پروفیسر محمد اسلم اعوان
جلیانوالہ باغ کے قتل عام کو آج سو سال پورے ہوگئے۔ برصغیر پاک و ہند اور بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کا یہ اہم واقعہ 13 اپریل 1919ء کو پیش آیا تھا۔
13 اپریل کو بیساکھی کا تہوار تھا۔ مارشل لا کے تحت عوامی جلسے ممنوع قرار دیئے جانے کے باوجود ساڑھے چار بجے شام جلسہ عام کا اعلان کردیا گیا۔ تاہم بے شمار دیہاتی اس سارے ہنگامے سے بے خبر بیساکھی منانے شہر میں وارد ہوئے۔ جلیانوالہ باغ میں جلسہ ہوا تو وہ بھی جلسہ گاہ میں پہنچ گئے۔ کل حاضرین جلسہ پچیس ہزار سے زیادہ تھے۔
جلیانوالہ باغ امرتسر کا کوئی واقعی باغ یا پارک نہیں، بلکہ ایک کھلے میدان کا نام ہے جو چاروں طرف مکانوں سے گِھرا ہوا ہے اور مکانوں کی پشتیں اس میدان کی طرف ہیں۔ صرف ایک تنگ سا راستہ گلی کے طور پر اس میدان کو جاتا تھا۔
جنونی انگریز افسر جنرل ڈائر نے آزادی کی چنگاری کو بجھانے کے لیے امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں ہزاروں نہتے شہریوں پر اندھا دھند فائرنگ کرائی۔ اس واقعہ کے بعد پورے ہند میں بغاوت کے شعلے بھڑک اٹھے۔ لاہور، قصور، گوجرانوالہ، وزیرآباد، حافظ آباد، رام نگر، گجرات، لائل پور (حال فیصل آباد) گوڑ گائوں اور دوسرے شہروں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جا بہ جا خونریز تصادم ہوئے۔ چنانچہ انہی دنوں گوجرانوالہ ریلوے اسٹیشن کو آگ لگی تو محض شہریوں کو آمد و رفت کی تکلیف دینے کے لیے نیا اسٹیشن اصل آبادی سے دو میل دور ٹاؤن کی صورت میں تعمیر کیا گیا۔ ان ہنگاموں کے بعد پنجاب میں مارشل لا نافذ کردیا گیا۔ آزادی کی اس تحریک میں سینکڑوں افراد نے اپنی جانیں قربان کیں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا، جب تک کہ 1947ء میں انگریز حکمران ہندوستان کو آزاد کرنے کے بعد برصغیر سے رخصت نہ ہوگئے۔
امرتسر میں ہرقسم کے اجتماعات پر پابندی تھی، اس کے باوجود 13 اپریل 1919ء کو تقریباً پچیس ہزار افراد سکھوں کا تہوار بیساکھی منانے کے لیے امرتسر کے مشہور باغ جلیانوالہ میں جمع ہوئے۔ ان میں ہندو، سکھ اور مسلم افراد بھی شامل تھے۔ اکثریت ان دیہاتیوں کی تھی جو امرتسر کے اندرونی حالات اور جلسہ جلوس پر پابندیوں کے احکامات سے بالکل بے خبر تھے۔ تقریباً 5 بجے شام بیساکھی میں شریک ہزاروں افراد جلیانوالہ باغ کی چار دیواری کے اندر جمع ہوئے۔ پانچ ایکڑ رقبے میں پھیلے ہوئے باغ کے تین طرف کی دیواریں نہایت بلند اور ناقابل عبور تھیں۔ چوتھی دیوار قدرے نیچی تھی مگر اس کے اوپر سے گزرنا بھی محال تھا۔ باغ کے اندر ایک کنواں تھا، بیل وغیرہ جوت کر اس کنویں سے رہٹ کے ذریعے سے پانی نکالا جاتا تھا۔
پانچ بجے شام باغ کی ایک جانب اسٹیج پر سے ہندو رہنما گوپی ناتھ نے مجمع سے خطاب کرنا چاہا۔ ابھی تقریر شروع ہوئی تھی کہ برطانوی بریگیڈئیر جنرل ڈائر فوراً موقع پر پہنچا اور گلی روک کر کھڑا ہوگیا۔ وہیں مشین گن نصب کرلی اور مجمع کو دو منٹ میں منتشر ہونے کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ 50 گورکھے اور 100 ہندوستانی سپاہی تھے۔ پیشتر اس کے کہ مجمع کچھ سمجھے، اُس نے باغ کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے کر مشین گنوں سے بے دریغ فائرنگ کا حکم دے دیا۔ یہ فائرنگ اُس وقت تک جاری رہی جب تک کہ آخری راؤنڈ بھی نہ چل گیا۔ مزید برآں فائرنگ کا رخ زیادہ تر گنجان مجمع کی طرف تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کل 1699 گولیاں چلائی گئیں۔ 379 افراد ہلاک اور بارہ سو افراد شدید زخمی ہوئے۔ غیر سرکاری شواہد کی رو سے 1300 لوگ مارے گئے۔ امرتسر کے سول سرجن ڈاکٹر اسمتھ کے مطابق 1800 لوگ ہلاک ہوئے۔ حکومتی مصلحتوں کے سبب مرنے والوں کی صحیح تعداد کے بارے میں آج تک معلوم نہیں ہوسکا۔ فائرنگ سے زخمی ہونے والے بدنصیب وہیں سسکتے، تڑپتے دم توڑ گئے، کیونکہ شہر میں کرفیو نافذ تھا۔ یہ قتلِ عام صرف چند منٹوں میں ہوگیا۔ فائرنگ 5 اور 6 بجے کے درمیان ہوئی۔ 8 بجے کے بعد کرفیو کا اعلان پہلے ہی کیا جاچکا تھا۔ چنانچہ ہلاک ہونے والے اور جاں بلب زخمی وہیں میدان میں پڑے رہے اور کوئی رشتہ دار بھی ان کی مدد کو نہ پہنچ سکا۔ بلکہ تحقیقاتی کمیٹی میں ایک استفسار کے جواب میں ڈائر نے کہا کہ زخمیوں کو سنبھالنا اس کی ذمہ داری نہیں۔ نہ جانے ان میں کتنے لوگ صبح تک سسکتے ہوئے جان کی بازی ہارگئے۔
اچانک فائرنگ اور خوں ریزی سے باغ میں بھگدڑ مچ گئی۔ چاروں طرف سے برستی ہوئی گولیوں سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ سینکڑوں افراد ایک دوسرے کے پائوں تلے کچلے گئے۔ ہر شخص باغ کے واحد دروازے میں سے گزرنا چاہتا تھا، مگر یہ ناممکن تھا۔ فائرنگ بند ہونے کے بعد اس دروازے سے 150 لاشیں اٹھائی گئیں، جن سے راستہ مکمل طور پر بند ہوگیا تھا۔ بھاگتے ہوئے سینکڑوں افراد کنویں میں گر گئے۔ بعد میں کنویں سے 120 لاشیں نکالی گئیں۔ فائرنگ ہونے کے بعد جنرل ڈائر نے زخمیوں اور لاشوں کو اسی حالت میں پڑا رہنے دیا۔ اس کے فوراً بعد امرتسر، لاہور اور پنجاب کے دوسرے علاقوں میں مارشل لا نافذ کردیا گیا۔
جنرل ڈائر کی سفاکی کی کہانی اسی پر ختم نہیں ہوتی کہ ایک سماجی قسم کی برطانوی انگریز عورت مس شیروڈ امرتسر شہر کی گلی ’کوچہ کرچیاں‘ میں سائیکل پر گزر رہی تھی، اسے کسی ہندو غنڈے نے ڈنڈا دے مارا۔ وہ سائیکل سے اتر کر بھاگی، تو اس کا تعاقب کرکے اسے پیٹاگیا۔ اس کے بے ہوش ہونے پر غنڈے چلے گئے، تو بعض لوگوں نے اسے اٹھا کر اسپتال پہنچایا۔ چند دن بعد وہ واپس انگلینڈ چلی گئی۔ برطانوی عورت مس شیروڈ پر جس گلی میں حملہ کیا گیا تھا، پابندی لگادی گئی کہ اُس گلی سے آئندہ ہر ہندوستانی شخص ہاتھ پائوں کے بل چوپایوں کی طرح رینگ کر گزرا کرے گا۔ اس تذلیل کا نشانہ زیادہ تر گلی میں مقیم وہی لوگ بنے جنہوں نے اس انگریز عورت کو پناہ دی تھی اور بعد میں اسے بحفاظت انگریزوں کے پاس پہنچا دیا تھا۔ 15 اپریل سے پنجاب میں مارشل لا نافذ کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد فوج نے کیا کچھ نہ کیا! 14 برس کے بچوں کو ٹکٹکی میں باندھ کر 20۔20 کوڑے مارے گئے۔ ایک پوری بارات کو مع دولہا بلاوجہ کوڑوں سے پِیٹ ڈالا گیا۔ عورتوں کی بے حرمتی کی گئی۔ لاہور کے کالجوں کے طلبہ کو حکم دیا گیا کہ تین ہفتے تک دن میں چار مرتبہ تقریباً سولہ میل سفر کرکے منٹو پارک میں دھوپ میں کھڑے ہوکر حاضری دیا کریں۔ ہندوستانیوں کو حکم دیا گیا کہ موٹر کاریں، موٹر سائیکلیں، بائیسکلیں، بجلی کے پنکھے اور لیمپ وغیرہ سب کچھ فوج کے حوالے کردیں۔ نیز لاٹھی لے کر چلنا، یا پاس رکھنا بھی ممنوع قرار دے دیا گیا۔ مارشل لا کے احکام کے پوسٹر لوگوں کے گھروںکے باہر لگا دیئے جاتے اور انھیں مجبور کیا جاتا کہ ان کی حفاظت کے ذمہ دار بنیں۔ چنانچہ سرفضل حسین، خلیفہ شجاع الدین اور پیر تاج الدین جیسے لوگوں کو بھی ایسے پوسٹروں کی حفاظت کے لیے دن رات خود پہرہ دینے کی ذلت آمیز مشقت برداشت کرنا پڑی۔
