علمی اور ادبی دنیا میں اپنے قلمی نام نقش نایاب منگی سے شہرت اور مقبولیت پانے والے مرحوم حق نواز عرف امام بخش، ولد عبدالمجید 7 دسمبر 1948ء کو شکارپور کے معروف علمی، ادبی اور تاریخی مقام لکھی در کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اگرچہ انہوں نے محض درجہ دواز دہم (انٹر کلاس) تک ہی تعلیم حاصل کی، لیکن ان کی بزبان اردو اور سندھی نظم و نثر میں پختہ اور معیاری تحاریر کو پڑھتے ہوئے ان پر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ نقشؔ صاحب مرحوم کی ابتدائی تعلیم و تربیت میں ان کے نانا جان اور اپنے وقت کے معروف حکیم حاذق خاوند ڈنو منگی کا بڑا اہم کردار تھا۔ حکیم صاحب موصوف سے بغرضِ علاج مریض پنجاب اور بلوچستان تک سے آیا کرتے تھے اور شفایاب ہوا کرتے تھے۔ نقشؔ مرحوم نے اپنی پرائمری اور ہائی اسکول کی تعلیم شکارپور اور کشمور سے حاصل کی۔ انٹر کا امتحان اسلامیہ کالج سکھر سے پاس کرنے کے بعد وہ محکمہ آب پاشی سندھ میں بطور اکائونٹس کلرک بھرتی ہوگئے۔ اوائل میں کچھ عرصۂ ملازمت سکھر میں گزارنے کے بعد جیکب آباد میں بیشتر وقت رہے، اور یہیں سے 2008ء میں ملازمت سے ریٹائرمنٹ اختیار کی۔ ان کی 1965ء میں ادب سے وابستگی اپنے استاد معروف شاعر و ادیب آذر نایاب کی زیر سرپرستی ہوئی جب وہ کشمور میں دورانِ تعلیم رہائش پذیر تھے، اور پھر وہ تادمِ آخر (اپنی وفات 17 اکتوبر 2011ء تک) علم و ادب سے کچھ انداز سے وابستہ رہے کہ شاعری، نثر اور خصوصاً تحقیق میں خوب نام اور مقام حاصل کیا۔
انہوں نے شکارپور جیسے تاریخی شہر کے حوالے سے بے پناہ محنت کے بعد جو قابلِ قدر تحقیقی کام سرانجام دیا ہے اس نے بلاشبہ اس شہر سے متعلق تحقیق کے کئی نئے دریچے وا کیے ہیں، اور انہوں نے اس بارے میں کئی اَنمٹ نقوش ثبت کیے ہیں۔ ان کی کتب ’’شکارپور ھک ابھیاس ‘‘ اور ’’شکارپور۔ تاریخ جی آئینی مہ (مؤخر الذکر کتاب کو ان کے لائق اور فائق صاحبزادے حسیب نایابؔ منگی نے مرتب کیا ہے) اس تاریخی شہر سے متعلق بڑی اہمیت کی گردانی جاتی ہیں۔ نقشؔ نایاب منگی کی علم و ادب سے چاہت اور شغف کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی اس کے حصول اور فروغ میں گزار دی۔ ایک ایسے دورِ انحطاط میں جب عام افراد، شاعر اور ادیب اپنی لائبریری کی کتب کھو جانے کے خدشے کے پیش نظر کسی کو بھی برائے مطالعہ دینے سے احتراز کرتے ہیں، مرحوم نقشؔ نایاب منگی مطالعہ کے ہر شائق شخص کو اپنی لائبریری کی کتابیں پڑھنے کے لیے دینے میں اطمینان اور مسرت محسوس کیا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک سعادت مند شاگرد کے طور پر اپنے استاد آذر نایاب کو اہمیت دیتے ہوئے نقشؔ تخلص کے ساتھ نایاب شامل کرکے ہند و پاک کے رسائل و جرائد میں بے حساب تحاریر لکھیں۔ وہ نہ صرف کتب پڑھنے کے بارے میں طلبہ کی ہمت افزائی کیا کرتے تھے بلکہ انہیں اپنے پلّے سے رقم خرچ کرکے مطلوبہ مواد کی عکسی نقول بھی مہیا کرتے تھے۔ انہوں نے بے شمار نوآموز لکھنے والوں کی نظم و نثر میں اصلاح کا فریضہ بھی ایک بے لوث اور کہنہ مشق مشفق استاد کے طور پر سر انجام دیا۔ ان کے چہرے پر ہمہ وقت ایک سدابہار تبسم رہا کرتا تھا، اور یہ ان کی طبیعت اور مزاج کا ایک ایسا خاصہ تھا جسے ان سے ملنے والے لوگ آج بھی ایک عرصہ گزرنے کے باوصف یاد رکھے ہوئے ہیں۔
