’’ہومرکی رزمیہ نظمیں، یونان کی شہری ریاستوں کا عروج، سکندراعظم کی سلطنت، اور فلسفے، فن اور قدرتی سائنس کے شعبوں میں یونانیوںکی خدمات قدیم یورپ کا انقلابی موڑ ہیں۔ یونانی دنیا کا بہت بڑا حصہ مشرق پر مشتمل تھا، یہ اہلِ مشرق سے بھرپور تعامل میں رہے۔ یورپ سے شمالی افریقا تک سلطنتِ روما اور اس کی طاقت، اس کی سیاسی و عسکری شان وشوکت قائم ہوئی۔ رومیوں نے ایشیائے کوچک اور جرمن قبائل سمیت مقامی اقوام پر فتوحات حاصل کیں۔
فلسفہ اور بربریت: یہ ہماری دنیا کی بنیادیں ہیں۔ یونانی اس بات پر یقین لائے کہ خدائی قوتوں نے انسانی پیادوں کو کھیل بنا رکھا تھا۔ یونانیوں نے دیومالائی خداؤں سے جان چھڑائی۔ تقدیر کی ڈگر پر چلنا چھوڑا اور علم کی جستجو میں لگ گئے۔ چھ اور سات قبلِ مسیح میں یونانی فلسفیوں اور ان کا سلسلہ اس بات کا قائل ہوا کہ دنیا کا انتظام محض تصورپر قائم ہے۔ اس عالمِ خیال کی اصل جاننے کے لیے سقراط، افلاطون، اور ارسطو نے علوم( (Sciences کی بنا ڈالی۔ یہ خوداعتمادی اور آگاہی ان دانشوروں اور تخلیق کاروں کو علوم کے ارتقاء کی نئی منزلوں کی جانب لے گئیں۔ فلسفہ، طبیعات، حیاتیات، اور طب میں ترقی ہوئی۔ یوں سیاسی طرزِفکر کے طریقے اور زاویے بدل گئے۔ ریاست اور اخلاقیات کے نئے نظریات اور رہنما اصول مرتب ہوئے۔ معاشرتی تنازعات اور فرد کی انفرادیت ہومر کی رزمیہ نظموں اور یونانی المیہ نگاری میں واضح کی گئیں۔ انفرادیت پرستی بتدریج مغرب کی روح میں سرایت کرگئی، نشاۃ ثانیہ اور عہدِ روشن خیالی میں یہ پھر ابھری اور پورے مغرب پر چھاگئی۔ یہ سب یونانی فلسفے کے اثرات کا نتیجہ تھا… رومی سلطنت کئی جنگوں اور فتوحات کے بعد عالمی سلطنت کے طور پر ابھری۔ دورِ جدید کے لیے رومی ورثہ علمی سے زیادہ عملی ہے۔ بالخصوص سیاسی، قانونی، فنِ تعمیر، اور تکنیکی شعبہ جات میں ان کے کارہائے نمایاں رہے۔ روم شاندار فنِ تعمیرکے حوالے سے یورپ کا پہلا میٹروپولیٹن شہر تھا۔ یہ سلطنت کی تمام انتظامی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ اسی عہد میں عیسائیت منظر پر ابھری۔ ابتدائی ظلم وستم کے بعد اس نے مقبولیت حاصل کی، اور بالآخر سلطنتِ روما کے ڈھانچے میں تعمیری کردار ادا کیا۔ آخر میں سلطنتِ روم جرمن قبائل کی فتوحات اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی سے زوال پذیر ہوئی۔‘‘
(Essential Visual National Geographic History, pg 53-55)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم تک انحطاطِ تہذیب کا دور ہے۔ اس عہد میں تہذیب کے بناؤ اور بگاڑ کا سلسلہ مجموعی انحطاط کی صورت اختیار کرگیا تھا۔ دینِ کامل کی حتمی ضرورت پیدا ہوچکی تھی۔ انحطاط کے آثار حضرت عیسیٰؑ کی آمد سے بہت پہلے نمایاں ہوچکے تھے (تاریخ کے مطالعے میں یہ واضح رہنا چاہیے کہ تہذیبوں کے مختلف ادوار کو طے شدہ تاریخوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ متوازی اور متصادم ہوتے ہیں، اور طویل کشمکش کے بعد اگلا دور پچھلے دور کو منسوخ کرتا ہے، بعض اوقات یہ دورانیہ صدیوں پر پھیلا ہوتا ہے۔ تہذیبی انتقال کی اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے پورے عالم انسانی پرگہری نظر ضروری ہے)۔ انحطاطِ تہذیب کے دومتوازی سلسلے ہیں۔ ایک بنی اسرائیل کی نافرمانیوں اور مسیحی پیشواؤں کی گمراہیوں کا سلسلہ ہے جو قبلِ مسیح سے اسلام کی آمد تک ہے۔ دوسرا پہلو یونانی، رومی تہذیب سے بربریت تک ہے۔ بنی اسرائیل مغربی تاریخ میں سنجیدہ موضوع نہیں، اس لیے عمومی تواریخ میں اس کی اہمیت نہیں۔ اس کی چند وجوہات ہیں: یہ عہدنامہ قدیم کے سوا کہیں پائی نہیں جاتی، یہ مقبول اور مؤثر نہیں، یہ عوامی نہیں بلکہ نسلی ہے، یہ اصلاحی نہیں سازشی ہے (جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بنی اسرائیل سے واقفیت قبلِ مسیح کے دوہزار سال کی تاریخ سمجھنے کے لیے لازم ہے۔ یہ تاریخ صرف علم وحی یعنی قرآن حکیم سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کے بغیر اس عہد کی تاریخ نامکمل اور ناقابلِ فہم ہے)۔ دوسری جانب دینِ مسیحی عوام میں مقبول ہوا۔ اسے رومی سلطنت کی قوت میسر آئی۔ بادشاہوں اور کلیساؤں کی سرپرستی سے لامحدود توانائی ملی۔ چنانچہ مغرب نے یونانی فلسفے کی خدا بیزاری اور رومی تہذیب کی مادہ پرستی کو اپنی تاریخ کا مرکزی ماخذ بنایا۔ یہی وہ رجحان ہے جسے مغرب تاریخ کی تعمیروترقی بیان کرتا ہے، مگرحقیقت یہ ہے کہ یہ انسانی تہذیب کا وہ ابتدائی انحطاط ہے جس کی وضاحت میں ہی تاریخ کی تکمیل ہے۔ مذکورہ اقتباس مغربی تصورِ تاریخ کا خلاصہ ہے۔ مادہ پرستی اور مغرب پرستی اس اقتباس کی روح ہیں۔ فلسفہ اور بربریت اس کی بنیادیں ہیں۔ مذہب اور خدا یہاں محض افسانوی ہیں۔ یہاں ساری قدروقیمت یونانی فلسفے اور رومی قوت اور طرزِ سیاست کی ہے۔ اس دور کے انحطاط کی حقیقت کیا ہے؟ برطانوی دانشور رابرٹ بریفالٹ لکھتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی دنیا کو یونان نے بنایا۔ یہ کہنا صحیح نہیں کہ یونان نے یورپ کو مشرق کی مداخلت سے بچایا۔ یورپی دنیا کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ تہذیب کی صرف ایک ہی شکل تھی اور وہ مشرقی تہذیب تھی۔ یونان کسی جغرافیائی ضابطے کے ماتحت مشرق سے علیحدہ نہ تھا۔ یونان نے یورپ کی حفاظت نہیں کی، بلکہ اس کو پیدا کیا ہے۔ یونان سے پہلے یورپ کا کوئی وجود نہ تھا… رومیوں کو جہانگیری اور کشور کشائی کا شوق محض اس لیے نہیں ہوا کہ انہیں عظمت وجلال کے حصول کی خواہش تھی، یا وہ مشرقی مطلق العنانوں کی طرح نشۂ پندار سے سرشار تھے، یا سلطنت قائم کرنا اور حکمرانی کا ڈنکا بجانا اُن کا نصب العین تھا، بلکہ بات صرف اتنی تھی کہ وہ روپیہ جمع کرنا اور جلد سے جلد دولت مند بننا چاہتے تھے۔ انہیں جلد ہی معلوم ہوگیا تھا کہ فتوحات کے ساتھ بے شمار مواقع اور گنجائشیں پیدا ہوجاتی ہیں (یہاں برطانوی اور امریکی استعماریت کا فلسفہ کس قدر جھلک رہا ہے۔ یہ رومیوں کے حقیقی جانشین ہیں۔ مضمون نگار)۔ اہلِ یونان نے صرف یہی نہیں کیا کہ سائنس کی حقیقی اساس وبنیاد یعنی تجربی سائنس وتحقیق اور مشاہدے سے تغافل اختیار کیا، بلکہ انہوں نے باصرار اس کو ذلیل وحقیر قرار دیا، اور اس کی شدید مخالفت کی… یہ قابلِ غور اور حیرت انگیز حقیقت ہے کہ یونان اور روما جنہوں نے دنیا کی ہیئتِ کاملہ بدل کر رکھ دی اور تہذیب کی ایک نئی کائنات تخلیق کی، وہ ایک بھی اہم علمی ایجاد یا صنعتی اکتشاف نہیں کرسکے۔ دنیائے قدیم کی تمام تر صنعتیں اور حرفتیں مثلاً پارچہ بافی، رنگ سازی، پیپرس، شیشہ سازی، روغنی چینی مشرقی اکتشافات کا نتیجہ تھیں، اور ہمیشہ خالص مشرقی پیداوار ہی رہیں۔ بابل ومصر کے اوّلین ایام سے لے کرکسی اہم اور نئے مادی اکتشاف کا سراغ نہیں ملتا، تاآں کہ عربوں نے یورپ میں کاغذ سازی، بارود سازی، اور ناخداؤں کے قطب نما کو رواج دیا، اس دانش و بصیرت نے فکروذہن کی ایک ایسی نئی دنیا پیدا کردی جو مغرب کے مقابلے میں ایسی ہی تھی جیسے آدھی رات کے مقابلے میں دوپہر۔ جہاں تک مادی عملیات کا تعلق ہے، روما والے یونانیوں سے بہتر تھے۔ انجینئرنگ، فنونِ عمارت، شارع سازی، معدنیات اور پانی کے نکاس کے طریقوں میں کمال رکھتے تھے۔ یونانیوں کو کبھی کوئی سڑک یا کاریز بنانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ رومیوں کا عملی اور حقیقت پسند ذہن دراصل یونانیوں کے مقابلے میں مشاہدہ اور تحقیق کی طرف زیادہ مائل تھا۔ لیکن اس پر تسلط و اقتدار قطعاً یونانی روایات کا تھا۔ چنانچہ جب سیزر نے تقویم (کیلنڈر) کی اصلاح کا ارادہ کیا تو ریاضی اور علم ہیئت کے ماہرین مصر سے بلانے پڑے۔ یونان اور روما کی تہذیب ’قبل سائنس‘ کی تہذیب ہی رہی۔ یورپ کے بربری قبائل دلدلوں اور جنگلی راستوں پر لکڑی کی جھونپڑیوں میں رہتے تھے۔ ان کے پاس چند گھریلو صنعتیں تھیں۔ بہت قلیل کھیتی باڑی تھی۔ وہ پرلے درجے کے نشہ باز، قاتل، غدار اور شہوت پرست وحشی تھے۔ اُن کی وحشت بھی ایک خاص قسم کی کمینہ وحشت تھی۔ اُن کے لیے کتنے ہی توہین آمیز اشارے کیے جائیں، کم ہیں۔ اُن کی بے حیائی کا پورا حال بیان کرنا ناممکن اور ہولناک ہے۔ اُن کی عیش وعشرت کی انتہا یہ تھی کہ ڈٹ کر کھائیں، بلوہ فساد کریں، تیز شراب پی کر حیوانوں کی طرح غُل مچائیں۔ اُن کی قوتیں طبعی طور پر قتل وخون، ظلم وتشدد، اور شدید فحش کاری میں صرف ہوتی تھیں۔ ذہنی اعتبار سے وہ بالکل جامد اور سست تھے۔ گبن (مؤرخ) کی رائے یہ ہے کہ اتنی مدت کے کسی تاریخی زمانے کے اندر اتنی زیادہ بدی اور اتنی کم نیکی کا سراغ نہیں ملتا… یہ صحیح نہیں ہے کہ دنیائے قدیم کے کھنڈروں پر یک لخت ایک نئی دنیا پھلنے پھولنے لگی۔ بلکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ کوئی پانچ سو سال کی مدت تک یورپ گہرائیوں میں ڈوبتا چلا گیا۔ صورت حال بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ نویں صدی میں حالات بے انتہا تاریک اور قطعی طورپر یاس انگیز تھے۔ ان لوگوں میں زندگی اور ترقی کے وہ تخم ہی موجود نہ تھے جو اپنی طبعی اور اندرونی قوت سے پھوٹ کے پروان چڑھنے کے قابل ہوجاتے۔ صورت ایسی تھی کہ یورپ ایک قسم کے ’بربری حبشہ‘ کی طرح بالکل متحجر ہوجاتا۔ جس روشنی سے تہذیب کا چراغ ایک دفعہ پھر روشن ہوا وہ یونانی رومی ثقافت کے اُن شراروں سے نہیں اٹھی جو یورپ کے کھنڈروں میں سلگ رہے تھے، اور نہ ہی باسفورس کی ’زندہ موت‘ سے وجود میں آئی تھی۔ یہ روشنی شمال سے نہیں آئی تھی، بلکہ اسے سلطنت کے جنوبی حملہ آور یعنی عرب اپنے ساتھ لائے تھے۔‘‘
(تشکیل انسانیت، رابرٹ بریفالٹ، مترجم عبدالمجید سالک، صفحات 198۔246)
اس عہدِ انحطاط کی ایک بے مثل تصویر مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے شاندار تصنیف ’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر‘‘ میں کھینچی ہے:
’’چھٹی صدی مسیحی بلا اختلاف تاریخِ انسانی کا تاریک ترین اور پست ترین دور تھا۔ صدیوں سے انسانیت جس پستی ونشیب کی طرف جارہی تھی، اس کے آخری نقطے کی طرف پہنچ گئی تھی۔ روئے زمین پر اُس وقت کوئی ایسی طاقت نہ تھی، جوگرتی ہوئی انسانیت کا ہاتھ پکڑ سکے، اور ہلاکت کے غار میں اس کو گرنے سے روک سکے۔ نشیب کی طرف جاتے ہوئے اس میں روز بہ روز تیزی پیدا ہورہی تھی، انسان اس صدی میں خدافراموش ہوکر مکمل طور پر خود فراموش بن چکا تھا، وہ اپنے انجام سے بالکل بے فکر اور بے خبر اور بُرے بھلے کی تمیز سے قطعاً محروم ہوچکا تھا۔ پیغمبروں کی دعوت کی آواز عرصہ ہوا دب چکی تھی، جن چراغوں کو یہ حضرات روشن کرگئے تھے، وہ ہواؤں کے طوفان میں یا تو بجھ چکے تھے یا اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اس طرح ٹمٹما رہے تھے، جن سے صرف چند خدا شناس دل روشن تھے۔ دیندار اشخاص دین کی امانت کو سینے سے لگائے زندگی کے میدان سے کنارہ کش ہوکر دیروکلیسا اور صحراؤں کی تنہائیوں میں پناہ گزیں ہوگئے تھے۔ جو زندگی کے اس طوفان میں باقی رہ گئے تھے انہوں نے بادشاہوں اور اہلِ دنیا سے سازباز کرلی تھی۔ ان کی ناجائز خواہشات اورظالمانہ نظام سلطنت و معیشت میں ان کے دستِ راست بن گئے تھے۔ رومی اور ایرانی اُس وقت مشرق ومغرب کی زعامت کے اجارہ دار بنے ہوئے تھے، وہ دنیا کے لیے کوئی اچھا نمونہ ہونے کے بجائے ہر قسم کی خرابی اور فساد کے علَم بردار و ذمے دار بنے ہوئے تھے۔ اس دور میں بڑے بڑے مذاہب بازیچۂ اطفال اور منافقین کا تختۂ مشق بن گئے تھے، ان مذاہب کی صورت و حقیقت دونوں اس درجہ مسخ ہوگئی تھیں کہ اگر یہ ممکن ہوتا کہ کسی طرح ان مذاہب کے پیشوا دنیا میں آکر اپنے دین کا حال دیکھ سکیں تو قطعاً وہ اپنے مذاہب کو نہ پہچان سکتے۔ خلاصہ یہ کہ اس ساتویں صدی مسیحی میں روئے زمین پر کوئی قوم ایسی نظر نہ آتی تھی جو مزاج کے اعتبار سے صالح کہی جاسکے۔ نہ کوئی ایسا صحیح دین تھا جو انبیائے کرام کی طرف صحیح نسبت رکھتا ہو۔ صحیح علم اور صحیح عمل اتنا نایاب تھا اور خدا کا سیدھا راستہ بتانے والے اتنے خال خال پائے جاتے تھے کہ ایران کے بلند ہمت اور بے چین طبیعت نوجوان سلمان فارسی کو جو اپنے قومی و نسلی مذہب (مجوسیت) سے غیر مطمئن ومایوس ہوچکے تھے، اور حق وصداقت کے جویا تھے، ایران سے لے کر شام کی آخری حدود تک صرف چار آدمی ایسے مل سکے جوپیغمبروں کے بتلائے ہوئے راستے پر گامزن تھے۔‘‘
