بھارت میں لوک سبھا (ایوانِ زیریں) کے 17ویں انتخابات کے پہلے مرحلے میں 20 ریاستوں کی نشستوں کے لیے پولنگ کا عمل مکمل ہوگیا۔ ایک ارب 30 کروڑ آبادی والے ملک میں 7 مراحل میں انتخابات 6 ہفتوں میں مکمل ہوں گے۔ بھارت میں مجموعی طور پر 89 کروڑ 89 لاکھ ووٹرز میں سے انتخابات کے پہلے مرحلے میں 14 کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ جن ریاستوں میں انتخابات ہوئے ان میں اترپردیش، اروناچل پردیش، آسام، بہار، چھتیس گڑھ، بھارت کے زیر تسلط جموں کشمیر، مہاراشٹر، میزورام، مانی پور، میگھالیہ، ناگالینڈ، اوڈیشا، سکم، تلنگانا، تری پورہ، اترکھنڈ، مغربی بنگال، اندمن، نکوبار اور لکشادیپ شامل ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست بہار میں ووٹر ٹرن آؤٹ 50.26 فیصد، تلنگانہ میں 60.57فیصد ، میگھالیہ میں 62 فیصد، اترپردیش میں 59.77 فیصد، منی پور میں 78.20 فیصد اور لکشادیپ میں 65.9 فیصد رہا۔ دوسری جانب انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق انتخابات کے پہلے مرحلے میں بھارتی ریاست اڑیسہ کے 2 پولنگ بوتھ میں ووٹر ٹرن آؤٹ صفر رہا۔ بھارت میں 7 مراحل میں ہونے والے انتخابات میں پارلیمنٹ کی 543 نشستوں پر ووٹنگ ہوگی، جن میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کا اعلان 23 مئی کو ہوگا۔
صدارتی نظام کی مدت؟
ایوب خان کی مدح سرائی پر خدانخواستہ، خاکم بدہن کسی تنقید کا ارادہ نہیں، لیکن اس مہم جوئی سے ایک غلط فہمی نے جنم لیا ہے جس کا ازالہ ضروری ہے۔ غلط فہمی کی بنیاد پر تاثر ہے کہ جیسے ایوب خان اس ملک کے پہلے اسلامی صدر تھے یعنی وہ پہلے موصوف تھے جنہوں نے ملک میں اسلامی صدارتی نظام کی بنیاد رکھی۔ ریکارڈ کے مطابق یہ صحیح نہیں ہے۔ ملک کے پہلے اسلامی صدر غلام محمد تھے جن کے اوصافِ حمیدہ ہماری جگمگاتی تاریخ کا روشن باب ہیں۔ ہر چند اُن کا عہدہ گورنر جنرل کا تھا لیکن عملاً وہ صدر ہی تھے، اور ہرچند کہ اُن کے دور میں پارلیمانی نظام تھا لیکن وہ مفلوج تھا۔ خود غلام محمد جسمانی طور پر مفلوج تھے۔ ذرا اس پارلیمانی نظام کی مفلوجیت کا اندازہ لگائیے جس پر ایک مفلوج نے فالج گرا دیا ہو۔ اس طرح پاکستان میں اسلامی صدارتی نظام کا آغاز 1951ء میں ہوا، نہ کہ 1958ء میں۔ ان کے بعد دوسرے اسلامی صدر اسکندر مرزا آئے۔ دونوں کے اسلامی صدارتی نظام قدرے خام تھے کہ تجرباتی مراحل میں تھے۔ خام کے بعد تام کی باری آئی اور تیسرا اسلامی صدارتی نظام مردِ کامل ایوب خان نے برپا کیا۔ چوتھا اسلامی صدارتی نظام ایک اور مردِ کامل ضیاء الحق نے نافذ کیا۔ اُن سے پہلے یحییٰ خان نام کے ایک صاحب بھی اسلامی صدر تھے، لیکن چونکہ وہ مردِ کامل ایوب خان ہی کا ضمیمہ تھے (جنہوں نے دسمبر1971ء میں ایوب خان کا نامکمل مشن پورا کیا)، اس لیے وہ گنتی میں شامل نہیں۔ ضمیمہ جاتی دور تین سال رہا جس کے بعد پانچ برس کے لیے پارلیمانی جمہوریت آئی۔ گویا چوتھا اسلامی صدارتی نظام اس لحاظ سے اہم تھا کہ اس نے 1971ء میں اسلامی صدارتی نظام کے انقطاع کو ختم کیا اور ٹوٹا ہوا سلسلہ الذہب پھر سے بحال کیا۔ پانچویں اسلامی صدر غلام اسحاق خان تھے جو مردِ کامل ضیاء الحق کے بستی لال کمال میں اوجِ کمال کی طرف اچانک روانگی کے باعث مسند نشین ہوئے۔ چھٹے فاروق لغاری تھے۔ اسی دوران آٹھ دس سال کا ایک اور ناہنجار اور نامطلوب پارلیمانی وقفہ آیا۔ اگرچہ یہ پارلیمانی نظام ویسے ہی مفلوج تھا جیسے غلام محمد کے دور میں تھا، لیکن تھا تو پارلیمانی، جس سے ہر محب وطن سوہانِ روح کا شکار تھا۔ یہ سوہانِ روح ساتویں اسلامی صدر، مردِ ازحد کامل پرویزمشرف نے دور کیا۔ یہ بابرکت دور آٹھ برس رہا جس کے بعد پھر ناہنجار اور نامطلوب پارلیمانی دور واپس آگیا، جو دس سال رہا۔ یہ دس سال ہر محب وطن نے کس دُکھی دل سے گزارے، یہ ان کا دُکھی دل ہی جانتا ہے۔ خدا خدا کرکے 2018ء میں فرشتے قطار اندر قطار گردوں سے اترے اور اس پارلیمانی نظام کی جگہ ایسا نظام نافذ کیا جو نام کی حد تک پارلیمانی لیکن دراصل اسلامی صدارتی نظام کی تمہید ہے۔ ہاتفِ غیبی کے اشارے پر اسلامی صدارتی نظام ایوب خان کے حق میں مہم شروع ہے جس میں حصہ لینا ہر محب وطن پر فرض ہے، چنانچہ یہ چند مدحیہ سطریں بھی اسی تقاضائے حب الوطنی کے تحت رقم کی جارہی ہیں، تحدیثِ نعمت کے طور پر۔ ایوب خان کی چشمِ بینا پلک جھپکتے میں معلوم کرلیتی تھی کہ کون محب وطن ہے، کون غدار۔ انہوں نے فاطمہ جناح کی صورت میں ایک بہت بڑی بھارتی ایجنٹ کا سراغ لگایا۔ فاطمہ جناح کے حق میں مولانا مودودی نے بیان دیا تو ایوب خان کو پتا چل گیا کہ یہ مولانا بھی بھارت ہی کے ایجنٹ ہیں۔ چنانچہ فطری بات ہے کہ ایک بھارتی ایجنٹ دوسرے بھارتی ایجنٹ کا ساتھ دے۔ چنانچہ مولانا مودودی نے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا اور یہ ’’بدنام زمانہ‘‘ فقرہ کہا کہ ایوب خان میں مرد ہونے کے سوا کوئی خوبی نہیں، اور فاطمہ جناح میں عورت ہونے کے سوا کوئی خامی نہیں۔ بعدازاں ایوب خان نے ان دونوں بھارتی ایجنٹوں کا خوب مکّو ٹھپا۔ فاطمہ جناح نے ایوب خان کا صدارتی الیکشن میں مقابلہ کیا اور ایک بہت بڑی بدقسمتی ہوتے ہوئے رہ گئی۔ جاہل اور احمق قوم، جو بریانی کی پلیٹ پر بک جاتی ہے، فاطمہ جناح کو ووٹ دے بیٹھی، لیکن جاودانی آسمان کا شکریہ کہ گردوں سے صفیں اتریں اور تاریکیِ نیم شب کے بطن سے ایوب خان کی فتح کا سورج برآمد کرلیا۔ یوں بلا ٹلی۔ ایوب خان شدید قسم کے ایمان دار بھی تھے۔ بھارت کو تین دریا 9 ارب روپے میں بیچے، اور یہ رقم پوری ایمان داری سے گندھارا کی کیاری میں لگا دی جو دیکھتے ہی دیکھتے باغ و بہار ہوگئی۔ ایوب خان جاودانی آسمان کے فرزند تھے اور اس الوہی عقیدے پر سختی سے کاربند تھے کہ جاودانی آسمان کی نعمتوں کے حقدار صرف برگزیدہ اور منتخب بندے ہی ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے تمام ملکی دولت 22 نیک اور منتخب گھرانوں کو منتقل کردی۔ گرین ریوولیوشن (زرعی انقلاب) کے تحت انہوں نے جاوداں محبوب بندوں یعنی جاگیرداروں کی کمزور پڑتی طاقت کو پھر سے ناقابلِ تسخیر بنایا اور مردود ہاریوں کو مردود تر بنایا۔ آپ نے آزاد کشمیر کا ٹکڑا چین کو، بلوچستان کا ایک رقبہ ایران کو تحفے میں دیا، اور بدلے میں شکریے کا گراں قدر لفظ وصول کیا۔ خداوند امریکہ کی اطاعت کا قلاوہ ملک کے گلے میں ڈالا۔ ضمناً عرض ہے کہ وطنِ عزیز میں اسلامی صدارتی نظام 51ء سے 71ء تک 20سال، 77ء سے 88ء تک 11سال، 1999ء سے 2007ء تک آٹھ سال تک رہا، یعنی کل ملا کر 39سال۔ غلام اسحاق اور لغاری کے 9سال ملا لیں تو یہ 48سال بن جاتے ہیں۔
( عبداللہ طارق سہیل۔ روزنامہ 92نیوز۔ 16اپریل2019ء)