پاکستان کو فراہمی ء تیل کا وعدہ…؟،واشنگٹن، ریاض پُراسرار سفارت کاری

مشرق وسطیٰ کے صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ادھار تیل دینے کے معاملے میں سعودی عرب کی رائے کچھ تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ اس سے پہلے کہا جارہا تھا کہ ریاض پاکستان کو سالانہ 2.3 ارب ڈالر مالیت کا تیل ادھار دینے پر راضی ہوگیا ہے۔ پاکستانی حکام نے کچھ ایسا ہی تاثر متحدہ امارات کے بارے میں بھی دیا، لیکن ابوظہبی کی جانب سے اس سلسلے میں مکمل خاموشی رہی اور گزشتہ دنوں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے خود کہہ دیا کہ اماراتی حکومت بہت پہلے پاکستان کی درخواست کو مسترد کرچکی ہے۔ تاہم سعودی عرب کی جانب سے ادھار تیل کی تصدیق ان کے وزیر توانائی شیخ خالد الفالح نے خود کی تھی۔
گزشتہ ہفتے ظہران میں سعودی آرامکو کے ایک سینئر افسر نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان کو تیل کی فراہمی کا معاہدہ اب تک حتمی شکل اختیار نہیں کرسکا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اختلاف قیمتوں پر ہے۔ پاکستان کا اصرار ہے کہ تیل عالمی برانڈ یعنی West Texas Intermediate یا WTIکے نرخ پر دیا جائے، جبکہ سعودی عرب اسے اوپیک باسکیٹ کی شرح پر فروخت کرنا چاہتا ہے جو WTI سے تقریباً 8 ڈالر فی بیرل زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ ادھار کی مدت پر بھی اتفاقِ رائے نہیں ہوا۔ سعودی عرب تین سال تک ادھار تیل فراہم کرنے کو تیار تو ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ ماہانہ ادائیگی ایک سال بعد شروع ہوجائے۔ یعنی اگر اِس سال اپریل سے تیل کی فراہمی شروع ہو تو مئی 2020ء میں اپریل 2019ء کے تیل کی قیمت ادا کردی جائے، اور اس کے ایک مہینے بعد مئی 2019ء کی ادائیگی واجب الادا ہوجائے گی۔ پاکستان کی وزارتِ خزانہ کا خیال ہے کہ ادائیگی کے اس نظام سے عملاً پاکستان کو صرف ایک سال کی مہلت حاصل ہوگی۔
بظاہر تو یہ سب دام اور مدتِ ادھارکا معاملہ ہے، لیکن اندرونی خبر رکھنے والے اسے گرمیِ بازار کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ امریکہ نے گزشتہ برس ایران کے جوہری ہتھیاروں کا معاملہ اٹھاکر اس کے تجارتی بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا اور ایرانی تیل کے گاہکوں سے کہا تھا کہ وہ 4 نومبر تک تہران سے تیل کی خریداری بند کردیں۔ صدر ٹرمپ کے اس اعلان پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جس پر امریکی صدر نے سعودی عرب، عراق اور متحدہ عرب امارات سے تیل کی قیمتوں میں استحکام پیدا کرنے کے لیے پیداوار میں اضافے کی درخواست کی۔