(باب اول ، بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے)
یہ انسانی تہذیب کے مجموعی انحطاط کی بتدریج صورت حال ہے، جو پانچ سو سال قبل مسیح سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک، اور اسلام کی آمد کے بعد کچھ عرصے تک نظر آتی ہے۔ سب سے پہلے یہ سمجھنا لازم ہوگا کہ مغربی تاریخ میں یونانیوں کی اہمیت بنیادی کیوں ہے؟ جب کہ مغرب کی یونان شناسی کوئی تحقیقی کاوش یا علمی جستجو کا نتیجہ نہ تھی، بلکہ مسلمانوں کی دین تھی! حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی یونان سے پہلے کوئی تاریخ موجود ہی نہیں۔ یونان نے یورپ کی تاریخ کو وجود بخشا ہے۔ حادثہ کہا جائے یا حُسنِ اتفاق کہا جائے اہلِ یورپ کے لیے تین ایسے مواقع یا راستے پیدا ہوئے، جن میں سوائے یونانی فلسفے اور بربریت کی تعریف اور پیروی کے کوئی چارہ نہ تھا۔ یونانی آگہی مسلمانوں کی علمی و عسکری حاکمیت کے ساتھ وارد ہوئی تھی۔ لہٰذا پہلا انتخاب یہ تھا کہ اسلام قبول کرلیا جاتا، مگر یورپ کس طرح عرب اسلام کی بالادستی قبول کرسکتا تھا! دوسرا انتخاب یہ تھا کہ عیسائیت کی پیروی میں اسلام کا مقابلہ کیا جاتا، اور ایسا کیا بھی گیا۔ علمی اور صلیبی دونوں محاذوں پر مغرب نے شکست کھائی۔ تیسرا انتخاب یہ تھا کہ مذہب سے جان چھڑا کر یونانی فلسفے اور بربریت کو ہی اپنی فکر اور عمل کی بنیاد بنایا جائے اور عملی سائنس مسلمانوں کی چُرالی جائے۔ اس طرح مغرب نے اپنی علمی میراث یونان اور عملی میراث روم کے نام کردی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یونانی و رومی ادوار انسانی تہذیب کا مجموعی انحطاط تھے۔ جیسا کہ نیشنل جیوگرافک کی تاریخ میں یہ فخریہ طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ مغرب کی بنیادیں فلسفہ اور بربریت ہیں۔ یہیں سے انہوں نے اپنے لیے مذہب بیزاری کی دلیل حاصل کی، یہیں سے انفرادیت پرستی اپنائی۔ یہی وہ درسِ انحطاط ہے، یہی وہ طرزِ انحطاط ہے جسے آج انسانی تہذیب کے مجموعی زوال میں کمال حاصل ہوا ہے۔ اُس کا ذکر زوالِ تہذیب کے باب میں آئے گا۔ یہاں یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ یونان سے عیسائیت اور رومی سلطنت تک، اور اس کے بعد بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم تک انحطاطِ تہذیب کی کیفیت اور وجوہات کیا تھیں۔ بنی اسرائیل نے نیابتِ الٰہی کی ادائیگی میں جس جہالت اور کفر کا رویہ اپنایا تھا، وہ اس انحطاط کا بنیادی سبب تھا۔ اسی لیے قرآن حکیم نے تفصیل و تکرار کے ساتھ بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کا ذکر کیا ہے اور دینِ مسیحی میں بگاڑ کی نشاندہی کی ہے۔ یہی وہ بگاڑ تھا جس نے چھٹی ساتویں صدی میں بدترین صورت اختیار کی تھی۔ اس دور کی تاریخ سمجھنے کے لیے انہیں سمجھنا لازم ہے۔