دیال سنگھ کالج کی بیرونی دیوار پر قابلِ اعتراض قسم کا پوسٹر چسپاں کیے جانے پر پرنسپل کو دھر لیا گیا اور 250 روپے جرمانہ وصول کرکے چھوڑا گیا۔ اس کے بعد کالج کے لڑکوں نے پہرہ دیا اور ایک شخص کو ایسے ہی پوسٹر چسپاں کرتے ہوئے پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا۔ مگر پولیس نے اس شخص کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی۔ گویا وہ تخریب کار پولیس کا اپنا آدمی تھا۔ جنرل ڈائر نے جبر و تشدد کے ذریعے عوام کو دبانے کی جس پالیسی پر عمل کیا اُسے اپنانے میں دوسرے انگریز افسروں نے بھی دریغ نہ کیا۔ انہوں نے جنرل ڈائر کی مثال پر عمل کرتے ہوئے نئے نئے نادر شاہی احکام صادر کیے۔ گوجرانوالہ کے تمام باشندوں کے لیے لازمی قرار دیا گیا کہ وہ بلاتاخیر ہر انگریز باشندے کو جھک کر سلام کیا کریں۔ اس سے بھی زیادہ ذلت آمیز رویہ قصور کے ایڈمنسٹریٹر کا تھا۔ اس نے شہر کے باشندوں کو حکم دیا کہ وہ انگریزوں کے رو برو سجدہ کیا کریں۔ ان احکامات کی بازگشت برطانوی پارلیمنٹ میں بھی سنی گئی اور خود پارلیمنٹ کے ارکان نے اس انسانیت سوز سلوک پر سخت احتجاج کیا، جس پر یہ احکام منسوخ کردیئے گئے۔
جلیانوالہ باغ کے حادثے اور اس رسوا کن حکم پر نہ صرف پورے ہندوستان میں شدید ردعمل ہوا بلکہ خود برطانوی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی۔ دنیا کے ہر کونے سے اس بہیمیت کی شدید مذمت کی گئی۔ خود برطانوی پارلیمنٹ میں اُس وقت کے وزیر جنگ سرونسٹن چرچل نے اس دل دہلا دینے والے واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ چرچل نے کہا: ’’یہ ایک ایسا گھناؤنا فعل ہے جس نے پورے برطانوی وقار کو دائو پر لگا دیا ہے۔ جلیانوالہ باغ میں موجود لوگ بالکل نہتے تھے، وہ نہ تو مشتعل تھے، نہ ہی کسی قسم کی تخریبی کارروائی میں مصروف تھے۔ نہتے عوام اور مسلح باغی گروہ میں بڑا فرق ہوتا ہے، ایک برطانوی غیر ذمہ دار افسر نے نہتے عوام پر گولی چلا کر جس گھناؤنے اقدام کا ارتکاب کیا ہے مَیں اس کی کسی حالت میں تائید نہیں کرسکتا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہم نے جنگِ عظیم کے دوران جرمن قیدیوں کے ساتھ بھی سخت سلوک کی اجازت نہیں دی تھی حالانکہ وہ ہماری جان کے دشمن تھے۔ لیکن امرتسر کا واقعہ ایک ایسی درندگی ہے جس نے ہمیں دنیا بھر کی نظروں میں گرا دیا ہے۔‘‘
حادثے کی تحقیقات
یہ حادثہ اتنا بڑا تھا کہ اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ شدید عوامی دبائو کے پیش نظر حکومت نے لارڈ ہنٹر کی زیر قیادت ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی۔ اس کے باقی ارکان میں جسٹس رینکن، مسٹر رائس ایڈیشنل ہوم سیکریٹری، میجر جنرل سر جارج برو، پنڈت جگن نرائن، مسٹرٹامس اسمتھ، سر چمن لال سیتلواڈ اور صاحبزادہ سلطان احمد شامل تھے۔ مگر کانگریس نے موتی لال نہرو کی زیر صدارت اپنی علیحدہ کمیٹی قائم کردی۔ اس کمیٹی کے دیگر ارکان مسٹر گاندھی، عباس طیب جی، سی آر داس، مولوی فضل الحق، پنڈت سنتانم اور ایم آر جیگار تھے۔
دورانِ مقدمہ عجیب و غریب انکشافات ہوئے۔ امر تسر کیس میں ایک سابق ٹکٹ کلکٹر ہنس راج کا کردار عجیب سا تھا۔ بینکوں کو لوٹنے اور انگریز ملازمین کو قتل کرنے والوں میں وہ بھی شامل تھا۔ اس حادثے سے ایک روز قبل 12 اپریل کو ایک اسکول میں رولٹ ایکٹ کے خلاف احتجاجی جلسے کی صدارت اس نے کی۔ 13 اپریل کے بدقسمت جلسے کا منتظم اعلیٰ بھی وہی تھا۔ وہ جلسے کا اعلان کرنے والے ڈھنڈورچی کے ساتھ رہا تھا اور اُس نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ جلسے میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ستیہ پال کی طرف سے موصولہ پیغام پڑھ کر سنائے گا۔ جب گولی چلی تو بھاگتے لوگوں سے اسی نے بآواز بلند کہا کہ ’’بیٹھ جائو ایہہ پھوکے فیر نیں‘‘ (بیٹھ جائو یہ خالی چلے ہوئے کا رتوسوں کے فائر ہیں)۔ لیکن دورانِ مقدمہ وہ سلطانی گواہ بن گیا!!!
