یورپ، عہدِ حاضر اور اسلامی تحریکات

جاویداحمد خورشید
حالیہ چند دہائیوں میں علمی دنیا میں اسلام بطور مذہب و تہذیب ایک وسیع تر تناظر میں مطالعات کا ایک اہم موضوع بنا ہے، جس کے ذیل میں آئے دن نت نئے اور فکر انگیز مطالعات وجود میں آرہے ہیں، جن کے اثرات خود علمی و مطالعاتی سطح پر خاصے خوش کن اور حوصلہ افزا ہیں۔ اس تناظر میں ابھی حال میں یورپ ، شمالی افریقہ اور امریکہ کے متعدد مصنفین و دانش وروں نے یورپ میں اسلامی تحریکات اور بنیاد پرستی کو بھی اپنے مطالعات و تجزیے کا موضوع بنایا ہے۔ ایسے مصنفین میں سے دو افراد: فرینک پیٹر(Frank Peter) اوررافیل اورٹی گا(Rafael Oetega)نے اپنے معاصر دانشوروں کے تحریر کردہ پچاس سے زائد مقالات کو درج ِ ذیل عنوان کے تحت ایک ضخیم اور پُرکشش مجموعے کی صورت میںترتیب دیا ہے، جو اپنے موضوعات، اپنے مطالعات کی نوعیت اور اپنے تجزیے و حصولِ نتائج کے لحاظ سے بے حد اہم اور ان موضوعات سے خاص دل چسپی رکھنے والوں کے لیے قابل ِ مطالعہ ہے:
Islamic Movements of Europe: Public Religion and Islamophobia in the Modern World
شائع کردہ: آئی بی تورس،نیویارک، 2014ء
اس مجموعے کے فاضل مرتبین کی دل چسپی کے موضوعات کا راست تعلق مطالعاتِ اسلامی سے ہے۔کتاب میں شامل پیش لفظ سے مقالات کو جمع کرنے کی غایت کا پتا چلتا ہے، یعنی آج کے علمی تناظر میں یورپ میں بنیاد پرست اسلام یا اسلامی بنیاد پرستی پر تنقیدی و تجزیاتی زاویۂ نظر سے اپنے مطالعات کو پیش کرنا۔ مجموعے کے مقالہ نگاروں نے بنیاد پرست اسلام کے حوالے سے شمالی افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور پاکستان پر خاص توجہ مرکوز رکھی ہے۔
ان مقالات کو تین گوشوں میں ترتیب دیا گیا ہے۔ مقالات کے مرتبین نے ہر گوشے کے آغاز میں ایک مختصر لیکن جامع تعارف بھی تحریر کرنا ضروری سمجھا ہے جس کی وجہ سے مقالات کے اس مجموعے کا ہر گوشہ موضوعاتی حوالے سے ایک آزاد حیثیت میں بھی قابلِ مطالعہ ہے۔ پہلے گوشے کا عنوان ’اسلامی تحریکات‘ ہے، جس میں ملی گوروش(Milli Gorus) نے جماعتِ اسلامی، تبلیغی جماعت، وہابیت اور سلفی تحریک، حزب التحریر، حرکت النہضہ، مراکش اور الجزائز میں اسلامی تحریک کے بارے میں مقالات جمع کیے ہیں۔ دوسرے گوشے کا عنوان ’یورپ میں اسلامی تحریکات ‘ہے، جس میں سلفی تحریک، تبلیغی جماعت، حزب التحریر، اسلامی تعلیمات اور جامعات میںاسلامی تعلیمات جیسے عنوانات کے تحت مقالات کو جمع کیا گیا ہے۔ مقالات کے اس مجموعے کا یہ گوشہ دیگر گوشوں کی نسبت زیادہ تفصیلی ہے جس میں اسپین، جرمنی، فرانس، برطانیہ، اٹلی، ہالینڈ اورڈنمارک جیسے ممالک میں اسلامی تحریکات کے تعلق سے مطالعات پیش کیے گئے ہیں۔ مجموعے کے تیسرے گوشے یورپ میں اسلام اور خوفِ اسلام (Islamophobia) پر مقالات شامل کیے گئے ہیں۔ اس مجموعے میں ’جماعت اسلامی‘ کے عنوان سے جین پیٹر ہرٹنگ(Jan Peter Hartung)کا مقالہ شامل ہے جو اس وقت ہمارا موضوع ِ مطالعہ و تجزیہ ہے۔ اس مضمون میں جتنے خیالات پیش کیے گئے ہیں وہ زیادہ تر مصنف کے ہیں۔
