مقالاتِ برکاتی

کتاب : مقالاتِ برکاتی
مصنف : علامہ حکیم سید محمود احمد برکاتی شہید
مرتب : ڈاکٹر سہیل احمد برکاتی
صفحات : 550، قیمت 1200 روپے
ناشر : عکس پبلی کیشنز۔ بک اسٹریٹ، داتا دربار مارکیٹ، لاہور
فون نمبر : 042-37300584
0300-4827500
0348-4078844
ای میل : Publications.aks@gmail.com

حکیم سیّد محمود احمد برکاتی شہید (1926ء- 2013ء) نابغۂ روزگار جامع العلوم ہستی تھے۔ ان کا تعلق ٹونک سے تھا۔ ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی تحریر فرماتے ہیں:
’’علامہ حکیم سید محمود احمد برکاتی شہید کا آبائی تعلق راجپوتانہ کی مسلم ریاست ٹونک سے تھا۔ وہ اپنے جدِّ امجد حکیم سید برکات احمد (متوفی سنہ 1928ء) کی نسبت سے برکاتی کہلاتے تھے۔ علامہ برکات احمد علوم معقول و منقول کے فاضل اجل اور طبیبِ بے بدل تھے۔ وہ اور ان کے فرزند حکیم سید محمد احمد (متوفی سنہ 1932ء) نوابانِ ٹونک کے معالجِ خاص کے عہدے پر متمکن رہے۔ ہمارے ممدوح حکیم سید محمود احمد برکاتی، حکیم سید محمد احمد کے خلفِ اکبر تھے۔ وہ اکتوبر 1926ء میں متولد ہوئے۔ گویا اپنے والد کی وفات کے وقت ان کی عمر کوئی سوا پانچ برس تھی۔ خاندانی علمی روایت کے پیش نظر ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی گئی۔ اور وہ خود بھی بفضلِ ایزدی متعال خلف الصدق ثابت ہوئے۔ باقاعدہ تعلیم کا آغاز اپنے جد مرحوم کے قائم کردہ دارالعلوم خلیلیہ (ٹونک) سے کیا۔ بعدازاں جامعہ ملیہ اسلامیہ (دہلی) اور پھر جامعہ معینیہ عثمانیہ (اجمیر) میں داخلہ لیا جہاں سے 1944ء میں درسِ نظامی کی تکمیل کی۔ اس کے بعد علم طب کی جانب متوجہ ہوئے اور 1948ء میں طبیہ کالج دہلی سے سند حاصل کی۔ اسی سال ٹونک میں مطب کا آغاز کیا۔
قرونِ وسطیٰ کے مسلمان اطبا محض امراضِ جسمانی کے معالج نہیں ہوتے تھے بلکہ علمِ اخلاق، نفسیات، فلسفہ، منطق، علم کیمیا وغیرہ علوم پر بھی عبور رکھتے تھے۔ اس بنا پر ان کو لفظ حکیم سے مخاطب کیا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے براعظم پاک و ہند میں آنے کے بعد اس علمی روایت کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ پروان چڑھایا۔ یہ امر مسلمہ ہے کہ دورِ آخر میں ہند اسلامی تہذیب کا علَم جس انداز سے ہمارے حکما نے تھاما اور بلند رکھا اُس کی مثال کوئی دوسرا طبقہ پیش نہ کرسکا۔ پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ حکیم سید محمود احمد برکاتی اس سلسلۃ الذہب کی آخری کڑی تھے۔
حکیم صاحب چند سال ٹونک میں مطب کرنے کے بعد 1952ء میں اپنے خاندان کے ساتھ ترکِ وطن کرکے کراچی چلے آئے۔ کچھ عرصے عبوری دور سے گزرنے کے بعد لیاقت آباد میں برکاتی دواخانہ کے نام سے باقاعدہ مطب قائم کیا۔ جلد ہی ان کی طبی حذاقت اور وقت کے ساتھ ساتھ علمی لیاقت کا شہرہ ہوتا گیا۔ ان کی دلچسپی کے موضوعات بڑے متنوع تھے۔ ان میں طب و صحت، تاریخ و تحقیق، تنقید و تبصرہ، فلسفہ و منطق، شخصیت نگاری اور ترجمہ نمایاں حیثیت رکھتے ہیں، شعر و ادب کا اعلیٰ ذوق تھا۔ نوعمری ہی سے شعر کہنے لگے تھے۔ ضمیرؔ تخلص کرتے تھے۔ تاہم اپنے دوسرے مشاغل میں انہماک کے باعث وہ اس طرف پوری توجہ نہ دے سکے۔ ان تمام کمالات کے ساتھ صورت و سیرت کے اعتبار سے بھی وہ ہماری تہذیب کی نمائندہ شخصیت تھے۔