سعودیوں نے بھاری رقوم خرچ کرکے پیداوار میں 8 لاکھ بیرل یومیہ کا اضافہ کردیا، اور ان کی دیکھا دیکھی موقع سے فائد ہ اٹھانے کے لیے روس نے بھی اپنی پیداوار 5 لاکھ بیرل بڑھادی۔ اسی دوران متحدہ عرب امارات، عراق اور کویت کی مجموعی پیداوار بھی ڈھائی لاکھ بیرل بڑھ گئی۔ لیکن اکتوبر میں صدر ٹرمپ نے یوٹرن لیتے ہوئے چین، بھارت، جاپان، جنوبی کوریا اور اٹلی کو چھ مہینے کے لیے اس پابندی سے مستثنیٰ کردیا، جس کے نتیجے میں تیل کی قیمتیں دھڑام سے زمین پر آرہیں۔ سعودیوں نے اپنی اضافی پیداوارکو ٹھکانے لگانے کے لیے نئے گاہک تلاش کرنے شروع کردیے۔ تیل کی فروخت میں اب سعودی عرب کا ایک بڑا مسابقت کار امریکہ ہے جو تقریباً 20 لاکھ بیرل تیل فروخت کے لیے منڈی میں لے آیا ہے۔ سنگاپور، جاپان اور جنوبی کوریا امریکی تیل کے بڑے گاہک ہیں۔
سودا پُرکشش بنانے کے لیے سعودی اب اپنے تیل کی جزوی قیمت چینی کرنسی میں وصول کررہے ہیں۔ اسی کے ساتھ سعودی آرامکو نے پیداوار میں کمی کے اقدامات شروع کردیے۔ روس بھی قیمتوں کو سہارا دینے کے لیے پیداوار میں کمی کی کوشش کررہا ہے۔
پاکستان کو زرمبادلہ کی خراب صورت حال کی بنا پر ادھا تیل درکار تھا اور ’’اس طرف تھا گرم خوں اور ان کو عاشق کی تلاش‘‘ کے مصداق سعودی ولی عہد ازراہِ عنایت پاکستان کو ادھار تیل بیچنے پر رضامند ہوگئے۔
لیکن اب صورتِ حال تبدیل ہوگئی ہے۔ سعودی عرب اور روس کی جانب سے پیداوار میں کٹوتی کے علاوہ وینزویلا سے تیل کی برآمد صفر کے قریب ہے، جبکہ لیبیا میں خانہ جنگی اور نائیجیریا میں بدامنی کی وجہ سے بازار کا رخ کرنے والے تیل کا حجم دو سے ڈھائی لاکھ بیرل یومیہ تک سکڑ چکا ہے۔ چنانچہ اب تیل کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان دیکھا جارہا ہے اور گزشتہ ایک ہفتے کے دوران تیل کی قیمتیں 64 ڈالر فی بیرل ہوگئی ہیں۔
دوسری طرف امریکی وزارتِ خارجہ تاثر دے رہی ہے کہ مئی میں چھ مہینے کی مدت ختم ہونے پر ایرانی تیل پر پابندی سے استثنیٰ کی تجدید نہیں کی جائے گی۔ چین تو شاید امریکی دبائو برداشت کرلے اور صدر اردوان بھی ایرانی تیل کی خریداری جاری رکھیں، لیکن بھارت، جاپان، جنوبی کوریا اور اٹلی نے ایرانی تیل کا متبادل ڈھونڈنا شروع کردیا ہے۔ سعودی عرب کے یہ وفادار گاہک نقد قیمت دینے کو تیار ہیں، اور جب مال نقد بک رہا ہو تو ہر بیوپاری اپنی دکان پر ’آج نقد کل ادھار‘ کا بورڈ آویزاں کردیتا ہے۔
سعودیوں کا خیال ہے کہ اگر روس نے ’لالچ‘ کا مظاہرہ نہ کیا اور پیداوار کی موجودہ حد برقرار رکھی تو ایرانی تیل کی بندش سے طلب و رسد کے درمیان پڑنے والی خلیج خام تیل کی قیمتوں کو 75 سے 80 ڈالر فی بیرل تک پہنچا سکتی ہے۔ تاہم سعودیوں کو یہ بات بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافے سے بحر شمالی (North Sea) اور امریکہ میں تیل و گیس کے وہ میدان منافع بخش ہوجائیں گے جہاں پیداواری لاگت بہت زیادہ ہے۔ امریکہ کے بعض غیر روایتی میدانوں میں جہاں سلیٹی چٹانوں (Shale) سے گیس و تیل کشید کیے جاتے ہیں، پیداواری لاگت 60 ڈالر فی بیرل سے زیادہ ہے، اور اگر قیمتیں 75 ڈالر سے اوپر چلی گئیں تو سینکڑوں بند کنوئوں سے آنے والی پیداوار رسد و طلب کی خلیج کو بہت حد تک کم کردے گی۔ گویا قیمتوں میں اضافہ بہت ہی مختصر مدت کے لیے ہوگا، اور ریاض اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ طویل معاہدے کے تحت 2 لاکھ بیرل یومیہ ادھار دینے کے بجائے اس حجم کو نسبتاً زیادہ قیمت پر بیچ کر اضافی نقدی کمائی جاسکتی ہے۔ سیانوں کے خیال میں سعودیوں کی جانب سے ادھار میں عدم دلچسپی کی وجہ تیزی کا یہی رجحان ہے۔