عہدِ جدید کے عالم ِ اسلام میں ’الاخوان المسلمون‘کے بعد ’جماعت اسلامی‘ کو دوسری قدیم و مؤثر اسلامی تحریک کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔ 1941ء میں جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا تھا اور پچھتر افراد کی موجودگی میں اس تحریک کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس جماعت کی نظریاتی اساس اس کے قیام سے دس برس پہلے اُس وقت رکھی گئی تھی جب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اسلامی ریاست (Islamic state) قائم کرنے کا جدید نظریہ پیش کیا تھا۔ اس تحریک کے پسِ پشت مولانا مودودی کی واحد شخصیت کار فرما تھی کہ جن کی شخصیت کا اثر آج بھی قائم اور نمایاں ہے ۔
مولانا مودودی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز مقامی سطح پر صحافت کا پیشہ اختیار کرکے کیا تھا۔ اُس وقت نوآبادیاتی ہندوستان اور ترکی میں سیاسی محاذ پر سرگرمیاں دیکھنے میں آرہی تھیں، یعنی1919ء سے 1924ء کے درمیان ’انجمن نوجوانانِ اسلام‘ نے ایک مہم چلا رکھی تھی جس کا مقصد جنگ عظیم اول کے بعد ترکی میں موجود خلافت کو برطانوی حکومت کی دخل اندازی سے محفوظ رکھنا تھا۔ 1924ء میں مولانا مودودی نے مصطفی کمال کی سربراہی میں خلافت کے ختم ہونے کا مشاہدہ کیا اور ساتھ ہی ہندوستان میں تحریک ِ خلافت کا شیرازہ بکھرتے بھی دیکھا تھا۔ ان حالات کا مولانا کی مذہبی و سیاسی فکر پر فیصلہ کُن اثر پڑا۔ مولانا کی اس سیاسی و مذہبی فکر جسے مقالہ نگار نے فریبِ خیال (disillusion) سے تعبیر کیا ہے، ان کی اولین عالمانہ تصنیف: ’الجہاد فی الاسلام‘ میں سامنے آئی۔ مقالہ نگار نے مزید یہ اطلاع بھی دی ہے کہ مولانا کے یہاں علم کی اہمیت اور جہالت سے دور رہنے کا جو سخت مؤقف موجود تھا، اُسے معاصر فکر نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ مولانا کی فکرکا ایک اہم عنصر اسلامی تاریخ سے لگائو ہے جس کے بارے میں مولانا کا یہ خیال تھا کہ اسلام نے جہالت کے خلاف مستقل جنگ کی ہے، جس کی وجہ سے مولانا نے اس کا حل تجدید میں تلاش کیا ہے۔