حکیم صاحب کی خدمات کا اعتراف انفرادی اور اجتماعی سطح پر کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں اس کی تفصیل کی گنجائش نہیں۔ حکیم محمد سعید شہید کی ان کے بارے میں رائے معلوم و مشہور ہے، جس کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے:
’’یقیناً ہم علامہ حکیم محمود احمد برکاتی کے تعارف کا حق ادا نہیں کرسکتے۔ جتنے وہ عالم و فاضل انسان ہیں، ہماری صف میں ایسے لوگ خال خال ہیں‘‘۔
ایک اور معروف طبیب علامہ محمد حسین عرشی امرتسری (متوفی 1985ء) کا یہ منظوم خراجِ عقیدت بھی اپنی مثال آپ ہے:

نافع الناس انت خیرالناس
عمر تو باد ھمچو خضر دراز
گر طواف بشر روا بودے
کردے گرد تو طواف نیاز

برکاتی صاحب کی وقیع علمی و فنی خدمات کے پیش نظر ہمدرد یونیورسٹی، کراچی نے 2001ء میں ان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی ڈگری تفویض کی تھی۔‘‘
کراچی کی عزت اور وقار ڈاکٹر معین الدین عقیل تحریر فرماتے ہیں:
’’اپنی تہذیب و شائستگی، منصب برداری، جاہ و جلال اور سخاوت و مروت کے سبب بھی انسان پہچانے جاتے اور نمایاں رہتے ہیں، لیکن اگر وہ مزید اوصاف بمثل وضع داری، شفقت و محبت، نرم روی و نرم گفتاری، شغفِ علمی اور اعلیٰ ذوق سے بھی متصف ہوں تو وہ حکیم محمود احمد برکاتی صاحب کی صورت میں ایک عالم میں نمایاں بھی رہتے ہیں۔ میں اپنی طولِ عمری میں جن اکابر سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہوں اور جن کی فہرست کچھ مختصر بھی نہیں، اُن میں حکیم صاحب بھی سرفہرست رہے ہیں۔ ان سے تعارف و نسبت کا عرصہ پچاس سال سے کم نہ تھا۔ حکیم صاحب کی تصانیف کی طرح ان کے مقالات بھی نہایت معلوماتی اور پُرمغز ہیں۔ ان کے موضوعات بیشتر تاریخ اور سوانح اور طب کے متنوع عنوانات کا احاطہ کرتے ہیں، جن میں مطالعات کے نئے گوشے بھی سامنے آتے ہیں اور ان میں نقد و نظر کے اسالیب بھی موجود ہیں۔ اب یہ مزید خوش آئند ہے کہ ان کے لائق فرزند اور جامعہ کراچی سے منسلک ممتاز پروفیسر اور سائنس داں ڈاکٹر سہیل برکاتی نے، جو خود بھی ایک ستھرا اور منجھا ہوا ادبی اور علمی ذوق رکھتے ہیں اور خود مَیں انہیں بھی قریباً نصف صدی سے مختلف صورتوں میں اس ذوق کا اظہار کرتے ہوئے دیکھتا رہا ہوں، اپنے والد کے انتقال کے بعد ان کے غیر مدون مقالات اور تحریروں کو یکجا کیا ہے اور بصورتِ مجموعہ انہیں اہلِ علم و دانش اور حکیم صاحب کے ہم عصر احباب اور عقیدت مندوں کی خدمت میں پیش کرنا ضروری سمجھا، اور بڑی کدوکاوش اور جستجو و محنت سے ایک ایسا مجموعہ مرتب کردیا جس کی ترتیب میں سلیقہ بھی ہے اور جس کے مشمولات میں تنوع اور افادیت کے پہلو بھی حد درجہ جاذبِ توجہ اور لائقِ استفادہ ہیں۔ تاریخ و سوانح اور طب، اور ان کی متنوع جہات، اس مجموعے کے نمایاں موضوعات ہیں، اور ان میں سے متعدد ایسے ہیں جنہیں مطالعے اور جائزے کے ضمن میں اچھوتا اور دور از نظر کہا جاسکتا ہے۔ ایسے اچھوتے موضوعات پر حکیم صاحب نے قلم اُٹھایا اور اپنے مطالعے کی وسعت اور علم و دریافت کو ان تحریروں کے ذریعے منکشف کیا ہے جن کے باعث اہلِ علم اور متعلقہ موضوعات و نکات سے شغف رکھنے والے اصحاب ان کے یوں منکشف ہونے پر ہمیشہ حکیم صاحب کے ممنون رہیں گے، اور اسی مناسبت سے ڈاکٹر سہیل برکاتی صاحب بھی اپنی اس سعادت مندانہ اور حد درجہ افادی خدمت پر، جو اگرچہ اپنے والدِ بزرگوار سے اپنی عقیدت و محبت میں انہوں نے انجام دی ہے، لیکن اہلِ علم کے شکریے کے مستحق اور اپنی اس خدمت کے طفیل علمی تاریخ میں نامور اور یادگار رہیں گے۔ اس ضمن میں ان کا یہ عمل بھی لائقِ تحسین ہوگا کہ اگر وہ اپنے والد کے خطوط اور ان کے نام آئے ہوئے مشاہیر و اکابر کے خطوط کو، اور ساتھ ہی حکیم صاحب سے متعلق دستاویزات کو بھی یکجا کرکے شائع کردیں، کہ یہ سب بھی حکیم صاحب کی شخصیت اور علمی خدمات کی طرح تاریخ کی امانت سمجھے اور استعمال کیے جائیں گے۔‘‘
خواجہ رضی حیدر تحریر فرماتے ہیں:
’’حکیم صاحب فنافی العلم تھے، شاید ہی کوئی موضوع ایسا ہو جس پر وہ اپنی تحقیقی افتاد کے ساتھ گفتگو نہ کرتے ہوں۔ دوسری طرف اُن کی شخصیت میں ایک ایسی جاذبیت تھی کہ جویائے علم اُن کی صحبت کو کتاب کی رفاقت سے زیادہ افضل و مفید تصور کرتے تھے۔ گفتگو کے علاوہ حکیم صاحب اپنے علم کو مدلل انداز، نہایت لطیف پیرائے اور مربوط ومؤثر نثر میں بھی بیان کرنے پر قدرت رکھتے تھے۔ خصوصاً اُن کی کتابیں ’’شاہ ولی اللہ کا خاندان‘‘، ’’شاہ اسحاق اور مولانا برکات احمد ٹونکی‘‘ اپنے موضوعات پر بنیادی اور ثانوی معلومات کا خزینہ ہیں۔ حکیم صاحب کی ایک اور خوبی اُن کی سنجیدہ مزاجی تھی۔ اگرچہ اُن کی آنکھیں ہمہ وقت مسکراتی رہتی تھیں لیکن وہ اپنے مخصوص حلقۂ احباب میں خوش اور بے تکلف دکھائی دیتے تھے۔ وہ بدلحاظی اور دل آزاری سے کوسوں دور تھے۔ اپنے ساتھ پیش آنے والی کم ظرفیوں پر مسکرا دیتے تھے۔ اسی بنا پر اُن کی طبیعت میں انتقام نہیں تھا۔ درگزر کا مادہ تھا، خلوص کی پاکیزگی تھی، مروّت و وضع داری تھی۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ حکیم سید محمود احمد برکاتی شہید ایک جامع الصفات شخصیت تھے۔ ایسی شخصیت جس کی مثال شاذونادر ہی ملتی ہے۔‘‘
کتاب دو حصوں میں منقسم ہے۔ حصہ اوّل میں مختلف عنوانات کے تحت مقالات و مضامین درج کیے گئے ہیں، وہ ہم یہاں نقل کرتے ہیں:
٭بحضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم
حمد باری تعالیٰ، نعت ِ رسولؐ مقبول، آخری نبی آخری صحیفہ، حضور اکرمؐ کا نظام صحت، ام المومنین حضرت ماریہ قبطیہؓ۔