کوتوال شہر نے رپورٹ دی تھی کہ شہر پر پولیس کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ مگر اسی رات سرکاری اعلان کے لیے وہ ایک چھاپہ خانہ کھلوا کر، راتوں رات پوسٹر چھپوا لایا۔ عوام کو پریشان کرنے کے لیے شہر میں 24 گھنٹے کے لیے بجلی اور پانی کی سپلائی روک دی گئی۔ اڈوائر اور کمشنر لاہور نے بغیر کسی قانونی جواز کے عام قانون کو معطل کرکے مارشل لا نافذ کردیا، حالانکہ اس کا اختیار صرف مرکزی حکومت کو تھا۔ معلوم ہوا کہ باغ میں مارے جانے والوں میں سے کئی ایک 14 اور 15 سالہ اور شیرخوار بچے بھی تھے۔
جرح کے دوران ڈائر کا رویہ عدالت کے لیے بڑا توہین آمیز رہا۔ بعض سوالات کے جواب میں اس نے صاف صاف کہا کہ ’’میرے سپاہیوں نے فائرنگ کی اور خوب کی‘‘۔ جسٹس رینکن کے معذرت خواہانہ سوال ’’جنرل مجھے پوری صورتِ حال کو اس طرح پیش کرنے پر معاف رکھیے گا لیکن جو کچھ ہوا وہ ایک حیثیت سے خوفناک، وحشت انگیز اور بھیانک نہیں تھا؟‘‘ ڈائر نے جواب دیا ’’نہیں، ہرگز نہیں۔ یہ ایک ناخوشگوار فرض تھا جو مجھے انجام دینا پڑا۔ میرا خیال ہے جو کچھ میں نے کیا، رحم دلانہ تھا۔ میں نے طے کیا کہ مجھے خوب اچھی طرح گولی چلانی چاہیے تاکہ مجھے یا کسی اور کو گولی نہ چلانی پڑے۔ میں مجمع کو گولی چلائے بغیر بھی منتشر کرسکتا تھا، لیکن اس طرح وہ دوبارہ اکٹھے ہوجاتے اور مذاق اڑاتے۔ اس طرح میرا خیال ہے کہ میں اپنے آپ کو بے وقوف بناتا۔‘‘
ایک اور جگہ اس نے کہا کہ میں نے انھیں خوب سبق سکھایا۔ اور واقعی ہندوستانی اس سبق کو اُس وقت تک نہیں بھولے جب تک انگریز کو ملک سے بوریا بستر لپیٹ لینے پر مجبور نہیں کردیا۔
ہنٹرکمیٹی کا طریق کار بھی سامراجی ذہنیت کی پوری نمائندگی کرتا تھا۔ عوام کو شہادت پیش کرنے کا کوئی حق نہیں دیا گیا۔ گویا تمام گواہ سرکاری تھے۔ البتہ گواہوں کے تحریری بیان پر بعد میں جرح ہوسکتی تھی۔ عوامی احتجاج پر شہریوں کو اپنے صرف ایک نمائندے سر فضل حسین کے ذریعے شہادتیں قلم بند کروانے کا حکم دیا گیا۔
سرکاری گواہوں پر جرح کے لیے وکلا کی ایک کمیٹی بنادی گئی۔ یہ کمیٹی لالہ ہرکشن لال کی کوٹھی (موجودہ فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور) میں مقدمے کی تیاری کرتی اور انھوں نے ہی اس کے تمام اخراجات برداشت کیے۔ چنانچہ اس تیاری کی بنا پر کمیشن کے رکن پنڈت جگن نرائن نے گواہوں پر خوب حملے کیے۔
خاص عدالت میں سینکڑوں افراد پر مقدمہ چلایا گیا۔ 5 افراد کو سزائے موت، 46 کو عمرقید، 27 کو دس سال، 79 کو سات سال اور 10 کو پانچ سال تک سزائے قید ہوئی۔ اس کے علاوہ مارشل لا کے تحت 74 افراد کو سزائے موت اور 61 کو عمر قید کی سزا دی گئی۔ نیز 1229 کو دیگر مختلف قید کی سزائیں ہوئیں۔ ماخوذ پانچ ہزار سے زائد تھے، تاہم بعد میں سب کو معافی دے دی گئی۔ یاد رہے کہ ان ہنگاموں میں صرف سات یورپین ہلاک ہوئے۔
