نیاز سواتی
پاکستان اور چین دوستی کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ان گرم جوش تعلقات کی وجہ دونوں ممالک کا مخصوص جغرافیائی و سیاسی پس منظر ہے۔چین وہ واحد ملک ہے جس کی بین الاقوامی حیثیت پاکستا ن کے حق میں ہمیشہ استعمال ہوئی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے بھی ہر بین الاقوامی فورم پر چین کا مکمل ساتھ دیا ہے۔ چین کا امریکہ سے پہلا رابطہ بھی پاکستان نے ہی کروایا اور اقوام متحدہ میں بھی چین کا مکمل ساتھ دیا گیا۔پاکستان کے اندر توانائی اور ترقی کے کئی منصوبوں میں چین کی مدد شامل رہی۔دونوں ملکوں کے ساتھ بھارت کے مخاصمانہ رویّے نے بھی پاک چین دوستی کو مضبوط بنیاد فراہم کی۔ دوستی کا یہ سفر اب تک مثالی انداز میں آگے بڑھتا رہاہے مگر اب کئی دہائیوں کی آزمودہ یہ دوستی کئی آزمائشوں سے گزر رہی ہے۔ سی پیک ایک وسیع منصوبہ ہے جوچین کے عالمی تجارتی منصوبے ’’ون روڈ ون بیلٹ‘‘ کا حصہ ہے جس کے اقتصادی‘ سیاسی اور سماجی اثرات کئی مستقل تصانیف کے متقاضی ہیں۔مگر یہاں چند اہم مسائل کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ پاک چین دوستی اور سی پیک سے جڑا ایک اور مسئلہ زِنجیانگ کے مسلم اکثریتی چینی صوبے کاہے جو کئی پیچیدگیوں کو جنم دے رہاہے۔
سی پیک منصوبے کے ضمنی مسائل سے قطع نظر اس کے بنیادی امور کے بارے میںبھی پاکستان کے عوام صحیح معنوں میں آگاہی نہیں رکھتے۔ یہ کوئی معمولی منصوبہ نہیںبلکہ یہ دونوں ملکوں اور دنیا کی تاریخ اور تہذیب و معاشرت پر دوررس اثرات مرتب کرے گا۔ اتنے بڑے منصوبے کے لیے چین کی کمیونسٹ حکومت اور(پاکستان کی سیاسی حکومتوں کے علاوہ) ہماری سول و فوجی بیوروکریسی کے درمیان ہونے والی مفاہمت اور معاہدے کی تفصیلات اور اس کے نتائج و مضمرات سے پاکستانی قوم ناواقف ہے۔ سی پیک سے قبل پاکستان امریکہ کے لیے دو افغان جنگوں کی راہداری بن چکا ہے، ایک مرتبہ افغانستان پر روسی حملے کے ردّعمل میں، اور پھرافغانستان پرخود امریکی حملے میںمدد فراہم کرنے کے لیے پاکستان کی سرزمین کو استعمال کیا گیا۔ دونوں مرتبہ پاکستان پر فوجی حکومتوں کا راج تھا اور دونوں ہی مرتبہ پاکستان نے راہداری فراہم کرنے کی پوری قیمت چُکائی اور بے شمارسیاسی، جانی ومالی اور معاشرتی نقصانات تو اُٹھائے مگر دونوں مرتبہ پاکستانی قوم اس بات سے لاعلم رہی کہ اس کی حکومتوں نے امریکہ سے اس دوستی کے عوض کیا وصول کیا؟اور اس تعاون کی بنیادکون کون سے معاہدات رہے؟ اب پاکستان میں ایک منتخب حکومت کام کررہی ہے۔ اس حکومت نے شروع میں سی پیک کوریڈور کے بارے میں اپنے تحفظات کا بجا طور پر اظہار کیا مگر وزیراعظم کے دورۂ چین کے بعد اس معاملے میں خاموشی چھاگئی کہ یہ معاہدہ ہے کیا اور اس معاہدے کی وہ کون سی باتیں ہیں جن کے بارے میں موجودہ حکومت اپنے تحفظات رکھتی تھی اور اب اس معاملے میں پراسرار خاموشی کا کیا مطلب ہے؟ کیا ہمارے حکمرانوں نے ان معاہدوں کو طے کرتے ہوئے پاکستانی مفادات کا تحفظ کیا ہے؟کیا ریاست ِ پاکستان کی خود مختاری کو بھی گروی رکھ دیا گیا ہے؟استعماری ممالک کے ساتھ طے پانے والے معاملات سے عوامی لاعلمی اور حکومتوں کی اس مجرمانہ چشم پوشی نے پاکستانی ریاست کو بھاڑے کا ٹٹو بناکررکھ دیا۔
