جموں کشمیر سالویشن فرنٹ کے وائس چیئرمین الطاف بٹ سے خصوصی گفتگو
جموں کشمیر سالویشن فرنٹ کے وائس چیئرمین‘ سی بی آر سوسائٹی کے صدر اور ممتاز حریت رہنما الطاف بٹ سری نگر میں پیدا ہوئے‘ طالب علمی کے زمانے سے ہی تحریک آزادی سے وابستہ ہوئے‘ حزب المجاہدین کے ابتدائی لوگوں میں شمار ہوتے ہیں‘ سری نگر کے اس کاروباری گھرانے سے تعلق ہے‘ آج سے کم و بیش بیس سال قبل پاکستان آئے اور تحریک حریت کے لیے کام کر رہے ہیں‘ جو مجاہدین یہاں آئے‘ واپس نہیں جاسکے‘ اور جو کشمیری مہاجرین مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے باعث قیمتی گھر اور وسیع کاروبار چھوڑ کر آئے ان کی دوبارہ بحالی کے لیے بہت کام کیا،ظفر اکبر بٹ اس تنظیم کے چیئرمین ہیں ان سے فرائیڈے اسپیشل کے لیے گفتگو ہوئی جو پیش خدمت ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: کچھ اپنے بارے میں بتائیے گا کہ کشمیر کی آزادی کے لیے تحریک حریت سے کب وابستہ ہوئے۔
الطاف بٹ: میرا تعلق ایک کشمیری گھرانے سے ہے‘ سری نگر میں 27 مارچ 1971 میں پیدا ہوا‘ طالب علم تھا کہ کشمیر میں آزادی کی تحریک چلی‘ یہ اس وقت کی بات جب کشمیری لیڈر شپ نے یہ بات محسوس کی کہ صندوق کے ذریعے انقلاب کی راہ روکی جارہی ہے لہٰذا اب بندوق اٹھانے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا‘ بھارتی سرکار نے سید علی گیلانی‘ اشرف صحرائی‘ صلاح الدین (یوسف شاہ) کو انتخابات میں ہر قیمت میں آگے نہ آنے دینے کا تہیہ کر رکھا تھا لیکن وہ ہر حربے کے باوجود سید علی گیلانی کا راستہ نہیں روک سکی تاہم یہ بات لیڈر شپ نے محسوس کرلی ہمیں آزادی کے لیے کوئی دوسرا راستہ ہی اپنانا ہوگا لہٰذا حزب المجاہدین کی بنیاد رکھی گئی اور اس میں شامل ہوئے‘ اور عزم ٹھان لیا کہ اب آزادی کے سوا کسی چیز پر راضی نہیںہوں گے یہ جدوجہد آج تک جاری ہے ۔
فرائیڈے اسپیشل: پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کشمیر کے لیے کام کرتی ہے اور ان کے مؤقف کی حمایت کرتی ہے یہ بتائیے کہ تحریک انصاف ان دنوں حکومت میں ہے اس کی کشمیر پالیسی سے کس حد تک مطمئن ہیں۔
الطاف بٹ: تحریک انصاف جب تک حکومت نہیں آئی تھی ہمیں اس کی کشمیر پالیسی کے بارے میں بھی بہت کم علم تھا لیکن جب انتخابات میں اسے کامیابی ملی اور عمران خان نے اپنی وکٹری سپیچ کی‘ اس سے ہمیں اور کشمیری نوجوان کو بہت حوصلہ ملا‘ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایک متحرک وزیر خارجہ ہیں‘ انہوں نے یورپ اور لندن میں جس طرح کشمیری کمیونٹی کو اکٹھا کیا اور یورپی ایوانوں میں کشمیر کا مسئلہ اجاگر کیا وہ واقعی تعریف کے قابل ہے اس کے باوجود بھی ابھی بہت کا کام کرنا باقی ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک ڈیسک بنائے اور نائب وزیر خارجہ برائے کشمیر مقرر کرے اور بیرون ملک قابل وفود بھجوائے ان فود میں اگر سابق سفارت کار شامل کیے جائیں تو بہتر نتائج مل سکتے ہیں ہمارے پاس سردار مسعود خان ہیں‘ ڈاکٹر باسط ہیں اور ان جیسے بہت سے سفارت کار ہیں ان کی خدمات لی جاسکتی ہیں‘ آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان تو بہت متحرک ہیں اسی طرح کشمیر کمیٹی کو بھی کام کرنا چاہیے نواب زادہ نصرا للہ خان کی سربراہی میں کشمیر کمیٹی نے بہت کام کیا تھا اس زمانے میں او آئی سی میں کشمیر گروپ قائم ہوا اور عالمی برادری کے رو برو کشمیر کا مقدمہ بہت ہی اچھے انداز میں پیش کیا گیا بے نظیر بھٹو کے پہلے دور تو خاص کام نہیں ہوا بلکہ راجیو اسلام آباد آئے تو کشمیر ہائوس کے بورڈ تک اتراوا دیے گئے لیکن جب بے نظیر بھٹو دوسری بار اقتدار میں آئیں تو کشمیر کمیٹی بنائی‘ اور او آئی سی سمیت ہر عالمی فورم پر کشمیر کی بھرپور نمائندگی کی اور مقدمہ لڑا ان کے بعد بھی سلسلہ جاری رہا لیکن کبھی اونچ نیچ بھی آتی رہی
فرائیڈے اسپیشل: جنرل مشرف نے فارمولا دیا تھا
الطاف بٹ: دو باتیں ہیں‘ جنرل ضیاء الحق کے بعد جنرل مشرف تھے جنہوں نے مجاہدین کے ساتھ براہ راست رابطہ رکھا‘ ان کے کیمپوں میں بھی گئے نائن الیون کے بعد کچھ حالات تبدیل ہوئے لیکن آگرہ کانفرنس اور واجپائی کے ساتھ ملاقات میں یہ باور کرایا کہ پاکستان تو مذاکرات کا حامی ہے یہ تو بھارت ہے جو مذاکرات سے بھاگ رہا ہے پاکستان کی ہر حکومت نے کشمیر کے لیے کام کیا لیکن اسے ٹھوس بنیادوں پر کرنا چاہیے۔
فرائیڈے اسپیشل: او آئی سی کا ذکر کیا آپ نے‘ ایک فیصلہ ہوا تھا کہ مقبوضہ کشمیر جن خاندانوں کے شہادتیں ہوئی ہیں‘ نقصان ہوا اس کی تلافی کے لیے جامع رپورٹ مرتب کی جائے یہ کام آج تک نہیں ہوسکا کیوں کیا وجہ رہی۔
الطاف بٹ: اس معاملے میں ہماری ناکامی ہوئی ہے‘ مگر یہ کام آزاد کشمیر حکومت کا تھا جو جہاد کا بیس کیمپ ہے لیکن یہ حکومت اس بارے میں کچھ نہیں کر سکی لیکن مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی میں شریک کشمیریوں کے لیے اس نے کچھ نہیں کیا شہداء کے خاندانوں کی کفالت اور تلافی کے لیے اسے آگے آنا چاہیے تھا نواب زادہ نصر اللہ خان کی سربراہی میں کشمیر کمیٹی نے بہت کام کیا تھا اور اس وقت کی بے نظیر بھٹو حکومت نے حریت کانفرنس کو عالمی سطح پر متعارف کرایا تھا۔
فرائیڈے اسپیشل: گلگت کو ایک الگ اسپیشل اسٹیٹس دیا گیا ہے‘ یہ تو کشمیر کا حصہ ہے اس سے تحریک آزادی متاثر نہیں ہوتی۔
الطاف بٹ: گلگت کی طرح جموں اور لداخ میں بھی کچھ ایسے ہی فیصلے ہوئے ہیں در اصل یہ کام کشمیر کے مسئلہ کے حل کی جانب ایک قدم ہے اور اسے آپ اعتماد سازی کے ا قدامات کا نام دے سکتے ہیں یہ سب سی بی ایمز ہی ہیں جنرل مشرف نے مراحل میں یہ کام کرنے کی تجویز دی تھی میری رائے میں یہ سب کام اسی سوچ کے تحت ہورہے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: رائے شماری کے وقت مسائل تو پیدا ہوں گے۔
الطاف بٹ: یہ بات اٹل ہے کہ کشمیر کا مسلمان پاکستان کے حق میں ووٹ دے گا جہاں جہاں مسلم آبادی ہے وہاں پاکستان کو ووٹ ملے گا ایک وقت تھا کہ ہم یوم پاکستان جنگلوں میں جاکر منایا کرتے تھے آج صورت حال بدل چکی ہے سکولوں کے بچے سرعام پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں اور انہیں کوئی خوف نہیں رہا ۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری سے قبل ڈیموگرافی تبدیل کرنا چاہتا ہے اس لیے وہاں ہندو اور مہاجرین کو بسایا جارہا ہے رائے شماری کے وقت کشمیری ریاست میں شامل تمام یونٹس کو ووٹ کا برابر حق دیا جائے کشمیری مسلمان رائے شماری کے وقت پاکستان کے حق میں ووٹ دے گا ۔
