کچھ نام ایسے ہیں جن کا یا تو املا بگڑ گیا یا تلفظ۔ مثلاً ’ہاجرہ‘ عموماً ’’حاجرہ‘‘ پڑھنے میں آتا ہے، یا ’طہٰ ‘کو ’’طحہٰ‘‘ لکھا جارہا ہے، اور وہ بھی غلط املا کررہے ہیں جن کا یہ نام ہے۔ اس پر پہلے بھی توجہ دلائی گئی تھی۔ اب ایک نام مہوش ہے جس کا تلفظ بگاڑ دیاگیا ہے۔ یہ نام مہ وَش ہے، وائو پر زبر ہے۔ لیکن جن خواتین کا یہ نام ہے وہ بھی وِش (wish) کردیتی ہیں۔ جسارت میں 29 مارچ کو ایک بابا جی نے اپنے کالم میں نکتہ آفرینی کی ہے کہ نام میں سے ’مہ‘ نکال دیا جائے تو یہ انگریزی کا وِش بن جائے گا، جب کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ’وَش‘ فارسی کا ہے اور حرفِ تشبیہ ہے۔ مطلب ہے: مانند، مثل، نظیر وغیرہ۔ مرکبات کے آخر میں آتا ہے جیسے پری وش، مہ وش یعنی پری جیسا/ جیسی، چاند جیسا/ جیسی۔ صوبہ سرحد (اب خیبر پختون خوا) کے ایک دانشور، ادیب اور ماہر تعلیم پریشان خٹک تھے جن کو لوگ ’’پرے شان‘‘ کہتے اور سمجھتے تھے۔ جب کہ وہ کسی حال میں پریشان نظر نہیں آئے، بہت شگفتہ مزاج تھے۔ لیکن ان کا نام ’پری۔شان‘ تھا، یعنی پری جیسی شان والا۔ حالانکہ وہ پٹھان تھے اور اپنے جثے سے کہیں سے بھی پری جیسے نہیں لگتے تھے، دیوقامت شخص تھے قدوقامت میں بھی اور علم و ادب میں بھی۔ ان سے ایک پُرلطف واقعہ منسوب ہے۔ کسی تقریب میں شرکت کے لیے بذریعہ ہوائی جہاز پہنچے۔ میزبان نے ان کے استقبال کے لیے ایک پٹھان ڈرائیور کو بھیج دیا، جو مسافروں کے باہر آنے والے راستے پر اُن کے نام کا کتبہ اٹھا کر کھڑا ہوگیا۔ پہچانتا وہ بھی نہیں تھا۔ ڈاکٹر پریشان خٹک نے اپنا نام دیکھا تو اُس کے پاس جاکر کہا ’’میں پریشان ہوں‘‘۔ ڈرائیور نے کہا ’’بابا، ہم تم سے زیادہ پریشان ہے۔ ہمارا مہمان ابھی باہر نہیں آیا‘‘۔ اب کوئی مہ وَش خود کو وِش کرنا چاہے تو اس کی مرضی۔
ہندی میں ایک لفظ ہے ’بِس‘ (’ب‘ بالکسر) جس کے معانی زہر اور شرارتی کے ہیں۔ بس کی گانٹھ، بس کی پڑیا وغیرہ اردو میں مستعمل ہیں۔ سنسکرت میں کئی جگہ ب، وائو سے بدل جاتا ہے، جیسے بندھیا چل، ’’وندھیا چل‘‘، رابندر ناتھ ٹیگور، ’’رویندر ناتھ‘‘ اور ہندی ترانا بندے ماترم ’’وندے ماترم‘‘ ہوگیا۔ اسی طرح ممکن ہے کہ ’’بِس‘‘ بھی وش ہو، کیونکہ ہندوستان کی تاریخ میں وش کنیائوں کا ذکر ملتا ہے جن کو زہریلا بنایا جاتا تھا اور اپنے مخالف سے انتقام کے لیے اس کے حرم میں پہنچایا جاتا تھا۔ یاد رہے کہ س بھی شین سے بدل جاتا ہے، دیس اور دیش، سری رام اور شری رام ایک ہی چیز ہے۔
’’روبکار‘‘ ہے تو پرانا لفظ، لیکن ایک عرسے سے روبکاری نہ ہونے کی وجہ سے یہ نامانوس ہوگیا۔ گزشتہ دنوں ایک مقدمے کے حوالے سے یہ لفظ سامنے آیا تو کئی لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ روبکار فارسی کا لفظ ہے اور مطلب ہے: سامنا، تحریری حکم، پروانہ وغیرہ۔ روبکاری کا مطلب ہے: مقدمے کی پیشی، مقدمے کی سماعت وغیرہ۔ ایک شعر ہے:
دل و مژگاں کا جو مقدمہ تھا
آج پھر اس کی روبکاری ہے
