سندھ میں وفاق کی مداخلت

سندھ میں زور زبردستی سے تبدیلی کرنے کی کوشش سے احتراز کرنا وفاق کے اپنے مفاد میں ہوگا

وفاقی وزیر قانون بیرسٹر ڈاکٹر فروغ نسیم نے (جو خود بڑے وکیل ہیں اور نیک نام قانون داں کے بیٹے ہیں) وزیراعظم جناب عمران خان کو تجویز پیش کردی ہے کہ وہ سندھ میں آئین کی شق 149 کے تحت حاصل اختیار استعمال کریں۔ جس کا مقصد یہ بتایا جارہا ہے کہ اس طرح وفاق سندھ میں صوبائی حکومت کے بغیر ترقیاتی پراجیکٹس شروع کرسکتا ہے۔ وزیر قانون سے زیادہ کون جانتا ہے کہ یہ نسخہ تو سندھ میں وفاق، جنرل (ر) پرویزمشرف کے دور میں 2002ء سے لے کر 2008ء تک استعمال کرچکا ہے۔ کیا اس طریقہ علاج سے سندھ کے شہری علاقوں کو میرٹ کی بنیاد پر سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کے مطابق حصہ مل پایا تھا؟ اور کیا شہری علاقوں کی آبادی کی بنیاد پر وسائل کی منصفانہ تقسیم ہوئی تھی؟
یہ کام جنرل (ر) پرویزمشرف جیسے کلی اختیارات کے مالک صدر کے دور میں نہ ہوسکا، تو اب بے اختیار گورنر سندھ جناب عمران اسماعیل کی نگرانی میں کیسے ہوپائے گا! سندھ میں بندوق بردار فوجی آمر جنرل پرویزمشرف نے ذاتی ضرورتوں اور گروہی مفادات کے لیے آئین کی اسی شق کا سہارا لے کر اپنے دورِ صدارت میں یہی کچھ تو کیا تھا جس میں عملاً دیہی سندھ کو وزیراعلیٰ کے سپرد، اور شہری سندھ کو گورنر کے سپرد کرکے تقسیمِ اختیارات کا متوازی ماورائے آئین بندوبست کیا گیا تھا۔ سندھ کے شہری علاقوں کے باسیوں کے جائز حقوق کا تحفظ بااختیار فوجی صدر کے بندوبست میں نہ ہوسکا تو اب کیسے ہوجائے گا! جبکہ موجودہ گورنر سندھ جناب عمران اسماعیل کی وفاقی حکومت اور حکومتِ سندھ کے درمیان تو معمول کی ورکنگ ریلیشن شپ بھی موجود نہیں ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد وفاق کے لیے صوبائی حکومت کوآن بورڈ لیے بغیر ترقیاتی پراجیکٹس پر کام شروع کرنا آسان نہیں رہا ہے۔ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو بھی وفاق کی طرف سے ترقیاتی پراجیکٹس شروع کرنے کے لیے صوبائی حکومت کو آن بورڈ لینا پڑا تھا۔ اس لیے سابق سٹی ناظم کراچی سید مصطفیٰ کمال کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ وزیراعظم جناب عمران خان کے کراچی کے لیے اعلان کردہ پیکیج کی… جب تک وہ سندھ حکومت کو آن بورڈ نہیں لے لیتے… زبانی جمع خرچ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں ہے۔ تحریک انصاف وزیراعظم کی جانب سے ترقیاتی پیکیج کے اعلان کے بعد اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ سندھ میں جلد تبدیلی آنے والی ہے۔ ان سے پوچھا جاتا ہے کہ تبدیلی کیسے آئے گی؟ تو ان کا جواب ہوتا ہے: پیپلز پارٹی کی قیادت جیل میں ہوگی، اور ہم اقتدار میں ہوں گے۔
اس سے قطع نظر کہ آنے والے دنوں میں وفاق سندھ میں کیا کرتا ہے، قابلِ غور یہ بات ہونی چاہیے کہ اس کے بعد کا سیاسی منظرنامہ کیا ہوگا؟ اگر 1988ء سے لے کر 1999ء تک اقتدار میں رہنے والی حکومتوں کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ سندھ میں حکومت تبدیل ہوتے ہی وفاق میں حکومت کا چل چلائو شروع ہوجاتا ہے۔ اگر اس کے سیاسی مضمرات کا جائزہ لیں، تو ہمیں متحدہ پاکستان کی تاریخ کا جائزہ بھی لینا پڑے گا۔ ملک کے دولخت ہونے کے اسباب میں ایک اہم سبب وفاق کی صوبوں میں غیر ضروری مداخلت نظر آئے گی۔
موجودہ پاکستان (جو پہلے ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) کا نیا پاکستان تھا۔ اور یہ جناب عمران خان کا نیا پاکستان ہے) کا جائزہ لیں تو ساری خرابیوں کی بنیادی جڑ منتخب صوبائی حکومتوں کو ’’چمک‘‘ اور ریاستی جبر کے ذریعے پہلے غیر مستحکم کرنا، اور بعدازاں حکومت کو ختم کرکے من پسند حکومتوں کو مسلط کرنا رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں سردار عطا اللہ خان مینگل کی حکومت کو برطرف کرکے پہلے گورنر راج، بعدازاں زور زبردستی سے پیپلز پارٹی کی حکومت قائم کردی۔ حالانکہ 1970ء میں ہونے والے عام انتخابات میں بلوچستان میں پیپلز پارٹی کا ایک بھی امیدوار نہ تو قومی اسمبلی میں منتخب ہوا تھا اور نہ ہی صوبائی اسمبلی میں… مگر دنیا نے دیکھا کہ کس دھڑلے سے بھٹو نے بلوچستان میں اپنی حکومت قائم کی تھی۔ 1970ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو صوبہ سرحد (اب خیبر پختون خوا) میں قومی اسمبلی میں ایک نشست اور صوبائی اسمبلی میں صرف تین نشستیں ملی تھیں، مگر پیپلز پارٹی نے وہاں بھی اپنی حکومت بنا لی تھی۔ اس طرزِ سیاست کے منفی نتائج بلوچستان اور ملک آج تک بھگت رہا ہے۔ ماضی کے تلخ تجربات کو اب نہیں دہرانا چاہیے۔ سندھ میں زور زبردستی سے تبدیلی کرنے کی کوشش سے احتراز کرنا وفاق کے اپنے مفاد میں ہوگا۔ کیونکہ سندھ میں جو منتخب حکومت ہے وہ اسمبلی میں واضح اکثریت رکھتی ہے۔ اسے تبدیل کرنے یا ختم کرنے کی کوشش اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب ’’چمک‘‘ اور ریاستی جبر کو بروئے کار لایا جائے گا۔ اٹھارہویں ترمیم کی موجودگی میں پہلے کی طرح ’’مثبت‘‘ نتائج حاصل کرنے کے لیے پیپلزپارٹی میں فارورڈ بلاک بنانا اور ارکان اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کرنااب آسان نہیں رہا ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ کے پاس ترپ کا یہ پتّا موجود ہے کہ اگر انہوں نے خطرہ محسوس کیا کہ وفاق ،صوبائی حکومت کو ختم کرنے کی کوشش سے باز نہیں آرہا ہے تو وہ اسمبلی توڑ کر سندھ میں نئے انتخابات کا بگل بجا سکتے ہیں، جس کا زیادہ نقصان تحریک انصاف کو ہوگا۔ اگرچہ وزیراعظم جناب عمران خان نے اگلا الیکشن ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر لڑنے کا اعلان کردیا ہے، مگر کیا ایسا ہوپائے گا؟ اس پر یہی تبصرہ کیا جا سکتا ہے کہ ’’ہنوز دِلّی دور است‘‘۔ وزیر قانون جناب فروغ نسیم نے وزیراعظم کو دفعہ 149 کے تحت حاصل اختیار استعمال کرکے سندھ میں مداخلت کا جو مشورہ دیا ہے، کیا اسے وفاق عدالتوں میں ثابت کرسکے گا؟ رہی بات خراب حکمرانی کی، اس میں تو وفاق شاید سندھ کا ہم پلہ ہی ہو۔ اس میں کیا شک ہے کہ سندھ میں کئی عشروں سے قائم پیپلز پارٹی سمیت تمام ہی حکومتوں سے وزیر قانون کی جماعت کی مضبوط پارٹنرشپ رہی ہےجوسرکاری وسائل کی لوٹ مارمیں برابر کی شریک رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کراچی میں اپنی انتخابی مہم میں یہی نعرہ لگایا تھا۔ ملک اور سندھ کے عوام کے مفاد میں عافیت کا واحد راستہ اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے کہ اب ذاتی اور گروہی مفادات سے بالاتر ہوکر تمام سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کو، ملک کو ان خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے، جن کا سامنا ہمیں اپنی سلامتی کی دشمن قوتوں کی طرف سے ہے، حکومتوں کے الٹ پلٹ کرنے کے کھیل میں سہولت کار نہ بننے کا عہد کرنا ناگزیر ہوگیا ہے، تب ہی خراب حکمرانی کی جگہ اچھی حکمرانی قائم کرنے کے سفر کا آغاز ممکن ہوگا۔ اس کے بعد ہی ملک کو کرپشن کے ناسور سے پاک کرنے کے لیے احتساب کا ایسا صاف شفاف نظام وضع کرپائیں گے جس کی زد سے کوئی کرپٹ اور بدعنوان بچ بھی نہ پائے، اور دنیا بھر کے آزاد اور غیر جانب دار ادارے اس پر حرف گیری بھی نہ کرسکیں۔ سیاسی قوتیں اپنے گھر کو درست کرلیں تو خارج سے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ اس کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو باہم دشنام طرازی کو خیرباد کہہ کر مہذب جمہوری ممالک کی طرح سیاسی کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جس طرح جدید سازو سامان سے لیس طاقت ور فوج ضروری اور ناگزیر ہے، اسی طرح ملک کو آئین کے مطابق چلانے کے لیے منظم سیاسی جماعتوں کا وجود بھی لازم و ملزوم ہے۔ پاکستان کا قیام قائداعظم کی قیادت میں سیاسی عمل اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے عمل میں آیا، اس کی بقا اور استحکام کا راز بھی اسی میں پنہاں ہے۔