دوسری طرف بریگیڈیئر ڈائر کو جو کہ اب تک اس ’’خدمت‘‘ کے صلے میںجنرل بنایا جا چکا تھا، بغیر پنشن کے ریٹائر ہونے کی سزا دی گئی، جو نہ ہونے کے برابر تھی۔ مگر جب وہ انگلینڈ گیا تو اس کا قومی ہیرو کے طور پر استقبال کیا گیا۔ انگریز عوام نے اسے اعزازی تلوار پیش کی۔ یاد رہے کہ یہ اعزازی تلوار یہاں ہندوستان میں مقیم انگریزوں نے بھی اس سے قبل اُسے پیش کی تھی۔ مارننگ پوسٹ نے اس کے لیے ایک فنڈ جاری کردیا جس میں چند دنوں کے اندر اندر تیس ہزار پونڈ جمع ہوگئے۔ بعد ازاں اُس پر پارلیمنٹ میں مقدمہ چلا، اور اسے الزامات سے بری کرکے پنشن بھی دے دی گئی۔ یہ سب کچھ ہندوستان والوں سے سنگین مذاق تھا۔ لیکن دورانِ مقدمہ اُس پر اتنی شدید تنقید ہوئی کہ اس کے اعصاب جواب دے گئے اور وہ سخت ذہنی پریشانی کے عالم میں مرا۔
مائیکل اڈوائر اور پنجاب کی آئندہ سیاست کی بنیادیں
جلیانوالہ باغ کے انسانیت سوز حادثے کے اصل مجرم سرمائیکل اڈوائر کو، ہنٹر کمیٹی نے بالکل معمولی مجرم قرار دے کر کوئی سزا نہ دی۔ وہ مئی 1919ء میں گورنری کے چھ سال پورے کرکے واپس چلا گیا۔
اڈوائر کا اصل جرم حادثۂ جلیانوالہ سے بھی زیادہ سنگین تھا۔ اس نے پنجاب کی سیاسی تاریخ پر اپنی پالیسی سے بڑے دوررس اثرات مرتب کیے تھے۔ جلیانوالہ باغ کا واقعہ جس تحریک کے نتیجے میں ظہور میں آیا وہ رولٹ ایکٹ کے خلاف ایجی ٹیشن کی صورت میں شروع ہوئی تھی۔ مارچ 1919ء کے آخری ہفتے میں حکومت نے یہ قانون اسمبلی سے منظور کرالیا، جس کے ذریعے حکومت کو تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے جابرانہ اختیارات حاصل ہوگئے تھے۔ اس قانون کی منظوری کے خلاف احتجاج کے طور پر قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 28 مارچ کو مجلس قانون ساز سے استعفیٰ دے دیا اور اُس وقت کے گورنر جنرل کو ایک زوردار خط لکھ کر استعفیٰ بھیج دیا۔ قائداعظم ؒ کے اس اقدام کے بعد مسٹر گاندھی نے 30 مارچ کو ملک بھر میں ہڑتال کی اپیل کی، اور اس طرح ملک بھر میں ایجی ٹیشن شروع ہوگیا۔
مائیکل اڈوائر کے بارے میں یہ بات بالکل حقیقت ہے کہ وہ صحیح معنوں میں ’’شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار‘‘ قسم کا سامراج کا نمائندہ تھا۔ تحریک آزادی کا وہ شدید مخالف تھا۔ اس نے پنجاب میں آتے ہی دیہاتی اور شہری کی مغائرت اور منافرت کا بیج بویا۔ اس نے بظاہر دیہاتیوں کی ہمدردی کی اور انہیں بعض مراعات بھی دیں، اور کہا کہ پڑھے لکھے شہری ان کے حقوق غصب کیے جارہے ہیں۔ وکلا، طلبہ، پروفیسر اور صحافی سب اس کے نزدیک گردن زدنی تھے کہ یہ لوگ حکومت کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ اسی کے عہد میں بابائے صحافت مولانا ظفر علی خاں کے اخبار ’’زمیندار‘‘ اور بعض دیگر اخبارات و رسائل کی ضمانتیں ضبط ہوئی تھیں اور کئی دوسرے اخبارات کا پنجاب میں داخلہ بند ہوا تھا۔
1916ء میں وائسرائے کو آئینی اصلاحات کی تجاویز پیش کرنے والے 19 ارکان اس کے نزدیک امریکہ کی غدر پارٹی سے کم نہیں تھے۔ چنانچہ جب 19 ارکان کی یادداشت کی حمایت میں پنجاب میں جلسہ ہوا تو اس نے منتظمینِ جلسہ کو طلب کرکے بری طرح ڈانٹا اور بعض لیڈروں کا پنجاب میں داخلہ بند کردیا، جن میں قائداعظم محمد علی جناح جیسے آئین پسند بھی تھے۔
