کے تحت ایکواڈور سفارت خانے کا سفارتی درجہ معطل و منسوخ کرنے کا حق رکھتی ہے، لیکن لندن نے اپنی اس دھمکی پر عمل درآمد سے گریز کیا۔
مئی 2017ء میں سوئیڈن حکام نے جولین کے خلاف تحقیقات معطل کردیں۔ سوئیڈش حکام کا کہنا تھا کہ ملزم پر فردِ جرم عائد کرنے کی قانونی مدت پوری ہونے اور تفتیش میں پیش رفت نہ ہونے کے سبب اسانج کے خلاف تحقیقات وقتی طور پر روکی جارہی ہیں۔ لیکن حکام نے واضح کردیا ہے کہ جولین اسانج پر ایک خاتون سے زیادتی کا الزام بدستور برقرار ہے جس کی تحقیقات کے لیے سوئیڈش استغاثہ مسٹر اسانج تک رسائی کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔ سوئیڈن کے قانون کے مطابق مذکورہ الزام میں تفتیش 2020ء تک جاری رہ سکتی ہے۔
دسمبر 2017ء میں جولین اسانج کو ایکواڈور کی شہریت بھی دے دی گئی۔ اس کے باوجود وہ سفارت خانے کی عمارت سے باہر نہیں نکلے۔ جولین اسانج کو ڈر تھا کہ چونکہ انھوں نے دورانِ ضمانت سیاسی پناہ لی تھی لہٰذا برطانوی پولیس انھیں ضمانت کی خلاف ورزی پر گرفتار کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ واشنگٹن بھی جولین کی امریکہ منتقلی کے لیے دباو ڈال رہا تھا۔
اس دوران امریکی انتظامیہ میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ صدر جارج بش کے بعد صدر اوباما اور صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا، لیکن جولین اسانج کی امریکہ منتقلی کے امریکی عزم میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی، اور امریکی حکام مسٹر اسانج کی امریکہ حوالگی پر مسلسل اصرار کرتے رہے۔
2016ء کے امریکی انتخابات کے دوران جولین اسانج ایک بار پھر سرگرم ہوئے اور انھوں نے ڈیموکریٹک امیدوار ہلیری کلنٹن کے بہت سارے برقی خطوط (email) وکی لیکس پر جاری کردیے۔ وکی لیکس کا کہنا تھا کہ اس نے یہ خط ہلیری کلنٹن کے ذاتی server سے اڑائے ہیں۔ اسے بنیاد بناکر ڈونلڈ ٹرمپ نے الزام لگایا کہ وزارتِ خارجہ کے دنوں میں ہلیری کلنٹن کمپیوٹر پر حساس خط کتابت کے لیے اپنا ذاتی server استعمال کرتی تھیں جو امریکی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اپنی مہم کے دوران ٹرمپ نے کھل کر وکی لیکس کی تعریف کی جو بقول اُن کے امریکی عوام کو ہلیری کا حقیقی چہرہ دکھا رہا ہے۔ امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے FBI کی تحقیقات سے بھی اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ ہلیری کلنٹن سرکاری چٹھیوں کے لیے نجی server استعمال کرتی تھیں جو غیر محفوظ اور اس کام کے لیے موزوں نہ تھا۔ امریکہ کے تحقیقاتی اداروں نے اس بات پر ناراضی و افسوس کا اظہار بھی کیا۔ اسی کے ساتھ یہ انکشاف بھی ہوا کہ ہلیری کلنٹن کے پرائیویٹ server میں روس کی خفیہ ایجنسیوں نے نقب لگائی اور دستاویزات چرا کر وکی لیکس کے حوالے کردیں۔
دوسری جانب انکشافات کے شوقین جولین اسانج اپنے محسنوں کی غلطیوں پر بھی پردہ نہ رکھ سکے اور ایکواڈور کے صدر لینن مورینو (Lenin Moreno)کی مبینہ مالی بدعنوانیوں کی تفصیلات وکی لیکس پر شائع کردیں، اسی کے ساتھ صدر لینن کے خفیہ بینک اکاؤنٹ اور روسی خواتین کے ساتھ اُن کے تعلقات کے بارے میں بھی سنسنی خیز انکشافات وکی لیکس پر آگئے جنھیں مبینہ طور پر جولین اسانج نے فوری طور پر حذف کردیا، لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا اور صدر لینن مورینو اس بات پر سخت چراغ پا ہوئے۔ انھیں جولین سے اس بے وفائی کی توقع نہ تھی۔ 2012ء میں جب جولین کو پناہ دینے کا معاملہ اٹھا اُس وقت لینن مورینو ایکواڈور کے نائب صدر تھے۔ انھوں نے کابینہ اجلاسوں میں تحفظِ اظہارِ رائے کے نام پر جولین کو پناہ دینے کی پُرجوش حمایت کی تھی۔ اسی بنا پر ان کو 2012ء کے نوبیل امن انعام کے لیے نامزد بھی کیا گیا تھا۔ اور پھر لینن مورینو ہی کی سفارش پر جولین کو ایکواڈور کے شہریت عطا کی گئی۔
ایکواڈور کے غصے سے بھرے صدر نے مبینہ طور پر صدر ٹرمپ کے ساتھی اور اُن کی انتخابی مہم کے سابق سربراہ پال منافورٹ سے ایک ملاقات میں کہا کہ وہ لندن میں اپنے سفارت خانے سے جولین اسانج کی بے دخلی پر غور کررہے ہیں۔ امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کی تحقیق کرنے والے رابرٹ موئلر نے اس ملاقات کی تصدیق کی جو 2017ء میں کسی وقت ایکواڈور کے دارالحکومت کیٹو (Quito)میں ہوئی تھی۔
