پاکستانی حکمرانوں اور مقتدار اداروں کا طرزِ عمل سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی
یقیناً یہ حق و باطل کے مابین نہ تو پہلا معرکہ ہے اور نہ آخری… یہ سلسلہ ازل سے شروع ہوا اور ابد تک جاری رہے گا۔ آدم ؑ و شیطان سے آغاز پذیر ہونے والا یہ معرکۂ خیر و شر ابراہیمؑ و نمرود، کلیمؑ و فرعون اور متعدد دیگر مراحل سے گزرتا ہوا آج بھی دنیا بھر میں جاری ہے۔ فلسطین، مصر، کشمیر، برما، بنگلہ دیش اور بھارت سمیت دنیا کے ہر ہر خطے میں حق کے راہی، باطل پرستوں کے ہر طرح کے مظالم برداشت کرتے ہوئے سچ کا پرچم سربلند رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ جان و مال، عزت و آبرو کون سی قربانی ہے جو یہ سرفروش ہنسی خوشی قبول نہیں کررہے، اور پھر بھی یہ نعرۂ مستانہ بلند کرتے پائے جاتے ہیں کہ ؎
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
ظلم کا ایک اور وار بنگلہ دیش کی خونیں حسینہ کی طرف سے کیا گیا ہے جہاں جماعت اسلامی کے چار مزید رہنمائوں سمیت، حق کے پانچ راہیوں کو تختۂ دار کا حق دار ٹھیرا دیا گیا ہے۔ داعیانِ حق کو یہ اعزاز بنگلہ دیش کی وزیراعظم خونیں حسینہ کے 1971ء کی جنگ کے حوالے سے قائم کردہ جنگی جرائم کے خصوصی ٹریبونل کی طرف سے عطا کیا گیا ہے۔ ان کا جرم یہ بتایا گیا ہے کہ ان نیک روحوں نے قتل، اغوا، جلائو گھیرائو، لوٹ مار اور آبروریزی جیسے گھٹیا جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ جنگی جرائم کے جس نام نہاد اور خودساختہ ٹریبونل نے یہ الزامات ثابت کیے ہیں اور پھر پھانسی کی سزا بھی سنا دی ہے، اُس کی اپنی حیثیت اگرچہ انتہائی متنازع ہے، اور یہ ٹریبونل عدل و انصاف کے مسلمہ اصولوں کی سراسر نفی کرتے ہوئے تشکیل دیا گیا ہے، عالمی سطح پر بھی اس کی حیثیت اوّل روز سے متنازع ہے، اور خود بنگلہ دیش کے عدالتی نظام کے زندہ ضمیر لوگ اسے واضح اور دوٹوک انداز میں غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے کر اس کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کرچکے ہیں، اور اس کے فیصلوں کو بھی ناقابلِ قبول اور قانون و انصاف کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ٹھیرایا گیا ہے… تاہم خونیں حسینہ کے سر پر چونکہ خون سوار ہے، اور وہ اپنے ملک میں اسلام سے محبت کرنے والے کسی فرد کو برداشت کرنے پر تیار نہیں، خصوصاً اسلام کے وہ محبان جو مستقبل میں کسی بھی مرحلے پر اُس کی ناجائز حکومت کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور
اُس کے خاندانی اقتدار کے لیے خطرہ بن سکتے ہوں، انہیں وہ ہر صورت راستے سے ہٹانے پر تلی ہوئی ہے۔ ستم بالائے ستم
یہ کہ خونیں حسینہ کو یہ ظلم و ستم روا رکھنے کے ضمن میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار بھارت سمیت باطل کی علَم بردار تمام چھوٹی بڑی قوتوں کی حمایت و سرپرستی حاصل ہے، حتیٰ کہ انسانی حقوق کے وہ پرچم بردار جو ذرا ذرا سی بات پر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور جو دنیا میں سرے سے سزائے موت ہی کے خاتمے کی تحریک برپا کیے ہوئے ہیں اور اسے انسانی عظمت و وقار کے منافی قرار دیتے ہیں، وہ سب بھی ان سراسر بلاجواز، ناجائز، ظلم اور ناانصافی پر مبنی پھانسی کی سزائوں پر ’’صُمٌ بُکْمٌ عُمْیٌ‘‘ کی تصویر بنے، چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ ان سزائوں پر عمل درآمد سے ان کے نزدیک نہ تو انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں اور نہ ہی انسانی عظمت اور وقار کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ سبب اس کا واضح ہے کہ ان سزائوں کا شکار ہونے والے مسلمہ اور مخلص مسلمان ہیں، اور وہ اپنے گلے میں اسلام سے محبت کا طوق لٹکائے ہوئے ہیں، اور زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں ؎
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
