نعمان انصاری
سینما کی طاقت اور اثرات کا اندازہ فاشسٹ ہٹلر سے لے کر لینن اور اسٹالن تک سبھی آمروں کو ابتدا میں ہی ہوگیا تھا، اسی لیے صرف نازی دورِ حکومت (1933ء۔ 1945ء) میں ایک ہزار سے زیادہ پروپیگنڈہ فلمیں جرمنی میں بنائی گئیں۔ زیادہ تر فلموں میں ہٹلر کو ’’اچھا انسان اور بہترین حکمران‘‘ دکھانے کی کوشش کی گئی۔ کچھ فلموں میں ہٹلر کے ’’نیشنلسٹ اور سوشلسٹ طرزِ حکومت‘‘ کو بہتر نظام کے طور پر دکھایا گیا۔ خود ہٹلر فلمیں دیکھنے کا بہت شوقین تھا، اور وہ خود ایسی فلمیں دیکھنا چاہتا تھا جن میں اُس کی زندگی کو موضوع بنایا گیا ہو۔ سردست یہ بتانا تو مشکل ہوگا کہ ان پروپیگنڈا فلموں کے اثرات جرمن عوام اور پوری دنیا پر کس طرح کے ہوئے، لیکن یہ بات واضح ہے کہ آج کے دور میں بھی حکومتیں اور سیاسی رہنما، سینما کو اپنی طاقت اور اثر کو بڑھانے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
ہالی ووڈ (امریکہ) میں ہزاروں فلمیں حکومتی پروپیگنڈے کو پھیلانے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ ویت نام کی جنگ سے عراق پر غاصبانہ قبضے تک، اسامہ بن لادن کی موت سے لے کر امریکی صحافی ڈینیل پرل کے قتل تک کے واقعات کو توڑ مروڑ کر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ ان فلموں کے ذریعے نہ صرف اپنے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے بلکہ دنیا کے سامنے ایک ’’متبادل سچ‘‘ (Alternative Truth) کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
موجودہ حالت میں جب کہ بھارت میں انتخابات کا آغاز ہونے ہی والا ہے، تو کیسے ممکن ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جیسے فاشسٹ اور ہندو قوم پرست حکمران سینما اور فلم انڈسٹری کو نظرانداز کردیں! آغاز مودی جی نے پچھلے سال دسمبر میں بالی ووڈ کے اٹھارہ رکنی وفد کے ساتھ ایک ملاقات سے کیا، جس میں فلم انڈسٹری کے مسائل پر گفتگو کی گئی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ 10جنوری 2019ء کو مشہور فلم ہدایت کار کرن جوہر اور مہاویر جین نے بالی ووڈ کے نوجوان فلمی ستاروں اور ہدایت کاروں سے مودی کی ایک اور ملاقات کرائی۔ ملاقات کے بعد نریندر مودی نے فلمی ستاروں کے ساتھ ایک سیلفی بھی لی جس کو اخباروں نے ’’سیلفی آف دی ایئر‘‘ کا خطاب دیا۔ وزیراعظم مودی کے ساتھ بالی ووڈ کے ستاروں کی ملاقات میں اس بات پر بحث ہوئی کہ مشہور نوجوان اداکار اور اداکارائیں اور بالی ووڈ (ہندی) فلمیں کس طرح ’’قوم سازی‘‘ (یہاں اس کو قوم سازی یا ملت سازی کے بجائے ہندو راشٹریہ سازی سمجھا جائے) میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ اس ’’عظیم قومی خدمت‘‘ میں فلم انڈسٹری کس انداز میں شمولیت کرسکتی ہے۔