فرائیڈے اسپیشل: بھارت مذاکرات کیے کیوں پیش رفت نہیں کر رہا۔
الطاف بٹ: اس وقت وہاں انتخابات ہورہے ہیں‘ مودی انتہاء پسند تنظیموں کا سربراہ ہے وہ انتہاء پسند ووٹر کو اپنی جانب کھینچ رہا ہے ۔ بھارت سید علی گیلانی جیسی قیادت سے بات چیت نہیں کرناچاہتا ہے کیونکہ اسے ان کے اصولی مؤقف کا اچھی طرح علم ہے وہ ایسی قیادت سے بات چیت کا خواہاں ہے جس کے مؤقف میں لچک ہوگی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی سفارتی زبان میں بھارت کے لیے ایک اشارہ دیا ہے کہ وہ اگر سید علی گیلانی سے بات نہیں کرنا چاہتا تو محبوبہ مفتی جیسے رہنمائوں سے بات چیت کرلے نائن الیون کے بعد متفقہ طور پر سیزفائر کا فیصلہ ہوا لیکن بھارت نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا بھارت کی فوج مقبوضہ کشمیر میں بدترین ظلم کررہی ہے اقوام متحدہ کے حالیہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھی انسانی حقوق کی ایک تفصیلی اور جامع رپورٹ پیش کی گئی ہے جس نے مہذب دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارتی فوج کشمیریوں کے قتل عام میں براہ راست ملوث ہے اور خواتین کی عصمت دری اغوا جیسے واقعات اس نے کیے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: ابھی حال ہی میں بھارت نے کرتار پورہ مذاکرات سے بھی راہ فرار اختیار کی ہے۔
الطاف بٹ: جی ہاں ایسا ہی ہے پاکستان نے گزشتہ اگست میں کرتارپور راہداری کھولنے کی پیشکش کر کے بھارت سمیت دنیا بھر کی سکھ برادری کو خوشگوار حیرت میں ڈال دیا۔ انہوں نے جشن منائے۔ مگر دوسری طرف بھارت کی انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی مودی حکومت سخت آزمائش میں پڑ گئی۔ بھارت تو اس لنک کو ختم کرناچاہتا ہے جسکے ایک سرے پر پاکستان اور دوسرے پر بھارتی سکھ ہوں۔ وہ تو سکھوں کو انکے پوتراستھانوں، ننکانہ صاحب، حسن ابدال اور گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور کی یاترا کے لیے پاکستان جانے کی اجازت دینے میں بھی بڑی پس و پیش سے کام لیتا ہے۔ کرتارپور راہداری کو کھولنے کا مطلب سکھوں کو پاکستان آنے جانے کی کھلی اجازت دینا ہے۔ مودی سرکار نے پُرفریب سیاست کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بظاہر تو کرتارپور راہداری کھولنے کی فراخدلانہ پیشکش کا خیرمقدم کیا لیکن بہ باطن وہ اس کوشش میں ہے کہ یہ بیل منڈھے ہی نہ چڑھے، اس نے سکھوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ایک آدھ بار نیم دلی سے مذاکرات کا ناٹک بھی رچایا۔ 19 مارچ کو کرتارپور میں پاکستان اور بھارت کے تکنیکی ماہرین کے مذاکرات ہوئے وہ بہت مثبت تھے۔ اگر بھارتی حکومت کی نیت میں فتور نہ ہوتا تو واہگہ بارڈر کے مذاکرات کی کوریج کے لیے پاکستانی صحافیوں کو ویزے سے انکار کا کوئی جواز نہ تھا۔ وزارت خارجہ کو بھارتی روئیے پر افسوس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