اس نے پنجاب میں آتے ہی جو تقریر کی اُس کے چند الفاظ یوں تھے: ’’مجھے حکومت کا انتظام سنبھالے ابھی کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا کہ لوگوں نے مجھے صوبے کے نظم و نسق میں اصلاح اور حکومتِ خوداختیاری کے نفاذ کی تجاویز بھیجنا شروع کردی ہیں… میں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ اس قسم کی خیالی اور غیر حقیقی باتیں کتنی ہی دل کش کیوں نہ ہوں مگر حکومت کا اصل مقصد لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کرنا ہے۔‘‘
اس نے شہری اور دیہاتی کا سوال صرف اس لیے پیدا کیا تاکہ مرکز کو یقین دلا سکے کہ آئینی اصلاحات کا تقاضا ایک حقیر سی پڑھی لکھی اقلیت کا ہے، ورنہ دیہات میں رہنے والی عظیم اکثریت کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔
مانٹیگو چیمسفورڈ اصلاحات کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ سمجھا کہ شاید مسٹر مانٹیگو پاگل ہوگیا ہے جو اس قسم کی باتیں کررہا ہے۔ لکھتا ہے: ’’یہ لوگ (وزیر ہند اور اس کے ساتھی) مہینوں دہلی میں بیٹھے وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے ارکان سے گفتگو کرتے رہے۔ ان کے صبرو تحمل کی داد دینی چاہیے کہ ہندوستان کی مختلف انجمنوں سے آئے ہوئے تجاویز کے انبار کو انھوں نے چھان مارا… یہ لوگ تو ایک اسکول بھی نہیں چلا سکتے چہ جائیکہ حکومت چلانے کے اصول وضع کریں… اور خود فریبی کی انتہا دیکھیے کہ مسٹر مانٹیگو اور ان کے رفیق بھی ان کی اہمیت کے قائل ہوتے جاتے ہیں…
یہ تحقیقاتی کارروائی نومبر 1917ء سے اپریل 1918ء تک جاری رہی، مگر کسی نے اس دوران خیال نہ کیا کہ دیہات کے ان بدنصیبوں سے پوچھ لیا جائے جن کی زندگی ہل جوتنے اورفصل بونے میں گزر جاتی ہے… پھر تلک (بال گنگادھرتلک) جیسے لوگ اجازت ملنے پر انگلستان بھی چلے گئے تاکہ حسبِ منشا اصلاحات کا مسودہ تیار کروا سکیں۔ لیکن مشکل پنجاب کے دیہاتیوں کے لیے تھی جن کے پاس تنظیم تھی، نہ سرمایہ اور نہ پروپیگنڈے کے وسائل۔ اور انہوں نے جب اپنا ایک نمائندہ انڈیا آفس بھیجنا چاہا تو اجازت دینے سے انکار کردیا گیا… یہ طرزعمل یقینا برطانوی قوم کی دیانت کے دامن پر ایک سیاہ دھبّہ ہے۔
1917ء میں مرکزی کونسل کے اجلاس میں سرمحمد شفیع نے ایک تجویز پیش کی کہ بہار اور اڑیسہ کی طرح پنجاب میں بھی عاملہ اور مقننہ کو باہم ملا دینا چاہیے تو اڈوائر نے ایک طویل تقریر جھاڑ دی کہ’’ آج کل سیاسی تقریروں کا شور سن سن کر ہمارے کان بہرے اور یادداشتیں دیکھ دیکھ کر آنکھیں چندھیائی جا رہی ہیں۔ کیا یہ مناسب نہیں کہ اس طوفانِ بدتمیزی کو ختم کرکے یہ بھی سوچا جائے کہ اس سیاسی شعبدہ بازی سے غریب دیہاتیوں کو کیا فائدہ پہنچے گا۔‘‘
اس تقریر کے دوران اسے ہندوستانی ارکان نے بار بار ٹوکا اور بالآخر قائداعظم محمد علی جناح، مسٹر مظہر الحق اور پنڈت مالویہ بطور احتجاج واک آؤٹ کر گئے۔ اڈوائر کی اس بدتمیزی کو خود وائسرائے نے بھی محسوس کیا اور اس نے اڈوائر کو لفظ واپس لینے اور معافی مانگنے پر مجبور کردیا۔
