قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت عمران بن حصینؓ نے کہاکہ ایک شخص نے عرض کیا: ”یا رسولؐ اللہ! کیا جنت والے اور اہلِ جہنم پہچانے جاچکے ہیں؟“ آپؐ نے فرمایا: ’’بے شک‘‘۔ اس نے عرض کیا: ’’تو پھر عمل کرنے والے کیوں عمل کرتے ہیں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’ہر شخص اسی کے لیے عمل کرتا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے یا اسی کے موافق اسے عمل کرنے کی توفیق دی جاتی ہے۔‘‘
(فتح الباری)
نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ اس دین کے ارکان ہیں جن پر یہ دین قائم ہوتا ہے، اس لیے ان کو قائم کرنا اقامتِ دین کے لیے مطلوب ہے، اور جہاد چونکہ دین کو اس نظام کے ساتھ قائم کرنے کا ذریعہ ہے اس لیے وہ بھی اقامتِ دین ہی کے لیے مطلوب ہے۔ ’’کیا میں تمہیں دین و شریعت کی اساس اور اصل، اس کا ستون و عمود اور اس کی بلندی، شان و عظمت نہ بتائوں؟ عرض کیا: ہاں یا رسول اللہ! آپؐ نے فرمایا: اسلام اس کا راس الامر ہے، عمود اس کا صلاۃ ہے، بلندی، عظمت و شان اس کی جہاد (فی سبیل اللہ) ہے‘‘۔ (معاذ بن جبلؓ)
(رسائل ومسائل، چہارم، اپریل 1981ء، ص 363)
نماز اصلاح کا آخری ذریعہ
حدیث میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص کے متعلق پوچھا گیا کہ وہ دن کو نمازیں پڑھتا ہے اور رات کو چوری کرتا ہے۔ اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ یا تو چوری اس سے نماز چھڑا دے گی، یا نماز اس سے چوری چھڑا دے گی۔
(ابن کثیر۔ ج 2، ص 415، بحوالہ تفہیم الاحادیث، ج 3، ص 83، اشاعت دوم)
یہ تو ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تعلیم۔ اب اگر ایک آدمی اصلاح کے جوش میں آکر ایسے شخص سے یہ کہے کہ کم بخت جب تُو چوری کرتا ہے تو تیری نماز کس کام کی! اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اُس کی اصلاح کی آخری امید منقطع کرنا چاہتے ہیں۔ چوری میں تو وہ مبتلا ہے ہی۔ اب آپ اس سے نماز بھی چھڑوانا چاہتے ہیں۔ نماز ایک آخری رشتہ ہے جس سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ مکمل بھلائی کی طرف پلٹ آنے میں اس کی مدد کرے۔ لیکن وہ رشتہ بھی جوشِ اصلاح میں کاٹ دینا چاہتے ہیں۔ اپنے نزدیک تو آپ نے بڑی اصلاح کی بات کی، لیکن حقیقت میں آپ نے اسے جہنم کی طرف دھکیلنے میں حصہ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ جب وہ شخص چوری کرتا ہے تو نماز سے اسے کیا حاصل۔ بلکہ یہ فرمایا کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ ایک وقت آئے گا کہ یا تو اس کی نماز اس سے چوری چھڑا دے گی، یا چوری نماز چھڑا دے گی۔
(5، اے ذیلدار پارک، دوم، دسمبر1979ء، ص: 217، 218)
تارکِ نماز دوزخی ہے
قالو الم نک من المصلین۔(المدثر74:43) ]جنت والے مجرموں سے پوچھیں گے: تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟[ وہ کہیں گے: ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے۔
مطلب یہ ہے کہ ہم اُن لوگوں میں سے نہ تھے جنہوں نے خدا اور اس کے رسولؐ اور اس کی کتاب کو مان کر خدا کا وہ اولین حق ادا کیا ہو جو ایک خدا پرست انسان پر عائد ہوتا ہے، یعنی نماز۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ نماز کوئی شخص اُس وقت تک پڑھ نہیں سکتا جب تک وہ ایمان نہ لایا ہو۔ اس لیے نمازیوں میں سے ہونا آپ سے آپ ایمان لانے والوں میں سے ہونے کو مستلزم ہے۔ لیکن نمازیوں میں سے نہ ہونے کو دوزخ کا سبب قرار دے کر یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ ایمان لاکر بھی آدمی دوزخ سے نہیں بچ سکتا، اگر وہ تارکِ نماز ہو۔
(تفہیم القرآن، ششم، ص 154، المدثر، حاشیہ 22)