اگر ریاست ِ پاکستان (اپنے تئیں)اس منصوبے پر غور وفکرکے بعد اسے ملک کے لیے مفید جان کراس کے لیے رضامند ہوئی ہے تو ریاست ِ پاکستان کے عوام بجا طور پر اس رضامندی کی تفصیل جاننا چاہتے ہیں۔اس وقت پاکستان میں ایک منتخب حکومت موجود ہے جسے ماضی کی فوجی حکومتوں کے برعکس، سی پیک منصوبے کے نفع نقصان اور اس کے معاہدے کے بارے میںاپنے عوام کو اعتماد میں لیناچاہیے، تاکہ اس منصوبے کے بارے میں پوری قوم یک سو ہوکر اپنا لائحہ عمل طے کرسکے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت ِ پاکستان بتائے کہ اس منصوبے کے سیاسی، معاشی اور سماجی مضمرات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔
پاکستانی عوام، پاک چین دوستی کے معاملے میں خاصے پُرجوش ثابت ہوئے ہیں اوروہ ریاستوں کے درمیان دوستی کا مطلب بھی ذاتی دوستی اور خلوص سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس ملکوں کے درمیان تعلقات غیرجذباتی اور ٹھوس بنیادیں رکھتے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات میں اقوام عالم کی دوستی ان کے ریاستی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ ان تعلقات میں یک طرفہ قربانی کا کوئی تصور موجود نہیںہوتا۔ پاکستان اور چین کے تعلقات کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کا کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے لیے بلاوجہ قربانی نہیں دیتا، اس تناظر میں چین اور پاکستان ایک دوسرے کی ضرورت رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں سی پیک کی پراسراریت کے علاوہ کچھ ایسے عوامل ہیں جو دونوں ملکوں کے تعلقات میں زہر گھول رہے ہیںجن کا ازالہ ضروری ہے۔
دنیا کے کوئی بھی دو ممالک مکمل طور پر دوستی اور دشمنی کا رویہ برقرار نہیں رکھتے۔ امریکہ نے درآمدات کے لیے چین کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دے رکھا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان اربوں ڈالر کی تجارت جاری ہے۔اس کے علاوہ یورپ تک چین کا تجارتی سامان بڑے پیمانے پر زمینی راستے سے جارہا ہے۔تمام تر تجارتی تعلقات کے باوجود یورپ اور امریکہ نے چین کو انسانی حقوق کے معاملے میں آزاد نہیں چھوڑ دیا بلکہ زنجیانگ میں موجود چین کے تعذیبی کیمپوں، تبت کی صورت حال اور انسانی حقوق کے ضمن میں اسے مسلسل دباؤ میں رکھا ہوا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ چین کو یہ بات باور کروائی جائے کہ پاک چین دوستی کے دیرپا رشتے کو نقصان پہنچانے والے مسائل کا حل ضروری ہے۔یہ حل خود چین کے مفاد میں ہے۔جس طرح اپنے علاقائی تناظر میں چین سے قربت ہمارے مفاد میں ہے اسی طرح اپنی جغرافیائی اہمیت اور اب سی پیک کے حوالے سے پاکستان چین کے لیے ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے، لہٰذا چین کو بھی چاہیے کہ پاکستان کو برابری کی سطح پررکھ کر آگے چلے۔چین کے عزائم کے بارے میں یہ سب کچھ غلط ہوتا اگر افریقہ کے ممالک اوران کے قیمتی اثاثوں کو ہتھیانے کے معاملے میں چین کا کردار مشکوک نہ ہوتا۔ اس دوستی کے معاملے میںپاکستان اپنی حد سے بڑ ھ کر اقدامات کرچکا ہے۔پاکستان نے اپنی نظریاتی اساس سے روگردانی کرتے ہوئے چین کے لیے سردرد بننے والی زنجیانگ کی حریت پسند تحریک کا وجود اپنی سرزمین سے ختم کردیا ہے۔ اب دونوںملکوںکے تعلقات میں تلخی پیدا کرنے والے امور کا ازالہ کرنے کے لیے چین کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔
ایک اور معاملہ قابلِ غور ہے۔اس منصوبے کا سب سے بڑا اثر تو زنجیانگ کی مسلم آبادی پر ہونا چاہیے تھا جن کا سمندر سے محروم خطہ،سی پیک کے ذریعے مشرق وسطیٰ اور یورپ سے مربوط ہونے جارہاہے۔ سی پیک منصوبے کا حیرت انگیز منظر یہ ہے کہ پاک چین تجارت اور اس منصوبے کی تعمیر میںمصروف، پاکستان سے دور واقع صوبوںکے چینی باشندے تو کثرت سے ملتے ہیں مگر پاکستان کے پڑوس میں موجود چین کے ’’خودمختار علاقے‘‘ زنجیانگ کے اویغور مسلم بالکل نظر نہیں آتے۔پاکستان کی حکومتوں نے عملی طور پر اس معاملے کو چین کا ’’داخلی مسئلہ‘‘قرار دے رکھاہے۔ یہ معاملہ اتنا ہی سادہ ہوتا اگر پاکستان اپنے ہاں موجود اویغور مسلمانوں کومحض چین کی خواہش میں دیس نکالا نہ دے چکا ہوتا۔یہ معاملہ چین کا ’’اندرونی معاملہ ‘‘ مان بھی لیا جائے تب بھی ہے بالکل غیر فطری معاملہ، جو چین کے بارے میں سوالات اٹھارہا ہے۔
سی پیک منصوبے کی عملی صورت حال یہ ہے کہ اس منصوبے کے ضمن میں جاری ترقیاتی منصوبوں کے زیادہ بلکہ تمام تر ٹھیکے چینی کمپنیوں کو دیے جارہے ہیں اور ان منصوبوں کی تعمیر کے لیے افرادی قوت کا بڑا حصہ بھی چینی کمپنیاں ہی فراہم کررہی ہیں۔مگر ان منصوبوں کا بوجھ کس کے کندھے پر ہوگا ؟ اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں، منطقی طور پر تو اس منصوبے کا مالی بوجھ چینی معیشت کے مضبوط کندھوں پر ہوناچاہیے کہ اس منصوبے کا اصل فائدہ چین کو ہوگا اور پاکستان صرف اس کی تلچھٹ ہی سمیٹ سکے گا۔ اس طرح کی خبریں تواتر کے ساتھ پاکستانی میڈیا میں آرہی ہیں مگر چینی اور پاکستانی حکومتیں اس معاملے میں حیرت انگیز طور پر خاموش ہیںمگر اپنی شناخت خُفیہ رکھ کر پاکستانی بیوروکریٹس بتا رہے ہیں کہ سی پیک منصوبوں کی تعمیر کے بارے میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ یہ منصوبے صرف چینی کمپنیوں کے ذریعے ہی تعمیر کیے جائیں گے۔ اگر یہ بات غلط ہے تو اس کی باقاعدہ وضاحت ہونی چاہیے تاکہ پاکستانی عوام کا ذہن بھی اس معاملے میں یک سو ہوسکے۔
پاکستان اور چین کے ریاستی تعلقات کی طرح پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور چین کے سرحدی صوبے زنجیانگ کے باسی باہمی تعلقات کی طویل تاریخ رکھتے ہیں۔جغرافیائی قربت اور تجارتی تعلقات کے علاوہ دونوںطرف کے مسلمان ایک دوسرے کے رشتہ دار بھی ہیں، گزشتہ کچھ عرصے سے ملک کے دوسرے حصوں خصوصاََ پنجاب اور خیبر پختون خوا کی تاجر برادری کے افراد بھی اپنے تجارتی رابطوں کے بعد زنجیانگ کی مسلم خواتین سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوچکے ہیں۔ 2017ء تک یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا مگر اس کے بعد سے چین نے اچانک اس معاملے پر غیر معمولی اور غیرانسانی سختی کا مظاہرہ کیاہے۔ 18 نومبر 2018ء کے ڈان کی خبر کے مطابق پاکستان کے شہریوں سے رشتہ ٔ ازدواج میں منسلک کم و بیش ایسی دوسو اویغورمسلم خواتین ہیں جو صرف اس رشتے کے جرم میں چین کے جیلوں میں قید ہیں غیر انسانی حالات میں زندگی گزاررہی ہیں۔ان میں سے اکثر خواتین کئی بچوں کی مائیں ہیں۔اس بے جا قید نے ماؤں کو اپنے خاندان سے جُدا کردیا ہے۔ان خواتین کا واحد جرم پاکستانی مسلمانوںکی بیوی ہونا ہے۔ان کے شوہربیجنگ کے پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کرتے ہیں تو انہیں صرف یک لفظی جواب ملتا ہے ’’انتظار‘‘۔ اس انتظار اور صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے۔ یہ صورت حال ایک انسانی المیے کی نشاندہی کررہی ہے۔
