ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں، وہاں اچھائی بھی ہے اور برائی بھی۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں لوگوں کی اچھائیوں، برائیوں سے کیا تعلق! خود اپنی جگہ اچھے رہیں، بس یہی کافی ہے۔ بقول شاعر ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو‘‘۔ لیکن مسلمان کا صرف اپنی ذات میں اچھا ہونا کافی نہیں۔ یہ بھی اس کا فریضہ ہے کہ جہاں اور جس میں جو اچھائی نظر آئے اُس کی وہ تحسین اور ستائش کرے۔ اگر یہ اچھائی اپنے مخالف میں بھی ہے تو مخالف کی تعریف کرنے کے لیے بھی دل بڑا کرنا چاہیے، اور اچھائی کا سبق جہاں سے ملے آگے بڑھ کر لینا چاہیے۔ اور برائی اگر اپنے عزیزوں، دوستوں اور پارٹی کے لوگوں میں ہے تو اس کے خلاف بھی آواز بلند کرنی چاہیے۔ نیکی یا برائی کو معمولی بات سمجھ کر چپ ہوجانا اور خاموش رہنا تقاضائے ایمانی کے خلاف ہے۔ جہاں ایمان ہوگا وہاں نیکی کو دیکھ کر دل خوش ہوگا اور اس کی مدح و ستائش خودبخود ہوگی۔ اس طرح ایمان کی یہ بھی پہچان ہے کہ برائی کو انسان ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے، یہ ممکن نہ ہو تو زبان سے اس کے خلاف احتجاج کرے، اور ایمان کا کمزور درجہ یہ ہے کہ وہ برائی پر دل میں کڑھن اور افسوس محسوس کرے۔ مگر یہ ایمانی حالت جب مسلمانوں کی ہوگی کہ وہ برائی کے خلاف دل میں جذبہ محسوس کریں گے مگر عملاً کچھ نہیں کریں گے تو اس کے بعد یہ بھی ہوگا کہ مسلمان برائی کو دیکھ کر بھی اپنے دل میں کوئی کسک محسوس نہیں کریں گے۔ اور آج ہمارے معاشرے کی یہی حالت ہے۔ دراصل کمتر درجے کا ایمان اکثر ایمان کے لیے خطرہ اور خاتمے کا باعث ہوتا ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے ایمان کے متعلق ہی کہا تھا کہ جس کے پاس زیادہ ہے اسے اور زیادہ دیا جائے گا، جس کے پاس تھوڑا ہے وہ بھی اس سے چھین لیا جائے گا۔ اس لیے تھوڑے اور کمتر ایمان کی حالت پر اکتفا کرنا غلط ہے۔ اگر کمزور ایمان ہے تو آپ اس کی فکر کریں کہ ایمانی کمزوری کی جگہ نئی ایمانی طاقت حاصل ہو۔
مولانا ابوالکلام آزاد کے مضامینِ الہلال میں ایک اہم مضمون امربالمعروف و نہی عن المنکر کا ہے۔ مولانا لکھتے ہیںکہ امتِ مسلمہ میں نیکی پھیلانے اور بدی کو روکنے کا جذبہ شخصی حکومتوں نے اور شخصیات کی پرستش کے رجحان نے ختم کیا، حالانکہ نیکی پھیلانا اور برائی مٹانا اسلام کا اصل مشن ہے اور یہی ملتِ اسلامیہ کا اصل امتیاز ہے۔
مولانا لکھتے ہیں کہ قرآن میں ہے: ’’تم میں ایک جماعت ہونی چاہیے جو دنیا کو نیکی کی دعوت دے، بھلائی کا حکم کرے اور برائی سے روکے۔ یہی فلاح یافتہ لوگ ہیں‘‘۔ مولانا کی تفسیر کے مطابق بظاہر اس آیت میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو مسلمانوں کے ایک خاص گروہ کا فرض قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اسی رکوع میں آگے چل کر دوسری آیت میں لکھا ہے کہ ’’تمام امتوں میں تم سب سے بہتر امت ہو، اچھے کاموں کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ ایک تیسری آیت میں مسلمانوں کا یہ ملّی امتیاز اور قومی فرض قرار دیا گیا ہے کہ ’’ہم نے تم کو درمیانی اور وسط کی امت بنایا تاکہ اور لوگوں کے مقابلے میں تم گواہ بنو، اور تمہارے مقابلے میں تمہارا رسول گواہ رہے‘‘۔ ان تینوں آیتوں کو ملاکر پڑھا جائے تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کا اصل مشن اور امتیاز ہی یہ ہے کہ وہ نیکی کے علَم بردار ہوں اور برائی کے خلاف مجاہدانہ کردار ادا کریں۔
