’’ازمنہ وسطیٰ کی عظیم فرانسیسی رزمیہ نظم میں عیسائیوں اور ’سیراسن‘ (عرب کے خانہ بدوش) کی جنگی داستان گوئی کی گئی ہے، یہ جنگ اسپین میں لڑی گئی۔ نظم کا عنوان Chanson de Roland ہے۔ مسیحی شاعر اپنے پڑھنے اور سننے والوں کے سامنے ’سیراسن‘ مذہب کا تعارف پیش کرتا ہے۔ اس وژن کے مطابق ’سیراسن‘ تثلیث کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ تثلیث محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) یعنی اس مذہب کے بانی، اور دیگر دو بُرائی کی قوتوں پر مشتمل ہے، دیگر دو بُرائی کی قوتیں Apollin اورTervagent ہیں۔ ہمیں یہ مزاحیہ سا خاکہ لگتا ہے، کہ ازمنہ وسطیٰ کا ایک آدمی ایک دوسرے مذہب کو اپنے تصورِ مذہب سے باہر سمجھ ہی نہ سکتا تھا۔ کیونکہ عیسائیت میں تثلیث کا تصور تھا، اس لیے ’سیراسن‘ کے لیے بھی ضروری تھا کہ مذہب کا ایک بانی ہو اور ساتھ دو مزید کردار ایسے ہوں جو تثلیث کی ضرورت پوری کرسکیں۔ ازمنہ وسطیٰ سے دورِ جدید تک اسلام کی فطرت سے مسلسل لاعلمی کا مظاہرہ کیا گیا ہے، اور اس کی تفہیم سے لاپروائی برتی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ ’مسلمان‘ کی پہچان کے لیے اختیار کیے گئے نام غیر مذہبی اور غیر متعلقہ ہیں۔ کئی صدیوں تک مشرق و مغرب کی عیسائی دنیا مسلمانوں کو ’سیراسن‘ پکارتی رہی ہے، جو قطعی طور پر نسلی اور قبل از اسلام کی اصطلاح ہے۔ جزیرہ نما آئبیریا میں مسلمان مراکش سے آئے تھے، اس لیے وہ Moors کہلائے۔ یورپ کے اکثر مقامات پر مسلمان ’ترک‘ سمجھے اور پکارے گئے۔ کہیں یہ ’تاتار‘ کہلائے گئے۔ یہاں تک کہ جب یورپ نے اسلام کو پہچاننا شروع کیا، تب بھی اسلام ’محمڈنزم‘ اور مسلمان ’محمڈن‘ ہی رہے۔ اسلام کی یہ غلط تشریح اور عیسائیت کا عکس کئی طریقوں سے مغربی دنیا میں رائج رہا ہے۔ یہاں تک کہ مؤرخ گبن نے پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کو وطن پرست ظاہر کیا ہے۔ اسلام کے لیے ہر اصطلاح اور تعریف کی تمثیل عیسائیت سے مہیا کی گئی ہے، جیسے کرسچن فرائیڈے کی جگہ مسلم فرائیڈے سامنے آیا، اور قرآن ’مسلم بائبل‘ لکھا گیا۔‘‘
معروف ماہر استشراقیت ایڈورڈ سعید مضمونIslam Through Western Eyes میں کہتے ہیں کہ قرون وسطیٰ سے آج تک یورپ اور پھر امریکہ کی تاریخ میں کوئی ایسا دور نہیں گزرا جب اسلام پر عام گفتگو یا مباحثہ ہوا ہو۔ اسلام کا تصور تعصب، نفرت، اور سیاسی مفادات کے مخصوص سانچے میں ہی پیش کیا گیا۔ انیسویں صدی کے اوائل میں بھی مغربی علمی حلقے اور سائنسی اسلوب میں استشراقیت کا گزر نہیں ملتا۔ یورپ لاعلمی اور توہم پرستی کے زمانوں سے جدید عہد میں داخل ہوا، تب بھی علمی اصولوں پر مبنی استشراقیت شریکِ سفر نہ تھی۔ Silvestre de Sacy, Edward Lane, Ernest Renan,اور Hamilton Gibb جیسے بڑے نام بیسویں صدی میں علوم کے بڑے معرکے طے کررہے تھے۔ سوشیالوجی، لسانیات، اور تاریخ پر تیزی سے کام ہورہا تھا۔ امریکی دانشور اور استاد پرنسٹن، اور ہارورڈ جیسی جامعات میں مشرق وسطیٰ اور اسلام پڑھا رہے تھے، مگر اسلام سے تعصب کا منظم اسلوب قائم رہا۔ غیر جانب دار تحقیقات پر اسلام مخالف جذبات حاوی رہے۔ اگر آپ کسی پڑھے لکھے مغربی شخص سے پوچھیں کہ وہ کسی ایک مسلمان مصنف یا دانشور کا نام بتائے، تو شاید وہ خلیل جبران (عیسائی لبنانی ادیب) کا نام لے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
برنارڈ لوئیس اور ایڈورڈ سعید مغربی دنیا کے وہ معروف نام ہیں جو علمی حلقوں میں معتبر سمجھے جاتے ہیں۔ اپنی آخری آمد سے آج تک ’اسلام‘ کا تاریخی تعارف اور تفصیل صریح علمی بددیانتی کا شکار رہی ہے۔ یورپی تعصب کا دبیز پردہ اصل اسلام کے تعارف میں حائل رہا ہے۔ جب کہ یہ تعارف نہ صرف تکمیلِ تاریخ کے باب میں ناگزیر ہے بلکہ تکمیلِ تہذیب کا وہ واحد نمونہ بھی ہے، جس میں انسانیت کے لیے نجاتِ ابدی ہے۔ بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اندلس اور صلیبی جنگوں تک پھیلے اس عہدِ زریں کا بے مثال تعمیری کردار انتہائی غفلت اور بے دردی سے دھندلا دیا گیا ہے۔ جب کہ داخلی سیاست کی کشمکش اور خاندانی و نسلی رنجشوں کو پوری اسلامی تاریخ پر یوں پھیلا دیا گیا ہے کہ سارا تہذیبی جمال معدوم ہوکر رہ گیا ہے۔ مغرب میں اس تعارف کی ایک سعی برطانوی مؤرخ رابرٹ بریفالٹ نے اُس وقت کی (1919ء)، جب مسلم دنیا علمی بدحالی میں مبتلا تھی، مسلمان بزرگ برطانوی سامراج سے ’سر‘ کا خطاب پانے کی سرتوڑ کوششیں کررہے تھے۔ ’تشکیلِ انسانیت‘ صفحہ 247 سے 279تک وہ مسلم تہذیب کی محدود مگر کیا ہی خوب جمالیاتی منظرکشی کرتے ہیں:
’’کوئی تصور اس سے زیادہ بعید از صداقت نہیں کہ اسلام کے متعلق یہ سمجھا جائے کہ وہ ایک قسم کی ’مہدی بغاوت‘ تھی، اور وحشی ’درویشوں‘ کا جہاد تھا جو مذہبی جنون کے تحت آگ بگولا ہورہے تھے۔ جن تجربوں کی وجہ سے یہ تصورات قائم کیے جاتے ہیں، وہ سب بعد کے زمانے کی باتیں ہیں جب اسلام کی اصل تہذیب پیوندِ خاک ہوچکی تھی۔ اسلام اپنی ابتدا میں اور اپنے زمانہ عروج و کمال میں اس سے بہت مختلف تھا۔ خلفائے راشدین کے زمانے میں یہ حال تھا کہ مدینہ منورہ کے بازاروں میں متعجب حاجیوں کو ’امیرالمومنین‘ دکھائے جاتے تھے، جو ایک پھٹا ہوا جبہ پہنے تلوں کی روٹی پیاز کے ساتھ کھارہے ہوتے، اور جب فاروق اعظم (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے مفتوح یروشلم کی بیعت و اطاعت قبول کرنے کے لیے اونٹ پر سفر کیا تو صرف ایک خادم ساتھ تھا۔ کھجوروں کا ایک تھیلا زادِراہ تھا۔۔۔ وہ شان و شکوہ جو خلفائے اسلام کے اشارے پر جنات کی خیالی مخلوق کی طرح نمودار ہوگئی تھی، جس نے اپنی درخشاں ثروت اور نازک سحرکاری کو الف لیلہ کی تہذیب میں نمایاں کردیا تھا، اس کی روحیت میں کسی قدر قدیم ہیلانی اور کافرانہ لذتِ حیات بھی شامل تھی۔ یہ ایک ایسی لذتیت تھی جس کو بدویوں کی اعلیٰ متانت نے لطیف تر اور باوقار بنادیا تھا۔ یہ ایک فلسفیانہ سنجیدگی تھی۔۔۔ اس امر کی نہ کوئی مثال پہلے موجود تھی، نہ اب تک ہے کہ کسی وسیع سلطنت کے طول و عرض میں حکمران طبقے اتنے بڑے پیمانے پر حصولِ علم کی مجنونانہ خواہش سے سرشار ہوگئے ہوں۔۔۔ اہلِ علم کو بلا امتیازِ نسل و مذہب دوسرے سب لوگوں پر فوقیت دی جاتی تھی۔ اُن پر دولت و ثروت اور اعزازات کی بارش کردی جاتی۔ وہ ولایات کے حاکم تک مقرر کردیے جاتے۔ جب خلفاء کسی مہم یا سفر پر روانہ ہوتے، تو اہلِ علم کا ایک گروہ اور کتابوں سے لدے ہوئے اونٹوں کی قطار ہمراہ ہوتی۔۔۔ ہسپانوی خلافت قطعی طور پر مذہبی رواداری پر عامل تھی۔ اس لیے مسیحیوں کو پوری آزادی حاصل تھی۔ دارالخلافہ کے مفصلات میں بے شمار صومعے اور خانقاہیں موجود تھیں جو مسافروں کے لیے قیام گاہوں کا کام بھی دیتی تھیں۔ راہب عام طور پر قرطبہ کے بازاروں میں عام چلتے پھرتے نظر آتے تھے۔ یورپ کے تمام حصوں سے بے شمار طالبانِ علم روشنی کی تلاش میں عربوں کے عظیم علمی مراکز کا رخ کررہے تھے۔ کیونکہ یہ روشنی صرف ان ہی شہروں میں دستیاب ہوسکتی تھی۔ قرطبہ کا ایک پادری الوارو لکھتا ہے ’جتنے نوجوان مسیحی علم و استعداد کے اعتبار سے ممتاز ہیں وہ سب عربوں کی زبان و ادب سے باخبر ہیں۔ عربوں کی کتابیں ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔ زرِکثیر صرف کرکے عربوں کے عظیم کتب خانوں میں جمع ہوتے ہیں۔ ہر جگہ نہایت بلند آہنگی سے عربی ادب کی تحسین وتعریف کرتے پھرتے ہیں۔ ۔۔ جس طاقت نے مادی اور ذہنی دنیا کی شکل بدل کر رکھ دی، وہ ازمنہ متوسطہ کے اواخرکے کیمیادانوں اور طبی مدرسوں کے گہرے رابطے کی پیداوار تھی۔ یہ رابطہ بلا واسطہ اور صرف عربی تہذیب ہی کا نتیجہ تھا۔ پندرہویں صدی تک یورپ میں جتنی بھی سائنسی سرگرمی موجود تھی، وہ زیادہ تر عربوں کے علم و فضل سے ماخوذ تھی، اور اس پر کوئی خاص اضافہ نہیں کررہی تھی۔ پرتگال کے پرنس ہنری نے سینٹ ونسنٹ کی راس پر عرب اور یہودی استادوں کے زیر سایہ اپنی عظیم بحری اکادمی قائم کی، جس نے واسکو ڈی گاما کے لیے راستہ ہموار کیا، اور یورپ کو کرہ ارضی کے کناروں تک پھیلا دیا۔۔۔ عربوں نے ہندوستان، چین، ملاکا، اور ٹمبکٹو تک خشکی کے راستے کھول دیے۔ آخر الذکر مقام وسط افریقا کی تجارت کا مرکز قرار پایا۔۔۔ قرطبہ میں ایک لاکھ تیس ہزار ریشم باف کاریگرکام کرتے تھے۔ امرائے سلطنت کے ملبوسات اورمسیحی پادریوں کی مقدس عباؤںکے لیے کپڑا تیار کرتے تھے۔اس قسم کے منظر اکثر نظر آتے تھے کہ ایک بشپ گرجامیں نماز پڑھ رہا ہے جس کے حلہ عبادت پر قرآن مجید کی آیات نہایت نفاست سے کڑھی ہوئی ہیں۔ یورپ کی خواتین نے بھی عربی قمیص اور جبہ پہننا شروع کردیا تھا۔‘‘