مولانا مودودی کی فکرِ اسلامی کا انحصار اُن چند اصطلاحات پر تھا جنھیں انھوں نے قرآن سے اخذ کیا تھا، اور اُن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ قرآن کا متن وہ واحد مستند ماخذ ہے جس پر ایک مستحکم اور صالح معاشرے کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ اس مؤقف پر مولانا کو مدارس کے تربیت یافتہ اور فرسودہ خیالات کے حامل علما کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان علما کا خیال تھا کہ مولانا نے علم کی ایک بڑی اور قدیم روایت کو نظرانداز کردیا ہے۔ مولانا کا قرآن سے راست استنباط اور روایتی فکر کو نظرانداز کرناکوئی اتفاق نہ تھا، بلکہ اس کا گہرا تعلق مولانا کے تصورِ تاریخ سے تھا۔ تنقید کرنے والے علما کے بارے میں مولانا کا کہنا تھا کہ یہ وہی علما ہیں جنھوں نے اسلام کے زوال میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ قرآن کے پیغام کو سمجھنے کے لیے راست انداز (Unmediated Approach)کو اختیار کیا جائے۔
اللہ اور بندے کے مابین تعلق پر مولانا مودودی نے جو اہم تصور پیش کیا، اس نے ان کے مستقبل کے سیاسی نظریے کی بنیاد رکھی، یعنی اللہ کی کامل حاکمیت اور بندوں کی اللہ کے خلیفہ کی حیثیت سے حکومت یا خلافت۔ خلافت کا تصور مولانا نے اپنے فہمِ قرآن سے اخذ کیا تھا۔ مولانا نے خلافت کے معاملے میں غیر تاریخی (Non-Historical) نقطۂ نظر اختیار کیا، یعنی خلافت کا تصور صرف مسلمانوں کے لیے نہ تھا، بلکہ پوری انسانیت کے لیے تھا، کیوں کے قرآن کی آیت (۲۴:۵۵) کے مطابق یہ وہ لوگ ہیں جن ’کا یقین اور عمل راسخ ہے‘۔
مفکرینِ اسلام نے ہمیشہ اللہ کی لامحدود اور انسان کی محدود حکومت کا تصور پیش کیا ہے۔ اس تصور سے انسانوں کو ایک حد تک اختیار میسر آجاتا ہے۔ اس تصور کو مولانا نے اپنے فہم قرآن اور سنت سے اس طرح منسلک کیا ہے جسے وہ اسلامی حکومت کہتے ہیں۔ معاشر ے کے ہر شعبے یعنی معیشت، ثقافت، اخلاق اور سیاست کے تعلق سے قوانین کو مولانا کے نظام ِ حیات کے مطابق ہونا چاہیے جن کا فیصلہ مجلسِ شوریٰ محتاط انداز میں کرتی ہے۔ شوریٰ کے اراکین کی تعداد قانون کے ماہرین پر مشتمل نہیں ہوتی، لیکن ان میں وہ اراکین شامل ہوتے ہیں جو راسخ ایمان و اعمال کے حامل ہوتے ہیں۔ فیصلہ سازی کے عمل کو الہامی تعلیمات تک محدود رکھا جاتا ہے جسے مولانا نے ’جمہوری حکومتِ الٰہیہ‘ (Theo-Democracy) سے تعبیر کیا ہے۔ ایک سوال جس کا جواب نہیں دیا گیا کہ ’جمہوری حکومتِ الٰہیہ‘ کا تصور مولانا کو کہاں سے ملا؟ مسلم امہ میں اسے ایک نیا تصور (Avant-Garde) شمار کیا گیا ہے۔ اس تصور کے تحت مولانا مودودی نے وضاحت کی ہے کہ مسلسل اور پُرامن جدوجہد کے ذریعے اسلامی انقلاب لایا جائے۔ مولانا کا یہ تصور بعد میں دیگر مسلم معاشروں تک بھی پہنچا ہے۔
