شہنشاہ بابر 6 محرم 888ھ، مطابق 1483ء کو پیدا ہوا، اور اس کی وفات 1530ء میں ہوئی۔ 11 سال کی عمر میں باپ کی وفات کے بعد سلطنت کا حکمران بنا۔ بابر کی اپنے چچائوں سے کشمکش رہی۔ 10 سال تک وہ اپنے صوبے میں لڑتا رہا، اور بالآخر 21 سال کی عمر میں کابل اس کے قدموں کے نیچے تھا۔ 1504ء میںکابل کا حکمران بنا اور اپنے لیے بادشاہ کا لقب اختیار کیا۔ بابر کی حکومت تاشقند سے کابل تک، غزنی سے سمرقند و بخارا تک، اور فرغانہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ 1526ء میں ابراہم لودھی کو شکست دے کر ہندوستان اس کے قدموں کے نیچے تھا۔ یہ اس کی 48 سالہ جدوجہدکا نتیجہ تھا۔ بابر 1530ء میں دنیا سے رخصت ہوا اور اپنے بیٹے ہمایوںکو تخت نشین کیا۔ بابر فارسی، ترکی اور عربی زبان پر عبور رکھتا تھا۔ موسیقی و فنِ انشاء میں اسے مہارت حاصل تھی۔ ہندی بھی جانتا تھا اور اعلیٰ درجے کا ناقد تھا۔ بابر خواجہ عبیداللہ احرار کا مرید بھی تھا۔ مشائخ سے عقیدت رکھتا تھا۔ بابر کا دیوان شاہی کتب خانہ رام پور میں موجود ہے۔ دیوان کے علاوہ مثنویاں بھی لکھی ہیں۔ بابر کی تصانیف اعلیٰ درجے کی ہیں۔ بابر کی خودنوشت دنیا کے بیش قیمت صحائف میں سے ہے۔ اس کی کتاب تزکِ بابری کا شمار دنیا کے بہترین علمی سرمائے میں کیا جاتا ہے۔ اس میں بابر نے تفصیل سے تمام واقعات بیان کیے ہیں اور اپنی ذاتی زندگی کو بھی بڑی بے باکی سے پیش کیا ہے۔
اس کی خودنوشت کے بے شمار زبانوں میں ترجمے ہوئے ہیں۔ اس کی کتاب کا سب سے پہلا ترجمہ شہنشاہ اکبر کے قلم سے عبدالرحیم خانِ خاناں نے فارسی میں 1590ء میں کیا۔ اس کے بعد فرانسیسی میں ترجمہ مسٹر پیوٹ ڈی کور نے کیا۔ جبکہ انگریزی ترجمہ ولیم ارسکن اور ان کی بیگم نے مل کر 1871ء میںکیا۔ روس کی اورینٹل اکیڈمی نے روسی زبان میں ترجمہ کیا۔ اردو میں اس کا ترجمہ مرزا نصرالدین حیدر گورگانی نے کیا۔
’’تزکِ بابری‘‘ میں نے کراچی میں ایک ریڑھی والے سے 100 روپے میں خریدی اور اسے بڑی دلچسپی سے پڑھا۔ یہ حیرت انگیز واقعات سے بھرپور خودنوشت ہے۔ ہم پاکستانی اس وقت سابقہ ہندوستان اور موجودہ بھارت سے مسلسل ایک کشمکش سے دوچار ہیں۔ قارئین کے لیے اس کے اُس حصے کو منتخب کیا ہے جو ہندوستان کے بارے میں ہے۔ ہر پاکستانی کو اسے غور سے پڑھنا چاہیے، جب کہ پوری تزک بابری کا مطالعہ ہر صاحبِ علم کو کرنا چاہیے تاکہ انہیں بھارت کے ہندوئوں سے آشنائی ہوسکے۔ میرے پاس جو تزک بابری ہے اس کا سنِ اشاعت جنوری 1969ء ہے۔ کتابت انوری بیگم دہلوی نے کی ہے، اور مصنف نے ظہیرالدین بابر بادشاہ غازی لکھا ہے۔ کتاب کی قیمت 10 روپیہ درج ہے۔
………………