پہلا سوال تو یہ ہے کہ پاک چین دوستی کے بنیاد دوطرفہ تعاون پر ہے یا پاکستان نے اس سلسلے میں اپنی کم تر حیثیت تسلیم کرلی ہے؟اگر چین کی بالاتر اور اپنی غلامانہ حیثیت کو مان لینا کوئی احسن پالیسی ہے تو اسی فارمولے کے تحت بھارت کی بالادستی کیوں نہ مان لی جائے؟ اگر دوسوچینی خواتین پاکستان میں بے گناہ قید ہوتیں تو کیا چین کا بھی یہی ردعمل ہوتا؟پاکستانی قوم بنیادی طور پر امت مسلمہ کا شعور رکھتی ہے اور اویغور مسلمانوں سے پاکستانیوں کے جغرافیائی اور کاروباری رشتے اس پر مستزاد ہیں۔چینی باشندوںسے غیرملکیوں کی شادیوں کے بارے میں چینی ریاست عدم اعتراض سے بھی آگے بڑھ کر گرم جوشی کی حدوں کو چھورہی ہے۔ چین میں شادی کے لیے ویزا کی ایک خاص قسم کا نام ہی میرج ویزا ہے۔ زنجیانگ کو چھوڑکر بقیہ چین میں اس پالیسی پر عمل بھی ہورہا ہے مگر پاکستان اور چینی اویغور مسلمانوں کی شادی پرپالیسی ’’پاک چین دوستی‘‘ کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔
ڈان اخبار کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق پاکستانیوں کی اویغور خواتین سے شادی کوئی آج کی بات نہیں بلکہ ان شادیوں کو کئی دہائیاں گزر چکی ہیںاور ان میں سے کئی خواتین کی اولادیں جوان ہوچکی ہیں۔ڈان اخبار نے اس اسٹوری کے ساتھ ان دو بچیوں کی تصویر بھی شایع کی ہے جن کی ماں چین کے عقوبتی مراکز میں قید ہے،مگر یہ کوئی مثال نہیں۔ چینی ریاست کی طرف سے 2017ء سے قبل اس طرح کی شادیوں پر قدغن نہیں لگائی گئی مگر گزشتہ سال اچانک اس معاملے میں نہ صرف نئی شادیوں کے معاملے میں غیر اعلانیہ سخت ترین پالیسی اپنا لی گئی بلکہ کئی دہائیاں قبل ہونے والی شادیوں کے بارے میں بھی انتہائی غیر منطقی رویّے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی تمام خواتین کو عقوبتی مراکز میں پہنچادیا گیا۔ ڈان اخبار میں شایع ہونے والی کہانی کے مطابق دو پاکستانی مردوں اور ان کی اویغور بیویوں کے واقعات دل ہلادینے والے ہیں۔ زنجیانگ میں مسلم اکثریت کے ساتھ ہونے والے مظالم سے صرف ِنظر بھی کرلیاجائے تو کیا ریاست ِ پاکستان کا ان خواتین کے بارے میںمتفکر ہونا اور عملی طور فعال ہونا ضروری نہیں جو پاکستانی شوہروں کی بیویاں اور پاکستانی بچوں کی مائیں ہیں۔
اسلام، انسانی حقوق، ریاست ِ پاکستان کے قوانین اور خود چین کے قوانین سمیت دنیا کا کون سا قانون ہے جس کے تحت صرف پاکستانیوں سے شادی کو جرم قرار دے دیا جائے اور ایسی خواتین کو غیر معینہ مدت کے لیے چین کے عقوبت خانوں میں قید کر دیا جائے؟پاکستان میں ملازمت اور کاروبار کرنے والے چینی باشندوں کی پاکستانی بیویوں کو پاکستان میں حبس ِ بے جا میں رکھا جاسکتا ہے؟ اگر ایسا ہوجائے تو کیا چین کی ریاست پاکستان کی طرح مجرمانہ خاموشی اختیار کرسکتی ہے؟ کیا پاک چین تعلقات میں گرم جوشی اور قربانی کا فریضہ صرف پاکستان کے ذمے ہے؟