بزرگ سیاسی رہنما، صحافی و شاعر تابش الوری سے لاہور کے عامل صحافیوں کی گفتگو
بہاولپو ر صوبہ بحالی کی تحریک ایک ایسی دبی ہوئی چنگاری ہے جو اندر ہی اندر سلگ رہی ہے۔ کئی دہائیوں سے دبی ہوئی یہ چنگاری کسی بھی وقت بھڑک سکتی ہے۔ یہ جائز اور مبنی برانصاف مطالبہ شاید اب احساسِ محرومی میں تبدیل ہورہا ہے کہ کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود مقتدر اور فیصلہ ساز حلقے اسے بلاوجہ ٹالتے جارہے ہیں۔ نہ تو وہ اس مطالبے کے برحق ہونے کے، اور نہ ہی اس کے قابلِ عمل ہونے کے انکاری ہیں۔ وہ اسے تسلیم کرنے سے برملا انکار بھی نہیں کرتے، لیکن اپنی نادیدہ مصلحتوں اور سیاسی مفادات کے باعث صرف وقت گزارنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ ملک کی کوئی سیاسی جماعت اس مطالبے کی اعلانیہ مخالف نہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں دیگر نئے صوبوں کے قیام کے اعلانیہ مخالفین ہر جگہ موجود ہیں۔ ہر سیاسی جماعت بہاولپور صوبے کے مطالبے کی زبانی حمایت کرتی ہے لیکن اقتدار میں آتی ہے تو اسے تسلیم کرنے سے نہ صرف پہلوتہی شروع کردیتی ہے بلکہ عملی طور پر اس صوبے کے قیام میں روڑے اٹکاتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اس سلسلے میں اپنے اپنے اقتدار کے دوران کوئی ٹھوس کام نہیں کیا، لیکن جب یہ جماعتیں اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو بہاولپور صوبے کے قیام کے لیے قراردادیں ہی نہیں، آئینی ترامیم بھی پیش کردیتی ہیں۔ موجودہ حکمران جماعت بھی اس صوبے کے قیام کی بظاہر مخالف نہیں، لیکن لگتا یہ ہے کہ یہ حکومت بھی اپنے دورِ اقتدار میں بیانات سے آگے نہیں بڑھے گی، اور اِس دورِ حکومت میں بھی بہاولپور صوبے کا مطالبہ عملی شکل اختیار نہیں کرپائے گا۔ اس وقت سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ پُرامن مطالبہ اب احساسِ محرومی میں تبدیل ہورہا ہے اور کسی بھی مرحلے میں اس میں تعصب یا تشدد کا عنصر شامل ہوسکتا ہے جو پاکستان جیسی فیڈریشن کے لیے انتہائی خطرناک ہوگا۔
اس بات کا اندازہ گزشتہ ہفتے بہاولپور میں دو روزہ قیام کے دوران ہمیں اُس وقت ہوا جب بہاولپور، قلعہ دراوڑ اور دیگر علاقوں میں نہ صرف مقامی لوگوں نے بہاولپور صوبے کی بحالی کی حمایت میں بھرپور گفتگو کی، بلکہ غیر مقامی لوگوں نے بھی اس کی بھرپور انداز میں حمایت کی۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ سابق ریاست بہاولپور کے تین اضلاع بہاولنگر، رحیم یار خان اور بہاولپور میں تین طرح کے لوگ آباد ہیں۔ پہلے نمبر پر مقامی ریاستی لوگ ہیں جو یہاں صدیوں سے آباد ہیں، دوسرے پنجابی آبادکار ہیں جن میں سے بیشتر یہاں غیرآباد رقبے کو آباد کرنے اور قابلِ کاشت بنانے کے لیے بہاولپور کے آخری نواب سر صادق خان عباسی کی دعوت اور ترغیب پر پنجاب کے مختلف اضلاع سے یہاں آئے تھے اور اب اِن کی دوسری تیسری نسل یہاں آباد ہے۔ عام لوگ انہیں آبادکار کہتے ہیں۔ جبکہ ریاست کا ایک بڑا حصہ اُن مہاجرین پر مشتمل ہے جن کی اکثریت اردو بولتی ہے۔ ان میں سے کچھ تو تقسیم سے قبل یہاں آکر آباد ہوگئے تھے، جبکہ زیادہ بڑی تعداد تقسیم ہند کے وقت برصغیر کے مختلف صوبوں یوپی، راجستھان، ہریانہ، روہتک اور حصار سے آکر یہاں آباد ہوگئی تھی۔ آبادی کا پہلا حصہ آج بھی مقامی ریاستی زبان سرائیکی بولتا ہے۔ آبادکاروں کی اکثریت اپنے روایتی لب و لہجے میں پنجابی زبان بولتی ہے۔ جبکہ مہاجرین نے اردو زبان کا دامن تھاما ہوا ہے۔ لیکن اس ریاست کی یہ خوبی ہے کہ یہاں یہ تینوں طبقات محبت و پیار کے ساتھ رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ میں شریک ہیں۔ آپس میں شادی بیاہ بھی کرتے ہیں اور کاروباری شراکت بھی۔ یہاں اب تک عصبیت، نفرت یا تعصب نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ریاست کے یہ تینوں طبقات صوبہ بحالی کے حامی ہیں۔ تینوں نواب بہاولپور کی فیاضی، خداترسی اور حسنِ انتظام کے گن گاتے ہیں۔ تینوں طبقات اردو زبان کے زبردست حامی پائے گئے ہیں۔ شاید یہ اُن کے درمیان رابطے کی زبان اور باہمی یک جہتی کا ذریعہ ہے۔
اس دورے کی دعوت ہمیں بہاولپور پریس کلب کے صدر نصیر احمد ناصر، بہاولپور یونین آف جرنلسٹس دستور کے صدر اور کئی بار بہاولپور پریس کلب کے عہدۂ صدارت پر فائز رہنے والے سینئر اور محترم صحافی جناب شاہد بلوچ، اور بہاولپور کے انتہائی متحرک صحافی جناب ریاض بلوچ نے دی تھی، جس پر لاہور سے پی ایف یو جے دستور کے سابق صدر اور سینئر صحافی خواجہ فرخ سعید، پی ایف یو جے کے فنانس سیکریٹری حامد ریاض ڈوگر، صدر پی یو جے رحمان بھٹہ، رکن ایف ای سی اصغر چودھری، پی یو جے کے متحرک اور مخلص رہنما جناب طارق جمال، اور راقم رات بھر کے سفر کے بعد منگل 26 مارچ کی صبح بہاولپور پہنچے، جہاں بہاولپور پریس کلب کے صدر نصیر احمد ناصر اپنے صحافی ساتھی عبداللہ صاحب کے ہمراہ استقبال کے لیے موجود تھے۔ لاہور تا بہاولپور بہترین سڑک، خاص طور پر خانیوال سے براستہ دنیاپور لودھراں شاندار اور آرام دہ سڑک کے باوجود تھکن کا احساس تھا۔ چنانچہ میزبانوں نے ہمیں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے گیسٹ ہائوس پہنچا کر کچھ دیر آرام کی ہدایت کی۔ کوئی گھنٹہ بھر بعد جناب نصیر احمد ناصر کے گھر پر پُرتکلف ناشتے کے بعد سب لوگ بہاولپور پریس کلب پہنچے، جہاں دوستوں سے ملاقات کے ساتھ مہمانوں کی روایتی اجرک سے دستار بندی کی گئی۔ یہاں میڈیا خصوصاً عامل صحافیوں کو درپیش مسائل پر خاصی گفتگو بھی ہوئی۔ اس دن کی سب سے اہم مصروفیت سینئر سیاست دان، ماضی کے صحافی اور ماضی، حال اور مستقبل کے صاحبِ اسلوب شاعر جناب تابش الوری سے ملاقات تھی، جنہوں نے پُرتکلف چائے کا اہتمام کررکھا تھا۔ جناب تابش الوری بلا کا حافظہ رکھتے ہیں، لاہور سے آئے ہوئے بیشتر مہمان اُن کے حافظے میں محفوظ تھے۔ چنانچہ ہر ایک کو نام لے کر مخاطب کرتے رہے۔ اس نشست میں انہوں نے بہاولپور صوبہ بحالی کا کیس بہت اچھے طریقے سے پیش کیا اور صحافیوں سے درخواست کی کہ وہ میڈیا کے ذریعے اس جائز مطالبے اور اہم معاملے کو ہائی لائٹ کریں۔ اُن کا کہنا تھا کہ قیام پاکستان کے وقت ریاست بہاولپور کی اپنی اسمبلی، سپریم کورٹ اور نظام تعلیم موجود تھا۔ ہمارا اپنا سکہ یہاں رائج تھا۔ ریاست کی اپنی فوج تھی۔ نواب بہاولپور نے کسی شرط کے بغیر ریاست کو پاکستان میں شامل کردیا۔ 1952ء میں جب صوبائی انتخابات ہوئے تو ریاست کی حدود کو صوبہ بہاولپور قرار دے کر یہاں انتخابات کرائے گئے۔ نئی منتخب اسمبلی نے صاحبزادہ حسن محمود کو اپنا وزیراعظم، چودھری فرزند کو اسپیکر اور مسلم لیگ (ق) کے متحرک رہنما طارق بشیر چیمہ کے والد چودھری بشیرچیمہ کو ڈپٹی اسپیکر منتخب کیا۔ 1954ء میں جب برابری کے اصول کے تحت مغربی پاکستان کو ایک صوبہ بنادیا گیا تو بہاولپور کی بھی صوبائی حیثیت ختم کردی گئی۔ تابش الوری کے بقول 1952ء سے 1955ء تک بہاولپور کو صوبے کا درجہ حاصل تھا اور اس کی اسمبلی صوبائی اسمبلی کہلاتی تھی۔ تاہم یہ بات ریکارڈ سے دیکھنے کی ہے کہ اُس وقت بہاولپور کی حیثیت صوبے کی تھی یا ریاست کی؟ قیام پاکستان کے فوری بعد اس کی حیثیت کیا تھی اور ون یونٹ بناتے وقت اسے کس حیثیت میں مغربی پاکستان میں شامل کیا گیا تھا۔ سید تابش الوری نے مزید بتایا کہ قومی جذبے کے تحت بہاولپور کے عوام نے اسے قبول کرلیا، لیکن 1969ء میں جب صدر پاکستان اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑ کر مغربی پاکستان کے تمام صوبے بحال کردیے تو نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر بہاولپور کی صوبائی حیثیت بحال کرنے کے بجائے اسے صوبہ پنجاب میں ضم کردیا گیا، جس کا صدر کو کوئی اختیار حاصل تھا نہ اس کی کوئی قانونی حیثیت یا اخلاقی جواز تھا۔ چنانچہ اس ناانصافی کے خلاف عوام نے احتجاج، جلسے، جلوس اور مظاہرے کیے، اور یہاں کے عوام نے 1970ء کے انتخابات میں ’بہاولپور علیحدہ صوبہ‘ کے نعرے کے تحت حصہ لیا۔ چنانچہ ریاست کے تینوں اضلاع میں بہاولپور متحدہ محاذ کے نامزد امیدوار کامیاب ہوئے، اور ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی جیسی اُس وقت کی مقبول جماعت کے علاوہ مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور دوسری سیاسی جماعتوں کو بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ لیکن حکمرانوں کے مفادات اور یہاں کے نمائندوں کی مصلحت کوشی کے باعث بہاولپور صوبہ نہ بن سکا۔ بعد کے بھی تمام انتخابات میں تمام امیدوار (خواہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے ہوں) علیحدہ صوبے کے نعرے ہی پر جیتتے رہے، جبکہ ہمیشہ وہی امیدوار جیتے جن کی نواب بہاولپور نے تائید کی۔ یہ نواب کے ساتھ عوام کی محبت کا بھی ایک ثبوت ہے، لیکن منتخب لوگ مصلحتوں کا شکار رہے یا حکمرانوں سے اپنی قوم کا مطالبہ نہ منوا سکے۔ تابش الوری کا کہنا ہے کہ عوام الگ صوبہ چاہتے ہیں، سیاسی لوگ انتخاب میں یہ نعرہ لگا کر جیتتے ہیں، پنجاب اسمبلی بھی بہاولپور صوبے کے حق میں متفقہ قرارداد منظور کرچکی ہے، اور اب قومی اسمبلی میں بھی اپوزیشن نے اس کام کے لیے قرارداد اور آئینی ترمیم پیش کردی ہے، لیکن یہ بیل اب بھی منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دے رہی، کیونکہ سیاسی جماعتیں اس معاملے میں بدنیت ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بہاولپور صوبہ بننے سے پنجاب کو مالی اور سیاسی فائدہ ہوگا۔ ایک تو بہاولپور کے اضلاع پر صوبائی حکومت جو کچھ خرچ کرتی ہے وہ رقم سو فیصد بچ جائے گی، یہ تمام پیسہ لاہور یا بڑے شہروں پر لگائے جانے کے الزام سے بھی حکومت فارغ ہوجائے گی۔ نیز سینیٹ میں بہاولپور کی برابر کی نمائندگی ہوگی جو چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی باہمی دیرینہ تعلق اور دیگر مفادات کے باعث پنجاب ہی کے ساتھ ہوں گے۔ اس مجلس میں بعض نوجوانوں کا کہنا تھا کہ اگر صوبے کے جائز مطالبے کو نہ مانا گیا تو ہمارے نوجوان دوسرے آپشنز کی طرف بھی جاسکتے ہیں جس سے بڑی تباہی ہوسکتی ہے۔ یہاں تابش الوری نے یہ بھی کہا کہ بہاولپور صوبہ بننے سے تحریک انصاف کو نقصان ہوسکتا ہے، اُس کی وسطی پنجاب میں حکومت ختم ہوسکتی ہے۔ جبکہ بہاولپور میں بھی اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اتحاد کرلیں تو اُن کی مخلوط حکومت بن سکتی ہے، اس لیے موجودہ حکومت سے ہمیں اُمید نہیں، تاہم ہماری پُرامن اور آئینی کوششیں جاری رہیں گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یحییٰ خان نے بہاولپور صوبہ اپنے پرنسپل سیکریٹری ایم ایم احمد کے مشورے پر نہیں بننے دیا، کیونکہ بہاولپور سپریم کورٹ نے دنیا بھر میں سب سے پہلے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ دیا تھا، اور ایم ایم احمد کٹر قادیانی ہونے کے باعث یہ بدلہ چکا رہے تھے۔
تابش الوری سے ملاقات کے بعد جناب شاہد بلوچ نے شہر کے معروف ریسٹورنٹ شائیگان میں پُرتکلف ظہرانہ دیا جس کے بعد مہمان جناب ریاض بلوچ کی قیادت میں قلعہ دراوڑ روانہ ہوگئے۔ شام ڈھلے وہاں پہنچے تو مقامی ثقافت پر مبنی محفلِ موسیقی اور عشائیہ کے بعد بدھ کی صبح شرکاء نے قلعہ دراوڑ، نوابین کے شاہی قبرستان کا دورہ کیا اور واپس بہاولپور جاکر وہاں کی مرکزی لائبریری اور عجائب گھر کے وزٹ کے بعد جناب سعید احمد کے گھر ظہرانہ کیا، بہاولپور کی تاریخی لائبریری کے دورے کے دوران شرکاء کو خوشگوار حیرت ہوئی کہ چیف لائبریرین رانا جاوید اقبال جو شیخوپورہ کے رہنے والے ہیں وہ بھی بہاولپور صوبے کے لیے مضبوط دلائل کے ساتھ مصروفِ گفتگو تھے۔ جس کے بعد مہمانوں کو دربار محل کی سیر کرائی گئی۔ ایک گائیڈ مسلسل شرکاء کو اہم معلومات فراہم کرتا رہا۔ بعد نماز مغرب جناب عبداللہ صاحب کے گھر پر پُرتکلف چائے کے بعد شرکاء واپس لاہور روانہ ہوگئے۔
اس مختصر سے دورے کے بعد راقم کا مشورہ ہے کہ اب بہاولپور صوبے کے مطالبے کو مزید ٹالنے سے گریز کیا جائے۔ اگر صوبہ بننے میں کوئی معقول رکاوٹ ہے تو وہ عوام کے نوٹس میں لائی جائے، ورنہ سیاسی جماعتیں اپنے منافقت پر مبنی مصلحت کوش رویوں سے باز آئیں اور فیڈریشن کو مضبوط بنانے کے لیے بہاولپور صوبہ فوراً قائم کردیں۔ دورے کے دوران یہ سوال بھی سامنے آیا کہ کہیں فوجی اسٹیبلشمنٹ تو صوبے کی مخالف نہیں؟ جس پر سینئر صحافی شاہد بلوچ کا خیال تھا کہ اب فوجی اسٹیبلشمنٹ اس صوبے کے حق میں نہیں۔ معلوم نہیں ایسا ہے یا نہیں، ہماری رائے میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کو اس کی وضاحت کردینی چاہیے۔