ہندوستان کی نسبت مجمل رائے: ہندوستان میں لطافت کم ہے، لوگ نہ حسین ہیں، نہ میل جول کے اچھے ہیں۔ نہ ان کا ادراک اعلیٰ درجے کا ہے۔ نہ ان میں مروت، مہربانی اور ادب ہے۔ ہنروں اور کاموںکی ترکیب بھی اچھی نہیں۔ گھوڑا یہاں عمدہ نہیں ہوتا۔ گوشت اچھا نہیں ہوتا۔ انگور، خربوزے اور میوے اچھے نہیں ہوتے۔ برف نہیں۔ ٹھنڈا پانی نہیں۔ بازاروں میں جو کھانے اور روٹیاں بکتی ہیں وہ سب خراب۔ حمام، مدرسہ، شمع، مشعل اور شمع دان کا نام نہیں۔ شمع اور مشعل کی جگہ چیکٹ اکٹھا کرکے جلاتے ہیں اور اُس کو ڈیوٹی کہتے ہیں۔ الٹے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی تپائی لیتے ہیں۔ اس تپائی کے ایک پایہ کے کنارے میں شمع دان کے سر کی طرح ایک لوہے کو خوب مضبوط باندھ دیتے ہیں۔ انگوٹھے کے برابر پلیتا آہن دار لکڑی کے دوسرے پایہ میں باندھ دیتے ہیں۔ سیدھے ہاتھ میں ایک خشک کدو رکھتے ہیں، اس میں باریک سوراخ کرتے ہیں جس سے تیل ٹپکتا ہے۔ اس کدو میں تیل بھر دیتے ہیں۔ جب پلیتے پر ڈالنے کی حاجت ہوتی ہے تو اس کدو سے تیل ٹپکاتے ہیں۔ کدو کے سوراخ سے تیل کی بوندیں ٹپکنے لگتی ہیں۔ مقدور والوں کے ہاں ایسی ڈیوٹیاں سو دو سو ہوتی ہیں۔ شمع اور مشعل کی جگہ اسی کو برتتے ہیں۔ بادشاہوں اور امرا کے سامنے بھی رات کو ضرورت کے وقت یہی چیکٹ کے ڈیوٹ شمع کے بدلے لا کر پاس کھڑے ہوجاتے ہیں۔ سوائے ندیوں اور بڑوں دریائوں کے نالوں وغیرہ میں پانی ہمیشہ جاری نہیں رہتا۔ باغوں اور مکانوں میں نہریں نہیںہوتیں۔ عمارتیں ہوادار، مصفا اور خوش قطع نہیں۔ عوام ننگے پائوں پھرتے ہیں۔ ناف سے دو مٹھی نیچے ایک کپڑا باندھتے ہیں، اس کو لنگوٹا کہتے ہیں۔ یہ ایک آڑا کپڑا لپٹا ہوا ہے۔ اس کے نیچے کا آڑا کونا لٹکتا رہتا ہے۔ اس کا دوسرا کونا اور ہے۔ جب لنگوٹا باندھتے ہیں تو اس کونے کو دونوں رانوں کے بیچ میں سے لے کر پیچھے گھُرس دیتے ہیں۔ اس لنگوٹے کو خوب مضبوط باندھتے ہیں۔ عورتیں ایک لنگی باندھتی ہیں۔ آدھی کمر میں باندھتی ہیں اور آدھی سر سے اوڑھتی ہیں۔
ہندوستان کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وسیع ملک ہے۔ اُس میں سونا چاندی بہت ہے۔ برسات کی ہوا نہایت اچھی ہوتی ہے۔ برسات میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دن بھر میں دس پندرہ اور بیس فعہ مینہ برس جاتا ہے۔ بارش کے موسم میں ایک بار ہی رو آ جاتی ہے، اور ایسی آتی ہے کہ جہاں پانی کی بوند نہیں ہوتی وہاں دریا بہنے لگتا ہے۔ مینہ برستی ہے اور مینہ برسنے کے بعد بڑے مزے کی ہوائیں چلتی ہیں۔ چنانچہ ہوا ٹھنڈی ہوتی ہے اور اعتدال کے ساتھ چلتی ہے۔ اتنا عیب ضرور ہے کہ مرطوب بہت ہوتی ہے۔ یہاں کی برسات میں ہمارے ملک کی کمان سے تیراندازی نہیں ہوسکتی۔ تیر بے کار جاتا ہے۔ کمان ہی پر کیا منحصر ہے بلکہ کتاب، لباس اور اسباب وغیرہم، سب میں سیل دوڑ جاتی ہے۔ مکان سارے چوڑے ہوتے ہیں۔ علاوہ برسات کے جاڑے اور گرمی میں بھی مزے کی ہوائیں چلتی ہیں۔ شمالی ہوا ہمیشہ چلتی رہتی ہے جس کے ساتھ گردوغبار اتنا اڑتا رہتا ہے کہ کبھی ایک، دوسرے کو نہیں دیکھ سکتا۔ اسی کو یہاں آندھی کہتے ہیں۔ ثور اور جوزا میں گرمی ہوتی ہے مگر اس قدر بے اعتدال گرمی نہیں جیسے بلخ اور قندھار میں۔ یہاں کی گرمی کی مدت بھی وہاں سے آدھی ہوگی۔