جماعت ِ اسلامی کا جس وقت سنگِ بنیاد رکھا گیا تھا اُس وقت اس جماعت کے قیام کو معاشرے میں سیاسی سطح پر تبدیلی لانے کا محرک سمجھا گیا جس کا کام ایک اسلامی ریاست کا قیام بھی تھا۔ جماعت ِ اسلامی کے قیام کے وقت برعظیم میں سیاسی سطح پر بڑی تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں، جن میں ہندوستان کی تقسیم اور کئی قومی ریاستوںکا وقوع پذیر ہونا شامل ہے۔ ان تبدیلیوں نے جماعت اسلامی کو متاثر کیا جن کی وجہ سے جماعت اسلامی کو کئی امور میں اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنی پڑی۔
ان حوالوں سے مولانا مودودی کو لازمی طور پردنیا بھر میں اسلام کے اہم ترین نظریہ سازوں (Ideologue) میں شمار کرنا چاہیے۔ مولانا کی علمی تصانیف ترجمہ ہوکر ساری دنیا میں پھیل چکی ہیں۔ ان کے بہت سے نظریات نے سید قطب کے خیالات کو ترتیب دیا جو مولانا کے روحانی جانشین ہیں۔ مولانا کی اہمیت کو سعودیہ کی مذہبی اور سیاسی عمل داری نے بھی تسلیم کیا ہے اور انھیں مدینہ کی’انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی‘ کے بورڈ آف ٹرسٹیز میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ مکہ میں موجود ’رابطہ عالم اسلامی‘ میں بھی وہ شامل رہے۔ موخرالذکر میں شمولیت کے بعد اعتراض کیا گیا ہے کہ ’رابطہ عالم اسلامی‘ کی مداخلت جنوبی ایشیا میں بڑھی ہے جس کے لیے جماعت اسلامی نے راہ ہموار کی۔
ہندوستان کے مختلف سیاسی حالات سے باخبر ہونے کے باوجود مولانا مودودی نے ہندوستان میں جماعتِ اسلامی قائم کرنے کی باقاعدہ رسمی منظوری اپریل1948ء میں الٰہ آباد میں دی۔ اس کے پہلے امیر ابواللیث اصلاحی ندوی تھے، جنھیں اس تحریک کو ہندوستان کے ابتدائی برسوں میں لے کر چلنا پڑا۔ ہندوستان اپنے ابتدائی برسوں میں سیکولر اور اشتراکی نظریات سے بہت متاثر تھا۔ سیکولر ریاست کے نظریے سے اختلاف کے باوجود جماعت ِ اسلامی ہند کو ہندوستان میں مسلمان اقلیتی حالات کو مکمل طور پر تسلیم کرنا پڑا جس کا مقصد مسلمانوں کی اقلیتی آبادی کو سیاسی سطح پر فائدہ پہنچانا تھا۔ جماعت اسلامی ہند کا منشور جماعتِ اسلامی پاکستان سے ہم آہنگ تھا، اس کے باوجود جماعت اسلامی ہند نے کوئی بڑی تحریک نہ چلائی، جب کہ بڑی سطح پرامدادی و رفاہی سرگرمیاں رکھیں۔ جماعت اسلامی ہند اس طرح مختلف غیر سرکاری دبائو انداز گروہوں (Pressure Groups) کے ساتھ مل کر اپنے مقاصد کو فروغ دیتی رہی۔
جنوبی ایشیا کی تمام ریاستوں میں، جہاں جہاں مسلمان موجود ہیں، وہاںجماعتِ اسلامی کی شاخیں موجود ہیں۔ تحریک کے بہ طور جماعتِ اسلامی کی مقبولیت اُس وقت ایک مسئلے کے طور پر سامنے آتی ہے جب اس کی شاخیں مختلف ممالک میں مختلف انداز اور نظریات اختیار کرتی ہیں۔ اس کی وجہ وہاں کے سیاسی حالات ہیں۔ جماعت اسلامی کے مؤقف کو مختلف ممالک میں کوئی بھی بآسانی مختلف صورتوں میں محسوس کرسکتا ہے۔ جماعت اسلامی کی مختلف شاخوں کی بنیاد ہندوستان کی تقسیم سے پہلے ہی رکھ دی گئی تھی، لیکن ہندوستان کی تقسیم کے بعد جماعت اسلامی کی تحریک کا اندرونی ڈھانچہ سیاسی بنیادوں پر اختلافات کا شکار ہوا۔ بہت سے معروف علما نے جماعت اسلامی کی شوریٰ سے اس لیے استعفیٰ دے دیا کہ مولانا مودودی نے جن مقاصد اور جس طریق کار کی مخالفت کی، وہ صحیح نہیںتھے۔
