سیاسی و اقتصادی بحران،حزب اختلاف کی نئی صف بندی؟

وزیراعظم عمران خان پر داخلی دبائو کیا ہے؟

سیاست اور معیشت دو الگ الگ موضوع ہیں، ان میں سے کسی ایک پر بات کی جائے تو دوسرا پہلو نظرانداز ہوجاتا ہے، لیکن اہلِ سیاست سمجھتے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے سے منسلک ہیں، اس لیے بعض اہلِ سیاست کو مشورہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کی طرح میثاقِ معیشت بھی کرلینا چاہیے۔ یہ ایک اچھا خیال ہے، تاہم اگر ان دونوں کو ’’میثاقِ احتساب‘‘ میں باندھ دیا جائے تو ملکی سیاست اور معیشت کے علاوہ احتساب کا عمل بھی جانب داری سے پاک ہوسکتا ہے۔ میثاقِ احتساب ان دونوں میثاقوں سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ اگر ہمارے ملک میں احتساب سیاست سے پاک ہوتا تو ایبڈو سے لے کر نیب تک کوئی بھی احتساب ناکام نہ ہوتا، اور ہماری سیاست اور معیشت بھی بدعنوانی کی آلائشوں سے پاک ہوتی۔ سیاسی مفادات میں لتھڑے ہوئے احتساب کا عمل کرپٹ سیاست دانوں کو نشانِ عبرت بنانے کے بجائے انہیں ہیرو بنارہا ہے۔ آج بھی حکومت کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ وہ خود کو احتساب کے عمل سے الگ کرلے، یہ کام قانون اور عدلیہ پر چھوڑ دیا جائے، لیکن وزیراعظم عمران خان یہ مشورہ بوجھ سمجھ رہے ہیں اور کسی بھی قیمت پر اس پر عمل کرنے کو تیار دکھائی نہیں دے رہے۔ حکومت کی آٹھ ماہ کی کارکردگی جس طرح تیزی سے سوالیہ نشان بنتی چلی جارہی ہے اس پر انہیں کوئی فکرمندی نہیں، بلکہ حکومت کا بیانیہ ہے کہ ’’ہمیں کوئی فکر نہیں، ملکی معیشت سنبھالنا اداروں کی گارنٹی ہے‘‘۔ گزشتہ ہفتے گوادر میں ایک تقریب میں وزیراعظم نے آرمی چیف کا شکریہ ادا کیا کہ وہ بیرونِ ملک سے قرض لے آئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وزیراعظم نے یہ بات تسلیم کرلی کہ کریڈٹ حکومت کے بجائے فوج کے سالار کو جاتا ہے۔ وزیراعظم نے کریڈٹ تو دے دیا لیکن مشورہ نہیں مان رہے، حکومت سے متعدد بار کہا گیا کہ وہ خود کو احتساب کے عمل سے دور کرلے۔ گزشتہ ہفتے وزیراعظم سے ایک اہم ملاقات میں ایک بار پھر یہی مشورہ دیا گیا ہے، لیکن حکومت نیب سے خود کو الگ نہیں کرسکی۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اعتراف کیا ہے کہ ’’اگر حکومت نیب کی مدد نہ کرے تو کوئی افسر کیسے کام کرسکتا ہے!‘‘ وزیر اطلاعات کے اس بیان نے ملک میں جاری احتساب کے عمل کی پوری کہانی ہی کھول کر رکھ دی ہے۔ اگر یہاں ایک لمحے کے لیے رک کر حمزہ شہباز کی گرفتاری اور مسلم لیگ(ن) کی ’’مزاحمت‘‘ سے پردہ اٹھایا جائے تو ایک منظر صاف نظر آتا ہے کہ مشورے مسلسل نظرانداز کیے جانے پر کسی نے کچھ سبق سکھانے کے لیے حکومت کو بھی تنہا چھوڑ دیا ہے اور مسلم لیگ(ن) کے غبارے میں ہوا بھر دی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے ناراض رہنما چودھری نثار علی خان کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ جب بھی بولتے ہیں ضرور اس میں کسی نہ کسی کے لیے کوئی پیغام ہوتا ہے، کچھ عرصے سے وہ مسلسل ایک ہی بات کررہے ہیں کہ ’’حکومت کو احتساب کے عمل سے خود کو الگ کرلینا چاہیے اور وزیراعظم کو چاہیے کہ غصہ تھوک دیں‘‘۔ وہ ساتھ ہی یہ بھی اشارہ کرگئے کہ ’’یہ حکومت انتخابات کرانے والی نہیں، حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کے لیے یہ وقت بہترین ہے‘‘۔ حکومت کے خلاف مسلم لیگ(ن) کی مزاحمت اور مہنگائی بڑھ جانے پر مظاہروں کی ہلکی پھلکی موسیقی شروع بھی ہوچکی ہے۔ چودھری نثار علی خان نے یہ سب کچھ اس ماحول میں کہا کہ جب سابق وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ اہم شخصیات کے رابطے ہوئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی اُن سے ملاقات کی اہمیت کا اندازہ بھی بہت جلد ہوجائے گا۔ وہ بعد میں آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کے خواہاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ رابطے محض ملاقات برائے ملاقات تک محدود نہیں رہنے چاہئیں۔ یہ رابطے اس بات کا عندیہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ضرور اپنی صف بندی کررہی ہیں۔
دوسرا منظر حکومت کے صحن کا ہے جہاں شخصیات کا ٹکرائو کابینہ تک جا پہنچا ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں جہانگیر ترین کی شرکت پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جو ردعمل دیا، یہ بھی وزیراعظم عمران خان کے لیے ایک اشارہ ہے اور تھا۔ ان کے بیان کے بعد تو حکومت میں پائے جانے والے باہمی اختلافات کی چنگاری کو آکسیجن مل چکی ہے۔ ان کا ردعمل حکومت کی تقسیم پر مہر بھی ثبت کرگیا۔ وزیراعظم نے سیزفائر کرادیا ہے لیکن شاہ محمود قریشی تاک میں بیٹھے ہیں اور جلد ہی وہ ضرور بولیں گے۔ یہ حالات اگرچہ الارمنگ ہیں لیکن وزیراعظم کی موجودگی میں عین اُس وقت وزیراعظم سیکریٹریٹ میں آگ لگ جانا جب کہ وہ امریکی عہدیدار سے ملاقات کررہے ہوں، ایسے واقعات نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔ یہ حکومت کی کہیں نہ کہیں انتظامی کمزوریوں کی نشاندہی ضرور کرتے ہیں۔ حکومت کے پاس ابھی بھی اپنی اصلاح کرنے کا وقت ہے، اگر وہ اس سے فائدہ اٹھا لیتی ہے تو سب کچھ اس کے لیے ہوگا، ورنہ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ابھی کل کی بات ہے ملک میں عام انتخابات سے قبل ایک ماحول بنا، نوازشریف سیاست اور کسی بھی عوامی نمائندگی کے عہدے کے لیے نااہل قرار پائے۔ ان کی نااہلی تحریک انصاف کے لیے کھلا میدان تھا۔ سینیٹ کے انتخابات، اور اس سے قبل بلوچستان میں تحریک انصاف نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ پیپلزپارٹی اس کی خاموش حلیف تھی۔ انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی قیادت کو یہ بات باور کرائی گئی کہ نوازشریف اور آصف علی زرداری اپنی اننگز کھیل چکے ہیں، نوازشریف تاحیات نااہل ہوچکے اور آصف علی زرداری مقدمات کا سامنا کرنے والے ہیں، دونوں کی سیاست میں واپسی کا کوئی امکان نہیں رہا، اور کسی ادارے کو بھی ان میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی، لہٰذا انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جانا چاہیے۔ لیکن عمران خان کو یہ فارمولا قبول نہیں۔ وہ کرپشن کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر سیاست کررہے ہیں۔ وہ ان سے ہاتھ ملانا تو دور کی بات، دیکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں۔ اس طرزعمل نے مشکل پیدا کردی ہے اور کہا جانے لگا ہے کہ حکومت کے غیر لچک دار رویّے کے باعث ملک میں سیاسی استحکام نہیں رہا۔ وزیراعظم کے غیر لچک دار طرزِعمل نے کرپشن کا نعرہ بھی بڑی حد تک غیر مؤثر کردیا ہے۔ یہ حالات خود حکومت کے لیے نیک شگون نہیں ہیں۔ وزیراعظم کا مؤقف ہے کہ کرپشن ختم کرنا ان کا ایجنڈا ہے، علیم خان کے بعد پرویزخٹک کے گرد بھی سرخ دائرہ لگ چکا ہے، اور اتحادی جماعت مسلم لیگ(ق) سے چودھری مونس الٰہی کو اس لیے وزیر نہیں لیا جارہا ہے کہ ان کے خلاف نیب کیسز ہیں، لیکن وزیراعظم کو کوئی یہ بات سمجھانے والا نہیں کہ غیر جانب دار احتساب نہ ہوا تو ملزم ہیرو بنتے رہیں گے اور خود حکومت کے لیے یہ بہتر نہیں ہوگا۔ تحریک انصاف کے بعد حلیف بھی انگڑائی لے رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے چودھری شجاعت حسین نے وزیراعظم سے ملاقات کے لیے وقت مانگا، اور وقت نہ ملنے پر علَمِ بغاوت بلند کردیا تو فوری طور پر اُن کی وزیراعظم سے ملاقات بھی ہوگئی، جس سے ثابت ہوا کہ دعوے جیسے بھی کیے جائیں، حکومت گیلی زمین پر کھڑی ہے۔ اس کے بعد یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ پیپلزپارٹی اور جے یو آئی حکومت پر اپنا دبائو بڑھادیں گی، اس کے باوجود حکومت کے لیے سنبھلنے کا موقع ہوگا کیونکہ فی الحال یہ دبائو ایک خاص درجۂ حرارت سے اوپر نہیں جائے گا۔ اس وقت سوچ یہ ہے کہ حکومت پر دبائو بڑھایا جائے اور اپوزیشن کو دبائو سے باہر نکالا جائے، بس اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ حکومت اپنی اصلاح بھی نہ کرے اور سرپرست بھی اس کی پشت پررہیں۔ خبر یہ ہے کہ اصلاح نہ کی گئی تو بجٹ کے بعد اِنِ ہائوس تبدیلی کی کہانی آگے بڑھے گی، اور اگر ایف اے ٹی ایف کا فیصلہ جون میں آیا تو اس سے حکومت کے مستقبل کا تعین ہوجائے گا۔ وفاقی وزراء اور حکومت کا ایک مؤقف یہ ہے کہ بیوروکریسی کام نہیں کررہی۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے، لیکن اس کی وجہ بھی خود حکومت ہے، اس نے وفاقی سیکریٹریوں کی تقرری کے لیے ایک ایسا اصول بنایا جسے پسند نہیں کیا گیا۔ یہ فیصلہ کابینہ میں ہوا کہ وفاقی وزراء کا اپنی متعلقہ حدود میں اہم اور کلیدی بیوروکریٹس کی تقرریوں میں اہم کردار ہوگا۔ حکومت کی سول بیوروکریسی سے متعلق دو بڑی اصلاحات سے بیوروکریسی کے اختیارات اور کردار محدود ہوا ہے اور وفاقی وزراء اب زیادہ بااختیار ہیں۔ ان اصلاحات سے بیوروکریسی نے سمجھا کہ اب وفاقی سیکریٹری کے لیے متعلقہ وفاقی وزیر کی رضامندی حاصل کرتے رہنا لازمی امر بن گیا ہے۔ اس اصول سے قبل سیکریٹریوں کے تقرر میں وزراء کا کوئی کردار نہیں ہوتا تھا۔ اس پس منظر میں اسلام آباد کے سفارتی حلقے بھی دلچسپی لے رہے ہیں اور اہم ملکوں کے سفارت کار قبل از وقت انتخابات کے امکان پر بھی سوالات کررہے ہیں۔ سفارتی حلقوں میں اسد عمر کے اپوزیشن کے خلاف بیانات بھی اس ضمن میں لیے جارہے ہیں کہ وزیر خزانہ اصل کام سے دھیان ہٹا رہے ہیں۔ اس وقت ایک سناٹا ہے، وزیراعظم عمران خان تیزی سے بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پنجاب، خیبر پختون خوا اور مرکز میں حکومت غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہے اور کھلے عام باتیں ہورہی ہیں کہ عمران خان سنگین چیلنجوں کا سامنا کرنے اور پاکستان کو سنگین معاشی بحران سے نکالنے کی صلاحیت سے محروم ہیں ۔ معاشی بحران اِس لیے گمبھیر ہوتا جارہا ہے کہ وزیراعظم نے جس معاشی ٹیم کا انتخاب کیا ہے اُسے ملکی معیشت کی وسعتوں اور گہرائیوں کا کوئی ادراک نہیں۔ وزیر خزانہ محض کارپوریٹ سیکٹر کا محدود تجربہ رکھتے ہیں۔ ناتجربہ کاری نے معیشت کو اُدھیڑ ڈالا ہے۔ وزیر خزانہ کے غیردانش مندانہ بیانات سے بھی پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں اور وزیراعظم عمران خان کو بگڑی ہوئی صورتِ حال کو قابو میں لانے کے لیے آئی ایم ایف چیف سے پاکستان سے باہر دبئی میں مذاکرات کے لیے جانا پڑا۔ حکومت کی غیر متوازن معاشی حکمت ِ عملی کے سبب کاروبار بڑی حد تک ٹھپ ہے، محصولات میں خطرناک حد تک کمی آچکی ہے، بھارت کی جارحانہ پالیسی نے پاکستان کے دفاعی مسائل میں گوناگوں اضافہ کردیا ہے، مسلسل ہائی الرٹ کے باعث دفاعی اخراجات میں بڑا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
یہاں اس بات کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے کہ 18ویں ترمیم سے متعلق حکومت کے مؤقف میں کہاں تک صداقت ہے۔ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے بعد وفاق اور صوبوں کے پاس کتنے فنڈز ہوتے ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ کے تحت ملک کی کُل آمدن کا 57 فیصد حصہ صوبوں میں آبادی کے تناسب سے تقسیم ہوجاتا ہے اور وفاق کے پاس 43 فیصد رہ جاتا ہے۔ ٹیکس محاصل کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان کی کُل سالانہ آمدن تقریباً 4500 ارب روپے ہے، جس میں وفاق کے پاس 2000 ارب رہتے ہیں، جبکہ 2500 ارب صوبوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ دفاع اور غیر ملکی قرضوں کی اقساط کی ادائیگی وفاق کے ذمے ہے۔ اسے ترقیاتی پروگرام بھی دینا ہوتا ہے۔ وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ صوبوں کے فنڈز کم کردیے جائیں، لیکن صوبے اس پر تیار نہیں ہیں۔ دوسرا منظر یہ ہے کہ پاکستان اپنی قومی آمدن کا 88 فیصد خرچ کرلیتا ہے، اور اس میں سے صرف 12 فیصد بچا پاتا ہے جس کی سرمایہ کاری سے صرف تین سے چار فیصد کی شرح سے ترقی ممکن ہے، اور اس طرح اسے اپنی آمدن کو دگنا کرنے میں 40 سے 50 برس لگیں گے۔ بہتر معیشت کے لیے پاکستان کو اپنی بچت کی شرح کو بڑھانے اور بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے۔ پاکستان کی برآمدات 21 ارب ڈالر کے قریب ہیں، جبکہ درآمدات 55 ارب ڈالر کے قریب ہیں۔ اگر وفاق ان ذمہ داریوں سے دست بردار ہوجائے جو 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل ہوچکی ہیں تو اس سے بہت زیادہ بچت ہوگی۔ وفاقی حکومت کے پاس فنڈز کی کمی کا 18ویں ترمیم سے اتنا بڑا تعلق نہیں ہے۔ وفاقی حکومت اس لیے بھی مشکل میں ہے کہ قرضوں کا ایک پہاڑ ہے جس کی ادائیگیاں وفاقی حکومت کو کرنی ہیں۔ صوبوں کے لیے این ایف سی ایوارڈ میں مختص کیا گیا حصہ کم نہیں ہوسکتا۔ اس صورتِ حال میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو وہ کرنا ہے جو آئین میں دیا گیا ہے۔ صوبوں کے فنڈز یک دم 42 فیصد سے بڑھا کر 57 فیصد تو کردیے گئے لیکن صوبوں نے کوئی بہتر کارکردگی نہیں دکھائی۔ 18ویں ترمیم میں صحت، تعلیم کے علاوہ کئی شعبے صوبوں کے دائرۂ اختیار میں چلے گئے ہیں، لیکن وفاقی حکومت ان شعبوں پر بھی اخراجات کررہی ہے۔ وفاقی حکومت انسدادِ پولیو، فلڈ پروٹیکشن جیسے بڑے بڑے پروگراموں کے لیے رقم فراہم کررہی ہے۔ اس ترمیم میں قومی اسمبلی میں صوبوں کی نمائندگی آبادی کے لحاظ سے ہے اور سوائے جنرل سیلزٹیکس کے، تمام بڑے ٹیکس وفاقی حکومت وصول کرتی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ صوبے اپنی آمدنی کا کچھ حصہ مرکز کو دیں۔ لیکن یہ کام آئین میں ترمیم کے بغیر ممکن نہیں۔ آئین میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت چاہیے جو اپوزیشن کی حمایت سے ہی مل سکتی ہے۔ اب فیصلہ حکومت کو کرنا ہے کہ وہ احتساب کا عمل عدلیہ پر چھوڑ کر پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے ساتھ بہتر ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کے لیے تیار ہے یا نہیں؟

پلی بارگین کی کوششیں…؟

نیب کیسز کا سامنا کرنے والی ملک کی دو بڑی سیاسی شخصیات کے ساتھ آٹھ ارب ڈالر کی پلی بارگین کی کوشش حتمی مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ اہم رابطوں اور مسلسل غور و فکر کے بعد پلی بارگین کا امکان بڑھ رہا ہے۔ ان سیاسی شخصیات کے ساتھ پلی بارگین کا راستہ سپریم کورٹ کے ملک ریاض کیس کے بعد ہموار ہوا ہے۔ اس کیس میں ملک ریاض سات سال کی مدت میں اقساط میں ساڑھے چار سو ارب روپے دینے کے پابند بنائے گئے ہیں۔ سابق وزیراعظم نوازشریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ پلی بارگین کے لیے بات آگے بڑھ رہی ہے۔ ہاں کی صورت میں سابق وزیراعظم نوازشریف جلد ہی عدالت سے علاج کے لیے ضمانت مل جانے کے بعد بیرون ملک چلے جائیں گے، اور ان کی بیرون ملک مدت کا ابھی تک کوئی تعین نہیں ہوا۔ شہبازشریف اس کوشش میں ہیں کہ پلی بارگین کرلی جائے، اور حسن، حسین کے اکائونٹس سے رقم ادا کردی جائے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ شریف خاندان پانچ ارب ڈالر اور آصف علی زرداری تین ارب ڈالر دینے پر آمادہ دکھائی دے رہے ہیں، لیکن نوازشریف ابھی تک اس بارے میں شہبازشریف کو کسی قسم کا کوئی گرین سگنل نہیں دے رہے، کیونکہ انہیں سیاست میں واپسی کی راہ دینے کی یقین دہانی نہیں مل رہی، وہ اپنی سیاسی نااہلی ختم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ پیپلزپارٹی میں بھی یہی سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ اگر بلاول کی راہ ہموار ہوتی ہے تو پلی بارگین کرنے میں کوئی ہرج نہیں، لیکن زرداری خاندان بھی ابھی کوئی فیصلہ نہیں کرپارہا۔ انہیں پلی بارگین کے سائے میں لانے کے لیے فاطمہ بھٹو کی سرپرستی کا بھی عندیہ دیا گیا ہے، اور اگر اس بارے میں پیش رفت ہوگئی تو بلاول بھٹو زرداری مشکل میں پڑ جائیں گے۔ امکان ہے کہ پارٹی کے متعدد رہنما فاطمہ کے ساتھ جاکھڑے ہوں گے۔