ہندوستان میں ایک عمدگی یہ بھی ہے کہ ہر فرقہ اور حرفت کا آدمی کثرت سے ہے، اور ہر کام اور ہر چیز کے لیے ہزاروں آدمی موجود ہیں، جن کے ہاں باپ دادا کے وقت سے وہی کام ہوتا آیا ہے۔ ظفرنامہ میں ملا شرف الدین علی یزدی نے لکھا ہے کہ حضرت امیر تیمور نے جب سنگین مسجد بنوائی ہے تو آذربائیجان، فارس، ہندوستان وغیرہ ملکوںکے دو سو سنگ تراش کام کرتے تھے، اور اس تعداد کو وہ بہت خیال کرتے ہیں۔ میں نے جو عمارت آگرہ میں بنوائی ہے اُس میں آگرہ ہی کے چھ سو اسّی سنگ تراش لگے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ سیکری، بیانہ، دولت پور، گوالیار اور کول میں ایک ہزار چار سو اکیانوے سنگ تراش روزانہ میرے مکانوں میں کام کرتے ہیں۔ اسی پر قیاس کرلینا چاہیے کہ ہر کام اور پیشے کا آدمی ہندوستان میں بے شمار ہے۔
اس وقت جو ملک قبضہ میں ہے: بہیرے سے بہار تک اب جتنا ملک میرے قبضے میں ہے، باون کروڑ روپے کا ہے۔ اس میں سے اُنیس کروڑ کے علاقے اُن راجائوں اور رئیسوں کے تصرف میں ہیں جنہوں نے ہمیشہ اطاعت کی ہے، اور یہ جاگیریں نسلاً بعد نسلٍ ان کو گزاشت کردی گئی ہیں۔ ہندوستان کے باشندوں اور مقامات وغیرہ کی کفیتیں اور خصوصیتیں جس قدر اب تک معلوم ہوئی ہیں وہ لکھ دی گئیں۔ آئندہ جو اور باتیں قابلِ بیان دیکھوں یا سنوں گا وہ لکھ دوں گا۔
تقسیم انعامات: رجب کی انتیسویں تاریخ ہفتہ کے دن خزانے ملاحظہ کرنے اور بانٹنے شروع کیے۔ ہمایوں کو ستر لاکھ تو ایک خزانے سے عطا ہوئے، اور کئی خزانے یونہی بے دیکھے بھالے دے دیے۔ کئی امیروں کو دس دس لاکھ، آٹھ آٹھ لاکھ اور چھ چھ لاکھ مرحمت کیے۔ لشکر میں جو افغان، ہزارہ، عرب اور بلوچ تھے اُن کو اُن کی قدر کے موافق خزانے سے بہت کچھ نقد انعام دیا گیا۔ سوداگر، طالب علم اور ہرقسم کے لوگ جس قدر بہیر میں ہمراہ تھے سب نے اس انعام سے پورا حصہ لیا اور سب خوش ہوئے۔ جو لوگ اس یورش میں ساتھ نہ آئے تھے اُن کو بھی ان خزانوں میں سے انعام پہنچا۔ چنانچہ کامران کو ستر لاکھ، محمد زمان مرزا کو پندرہ لاکھ اور عسکری و ہندال بلکہ سارے چھوٹے بڑے عزیزوں اور یگانوں کو بہت کچھ روپے، اشرفیاں، کپڑا، جواہر اور غلام وغیرہم بطریق سوغات بھیجے گئے۔ اُس طرف کے امراء اور سپاہیوں کو اکثر خطوط روانہ ہوئے۔ سمرقند، کاشغر، خراسان اور عراق میں جو یگانے تھے ان کو بھی سوغاتیں ارسال ہوئیں۔ سمرقند اور خراسان کے مشائخ وغیرہ کو نذرانے بھیجے گئے۔ مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ کو بطریق نذر روپیوں اور اشرفیوں کے بدرے روانہ کیے۔ کابل کے علاقے کی رعایا میں زن و مرد کو فی آدمی ایک ایک شاہرخی انعام دی گئی۔