جماعت اسلامی نے پاکستانی ریاست سے شروع ہی سے، خاص طور پر مذہبی معاملات میں، محاذ آرائی کا رویہ اختیار کیا۔ جماعت اسلامی نے 1948ء سے 1956ء کے درمیان ’ہمارامطالبہ: اسلامی دستور‘ کا نعرہ بلند کیا، اورجنرل ضیاالحق کے سوا ہر وزیراعظم اور صدر سے مخالفت کا رویہ اختیار کیا۔1957ء میںجماعتِ اسلامی میں اندرونی اختلافات کے بعد ایک طبقے کی جانب سے مولانا مودودی پر عدم اعتماد ظاہر کیا گیا، جس کے بعد سے جماعت ایک سیاسی جماعت ہوکر رہ گئی ہے۔ ایسے اختلافات کے بعد جماعت میں جاری اُس کے علمی تسلسل اور مولانا مودودی کے اثرات میں بتدریج کمی آتی رہی ہے۔
پارلیمانی نظام حکومت کے انتخابات میں شرکت سے جماعت اسلامی کے نظریے کی اساس کو نقصان پہنچا۔1930ء میں مولانا مودودی نے جو اسلامی ریاست کا تصور پیش کیا تھا، اس کے برعکس کسی پارلیمانی نظام کو تسلیم کرنے کے بارے میں اس کے نظریے میں تبدیلی پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔
مولانا مودودی کے نظریات ہمیشہ سے شہروں میں بسنے والے درمیانی طبقے کے افراد کے لیے متاثر کن رہے ہیں۔ بیسویں صدی کے ابتدائی نصف حصے میں جماعت اسلامی نے وطنی تصورِ قومیت کی مخالفت کی تھی۔ ایسا ہی اُس وقت دائیں اور بائیں بازو کی اکثر جماعتیں بھی کررہی تھیں۔ جماعت نے ایسا اس لیے کیا کہ جماعت ایک ایسی حکمت ِ عملی اختیار کرنا چاہتی تھی جو سیاسی پارٹی کے ساتھ ساتھ اس کی شناخت ایک غیرسرکاری تنظیم(NGO) کے طور پر بھی سامنے لائے جس نے شہری علاقوں میں بسنے والے درمیانی طبقے کو متاثر کیا ہو۔ جماعتِ اسلامی کی اس دہری شناخت(Hybrid Nature) کی وجہ سے اس کا منشور ہمیشہ سے تبدیلیوں کا مظہر رہا ہے، اور دوسرا یہ کہ اس جماعت کی انقلابی فکر ہمیشہ سے تبدیل ہوتی رہی ہے جس کی وجہ سے یہ جماعت ہر حکومت کے لیے حزب اختلاف میں رہی۔
عالم اسلام کی اس اہم فکری و تنظیمی تحریک کے بارے میں عالمی سطح پر جہاں نام ور اور مؤقر مصنفین اور دانش وروں نے مطالعات کے ذریعے اس کی فکر اور سرگرمیوں کو جانچنے پرکھنے کی کوششیں کی ہیں، ان میں یہ مقالہ اگرچہ مختصر ہے اور مختلف پہلوؤں سے تشنہ بھی ہے، لیکن عالم اسلام کے ایک مجموعی تناظر میں جماعت اسلامی کی فکری و عملی حیثیت اور اس کے علمی و اصلاحی مقاصد و امتیازات کو جانچنے اور پرکھنے کی ایک مخلصانہ کوشش ضرور ہے، جسے اس کے دائرۂ کار کی حدود میں رکھ کر دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