اصلاحات کے خاکے کے ساتھ 1918ء میں اس نے اپنا اختلافی نوٹ بھی لکھا کہ مسٹر جناح، بال گنگا دھرتلک، راجا صاحب آف محمود آباد اور پنڈت مالویہ خودغرض اور شورش پسند لوگ ہیں۔ اصلاحات کا مطالبہ ایک ناقابلِ ذکر اقلیت کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔ سیاسی لیڈروں کے شور و شغب کو نظرانداز کرکے ہندوستان کی بے زبان مخلوق کے مفاد کو ترجیح دینا چاہیے۔ برک کی بیان کردہ تمثیل کو دہراتے ہوئے، ان کا شور ایسے ہی ہے جیسے ایک کھلے میدان میں نصف درجن ٹڈّے کسی جھاڑی کے نیچے سَر دیئے اپنے مکروہ شور سے آسمان سر پر اٹھا لیں اور سمجھا جائے کہ اس میدان میں صرف وہی ٹڈّے آباد ہیں، حالانکہ وہاں سینکڑوں گائے، بھینسیں بڑے آرام سے جگالی کررہی ہیں۔‘‘
اڈوائر کی پالیسی نے صرف شہری اور دیہاتی کا سوال ہی پیدا نہیں کیا بلکہ اس دور میں راجپوتوں، جاٹوں، اعوانوں، مغلوں، پٹھانوں، آرائیوں غرضیکہ ہر برادری نے اپنی اپنی انجمنیں بنا لیں، اپنی داخلی اصلاح کے لیے نہیں بلکہ سیاسی حقوق میں اپنا متناسب حصہ بانٹنے کے لیے۔ اور عملاً ایسا ہی ہوا۔
نئے انتخابات میں پنجاب میں مسلمانوں کی چونتیس نشستوں میں سے صرف پانچ شہری حلقوں سے پانچ نشستیں مسلم لیگ کو حاصل ہوئیں۔ اور ظاہر ہے دیہاتی حلقوں میں سے سوائے حکومت کے ازلی کاسہ لیس جاگیرداروںکے اور کون منتخب ہو سکتا تھا! اس نے 1917ء میں بعض بڑے زمینداروں کو بلا کر حکم دیا کہ مسلم لیگ کے سالانہ جلسے میں شرکت نہ کریں، اور یہ کہ دیہات میں کوئی شخص مسلم لیگ کی تبلیغ کرے تو اسے پولیس کے حوالے کردیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دیر تک پنجاب میں مسلم لیگ شہریوں اور پڑھے لکھے لوگوں کی جماعت سمجھی گئی اور دیہات میں بالکل غیر معرو ف رہی۔ اس کی جگہ رسوائے زمانہ یونینسٹ پارٹی نے جنم لیا، اور اسی چیز نے سر سکندر حیات کو مسلم لیگ میں رہتے ہوئے بھی مسلم لیگ ہائی کمان کا ہمیشہ باغی رکھا۔ حتیٰ کہ قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی بھی پنجاب میں کوئی نہ سنی گئی۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ یہاں مسلمان اکثریت میں ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ ہندو اقلیت کے ماتحت رہے اور پنجاب کو بھی تقسیم ہونا پڑا۔
اس کے برعکس مسٹر مانٹیگو اور چیمسفورڈ وقت کے تقاضوں کو خوب سمجھ کر اصلاحات کی طرف گامزن تھے۔ بعد میں مسٹر مانٹیگو نے کتنی ہی مرتبہ اڈوائر کی اس پالیسی پر کڑی نکتہ چینی کی اور اسے برطانوی مفاد کے لیے تباہ کن قرار دیا۔ اس نے 29 اپریل 1920ء کو وائسرائے ہند کو لکھا: ’’یا تو ہم ہندوستان پر اڈوائر کی طرح حکومت کریں یا پھر اور طرح۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر آپ نے اڈوائر کا طریقہ اختیار کیا تو ہزاروں مشکلات پیدا ہوں گی… ایک دن کا امن قائم رکھنے کے لیے دس سال کے لیے فتنہ و فساد کا دروازہ کھول لیا جائے گا۔‘‘ پھر اس نے 14 جولائی کو لکھا: ’’ہمیں اڈوائر سے نسبتاً سخت سلوک کرنا چاہیے تھا۔ اب میں اس شخص کو پہچان گیا ہوں۔ ہندوستان میں جو ہمارا حال خراب ہوا ہے اُس کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ میں سمجھا کہ اس کی نمایاں جنگی خدمات کے پیش نظر اس کے عیوب سے چشم پوشی کرلینی چاہیے، اور مجھ پر یہ الزام عائد ہوتا ہے کہ میں نے اس کے ساتھ مناسب سخت سلوک نہیں کیا۔‘‘