’’اے بنی اسرائیل! ذرا خیال کرو اُس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی، میرے ساتھ تمہارا جو عہد تھا اُسے تم پورا کرو، تو میرا جو عہد تمہارے ساتھ تھا اُسے میں پورا کروں، اور مجھ ہی سے ڈرو۔ اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لاؤ۔ یہ اُس کتاب کی تائید میں ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی، لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جاؤ۔ تھوڑی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو اور میرے غضب سے بچو۔ باطل کا رنگ چڑھاکر حق کو مشتبہ نہ بناؤ، اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور جو لوگ میرے آگے جُھک رہے ہیں اُن کے ساتھ تم بھی جُھک جاؤ۔ تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو، مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو۔ کیا تم عقل سے بالکل کام نہیں لیتے؟ صبر اور نماز سے مدد لو، بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے، مگر ان فرماں بردار بندوں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخرکار انہیں اپنے ربّ سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ جانا ہے۔ اے بنی اسرائیل! یاد کرو میری اُس نعمت کو، جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا، اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی۔ اور ڈرو اُس دن سے جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا، نہ کسی کی طرف سے سفارش قبول ہوگی، نہ کسی کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے گا، اور نہ مجرموں کو کہیں سے مدد مل سکے گی۔‘‘(بقرہ 41۔48)
’’اے مسلمانو! اب کیا ان لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمھاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی۔ جب یہ (محمد رسول اللہ پر) ایمان لانے والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی انھیں مانتے ہیں، اور جب آپس میں ایک دوسرے سے تخلیے کی بات چیت ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ بے وقوف ہوگئے ہو؟ ان لوگوں کو وہ باتیں بتاتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں تاکہ تمھارے رب کے پاس تمھارے مقابلے میں انھیں حُجّت میں پیش کریں؟ اور کیا یہ جانتے نہیں ہیں کہ جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں، اللہ کو سب باتوں کی خبر ہے۔ ان میں ایک دوسرا گروہ امیّوں کا ہے، جو کتاب کا علم رکھتے نہیں، بس اپنی بے بنیاد امیدوں اور آرزوؤں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم وگمان پر چلے جارہے ہیں۔ پس ہلاکت اور تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نوشتہ لکھتے ہیں، پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کرلیں۔ اُن کے ہاتھوں کا یہ لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے، اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجبِ ہلاکت۔ وہ کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چُھونے والی نہیں اِلّا یہ کہ چند روز کی سزا مل جائے تو مل جائے۔ اِن سے پوچھو، کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہے، جس کی خلاف ورزی وہ نہیں کرسکتا؟ یا بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ اُس نے ان کا ذمہ لیا ہے؟ آخر تمہیں دوزخ کی آگ کیوں نہ چھوئے گی؟ جو بھی بدی کمائے گا اور اپنی خطا کاری کے چکر میں پڑا رہے گا، وہ دوزخی ہے اور دوزخ ہی میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے وہی جنتی ہیں، اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
(سورہ بقرہ، آیت75۔87)
’’اور جب اللہ فرمائے گا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ! کیا تُو نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی خدا بنا لو؟ وہ عرض کرے گا تُو پاک ہے، مجھے لائق نہیں کہ ایسی بات کہوں جس کا مجھے حق نہیں، اگر میں نے یہ کہا ہوگا تو تجھے ضرور معلوم ہوگا، جو میرے دل میں ہے تُو جانتا ہے، اور جو تیرے دل میں ہے وہ میں نہیں جانتا، بے شک تُو ہی چھپی ہوئی باتوں کا جاننے والا ہے۔‘‘ (سورۃ مائدہ، آیت116)
’’اور ان کے یہ کہنے پر کہ ہم نے مریم کے بیٹے مسیح عیسیٰ کو قتل کیا جو اللہ کا رسول تھا، حالانکہ انہوں نے نہ اسے قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا، لیکن ان کو اشتباہ ہوگیا، اور جن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں، ان کے پاس بھی اس معاملے میں کوئی یقین نہیں ہے، محض گمان ہی کی پیروی ہے، انہوں نے یقیناً مسیح کو قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا، اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔ اور اہلِ کتاب میں کوئی ایسا نہ ہوگا جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے گا، اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوگا۔‘‘ (سورہ نساء157۔159)
انحطاطِ تہذیب کے باب کا تسلسل کچھ یوں بنتا ہے: بنی اسرائیل نے نیابتِ الٰہی کا حق ادا نہ کیا۔ چنانچہ تہذیبِ مشرق میں بگاڑ آیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت آخری موقع ثابت ہوئی۔ یہ موقع بنی اسرائیل نے گنوادیا۔ دینِ مسیحی کے پیروکار انسانیت کی کوئی رہنمائی نہ کرسکے۔ دیگر قوموں میں بھی پیغمبروں کی تعلیمات بگاڑی گئیں۔ غرض یونان سے روم اور بربروں تک، اورکلیسا سے بادشاہوں تک انسانی تہذیب تیزی سے انحطاط پذیر ہوئی۔ یہی وہ دور ہے جب تکمیلِ تہذیب کی ابتدا نئی امامت اور نئی خلافت ونیابت کے ساتھ صحرائے عرب میں ابھری۔ یورپ کے ساحلوں پر کشتیاں جلادی گئیں۔ یورپ سے جہالت کا اندھیر چھٹا۔ اندلس میں انسانی تہذیب اپنے کمال پر پہنچی۔ یہ تقریباً سات صدیوں پر محیط سنہرا ترین تہذیبی دور ہے۔ اسے تکمیلِ تہذیب کا دور بھی کہا جاسکتا ہے۔