یقیناً یہ مسلم تہذیب اور عرب ثقافت کے چند مظاہر ہیں، مکمل تعارف نہیں۔ رابرٹ بریفالٹ کی یہ کتاب اور باب بھی اب ان مظاہر کا واحد اظہار نہیں رہے۔ اسلامی تہذیب کی درخشاں تاریخ پر اب خاصا تحقیقی مواد سامنے آرہا ہے۔ وہ کیا جوہرِ خالص تھا، جس نے تاریخ میں پہلی بار تہذیبِ کامل کی صورت گری کی تھی۔ اس کے لیے سیرتِ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور علم وحی ’قرآن‘ سے رجوع کرتے ہیں۔ ’بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد‘ کی صورت حال کے لیے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی ’اسلامی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر‘ سے استفادہ کرتے ہیں ’’ایسے وقت میں کہ انسانیت پر نزع کا عالم طاری تھا، دنیا اپنے تمام ساز و سامان کے ساتھ ہلاکت کے مہیب و عمیق غار میں گرنے والی تھی، عین وقت پر اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی و رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا کہ اس جاں بلب انسانیت کو نئی زندگی بخشیں اور لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنیوں کی طرف لائیں۔ ’اے محمدؐ، یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ، ان کے ربّ کی توفیق سے، اُس خدا کے راستے پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے اور زمین اور آسمانوں کی ساری موجودات کا مالک ہے۔‘ (سورہ ابراہیم، آیت 1)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کو صرف ایک بندگی کی دعوت دی، اور دنیا کی ساری بندگیوں اور غلامیوں سے نجات دی۔ زندگی کی حقیقی نعمتیں دوبارہ ان کو عطا کیں اور طوق و سلاسل ان سے جدا کیے، جو انہوں نے بلا ضرورت اپنے اوپر ڈال لیے تھے۔ ’(یہ رحمت ان مومنین کے شاملِ حال ہوگی) جو لوگ اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی امی کہلاتے ہیں، جن کا ذکر وہ اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور پاکیزہ چیزیں ان کے لیے حلال اور ناپاک چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں، اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور (گلے کے) طوق اتارتے ہیں۔ پس جو ان پر ایمان لاتے ہیں، ان کی حمایت اور ان کی مدد اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘(اعراف157)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی میں صحابہ کرام کی ایمانی تربیت و تکمیل کا سلسلہ جاری رہا۔ قرآن برابر ان کے قلوب کو طاقت اور گرمی بخشتا رہا، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس سے انہیں استحکام ملتا رہا۔ خواہشاتِ نفس پر قابو، رضائے الٰہی کی سچی طلب، اور اس کی راہ میں خود کو مٹادینے کی آرزو، جنت سے عشق، اور احتسابِ نفس کی دولت حاصل ہوئی۔ یہ لوگ جس حال میں ہوتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے تھے۔ جس حال میں ہوتے اللہ کی راہ میں اٹھ کھڑے ہوتے۔ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں دس سال کے اندر ستائیس بار جہاد کے لیے نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سو سے زائد مرتبہ کمربستہ ہوکر میدانِ جنگ کی جانب گئے۔ ان کے لیے دنیا سے بے رغبتی آسان ہوگئی۔۔۔ مسلمانوں کی طبیعتوں کا یہ زبردست انقلاب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر انجام پایا اور مسلمانوں کے ذریعے سے انسانی معاشرے میں پیش آیا، انسانی تاریخ کا انوکھا واقعہ تھا۔ اس انقلاب کی ہر چیز انوکھی اور نرالی تھی۔ اس کی سرعت، اس کا عمق، اس کی وسعت و ہمہ گیری، اس کی وضاحت اور فہم ِ انسانی سے قرب، یہ سب اس محیرالعقول واقعہ کے نرالے پہلو تھے۔‘‘
علامہ اقبال رحمہ اللہ نے صحرانشیں انقلاب کی جو شاعرانہ منظر کشی کی ہے، بے مثال ہے۔
تمدّن آفریں، خلاّق آئینِ جہاں داری
صحرائے عرب، یعنی شتربانوں کا گہوارا
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرانشیں کیا تھے
جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیّل سے فزوں تر ہے وہ نظارا
حکومت کو تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئیں مسلّم سے کوئی چارا
انسانِ کامل صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تکمیلِ تہذیب کا وہ الٰہی فیصلہ تھا، جس پر ہدایتِ انسانی کا سلسلہ مکمل کیا گیا۔ یہ ہدایت ابدی ہے۔ تاقیامت انسانی تہذیب کا واحد امکان تعمیلِ قرآن ہی میں مضمر ہے، کوئی دوسری صورت نہیں۔ قرآن دو مقامات پر اس کی وضاحت و اعلان کرتا ہے۔ ’’ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ کہہ دیجیے: میرے پاس وحی آئی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے، تو کیا تم تسلیم کرتے ہو؟ پھر اگر انہوں نے منہ موڑ لیا تو کہہ دیجیے: ہم نے تمہیں یکساں طور پر آگاہ کردیا ہے اور جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ قریب ہے یا دور، یہ میں نہیں جانتا۔ اور وہ بلند آواز سے کہی جانے والی باتوں کو بھی یقیناً جانتا ہے اور انہیں بھی جانتا ہے جنہیں تم پوشیدہ رکھتے ہو۔ اور میں نہیں جانتا شاید اس (عذاب کی تاخیر) میں تمہاری آزمائش ہے اور ایک مدت تک سامانِ زیست ہے۔‘‘(سورہ الانبیا107۔111)
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کرلیا۔ (المائدہ 3)
تکمیلِ تہذیب کا یہ مقدمہ کچھ یوں ہے: معاشروں کا بناؤ اور بگاڑ جب مجموعی طور پر انحطاط پذیر ہوا، انبیاء ورسل کی نافرمانی کی گئی، انہیں قتل کیا گیا، اورصلیب دینے کی سعیِ نا مسعود کی گئی ۔اللہ رب العزت نے خاتم النبیین محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے انسانی تہذیب کی علمی اور عملی تکمیل فرمائی۔ کئی صدیوں تک اسلام نے دنیا کوعلم وہنر سے بہرہ مند کیا، انسانی تہذیب وتمدن سے آشنا کیا، عدلِ اجتماعی اور رواداری کا سبق دیا،جراتِ تحقیق دی، راہِ عمل دکھائی اورزادِ راہ ساتھ کیا۔ اسلامی تہذیب کا یہ اعجاز ہدایتِ الٰہی ’قرآنِ مبین‘ کی تعمیل وپیروی سے ممکن ہوا۔ قرآن سے دوری سے ہی یہ تہذیب معدوم ہوئی، اورمجموعی زوال کی صورت بنی۔