امریکی دارالحکومت کے صحافتی حلقے پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں اس معاملے کی ایک دوسری ہی تشریح کررہے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ بالاکوٹ پر بھارت کے ناکام فضائی حملے اور اس کے دوسرے دن فضا میں دوبدو جھڑپ المعروف Dog Fight کے دوران پاکستانی فضائیہ کی عمدہ کارکردگی پر بھارت کے ساتھ اسرائیل اور امریکہ کو بھی شدید تشویش ہے، چنانچہ واشنگٹن پاکستان کو شدید معاشی پریشانیوں میں مبتلا کرکے یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ زورِبازو اور طاقتِ پرواز اپنی جگہ، لیکن اس سے سونے کی گولیوں کا مقابلہ ممکن نہیں۔ پاکستان کو اپنی ضرورت کے لیے 2 لاکھ بیرل تیل روزانہ کی ضرورت ہے اور 64 ڈالر فی بیرل کے حساب سے یہ ایک کروڑ 28 لاکھ ڈالر روزانہ کا خرچ ہے۔ سعودی عرب کی فراخ دلانہ پیشکش کے نتیجے میں اگر یہ ادائیگی وقتی طور پر ٹل جائے تو پاکستانی معیشت کو سانس لینے کا موقع مل سکتا ہے۔ امریکہ اور پاکستان تعلقات پر نظر رکھنے والے کہہ رہے ہیں کہ ادھار کا یہ سودا چچاسام کو پسند نہیں، اور حالیہ رخنہ کے پیچھے واشنگٹن اور ریاض کے درمیان پُراسرار سفارت کاری کارفرما ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے یا IMF کے قرض کے لیے FATF سے کلیئرنس پر اصرار بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
اب کہا جارہا ہے کہ اسلام آباد نے شمال کی جانب دیکھنا شروع کردیا ہے۔ کچھ دنوں سے پاکستان اسٹیٹ آئل یا PSOکے ذرائع کہہ رہے تھے کہ آذربائیجان نے پاکستان کو تاخیر سے ادائیگی پر پیٹرولیم مصنوعات کی پیشکش کی ہے۔ 6 اپریل کو اسلام آباد میں توانائی کانفرنس کے دوران صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے پاکستان میں آذربائیجان کے سفیر جناب علی علی زادہ نے اس بات کی تصدیق کردی کہ ان کا ملک پاکستان کو تیل وگیس ادھار پر دینے کو تیار ہے۔ کچھ ایسی ہی خبر ترکمانستان کی طرف سے بھی ہے، تاہم ترکمانستان کی جانب سے ادھار کی تصدیق نہیں ہوسکی۔
PSO ذرائع کا کہنا ہے کہ آذربائیجان کی سرکاری تیل کمپنی SOCAR صاف کیا ہوا پیٹرول 6 ماہ کے ادھار پر دینے کو تیار ہوگئی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ 10 سے 15 کروڑ ڈالر کی پیٹرولیم مصنوعات آسان شرائط پر پاکستان کو فراہم کی جائیں گی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق وزیر خزانہ اسد عمر مجوزہ سودا منظوری کے لیے مشترکہ مفادات کونسل (ECC)کے آئندہ اجلاس میں پیش کریں گے۔