٭ بزرگان و اکابر
حالات شاہ ولی اللہ و شاہ اہل اللہ دہلوی، تحریک ولی اللّٰہی: کیا وہ کامیاب رہی؟ شاہ ولی اللہ کے حالات شاہ عبدالعزیز کی زبانی، شاہ محمد اسحق دہلوی، شاہ ولی اللہ کے ایک غیر معروف فرزند۔ شاہ محمد محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ اور ان کے خاندان کی تحریرات میں تحریفات، مولانا فضل حق خیر آبادی اور معرکہ ہنومان گڑھی، مولانا فضل حق خیر آبادی انگریز کے سب سے بڑی باغی تھے، مولانا عبدالحق خیرآبادی… چند یادداشتیں۔
٭ شخصیات
طغرل اعظم، حیدر علی، ماہرالقادری عہدِ حاضر کا عظیم مداح ِرسول، مولانا ظفر احمد انصاری، پروفیسر ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ظفر محمد خان، رشید محمود، منظور الحسن برکاتی، عیش ٹونکی، واثق ٹونکی، لطیف اثر، حکیم سراج الدین، پروفیسر سید محمد سلیم، غنی دہلوی، محمد محسن ٹونکی۔
٭ طبِ اسلامی
سرطان۔ ماہیئت اور علاج کا ڈھائی ہزار سالہ تجزیہ، دورانِ خون کا نظریہ سب سے پہلے ابنِ نفیس نے پیش کیا تھا، طب اسلامی اور ویدک، غالبؔ اور طبِ قدیم، پاکستان میں طب، ضیائی عہد اور طبِ اسلامی، فرنگی ادویہ، عہدِ ماضی میں مرکب ادویہ کی آمد، شیخ الرئیس حکیم بو علی سینا، تنزو… ایک مرکب دوا جو چین سے درآمد ہوتی تھی، چوب چینی کا مزاج، بلڈ کینسر، پان، پرولیکٹن کی کمی بیشی کا علاج، ایک انٹرویو
٭ متفرق موضوعات
دخترِ بوسنیا، استحکامِ پاکستان… ایک جائزہ، ٹونک مختصر تاریخ اور تعارف، ریاست ٹونک کا ماضی اور حال، تاجدار علوم (نواب سر محمد سعادت علی خان فرماں روا ٹونک)، مولانا مناظر احسن گیلانی اور ٹونک، چند خاص اور اہم فقہی مسائل، پیاس (قصۂ ابراہیم علیہ السلام)، ایک قدیم سیاحِ فرنگ میر محمد حسین، جب میں زندہ تھا (ایک ہندوسنت سے ملاقات)، القول الجلی کی بازیافت، ایک سلطنت دوبادشاہ (ایک قلعوں میں دربار سجاتا، تو دوسرا خانقاہوں میں انجمن آراء ہوتا) انتخابِ امام الہند۔
٭ خود نوشت، انٹرویو، خطاب
میری علمی و مطالعاتی زندگی… اظہارِ خیال… اپنے متعلق، حکیم سیّد محمود احمد برکاتی سے ایک ملاقات، طب کے طلبہ سے خطاب، ڈاکٹر آف سائنس کا اعزاز عطا ہونے پر خطاب، علامہ برکاتی خود اپنی نظر میں (1962ء، 1983ء اور 1986ء)
٭ انتقاد و تراجم
مبدا حرکت اور فلسفہ خودی۔ مصنف احمد خالد، عربی سے ترجمہ حکیم محمود احمد برکاتی، کتاب سادات جاجنیری کی تقریب ِرونمائی، البیان مدیر سیّد رضوان علی ندوی کا اجراء، اصولِ طب معروف بہ کلیاتِ طب۔ ازحکیم سیّد محمد کمال الدین، دلی اور طبِ یونانی از حکیم ظل الرحمن، طب اسلامی برصغیر میں۔ مرتب ڈاکٹر عابد رضا بیدار، شیرازئہ دل۔ ڈاکٹر سیّد اسلم۔
