بھارتی حملے کا خطرہ

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے انکشاف کیا ہے کہ ’’بھارت پاکستان پر ایک بار پھر جارحیت کا منصوبہ بنارہا ہے، جنگ کے بادل اب بھی منڈلا رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے معتبر انٹیلی جنس رپورٹوں کی بنیاد پر خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارت 16 سے 20 اپریل کے درمیان کوئی کارروائی کرسکتا ہے۔ انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ بھارت پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ جیسا کوئی واقعہ بھی کرا سکتا ہے۔ وزیر خارجہ کے مطابق بھارت کی مودی حکومت انتخابات میں کامیابی کے لیے خطے کے امن کو دائو پر لگا رہی ہے۔ انہوں نے عالمی برادری کو متوجہ کیا ہے کہ وہ اس غیر ذمہ دارانہ رویّے پر بھارت کو تنبیہ کرے، اگر بھارت نے جارحیت کا مظاہرہ کیا تو ملک کا بھرپور دفاع کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دفتر خارجہ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ان مصدقہ اطلاعات کی بنیاد پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کو بلا کر آگاہ کرے گا۔ اس موقع پر انہوں نے عالمی برادری کے جانب دارانہ رویّے کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ پلوامہ واقعہ کے بعد 26 فروری کو جب بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف جارحیت کی جاتی ہے، پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی ہوتی ہے، 1971ء کے بعد پہلی مرتبہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی جاتی ہے تو اُس وقت بہت سے ذمے دار ممالک خاموش رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں کہ ہمیں اس خاموشی کا علم نہیں۔ یہ جیو پالیٹکس ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی برادری کو اس خطے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی اتوار کے روز جو چھٹی کا دن ہوتا ہے، اپنے شہر ملتان کے دورے پر تھے جہاں انہوں نے پریس کانفرنس کی اور ایک دن کی تاخیر کی زحمت بھی نہیں کی تاکہ وہ دفتر خارجہ کے عہدیداروں کے ساتھ پریس کانفرنس کریں۔ اس سے صورتِ حال کی سنگینی ظاہر ہوتی ہے۔ وزیر خارجہ کی ہنگامی پریس کانفرنس کے بعد دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق پاکستان میں متعین بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے بھارت کی جانب سے جارحیت پر خبردار کیا گیا اور بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دوٹوک الفاظ میں آگاہ کیا گیا کہ بھارت نے کوئی بھی جارحیت کی تو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ وزیر خارجہ کا یہ انکشاف بظاہر چونکا دینے والا ہے، لیکن اس خطے کی سیاست پر نظر رکھنے والے افراد جانتے ہیں کہ بھارت خطے میں کشیدگی کا اہم سبب ہے، اور اس کے پاس نریندر مودی جیسی سیاسی قیادت ہے جس کی ہم آہنگی ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو جیسے نسل پرست متکبرین کے ساتھ ہے۔ وزیر خارجہ نے بغیر نام لیے بھارت کی جارحیت پر عالمی قوتوں بالخصوص اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کی خاموشی کی شکایت کی ہے، اور ان کا واضح اشارہ امریکہ اور بالخصوص برطانیہ و فرانس کی طرف ہے۔ وزیر خارجہ کی جانب سے بھارتی حملے کے خطرے کا جس تناظر میں اظہار کیا گیا ہے وہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس موقع پر امریکی فوجی قیادت کی ایک ٹیم پاکستان کے دورے پر موجود ہے جس نے برّی فوج، بحریہ اور فضائیہ کی قیادت کے ساتھ وزیراعظم عمران خان اور ان کی دفاعی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں۔ امریکہ اور ایران کی کشیدگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی فوج کے ایک حصے ’’سپاہ پاسدارانِ انقلاب‘‘ کو دہشت گرد فوج قرار دے دیا ہے، جبکہ اس سے قبل ایف اے ٹی ایف کے ذریعے پاکستان کے سر پر دہشت گردی کی مالی سرپرستی کرنے والا ملک قرار دینے کی تلوار لٹکا رکھی ہے۔ ساتھ ہی پاکستان کے گرد اقتصادی گھیرا بھی تنگ کردیا ہے۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا تعلق ان کی مرضی کے مطابق اقتصادی اصلاحات سے کم اور سیاسی مقاصد سے زیادہ ہیں۔ یہ سلسلہ بہت عرصے سے چل رہا ہے۔ اسی دوران میں امریکی ایما پر فرانس اور برطانیہ نے اقوام متحدہ میں مولانا مسعود اظہر اور حافظ سعید کو دہشت گرد قرار دینے کی قرارداد کی منظوری کی کوشش کی جسے چین نے ناکام بنادیا۔ چین کی حکومت نے واضح طور پر کہا کہ مسعود اظہر اور حافظ سعید کو دہشت گرد قرار دینے سے حالات کی پے چیدگی میں اضافہ ہوگا۔ اس پس منظر میں بھارت کی جانب سے پاکستان پر حملے کا خطرہ محض مفروضہ نہیں ہے، اور اس طرح وزیر خارجہ نے یہ انکشاف کرکے ایک طرح سے جنگ کو روکنے کی پیش قدمی کی ہے۔ یہ خطرہ اس وجہ سے بھی ختم نہیں ہوا کہ بھارتی حکومت نے ایک ناکام مہم جوئی کی ہے جس کی وجہ سے مودی حکومت کو سبکی بھی ہوئی ہے اور اسے داخلی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ بی جے پی کی انتخابی مہم پاکستان اور مسلمان دشمنی پر مرکوز ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ بھارتی حملہ بغیر امریکی آشیرباد کے ممکن نہیں ہے۔ بھارت کا پہلا حملہ ناکام ہوچکا، اس کے بعد امریکہ نے پاکستان پر دبائو بڑھایا اور واضح کیا کہ ہم نے ایف 16 طیارے بھارت سے لڑنے کے لیے نہیں دیے ہیں۔ امریکہ نے باقاعدہ طیاروں کی گنتی بھی کی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ پاکستان کو اول دن سے بھارت کی جارحیت کا خطرہ ہے، لیکن امریکی حکم کے مطابق پاکستان امریکی طیاروں سے اپنا دفاع بھی نہیں کرسکتا۔ امریکہ افغانستان میں بھی بھارت کا ایک کردار چاہتا تھا، لیکن 17 برسوں کی جنگ نے اس منصوبے کو بھی ناکام بنادیا۔ ایک جنگ وہ ہے جو 17 برسوں سے جاری ہے جو امریکہ ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے نام پر پاکستان کے خلاف لڑ رہا ہے، جس میں ناکامی کے بعد بھارت کی مدد سے وہ پاکستان پر دبائو ڈالنا چاہتا ہے۔