اس ملاقات کے اگلے ہی دن مشہورِ زمانہ بھارتی ’’سرجیکل اسٹرائیک‘‘ کے دعووں پر مبنی فلم ’’اڑی: دی سرجیکل اسٹرائیک‘‘ کی سینما گھروں میں نمائش شروع ہوئی جس میں بھارتی اداکار رجت کمار نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا کردار کیا۔ اسے حسنِ اتفاق کہیں یا نریندر مودی پر رام بھگوان کی کرپا، کہ ایک اور پروپیگنڈہ فلم ’’دی ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر‘‘ (The Accidental PM) بھی ریلیز کی گئی۔ فلم میں سونیا گاندھی اور کانگریس پارٹی پر نہ صرف شدید تنقید کی گئی بلکہ سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کا مذاق اڑایا گیا۔ فلم میں من موہن سنگھ کا کردار مشہور اداکار انوپم کھیر نے نبھایا جو خود ایک دفعہ اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر برملا کہہ چکے ہیں کہ وہ ’’مودی کے چمچے‘‘ ہیں۔ بھارتی فلم ناقد ادے بھاٹیا نے اپنے بلاگ میں اس فلم کو ’’ایک بھدا پروپیگنڈا اور سیاسی اشتہار‘‘ قرار دیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اس فلم کے ٹریلر کو بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کے آفیشل ٹویٹر اکائونٹ سے شیئر کیا گیا، جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ فلم کو مودی حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔
راقم نے جب تحقیق کی تو پتا چلا کہ معروف سیاست دانوں پر فلمیں پوری دنیا میں بنتی رہی ہیں اور اکثر ان فلموں کو سراہا بھی جاتا ہے، مثلاً اس سال آسکر کی بہترین فلموں کی فہرست میں فلم ’’وائس‘‘ کا بھی نام تھا جو کہ سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی پر بنائی گئی ہے۔ لیکن نریندر مودی سے متعلق فلموں میں دو باتیں واضح نظر آتی ہیں، پہلی بات فلموں میں مودی کو ایک ’’فرشتہ صفت‘‘ یا ’’آسمانی مخلوق‘‘ قسم کا انسان اور حکمراں دکھایا جارہا ہے، اور بظاہر یہ ایک تعلقاتِ عامہ (PR) کی کارروائی محسوس ہوتی ہے۔ دوسری بات، یہ تمام فلمیں لوک سبھا 2019)ء( کے انتخابات کے بہت قریب ریلیز کی جارہی ہیں۔
بالی ووڈ اور مودی جی کا نیا نیا پیار بہت واضح ہوتا جارہا ہے (فلموں کے کردار مودی پر بنائے جارہے ہیں)، ضمنی طور پر فلموں میں مکالموں کے ذریعے مودی کی پالیسیوں اور اقدامات کو سراہا جارہا ہے (اس کی مثال میں مضمون کے آخر میں دوں گا)۔ بھارت میں اگلے ہفتے سے انتخابات شروع ہونے والے ہیں۔ ذیل میں دی گئی فلموں کی فہرست اس بات کی یاد دلائے گی کہ بالی ووڈ اور مقامی سینما، نریندر مودی کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
(1) پی ایم نریندر مودی(2019ء): جیانتا بھائی کی ’’لو اسٹوری‘‘ بھارتی اداکار ویویک اوبرائے کی بحیثیت ہیرو آخری فلم تھی جس کو ریلیز ہوئے اب آدھی دہائی گزر چکی، اس کے بعد سے ان کا فلمی سفر رک سا گیا تھا، مگر اب ان کی نئی آنے والی فلم ’’پی ایم نریندر مودی‘‘ جس کے دو میں سے ایک پروڈیوسر ان کے والد ہیں (سریش اوبرائے 2014ء سے بی جے پی کے ممبر ہیں)۔ ایسا لگتا ہے کہ باپ بیٹے نے اپنے تقریباً ختم ہوچکے فلمی سفر کو پھر سے شروع کرنے کے لیے سرکاری سرپرستی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اوبرائے مودی کے بہت پرانے پرستار ہیں۔ انہوں نے مودی کی 2014ء کی انتخابی مہم بھی چلائی تھی، اور بعد میں نریندر مودی کی وزارتِ عظمیٰ کی حلف برداری کی تقریب میں بھی شریک ہوئے تھے۔ فلم کے ٹریلر سے اندازہ ہوتا ہے کہ مودی کے کردار کو انسان دوست کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ فلم کو ریلیز تو5 اپریل کو ہونا ہے مگر کانگریس نے بھارتی الیکشن کمیشن میں ایک شکایت جمع کرائی ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ اب یہ فلم بھارتی انتخابات کے بعد ہی نمائش کے لیے پیش کی جاسکے گی۔ بھارتی الیکشن کمیشن اپنا فیصلہ چند دنوں میں سنائے گا۔ فلم کی مقبولیت اس کے ریلیز ہونے سے پہلے ہی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب تک 2 کروڑ لوگ اس فلم کا ٹریلر دیکھ چکے ہیں۔
(2) مودی کا کاکا گائوں: ایک نیا الیکشن، ایک نئی فلم۔ ابتدائی طور پر اس فلم کی نمائش دسمبر 2017ء میں ہونا تھی، گجرات اسمبلی الیکشن سے صرف ایک روز پہلے۔ مگر بھارتی سنسر بورڈ نے فلم کو ریلیز کرنے کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا۔ بالآخر فلم کو ستمبر 2018ء میں نمائش کی اجازت دی گئی۔ فلم کے ہدایت کار بی جے پی کے رکن سریش جھا ہیں۔ ’’مودی کا کاکا گائوں‘‘ میں وزیراعظم نریندر مودی کے اہم کارناموں (حکومتی پروجیکٹس) کی تشہیر و تعریف کی گئی ہے۔ فلم کے ہدایت کار کی فلم بندی اور مکالموں میں یہ کوشش واضح نظر آتی ہے کہ وہ اس پیغام کو پھیلائے کہ ’’مودی جی کے نظریات اور مہان خیالات بھارت کے لیے واضح اور دوٹوک ہیں‘‘ اور یہ کہ بھارت کو وہ ملنا چاہیے جو اس کا حق بنتا ہے، اس لیے بھارتی عوام کو نریندر مودی ملے۔
(3) مودی۔ اے جرنی آف اے کامن مین (2019ء): یہ ویب سیریز ہے جو امید کی جارہی ہے کہ اسی ماہ انٹرنیٹ پر ریلیز کردی جائے گی۔ فلم کے ٹریلر کے ایک فریم میں گجرات کے مسلم کُش فسادات د کھائے گئے جس کے بیچ نریندر مودی پولیس کے اعلیٰ افسران کو بھاشن دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’مارنے والوں کا کوئی دھرم (مذہب) نہیں ہوتا، کم سے کم جو لوگ مرے ہیں انہیں ہندو یا مسلمان میں بانٹنا بند کرو‘‘۔ یہ وہی نریندر مودی فرما رہے ہیں جنہوں نے اپنی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں مسلمانوں کے قتل عام کا منصوبہ بناکر دو ہزار سے زائد مسلمانوں کو قتل کروا دیا تھا۔ فلم کا ٹریلر دیکھنے کے بعد اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے کہ اس دنیا میں کچھ بھی ایسا نہیں جو مودی جی نہیں کرسکتے، اور صاف ظاہر ہے کہ اگر ایک فیچر فلم (جس فلم کا دورانیہ دو سے تین گھنٹے کا ہو وہ فیچر فلم یا فل لینتھ فلم کہلاتی ہے) نریندر مودی جیسی عظیم شخصیت کے تمام پہلوئوں کا احاطہ نہ کرپائے تو پھر ایک دس قسطوں پر مشتمل ویب سیریز کا بننا ناگزیر تھا۔ اب تو فلم کی ریلیز کے بعد ہی پتا چل سکے گا کہ مودی جی میں مزید کتنے جوہر چھپے ہوئے ہیں۔
(4) ’’ناموں سونے گاموں‘‘ اور ’’ہو نریندر مودی بانو امانگوچو‘‘ (گجراتی فلمیں): نریندر مودی کے وزیراعظم بننے سے بہت پہلے 2014ء کے الیکشن کے موقع پر گجراتی فلم ’’ناموں سونے گاموں‘‘ ریلیز کی گئی۔ اس فلم کے بنانے والوں نے اس بات سے انکار کیا کہ فلم کے مرکزی کردار کا نریندر مودی سے کوئی تعلق بنتا ہے، حالانکہ فلم کے ٹائٹل اور مرکزی کردار سے مودی جی کی مشابہت کے بعد کسی شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