مولانا آزاد لکھتے ہیں کہ یہ خیال غلط ہے کہ نیکی پھیلانے اور برائی کو مٹانے کا فرض صرف ایک خاص جماعت کا ہے۔ اس فرض کے لیے مسلمانوں میں ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے۔ لیکن جس آیت میں جماعت کی ضرورت کا اظہار کیا گیا ہے اس سے اگلی آیتوں میں مسلمانوں کے لیے نیکی پھیلانے اور برائی مٹانے کے مشن کو محدود اور مخصوص نہیں بلکہ عام بتایا گیا ہے۔ یہ خیال غلط ہے کہ نیکی اور بدی کے بارے میں علم صرف علما ہی کو حاصل ہے، اس لیے امر بالمعروف ونہی عن المنکر صرف علما کا فرض ہے، عام مسلمان کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ مولانا لکھتے ہیں کہ اسلام کے ایک عمومی فرض کو ایک خاص طبقے کے لیے مخصوص کرنا اعتقادی اور عملی غلطی تھی، اور اس غلطی نے اسلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا کہ عام مسلمان نیکی پھیلانے اور برائی مٹانے کے مشن سے لاتعلق ہوگئے اور امت کی دعوتی حیثیت ختم ہوگئی۔ اس سے اسلام کی وہ دعوتِ الٰہی جو عالمگیر اصلاح کے لیے تھی، زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکی، اور اس غلط فہمی کی وجہ سے پیشواہانِ مذاہب کی غلامی مسلمانوں کے بھی حصے میں آئی اور عام مسلمانوں کا دعوتی اور خدائی مشن سے رابطہ ٹوٹ گیا۔ اسلام چاہتا تھا کہ امربالمعروف ونہی عن المنکر کا مشن ہر فردِ ملت کے پیش نظر رہے، لیکن اسے علما کے طبقے کا موروثی حق بنالیا گیا۔
علما نے ایک زیادتی یہ بھی کی کہ اصل اسلامی دعوت کو چھوڑ کر جزئیات میں الجھ گئے، اور اس پر بحث مباحثے ہونے لگے اور انہی جزئیات کو انہوں نے معروف و منکر بنالیا، اور فرائض سے زیادہ سنتوں کو اہمیت دی گئی۔
مولانا کہتے ہیں کہ نیکی کو اگر پسند کروگے تو اس کی خاطر بدی کو برا کہنا ہی پڑے گا، اور خدا کو خوش رکھنا چاہتے ہو تو شیطان کی دشمنی کی پروا مت کرو۔ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ گرے ہوئے لوگوں کو اٹھائیں تاکہ وہ آگے چل سکیں، لیکن سرکشوں کو ٹھوکر نہیں لگائیں گے تو وہ گرے ہوئے لوگوں کو اور گرادیں گے۔ مولانا کے اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان میں جذبۂ جہاد ہونا چاہیے، نیکی پھیلانے کے لیے بھی اس کے مجاہدانہ کردار کی ضرورت ہے، اور بدی کو مٹانے کے لیے بھی ایسا ہی جذبہ چاہیے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ قدم قدم پر مسلمان اپنے لیے لڑائی جھگڑے پیدا کرے، لوگوں سے گتھم گتھا ہوجائے۔ لیکن برائی کو دیکھ کر اس کے خلاف ردعمل کا اظہار کرنا مسلمان کا فریضہ ہے۔ ردعمل کی نوعیت اور کیفیت اپنے ایمان اور حالات کے لحاظ سے مختلف ہوسکتی ہے، لیکن ردعمل ہونا چاہیے اور اسے سامنے آنا چاہیے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ برائی کے لیے وہ آزاد نہیں ہیں کہ جو چاہے کرتے پھریں اور انہیں روکنے ٹوکنے والاکوئی نہیں۔ اس طرح نیکی کہیں دکھائی دیتی ہے تو نیکوکار کا حوصلہ بڑھانے کے لیے بھی کچھ کہنا اور کرنا ضروری ہے، تاکہ نیک لوگوں کو معلوم ہو کہ وہ تنہا نہیں ہیں، اور معاشرے میں نیکی کو پسند کرنے والے لوگ موجود ہیں۔
ہمارے معاشرے میں باایمان اور اچھے مسلمان لوگوں کی کمی نہیں۔ لیکن اکثر یہ خیال کرتے ہیں کہ دوسرے برے ہیں تو وہ جانیں اور ان کا خدا۔ لیکن مسلمان کی ذمہ داری صرف خود اچھا بننے اور اچھا رہنے کی نہیں، اس کا یہ بھی فرض ہے کہ دوسروں کو اچھا بنانے کی کوشش کرے اور جہاں برائی دیکھے وہاں اس کے خلاف اپنا احتجاج ضرور ظاہر کرے۔ اگر یہ ذہن مسلمانوں میں عام ہوجائے تو برائی کے خلاف معاشرتی طاقت سامنے آئے گی، اور اس طاقت کا لوگوں کو لحاظ رکھنا ہوگا۔ اسلام انفرادی مذہب کا قائل نہیں، یہ ایک صحت مند اور صالح اجتماعیت کے لیے جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے، اور یہ جدوجہد کسی خاص جماعت کی نہیں، ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے، اور ہر مسلمان کو بقدرِ استطاعت اس سے عہدہ برا ہونا چاہیے۔
(3تا 9 دسمبر1999ء)