تاریخ اطباء بہار حکیم محمد اسرار الحق۔ الجامع المفردات الادویہ والاغذیہ۔ ازابن بیطار، میرؔوسوداؔ کا دورِ تالیف۔ ثناء الحق صدیقی، فوائد جامعہ برعجالہ نافعہ۔ ازشاہ عبدالعزیز، تذکرہ حمیدیہ۔ از شیخ شہر اللہ۔ ترجمہ غلام دستگیر، تذکرہ اسلاف۔ از مولانا بہاء الحق قاسمی، ظفر علی خان۔ از آغا شورش کاشمیری، اذکارِ قلندری۔ از میر فرح بخش، تواریخ عجیب مقدمہ۔ ایوب قادری، ہمارے عائلی مسائل۔ از محمد تقی عثمانی، کتاب الکلیات۔ از ابوالولید محمد بن ابن رشد
حصہ دوم میں شامل مقالات درج ذیل ہیں:
نعت بحضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مرضِ وصال، اقامتِ دین کی استطاعت، خلیفہ و امام اور ان کی اطاعت کا وجوب، اختلاف دارین اور اس کے احکام (دارین دارالاسلام اور دارالکفر)، حکایاتِ سعدی، علمائے خیر آباد و بَدایوں کے روابط، رمضان کی برکتیں، تقویم ہجری کا آغاز
طب
اردو میں طبِ مغرب کے اولین تراجم، طب قدیم اور طب ہندی، فرنگی بیماری
شخصیات
علامہ تفضل حسین، مفتی صدر الدین آزردہ، مولوی سید ظہیر الدین ولی اللّٰہی، سلطان غیاث الدین غوری، علامہ حکیم سیّد محمود احمد برکاتی سے انٹرویو (فیصل احمد نقش)
ڈاکٹر سہیل احمد برکاتی تحریر فرماتے ہیں:
’’والد محترم علامہ حکیم محمود احمد برکاتیؒ کے بیشتر مضامین ان کی شہادت (2013ء) سے قبل چار مجموعوں کی صورت میں شائع ہوگئے تھے۔ پہلا مجموعہ ’’سفر اور تلاش‘‘ 1996ء میں، دوسرا ’’کشکولِ برکاتی‘‘ 2006ء میں شائع ہوا جو علمی و ادبی جواہر پاروں پر مشتمل ہے۔ یہ مضامین قسط وار ماہنامہ ہمدرد صحت میں بھی شائع ہوئے تھے۔ تیسرا مجموعہ ’’جادۂ نسیاں‘‘ 2009ء میں، اور چوتھا ’’منتخب مقالات‘‘ 2011ء میں شائع ہوا۔ آخر الذکر دو مجموعے ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی نے بڑی محنت، جانفشانی اور حکیم صاحب سے دلی تعلق کا ثبوت دیتے ہوئے شائع کیے۔
علامہ کی شہادت کے بعد بقیہ شائع شدہ مضامین کو کتابی شکل دینے کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اس کے علاوہ کچھ غیر مطبوعہ مضامین کے مسودے بھی علامہ کے کاغذات میں دستیاب ہوئے۔
خادم نے یہ مناسب سمجھا کہ ان مسودوں کو صاف کرکے بغیر کسی ردوبدل کے شائع کردیا جائے۔ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ان مسودوں کو علامہ اپنی حیات میں شائع کرنے کے لیے دیتے تو یقیناً اپنی عادت کے مطابق موجودہ حالت میں نہیں بلکہ ترمیم و اضافے کے ساتھ دیتے۔
موجودہ کتاب میں وہ شائع شدہ مضامین بھی شامل کیے گئے ہیں جو گزشتہ چار مجموعوں میں شامل نہیں تھے۔ اس طرح مختلف موضوعات پر علامہ کے مختلف رسائل میں شائع شدہ مضامین ایک جگہ دستیاب ہوسکیں گے۔ کتاب کے آخر میں علامہ کے دستیاب تمام مضامین اور کتابوں کی فہرست بھی شامل کردی گئی ہے۔
ارادہ ہے کہ بشرطِ حیات والد صاحب شہید کی سیرت و افکار سے متعلق تفصیل علیحدہ سے شائع کی جائے‘‘۔
زیرنظر کتاب اردو ادب و زبان میں وقیع و ثمین اضافہ ہے۔ کتاب میں بہت سی اغلاط راہ پاگئی ہیں، ان کی تصحیح نہیں ہوسکی، اُمید ہے دوسرے ایڈیشن میں ان کی اصلاح ہوجائے گی۔ حروف چینی احتیاط سے نہیں کی گئی۔ کتاب مجلّد اور سادہ رنگین سرورق سے مزین ہے۔