ایک اور گجراتی فلم ’’ہو نریندر مودی بانوامانگوچو‘‘ جو چند ماہ پہلے نمائش کے لیے پیش کی گئی، اس فلم کا مرکزی کردار ایک نوجوان ہے جو وزیراعظم مودی کا پرستار ہوتا ہے۔ یہ فلم کسی حد تک معصومانہ اور ہلکا پھلکا پروپیگنڈا ہے۔
بہت سی فلموں میں کسی مکالمے میں، کسی کہانی کے کلائمکس یا کسی گانے میں بھی مودی جی کا ذکر آنا بالی ووڈ میں کوئی انہونی بات نہیں۔ جیسے ایک فلم ’’دھشوم‘‘ میں ایک بھارتی پولیس والا جوکہ دبئی میں ہوتا ہے، کہتا ہے ’’کھاتا ہوں ان کی، سنتا ہوں صرف مودی جی کی‘‘۔ ایک اور فلم ’’ہاف گرل فرینڈ‘‘ میں فلم کے ہیرو ارجن کپور فلم کے کلائمکس میں وزیراعظم نریندر مودی کی مہم ’’بیٹی بچائو، بیٹی پڑھائو‘‘ کا ذکر اپنے مکالموں میں کرتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد ریلیز ہونے والی فلم ’’ٹوائلٹ‘‘ جس کا آغاز ہی نریندر مودی کے ’’سواچ بھارت مہم‘‘ (صاف بھارت) کے شکریے سے ہوتا ہے۔ بالی ووڈ کی ایک فلم کا تو پورا اسکرپٹ ہی نریندر مودی کی نوٹ بندی کی پالیسی پر مبنی تھا۔ فلم ’’کمانڈو2‘‘ کے تشہیری پوسٹر پر حیران کردینے والا اعلان شائع کیا گیا کہ ’’یہ ایک کھری سچائی ہے کہ نریندر مودی، بھارت کا سب سے اچھا وزیراعظم ہے‘‘۔
اس سب کچھ نے یہ واضح کردیا ہے کہ بالی ووڈ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی سرکار کا مضبوط گٹھ جوڑ ہے۔ اس کاروباری تعلق کو نبھانے کے لیے بالی ووڈ کے سرکردہ لوگ، فحش حد تک جھوٹا پروپیگنڈا بھی کرنے کو تیار ہیں۔
بالی ووڈ اور مودی جی کے رومانس کے دوران رنگ میں بھنگ ڈالتے ہوئے 30 مارچ2019ء کو بھارت کے سو سے سے زائد فلم ہدایت کاروں اور پروڈیوسروں نے ایک بیان عوام کے نام جاری کیا جس میں عوام سے کہا گیا کہ اگر اِس دفعہ بھی ووٹBJP کودیا تو یہ ایک سنگین اور فاش غلطی ہوگی۔ بیان میں مزید کہاگیا کہ ’’فاشزم بہت تیزی سے ہماری جانب بڑھ رہا ہے، اور اگر ہم نے دانش مندی سے ووٹ کا استعمال نہیں کیا تو BJP دوبارہ اقتدار میں آجائے گی۔ BJP کی حکمت عملی ہے کہ وہ ’’بھارتی افواج‘‘ کا اپنے مقاصد کے لیے استحصال کرتی ہے اور افواج کو غیر ضروری جنگ میں پھنسا رہی ہے‘‘۔ آخر میں کہا گیا کہ ایک دفعہ پھر BJP کو اقتدار میں لانا بہت بڑی غلطی ہوگی اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔
اس بیان کو جاری کرنے والوںکی فہرست میں ایک بھی نام بالی ووڈ (ہندی سینما) سے نہیں۔ بالی ووڈ کے فلمی ستاروں اور ہدایت کاروں نے اپنا جھکائو ظاہر کردیا ہے جو شاید اس لیے بھی ہوکہ فلمی دنیا سے ریٹائرمنٹ یا تواتر سے ناکامیوں کے بعد فلمی دنیا کی بہت سی شخصیات کا اگلا پیشہ سیاست ہوتا ہے۔ بھارتی فلم انڈسٹری کو سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے اور فلم انڈسٹری اور انڈر ورلڈ مافیا کا گٹھ جوڑ اس کھیل کا حصہ ہے۔