کوئٹہ میں ایک وقفے کے بعد دہشت گردوں نے دھماکا کرکے 20 انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ سانحہ 12 اپریل کو ہزارگنجی سبزی منڈی میں ہوا۔ ہزارگنجی کا یہ مقام شہر سے تقریباً 18 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں بس اور ٹرک اڈہ اور گیراج بڑی تعداد میں ہیں۔ یہ کوئٹہ کا اہم کاروباری اور تجارتی مرکز ہے۔ صبح سے شام تک تجارتی و کاروباری سرگرمیاں عروج پر ہوتی ہیں اور لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ پورے شہر بلکہ قریبی اضلاع کا انحصار بھی اس منڈی پر ہے۔ ہزارگنجی میں ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے اور خودکش حملے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ منڈی کو جانے والی شاہراہ مغربی بائی پاس پر خاص کر دہشت گردی کے واقعات تسلسل سے ہوچکے ہیں اور نشانہ ہزارہ برادری کے مزدور اور زائرین رہے ہیں۔ شہر کو آنے والی مختلف شاہراہوں پر اُن کے افراد مارے جاچکے ہیں۔ شہر کا شاید ہی کوئی علاقہ اور سڑک ہو جسے ان کے خون سے نہ رنگا گیا ہو۔ یقیناً دہشت گرد دوسرے طبقات کی تاک میں بھی رہے ہیں بلکہ اب بھی ہیں۔ پولیس، ایف سی، لیویز، فوج اور وکلاء ان کا ہدف بن چکے ہیں۔ تازہ واقعے میں ہدف ہزارہ تاجر تھے جو میوہ جات اور سبزیوں کی خرید و فروخت کے لیے منڈی آئے تھے۔ صبح ساڑھے سات بجے آلوؤں کی منڈی میں خریداری ہورہی تھی کہ اس اثناء میں دھماکا ہوگیا۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ دھماکا ٹائم ڈیوائس کا تھا، بعد ازاں صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لانگو نے ذرائع ابلاغ کو تفصیلات دیں کہ دھماکا خودکش تھا، بیس افراد دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے، پچاس کے قریب زخمی ہوگئے۔ جاں بحق ہونے والے سب کے سب مزدور، محنت کش اور تاجر تھے۔ مرنے والوں میں دو غریب بچے، ایک ایف سی اہلکار اور دس افراد ہزارہ برادری کے تھے۔ قریبی شیخ زید اسپتال، بولان میڈیکل کمپلیکس اسپتال اور شہر کے سول سنڈیمن اسپتال میں لاشوں اور زخمیوں کو پہنچایا گیا۔ چند گھنٹوں بعد وزیراعلیٰ بلوچستان نے امن و امان سے متعلق اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کرلیا، جس میں سیکورٹی اقدامات کا جائزہ لیا گیا اور اس ضمن میں چند مزید فیصلے کیے گئے۔
پیش ازیں قلعہ عبداللہ، ژوب اور لورالائی میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ لورالائی میں پے درپے سانحات رونما ہوئے۔ ڈی آئی جی پولیس آفس کے اندر بھرتی ٹیسٹ کے دوران خودکش حملہ آور گھس گئے تھے۔ وہاں کی فوجی چھاؤنی پر خودکش حملہ ہوا۔ سنجاوی میں چیک پوسٹ پر موجود 6 لیویز اہلکاروں کا بے رحمی سے قتل ہوا۔ ان کا اسلحہ، شناختی کارڈ وغیرہ دہشت گرد ہمراہ لے گئے۔ چند دن بعد لورالائی میں آپریشن کے دوران چند دہشت گرد مارے گئے، ان میں ایک خاتون بھی شامل تھی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بتایا کہ دہشت گردوں سے لیویز کے شناختی کارڈ بھی برآمد کرلیے گئے۔ لورالائی کے ان واقعات کے خلاف تاجروں نے احتجاج کیا، کاروبار بند کیا۔ پی ٹی ایم اور پشتون خوا میپ نے دھرنے دیئے۔ دھرنا سنجاوی لیویز اہلکاروں کے قتل کے بعد دیا گیا۔ یہاں احتجاج کو کچھ اور ہی رخ دینے کی کوشش کی گئی۔ ان کے الزامات، مطالبات اور نعرے ظاہر کرتے تھے کہ دہشت گردی انٹیلی جنس ادارے یا دوسرے معنوں میں فوج اور ایف سی کرا رہے ہیں اور فورسز فاٹا جیسے حالات صوبے کے پشتون علاقوں میں پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ دیکھا جائے تو پورا صوبہ ان حالات کی لپیٹ میں رہا ہے۔ یہاں بلوچ شدت پسندوں نے سیکڑوں کارروائیاں کیں۔ تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی سیکڑوں انسانوں کو مار چکے ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں نے خود کو پوشیدہ نہیں رکھا ہے۔ ان کے خلاف کامیاب آپریشن ہوئے۔ بڑی تعداد میں ان سے وابستہ لوگ مارے گئے ہیں، ان کے سرکردہ لوگ پکڑے یا مارے جاچکے ہیں۔ مطلوب و مفروردہشت گردوں کے سروں کی قیمتیں رکھی گئی ہیں۔ ان کی تصاویر دیواروں پر آویزاں کی گئی ہیں۔
زبان اور نسل کی بنیاد پر دوسرے صوبوں کے افراد کا ہدفی قتل ہوتا رہا۔ اہلِ تشیع، خاص کر ہزارہ عوام سیکڑوں کی تعداد میں قتل ہوچکے ہیں۔ یہ تنظیمیں ذمہ داری قبول کرتی رہی ہیں۔ ہزار گنجی کا حملہ بھی دراصل ہزارہ دکان داروں اور سبزی فروشوں پر تھا۔ ان لوگوں کو اپنے علاقوں سے منڈی تک پولیس اور ایف سی کے کانوائے میں لایا اور لے جایا جاتا ہے۔
اس روز پاک افغان سرحدی شہر چمن میں بھی دہشت گردی ہوئی۔ موٹر سائیکل میں نصب بم دھماکا ہوا جس سے ایک شہری جاں بحق اور چند لوگ زخمی ہوگئے۔ ان دو واقعات کے بعد دھرنوں اور احتجاج کا آغاز کیا گیا۔ دونوں مقامات کے احتجاج میں نعروں اور الزامات کا اشتراک و مماثلت تھی۔ کوئٹہ میں چند خواتین کے ہمراہ سرخ ٹوپی والے نوجوان بھی تھے جو یہ نعرے لگا رہے تھے ”چھین کے لیں گے آزادی، تیرا باپ بھی د ے گا آزادی“۔ اور ”یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے‘‘۔ گویا سارے اشارے آرمی کی طرف تھے۔ معلوم نہیں یہ آزادی کس سے مانگ رہے تھے۔ کوئٹہ کے مشرقی بائی پاس پر دھرنا دیا گیا جس کی وجہ سے مشکلات پیدا ہوئیں، اور ایسا لگ رہا تھا کہ دھرنا دہشت گردوں کے بجائے ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کی سیاسی ساکھ خراب کرنے کے لیے ہو۔ حالانکہ ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی نے دہشت گردی کے خلاف واضح مؤقف کے ساتھ احتجاج کیا ہے۔ البتہ بے مقصد و لاحاصل احتجاج کا حصہ نہیں بنی۔ سچی بات یہ ہے کہ دہشت گردوں نے ہر طبقے کے لوگوں کو مارا ہے۔ چناں چہ دہشت گردوں اور اُن کو پناہ دینے والوں کے خلاف احتجاج اور نعرے لگنے چاہئیں۔ اگر کوئی سیاسی مقاصد کے لیے فورسز پر الزام دھرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ دہشت گردوں کا حامی اور ساتھی ہے۔ خصوصاً لورالائی کے واقعات کے بعد سوالات اٹھانے والوں کو آئی ایس پی آر، پولیس اور انٹیلی جنس بیورو کی جانب سے ان کیمرہ بریفنگ دی جانی چاہیے تاکہ ان پر حقائق واضح ہوں۔ اس میں صوبائی اسمبلی کے اراکین کو بھی بٹھایا جائے۔ ہونا یہ چاہیے کہ دہشت گردوں کے خلاف احتجاج تمام طبقات اور سیاسی جماعتیں بغیر سیاسی اغراض کے اپنا مقصد بنائیں۔ یقیناً اگر کوئی جائز شکایت کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے خلاف ہو تو ضرور نمایاں کی جائے۔ بے شک ان کے خلاف بولنا چاہیے۔