روبکار کی طرح ایک لفظ ’’نابکار‘‘ بھی ہوتا ہے۔ یہ بھی فارسی کا ہے اور مطلب ہے: شریر، بدذات، بدکردار، معیوب، نازیبا، ناموزوں، خراب، بے ہودہ، کمبخت، بے کار، نکما، بے فائدہ، نابلد، ناآشنا۔ اس نابکار کے کتنے ہی معانی ہیں۔
ہمارے ایک سینئر صحافی جناب معین الدین کمالی نے توجہ دلائی ہے کہ آپ نے کہیں ’’ہر کسی‘‘ لکھا ہے، جب کہ ’ہر ایک‘ لکھنا چاہیے تھا۔ ان کی بات درست ہے کہ فصاحت تو ’ہر ایک میں‘ ہے۔ آئندہ یہی لکھیں گے، لیکن ’’ہر کسی‘‘ بھی متروک نہیں ہے۔ لغات میں دیکھا تو ایک جگہ ’’ہر کسی‘‘ مل ہی گیا، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ معین کمالی کی بات غلط ہے۔ وہ بہت شائستہ اور اغلاط سے پاک زبان لکھتے ہیں۔ ان کی کئی کتابیں منصّہ شہود پر آچکی ہیں۔ جسارت سمیت متعدد اخبارات اور رسائل میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے اور اس وقت بھی ایک اخبار کا اداریہ لکھ رہے ہیں۔ گزشتہ کالم میں ہم نے ایک بہت سینئر صحافی کا ذکر کیا تھا کہ وہ اپنے اداریے میں ’فی الواقع‘ کو ’’فی الواقعی‘‘ لکھتے تھے۔ کچھ ساتھیوں نے شبہ ظاہر کیا کہ یہ اشارہ معین کمالی کی طرف ہے۔ ایسا ہرگز نہیں۔ ممکن ہے کہ جناب معین کمالی نے جسارت کے اداریے بھی لکھے ہوں، لیکن یہ تذکرہ ایک مرحوم مدیر کا تھا۔ جہاں تک ’’ہر کسی‘‘ کا تعلق ہے، تو نوراللغات جلد دوم میں ’’ہر کسی‘‘ مل ہی گیا۔ یہ کسی کے ذیل میں نہیں البتہ ’ہر‘ کے ذیل میں ملا ہے۔ صاحبِ لغت نے لکھا ہے ’’ہرکسی سے، ہر ایک سے‘‘۔ ہماری لاج رہ گئی، لیکن کمالی صاحب سے اتفاق ہے۔ ’کسی‘ کے خانے میں جہاں بے شمار تراکیب اور معانی ہیں وہاں ’’ہر کسی‘‘ نہیں ہے۔ کسی کسی کی تکرار بھی اچھی لگتی ہے، جیسے یہ شعر:
کسی کسی کی طرف دیکھتا تو میں بھی ہوں
بہت برا نہیں، اتنا برا تو میں بھی ہوں
ہم ’عوام‘ کو جمع مذکر بنا بنا کر تھک گئے لیکن لوگ انہیں مونث واحد بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ خود جسارت میں یکم اپریل کے ادارتی صفحہ پر ایک بچی کا مراسلہ شائع ہوا ہے، عنوان ہے ’’عوام لٹنے کے لیے رہ گئے ہیں‘‘۔ عنوان سے ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک عوام جمع مذکر ہیں، لیکن پہلا ہی جملہ ہے ’’پاکستان کی عوام‘‘۔ یہاں اچانک عوام مونث ہوگئے۔ اس سے آگے پھر جمع مذکر ہوگئے کہ ’’کیا عوام صرف لٹنے مرنے کے لیے رہ گئے‘‘۔ چند سطر بعد لکھنے والی پھر بھول گئیں کہ عوام کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے، چنانچہ لکھا ہے ’’عوام… عادی ہوچکی ہے‘‘۔
لکھنے والے کوئی ایک بات طے کرلیں کہ عوام جمع مذکر ہیں یا مونث واحد۔ کم از کم ایک مضمون میں تو ایک ہی بات کریں۔ یہ اخباری مضامین اور ٹی وی چینلز پرعموماً نظر آتا ہے۔ کیوں ناں اس مسئلے پر انجمن ترقی اردو کا کوئی اجلاس طلب کرلیا جائے۔ لیکن اس سے بھی کیا ہوگا! لغت دیکھنے کی زحمت کون کرے اور مستند ادیبوں، شاعروں کو کون پڑھے۔ عوام کا عمل بتا رہا ہے کہ انہیں مذکر نہ کیا جائے، اور جمع ہونے پر بھی وہ تیار نہیں، تو پھر ٹھیک ہے ان کے ساتھ کچھ بھی ہوتا رہے۔ لیکن ہم طلبہ و طالبات سے اپیل ضرور کریں گے کہ عوام ٹھیک ہوں نہ ہوں، وہ تو ٹھیک ہوجائیں۔