سن اے جباری مجرم ہیں
حق گوئی بھی ہے جرم اگر
تو پھر ہم بھاری مجرم ہیں
عالمی قوتوں کے اسی طرزعمل بلکہ ان کی سرپرستی نے خونخوار حسینہ کو بہت زیادہ بے باک کردیا ہے اور اس کا حوصلہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب تک جماعت اسلامی کے چھے نیک نہاد بزرگ رہنمائوں کو تختۂ دار پر لٹکانے کے باوجود اس کا جذبۂ انتقام سرد ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر پاکستان کی حمایت کا الزام عائد کرکے پابندی لگادی گئی ہے، اور اب پانچ مزید رہنمائوں پر جنگی جرائم کا بھونڈا الزام عائد کرکے سزائے موت سنا دی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس ’’بنگلہ دیش‘‘کے خلاف جنگی جرائم کے ارتکاب کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے اور جسے شریف النفس اور نیک نہاد قائدینِ جماعت اسلامی کو پھانسی کے پھندے تک پہنچانے کا جواز بتایا جارہا ہے اس ’’بنگلہ دیش‘‘ کا تو وجود ہی 16 دسمبر 1971ء کے بعد عمل میں آیا ہے، اس سے پہلے تک تو یہ خطہ ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کے مشرقی بازو کے نام ہی سے اپنی شناخت رکھتا تھا، اور یہ تو پاکستان کا ازلی دشمن بھارت تھا جس نے اس خطے میں کھلی جارحیت کا ارتکاب کرکے اسے ’’مشرقی پاکستان‘‘ سے ’’بنگلہ دیش‘‘ کی شکل دی تھی۔ ان حالات میں ایک جارح ملک کے خلاف اپنے وطن کے دفاع کے لیے کھڑے ہونا جنگی جرم کیوں کر ہوسکتا ہے؟
اس سارے قصے میں سب سے تکلیف دہ پہلو بھی یہی ہے کہ ’’مرے تھے جن کے لیے، وہ رہے وضو کرتے…‘‘ پاکستان، جس کی حفاظت کی خاطر جماعت اسلامی اور دیگر محب وطن جماعتوں کے کارکنوں اور قائدین نے 1971ء میں جانیں ہتھیلی پر رکھ کر پاکستانی فوج کا ساتھ دیا اور بھارت جیسے دشمن کے سامنے سینہ سپر ہو گئے، اس پاکستان کے حکمران اور عوام آج اس سارے معاملے سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں، انہیں قطعی کوئی پروا نہیں کہ ان کی خاطر جان و مال لٹانے والے مکمل بے بسی کے عالم میں آج پھر جانوں کی قربانیاں دینے پر مجبور کیے جارہے ہیں، اور جن کی خاطر انہیں یہ سب کچھ جھیلنا پڑ رہا ہے، اُن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور دیگر محبِ پاکستان اور محبِ اسلام جماعتوں کے کارکنان اور قائدین جس جرمِ بے گناہی میں پھانسی کے پھندے کو ہنسی خوشی چوم رہے ہیں، اس کا اجر تو اللہ تعالیٰ کے یہاں انہیں یقینا ملے گا، مگر اس لاتعلقی اور بے اعتنائی کے طرزعمل کی جو بھاری قیمت پاکستان، اس کے حکمرانوں اور مقتدر اداروں کو ادا کرنا پڑ سکتی ہے اس کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں محبانِ پاکستان کے ساتھ اہلِ پاکستان کے سلوک، بے اعتنائی و بے وفائی کو دیکھنے کے بعد آخر آئندہ کوئی کیوں ان اداروں پر اعتبار کرے گا؟ اور کیوں پاکستان کی خاطر قربانیاں دینے پر آمادہ ہوگا…؟
بھارت اپنے مسلمہ مجرم، تخریب کار اور دہشت گرد کلبھوشن یادیو کی جان بچانے اور رہائی کی خاطر جس آخری حد تک زور لگا رہا ہے، آخر ہمیں اپنے مخلص اور بے گناہ محبانِ پاکستان کو بچانے کے لیے یہ راستہ اختیارکرنے سے کس چیز نے روک رکھا ہے؟ یہ معاملہ صرف بنگلہ دیش میں محبوس اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والوں ہی کا نہیں کہ اُن کا عالم تو یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان کی خاطر جان قربان کرنے کو عین سعادت سمجھتے ہوئے ’’بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں‘‘۔ لیکن اصل مسئلہ پاکستان کی سالمیت اور بقا کا ہے کہ ان کے حکمرانوں اور مقتدر اداروں کے کم از کم الفاظ میں نامناسب موجودہ طرزِ عمل کے بعد ان کے اعتماد کو جو ٹھیس پہنچ چکی ہے اس کا ازالہ آسانی سے ممکن نہ ہو گا… ورنہ جہاں تک جانوں کی قربانی دینے والے محبانِ پاکستان کا معاملہ ہے وہ تو اس یقین کے ساتھ سُوئے مقتل رواں دواں ہیں کہ ؎