وکی لیکس کے ذرائع الزام لگارہے ہیں کہ جولین اسانج کی سفارت خانے سے بے دخلی کی ایک وجہ ایکواڈور کی حالیہ مالی پریشانیاں ہیں جس کے لیے اُس نے عالمی مالیاتی فنڈ یا IMFکو قرض کی درخواست دی تھی۔ فیصلے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ نے قرض کے اجرا کے لیے جولین اسانج کی بے دخلی کی شرط عائد کی تھی۔ اس دعوے کی کسی آزاد ذریعے سے اب تک تصدیق نہیں ہوسکی لیکن عجیب اتفاق ہے کہ ایکواڈور کے لیے منظور کیے جانے والے 4.2 ارب ڈالر قرض کی 65 کروڑ 20لاکھ ڈالر کی پہلی قسط 11 مارچ کو جاری ہوئی اور 11 اپریل کو ایکواڈور کے صدر نے جولین اسانج کی سیاسی پناہ بیک جنبش قلم منسوخ کردی اور اسی روز برطانوی پولیس نے ایکواڈور کے سفارت خانے میں داخل ہوکر جولین اسانج کو حراست میں لے لیا۔ ایکواڈور کے صدر کا کہنا ہے کہ جولین اسانج سفارت خانے میں قیام کے دوران ضابطہ اخلاق کی صریح خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے تھے۔ ان کا کمرہ بے حد غلیظ تھا اور انھیں رات کو کئی بار اوپری منزل کے دفاتر میں دیکھا گیا۔ وہ حفاظت کے معاملے میں بھی انتہائی لاپروا تھے اور انتباہ کے باوجود رات کو چولہے پر ہانڈی چڑھاکر سوجاتے، اور کئی بار اُن کا کمرہ دھویں سے بھرگیا۔
پولیس کے مطابق اس نے ایکواڈور کے سفیر کی اجازت سے جولین اسانج کو حراست میں لیا ہے جنہیں جلد عدالت کے روبرو پیش کردیا جائے گا۔ ایکواڈور کے صدر نے کہا ہے کہ انہیں برطانیہ کی حکومت نے تحریری یقین دہانی کرائی ہے کہ اسانج کو کسی ایسے ملک کے حوالے نہیں کیا جائے گا جہاں انہیں تشدد یا موت کی سزا کا سامنا کرنا پڑے۔ وکی لیکس نے الزام عائد کیا ہے کہ ایکواڈور کی حکومت کی جانب سے اسانج کی سیاسی پناہ ختم کرنے کا اقدام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ دوسری طرف ایکواڈور پر برطانوی حکومت کا غصہ اب تک ختم نہیں ہوا۔ 11 اپریل کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں برطانیہ کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ایکواڈور کی حکومت نے تین سال قبل جولین اسانج کو پناہ دے کر انصاف کی فراہمی کا راستہ روکا تھا جس کا اسے احساس ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ جولین اسانج کے فرار کو روکنے کے لیے سفارت خانے کی نگرانی پر برطانوی حکومت کے کروڑوں ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔ ایکواڈور کے وزیر خارجہ ریکارڈو پاٹینو پُرامید ہیں کہ جولین کی بے دخلی سے برطانیہ اور ایکواڈور کے درمیان تناؤ کم ہوگا۔
جولین اسانج کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ برطانیہ کا کہنا ہے کہ وہ اسانج کو اپنے ملک سے نکلنے کے لیے محفوظ راستہ فراہم نہیں کرے گا، اور یہ کہ وہ انہیں سوئیڈن بھیجنے کا پابند ہے۔ لیکن اس معاملے پر برطانوی حکومت کو خود اپنے ملک میں مزاحمت کا سامنا ہے۔ ایکواڈور کے سفارت خانے کے باہر اسانج کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور پولیس کئی افراد کو گرفتار کرچکی ہے۔ حزب اختلاف کی لیبر پارٹی نے اس معاملے پر پارلیمنٹ میں بحث کا مطالبہ کیا ہے۔ لیبر پارٹی کی رہنما ڈائن ایبٹ (Dianne Abbott) نے کہا کہ جولین اسانج سات سال تک عملاً قیدِ تنہائی میں رہے جس کی وجہ سے اُن کا تفصیلی طبی معائنہ ضروری ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ وہ بے دخلی کے مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں بھی یا نہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی جولین کو قلم و ضمیر کا قیدی قرار دیتے ہوئے اُن کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ایکواڈور حکام کا کہنا ہے کہ اگر جولین اسانج اپنے ملک (ایکواڈور) آنا چاہیں تو انھیں خوش آمدید کہا جائے گا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ سماجی انصاف، آزادی اظہار اور عوامی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں جولین اسانج کو ایک صحافی اور آزادی اظہارِ رائے کا کارکن قرار دے رہی ہیں، امریکہ کے لیے وہ ایک الیکٹرانک نقب زن اور ڈیجیٹل دہشت گرد ہیں تو سوئیڈن کے لیے ایک مفرور ملزم۔ دیکھنا ہے کہ برطانوی عدلیہ ان کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔
—————————–
اب آپ مسعود ابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comپر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