سندھی زبان کی معروف علمی اور ادبی شخصیت نیاز ہمایونی مرحوم کی ان سے متعلق لکھی گئی ایک تحریر کے مطابق ’’نقشؔ نایاب منگی روایتی لحاظ سے شکارپور کی آن، بان، شان اور پہچان ہیں۔ ان کی وضع داری، اخلاق، تہذیب اور مہمان نوازی کی خوبیاں اپنی مثال آپ ہیں۔ ہمارے منگی صاحب ایک ایسے شگفتہ پھول کی مانند ہیں جو ہر دم اپنی جاں افزا خوشبو چہار اطراف بکھیرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں‘‘۔ نقش صاحب نے جب کشمور اور روہڑی کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ کر اپنا مسکن آبائی شہر شکارپور کو بنایا تو ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں کو مزید اظہار کے مواقع میسر آئے، اور پھر یہاں پر برپا ہونے والی ادبی اور علمی محافل میں ان کی علمی و ادبی قابلیت کا برملا اعتراف کیا جانے لگا۔ اس دوران انہوں نے فروغِ ادب و علم کے لیے تشکیل کردہ کئی تنظیموں سے وابستہ رہ کر ایک فعال اور متحرک کردار ادا کیا۔ خصوصاً اشاعتِ کتب اور ادبی پروگرامات کے انعقاد کے حوالے سے انہوں نے بہت سارے یادگار امور سرانجام دیئے۔ انہوں نے سندھی ادب کے کئی نامور ادبا اور شعرا کی تحاریر کی اصلاح کا فریضہ بھی بڑی خاموشی کے ساتھ نبھایا۔ نقشؔ مرحوم علم ابجد کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ علمِ عروض جیسے مشکل اور دقیق فن کے بھی کامل شناسا تھے۔ کہا جاتا ہے کہ علمِ ابجد میں ان کے استاد مولوی رفیق احمد نے دورانِ قیامِ کشمور انہیں اس حوالے سے اتنی محنت اور مشق کروائی تھی کہ وہ کسی بھی شخص کے نام ہی سے اس کی والدہ کا نام بھی معلوم کرلیا کرتے تھے۔ علمِ عروض میں آذر نایاب بدایونی اور شعبان بخت جیسے پختہ کار شعراء اساتذہ کی رہنمائی نے انہیں اس علم میں بھی اتنی مہارت عطا کردی تھی کہ وہ نوجوان اور نوآموز شعراء کی اصلاح اور تربیت بھی بہ خوشی کیا کرتے تھے۔ شکارپور کی تاریخ اور ادب کے حوالے سے لکھے گئے ان کے مقالہ جات اور مضامین ان کی سال ہا سال کی گئی جانفشانی کا ایک خوب صورت مظہر ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے اردو، انگریزی اور سندھی زبان کی کتب اور رسائل کا گہرا مطالعہ کرکے عرق ریزی کے ساتھ یہ تحقیقی کتب اور مضامین قلم بند کیے ہیں جو بڑی اہمیت کے حامل قرار دیئے جاتے ہیں۔
کشمور میں دورانِ تعلیم 1965ء سے ہی انہوں نے اپنے استاد آذر نایاب بدایونی کی رہنمائی اور سرپرستی میں لکھنے کا باقاعدہ آغاز کردیا تھا۔ بعدازاں انہوں نے اردو، سندھی اور سرائیکی میں (نثر اور نظم) بہت ساری تحاریر لکھیں جو اپنے وقت کے مشہور رسائل و جرائد اور اخبارات میں شائع ہوتی رہیں۔ اُس زمانے میں کشمور میں معروف شعرائے کرام شعبان بخت، غالبِؔ سندھ فیض بخشاپوری، عبدالکریم گدائی اور رشید احمد لاشاری سمیت دیگر کئی پختہ نثّار بھی اپنا ڈیرہ جمائے ہوئے تھے اور ان کے دم قدم سے یہاں کی علمی و ادبی محفلیں سجا کرتی تھیں۔ نقشؔ مرحوم نے بھی اس متاثر کن ماحول سے بہت کچھ سیکھا اور ہند و پاک کے مشہور ادبی رسائل و جرائد میں نظم و نثر لکھنے کا سلسلہ شروع کردیا جو تادم حیات جاری رہا۔ اس دوران وہ سندھی ادبی رسائل ’’مہران‘‘ اور ’’نئین زندگی‘‘ سمیت سندھی اور اردو زبان کے دیگر جرائد و اخبارات کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں خامہ فرسائی بھی کرتے رہے۔ وہ نئی دہلی سے چھپنے والے رسالے ’’بیسویں صدی‘‘ کا بھی باقاعدگی سے مطالعہ کیا کرتے تھے اور اس میں اپنے قلمی نام حق نواز اے مجید کے نام سے ایک عرصے تک تحاریر قلم بند کرتے رہے۔ روہڑی میں دورانِ قیام انہوں نے مستانہ شکارپوری کے قلمی نام سے بھی لکھا۔ وہ نہ صرف خود پڑھنے اور لکھنے میں مگن رہا کرتے تھے بلکہ دوست احباب اور طلبہ کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ انہوں نے انگریزی کی کئی تحریروں کا بھی سندھی زبان میں رواں دواں ترجمہ کیا ہے۔ ان کے پاس مختلف زبانوں کی کتب اور رسائل کا ایک بڑا زخیزہ تھا جسے وہ پڑھنے والوں کی خدمت میں بغیر کسی بخل کے دریا دلی کے ساتھ پیش کردیا کرتے تھے۔ وہ نہ صرف خود شعبہ تحقیق کے مردِ میدان تھے بلکہ اس فن میں انہوں نے بہت سارے اپنے شاگرد بھی پیدا کیے ہیں۔ بلاشبہ مرحوم اپنی ذات میں ایک انجمن اور ادارے کی مانند تھے۔ ہر شام لکھی در یا ہاتھی در شکارپور میں ان کی سجائی گئی علمی اور ادبی محفل میں نامور اساتذہ، شعراء، ادباء، علماء اور صحافی شرکت کرتے اور مختلف موضوعات پر باہم بحث مباحثہ کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی وفات سے پہلے شکارپور کے مختلف مقامات کے حوالے سے کیا گیا جو بہت سارا تحقیقی کام ادھورا چھوڑا ہے اُسے اُن کے فرزندِ ارجمند حسیب نایاب منگی لیکچرر سندھی گل ماڈل سائنس کالج جیکب آباد مکمل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی تحقیقی، ادبی اور علمی تحاریر بھی سندھ اور ہندوستان کے معروف اخبارات اور جرائد میں تواتر کے ساتھ شائع ہوتی رہتی ہیں۔
نقشؔ نایاب منگی مرحوم کی شائع ہونے والی چند معروف کتب کے نام یہ ہیں:
-1 شکارپور۔ ھک ابھیاس
-2 شکارپور صدین کان
-3شکارپور سیمینار
-4 شکارپور۔ تاریخ جی آئینے میں
-5 اسان جا ادیب اسان جا شاعر
-6 جی جیارا ماٹھو
-7 سندھی شاعری (مجموعہ کلام)
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ سندھی زبان کے ساتھ ساتھ انہیں اردو زبان و ادب پر بھی دسترس حاصل تھی۔ ان کی دلآویز اردو شاعری اپنے وقت کے مشہور ادبی رسائل و جرائد میں چھپتی اور معاصرین سے دادو تحسین حاصل کرتی رہی ہے۔ ان کی اردو شاعری پڑھتے ہوئے ان پر اہلِ زبان ہونے کا گمان گزرنے لگتا ہے۔ مطبوعہ نمونۂ کلام کی عکسی نقول پیش خدمت ہیں۔ ان کی دورانِ حیات مندرجہ ذیل علمی اور ادبی تنظیموں سے وابستگی بھی رہی ہے:
-1 شکارپور ہسٹاریکل سوسائٹی (بانی ممبر)
-2 سندھی رائٹرز یادگار کمیٹی (بانی ممبر)
-3 مہران پبلی کیشن شکارپور(بانی ممبر)
-4 کتاب محل پبلی کیشن (بانی ممبر)
نقشؔ مرحوم کو ان کی ادبی اور علمی خدمات کی وجہ سے بہت سارے ایوارڈ اور اسناد بھی مل چکی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ دورِ حاضر میں نقشؔ نایاب منگی مرحوم جیسی بے لوث، مخلص اور انتھک علمی و ادبی شخصیات اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔ بلاشبہ ان کی وفات سے علم و ادب میں پیدا ہونے والا خلا ایک عرصے تک محسوس کیا جاتا رہے گا۔