آذری سفیر کی پیشکش کو سنجیدہ تسلیم کرنے کے حوالے سے تیل کے کاروبار سے وابستہ ماہرین کو شدید تحفظات ہیں۔ آذربائیجان میں تیل کی یومیہ پیداوار 8 لاکھ اور برآمد کا حجم 5 لاکھ بیرل روزانہ ہے، جس کا ایک تہائی اٹلی خرید لیتا ہے۔ پرتگال، جرمنی، فرانس، چیکوسلاواکیہ، ترکی، اسپین اور یوکرین بھی آذری تیل کے گاہک ہیں۔ اب جبکہ ایرانی تیل کی خریداری پر پابندی عائد ہورہی ہے، اٹلی آذربائیجان سے مزید تیل خریدنا چاہتا ہے۔ اس پس منظر میں پاکستا ن کو ادھار میں فروخت کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ تاہم یہ بات بھی بے حد اہم ہے کہ آذربائیجان کے یورپی گاہک اُس سے خام تیل خریدتے ہیں۔ انھیں پیٹرولیم مصنوعات یا Refined Products سے کوئی دلچسپی نہیں، اور شاید اسی بنا پر آذربائیجان یہ مصنوعات پاکستان کو فروخت کرنا چاہتا ہے۔
یہاں ایک بڑا مسئلہ نقل و حمل کا ہے۔آذربائیجان میں تیل کے بڑے میدان بحر خزر یا Caspian Sea اور اس سے متصل ساحلوں پر ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات بنانے والے کارخانے اور ریفائنریز بھی بحر خزر کے ساحل پر واقع دارالحکومت باکو میں ہیں۔ بحر خزر خشکیوں سے گھرا سمندر ہے جس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم عرب اور ایرانی جغرافیہ دان اس کو دریائے مازندراں کہا کرتے تھے۔
آذربائیجان سے شمال مغرب میں جارجیا کے ذریعے بحر اسود تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن وہاں سے باہر نکلنے کا واحد راستہ آبنائے باسفورس کے ذریعے ترکی کا بحر مرمرا یا نہر استنبول ہے، جہاں سے آبنائے ڈارڈینیلس (Dardanelles) کے راستے خلیج یونان کے ذریعے بحر روم تک رسائی مل سکتی ہے۔ یہ ایک طویل راستہ ہے جس کی وجہ سے باربرداری کا خرچ بہت زیادہ ہوگا۔ ٹرکوں کے ذریعے ایران اور ترکی کے راستے تیل کی ترسیل ممکن ہے لیکن یہ راستہ متنازع نکورنوکاراباخ کے مخدوش علاقے سے گزرتا ہے جس کی بنا پر تیل کمپنیاں اس شاہراہ کو استعمال کرتے ہوئے ہچکچا رہی ہیں۔ PSO ماہرین کا خیال ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی ترسیل مال بردار ہوائی جہازوں سے ہوگی۔
خام تیل کی تقسیم کے لیے باکو کے آئل ٹرمینل سے ایک پائپ لائن جارجیا کے دارالحکومت تبلسی (Tbilisi) کے ذریعے ترکی میں بحرروم کے ساحلی شہر سیہان (Ceyhan) تک جاتی ہے، جہاں سے تیل سمندری جہازوں کے ذریعے یورپی ممالک کو بھیجا جاتا ہے۔ تیل کے متوازی گیس پائپ لائن بھی موجود ہے، تاہم پیٹرول و ڈیزل کے لیے کوئی پائپ لائن موجود نہیں، جنھیں White Oil Pipe Lineکہا جاتا ہے` چنانچہ پیٹرولیم مصنوعات کی تقسیم ٹرکوں کے ذریعے سیہان تک ہوتی ہے۔یعنی ایک طرف تو نقد فروخت کے نئے مواقع کی موجودگی میں آذربائیجان کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی ادھار فروخت مشتبہ نظر آرہی ہے، تو دوسری طرف راستہ طویل و پیچیدہ ہونے کی بنا پر باربرداری کا خرچ بہت زیادہ ہوگا۔ اس کے علاوہ ادھار کا یہ حجم بھی ضرورت کے اعتبار سے بہت کم ہے۔

…………………………

اب آپ مسعود ابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comپر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