مائیکل اڈوائر کی جنگی خدمات کیا تھیں؟ فوج کے لیے جبری بھرتی… انہی دیہاتیوں میں سے جبری بھرتی، جن کی ’’ہمدردی‘‘ اسے بے چین کیے دے رہی تھی۔ چنانچہ کُل ہند سے دورانِِ جنگ 7 لاکھ 28 ہزار نوجوان بھرتی ہوئے جن میں سے صرف پنجاب سے 3 لاکھ 39 ہزار تھے۔ اور اسی جبری بھرتی کے دوران ضلع شاہ پور (موجودہ سرگودھا)، مظفر گڑھ، کرنال اور گوجرانوالہ میں اچھے خاصے ہنگامے اور افسران کے خلاف بلوے بھی ہوئے۔ (بحوالہ ’’اقبال کے آخری دوسال‘‘ از ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی، پہلے دو باب۔ ناشر اقبال اکیڈمی میکلوڈ روڈ لاہور)
اڈوائر کا انجام
اڈوائر چلا گیا مگر ہندوستان اور خصوصاً پنجاب کو جلتا چھوڑ کر۔ بقول وکٹر ہیوگو ’’آزادی کا بیج ہمیشہ جوروظلم کے پانی کی آبیاری سے بارآور ہوتا ہے۔ غلام ہندوستان اڈوائر اور اس کی قوم سے بقدر اس کی زیادتیوں اور مظالم کے انتقام نہیں لے سکتا تھا۔ نہ جانے کتنے دلوں کو اب تک یہ کسک تڑپا رہی ہوگی! تاہم اڈوائر سے غلام ملک کے ایک آزاد فرد نے انفرادی طور پر انتقام ضرور لے لیا۔
31 مارچ 1940ء کو انڈیا ہاؤس نے اڈوائر کو ایک اعزازی دعوت دی۔ ابھی وہ ہندوستان میں اپنی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے چند کلمات ہی ادا کرپایا تھا کہ ہال کے ایک کونے سے ریوالور کی 6 گولیاں اس کا سینہ چیرتی ہوئی نکل گئیں۔ اڈوائر اوندھے منہ گر پڑا اور ساتھ ہی فائرنگ کرنے والے نے نعرہ بلند کیا ’’شہدائے جلیانوالہ باغ… زندہ باد‘‘، ’’برطانوی ملوکیت مُردہ باد‘‘۔
رام محمد سنگھ آزاد کا اصل نام اودھم سنگھ تھا۔ وہ 26 دسمبر 1899ء کو پٹیالہ ریاست کے ایک قصبے سنام میں پیدا ہوا تھا۔ اس کا والد ٹہل سنگھ ریلوے پھاٹک کا چوکیدار تھا۔ بچپن میں ہی وہ یتیم ہوگیا تو اسے یتیم خانے میں داخل کردیا گیا اور وہیں اس نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔
یتیم خانے سے نکل کر وہ ایک سکھ ٹھیکے دار کے ہمراہ امریکہ چلا گیا۔ وہاں سے واپس آیا اور چند ماہ افریقہ میں رہ کر پھر امریکہ چلا گیا۔ وہاں غدر پارٹی والوں سے مل گیا۔ اسی دوران ہندوستان میں اس کی خط کتابت اور مراسلت بھگت سنگھ اور چندر شیکھر آزاد سے ہوئی۔ انھی کی دعوت پر وہ رام محمد سنگھ نام رکھ کر ہندوستان آیا، مگر گرفتار ہوگیا۔ چار سال قید اور ضبطیِ جائداد کی سزا ہوئی۔ رہا ہوکر ہیرا پھیری سے نکلا اور سوئٹزرلینڈ اور فرانس سے ہوتا ہوا انگلینڈ پہنچ گیا۔ آخر 31 مارچ 1940ء کو (سانحہ جلیانوالہ باغ کے تقریباً 21 سال بعد) اسے اپنا حلف پورا کرنے کا موقع ملا۔ انگلستان کی عدالت میں اس پر مقدمہ چلا اور 11 جون 1940ء کو اسے پھانسی کی سزا سنا دی گئی، جس پر 13 جون کو عمل درآمد بھی ہوگیا۔ اس نے اعترافِ جرم کرتے ہوئے کہا ’’اگر میں ایسا نہ کرتا تو اپنے فرائض سے کوتاہی کرتا۔‘‘