ترکی کے بلدیاتی انتخابات

حکمران جماعت اے کے پی کی کامیابی،استنبول میں گھمسان کا رن

ترکی میں 31 مارچ کو بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے۔ یہاں آئین کے تحت ہر پانچ سال بعد مارچ کے آخری اتوار کو بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں۔ یعنی ہر بار نئی تاریخ کا اعلان نہیں ہوتا۔ اتوار کو ہونے والے انتخابات میں 81 صوبوں پر مشتمل اس ملک کے 30 میٹرو پولیٹن رؤسائے شہر (Mayors)،1351 مونسپل میئر، اور 22ہزار کونسلرز کا چنائو کیا گیا۔ ان انتخابات میں حکمراں جماعت انصاف و ترقی پارٹی یاAKP سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔ توقع کے مطابق اصل مقابلہ رجب طیب ایردوان کی قیادت میں بننے والے عوامی اتحاد اور قومی اتحاد کے درمیان رہا جس کے قائدکمال کوچدارولو (Kemal Kiliçdaroglu) ہیں۔
عوامی اتحاد میں حکمران AKP اور قوم پرست مادرِ وطن پارٹی یا MHPکے علاوہ 3 چھوٹی جماعتیں شامل ہیں، جبکہ قومی اتحاد اتاترک کی پیپلز ری پبلکن پارٹی (CHP)، حزب خیر یا IYI پارٹی، سعادت پارٹی اور 12 چھوٹی جماعتوں پر مشتمل ہے۔ اسی کے ساتھ کرد قوم پرست عوامی جمہوری پارٹی (HDP) اورامن و جمہوریت پارٹی (DBP) مخصوص علاقوں میں قسمت آزمائی کررہی تھیں۔
بلدیات رجب طیب ایردوان کی اصل قوت اور ان کی جماعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ترک صدر نے بلدیاتی سیاست ہی سے تبدیلی کا آغاز کیا تھا۔ مصر و یمن کی اخوان، تیونس کی النہضہ، الجزائر کے اسلامک فرنٹ اور دنیا بھر کی اسلامی جماعتوں کی طرح ایردوان اور پروفیسر نجم الدین اربکان نے بلدیات کو اپنی پارلیمانی سیاست کی بنیاد بنایا۔ ان کا خیال ہے کہ خدمتِ عوام دعوت اور اجتماعی خیر کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔گلی محلوں کے حقیقی مسائل پر توجہ دے کر قومی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموارکیا جاسکتا ہے۔
اب اسلامی قوتوں کے ساتھ ترکی کے سیکولر رہنما بھی یہ جان چکے ہیں کہ قومی اقتدار کا راستہ بلدیاتی ایوانوں سے ہوکر گزرتا ہے۔ اسی بنا پر حزبِ اختلاف نے ان انتخابات کو بے انتہا اہمیت دی اور سارے ملک میں بھرپور مہم چلائی۔ اسی جوش و خروش کا نتیجہ تھا کہ بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا تناسب85 فیصد کے قریب رہا، بلکہ استنبول میں 92 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے ترکی کی معیشت شدید دبائو میں ہے۔ بیرونی قرض بڑھنے اور ترک لیرا کے زوال کی بنا پر ملک کو افراطِ زراور مہنگائی کا سامنا ہے۔ روزگار کی صورت حال بھی کچھ اچھی نہیں۔ نوجوان ترک ایردوان کا دست و بازو ہیں اور یہی طبقہ بے روزگاری سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ کمال کوچدارولو نے ترک معیشت کو انتخابی مہم کی بنیاد بنایا۔ ترک تاریخ کی یہ پہلی مہم تھی جس میں CHP کے جلسوں میں ’حمدِ اتاترک‘ اور سیکولرازم کے فیوض و برکات کا کوئی ذکر نہیں سنا گیا، اور نہ ہی ایردوان کی ملاّئیت ہدفِ تنقید بنی، بلکہ حزبِ اختلاف کا سارا زور معیشت پر تھا۔ کمال کوچدارولو اور ان کے اتحادی حزبِ خیر کی محترمہ مرال کثر (Meral Aksener) اپنی تقریروں میں ایردوان کو ناکام ارسطو قرار دیتے رہے جنھوں نے اپنے داماد کے ساتھ مل کر ترک معیشت کا بیڑا غرق کررکھا ہے۔ صدر ایردوان کے داماد بیرات البیراک (Berat Albayrak) ترکی کے وزیرخزانہ ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق مقابلہ خاصا سخت تھا اور انتخابات سے ایک دن پہلے شائع ہونے والے جائزوں کے مطابق حزبِ اختلاف کے قومی اتحاد کو ہلکی سی برتری حاصل ہوگئی تھی۔
نتائج کے مطابق صدر رجب طیب ایردوان نے اپنی برتری تو قائم رکھی لیکن انقرہ، اناطالیہ، ادانہ میں شکست سے رنگ میں کچھ بھنگ سا پڑگیا ہے۔AKPکے لیے حقیقی دھچکا استنبول کے انتخابات ہیں جہاں حزب اختلاف کو معمولی سی برتری حاصل ہے، بلکہ غیر جانب دار حلقوں کے خیال میں میئر کے لیے صدر ایردوان کے دستِ راست بن علی یلدرم شکست کھا چکے ہیں۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق پورے ملک میں حکمران AKP نے 44.42 فیصد ووٹ حاصل کیے جو گزشتہ انتخابات سے 1.45فیصد زیادہ ہیں۔ ان کے قریب ترین حریف CHP نے30.07 فیصد ووٹ لیے۔ گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں ان کے ووٹوں میں 3.76 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اگر اتحادیوں کے ووٹ جوڑ لیے جائیں تو 51.67 فیصد ترکوں نے حکمراں عوامی اتحاد کے حق میں رائے دی جبکہ 37.53 فیصد ووٹروں نے حزب اختلاف کے جمہوری اتحاد پر اعتماد کا اظہار کیا۔
نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ پہلو بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ بلدیاتی انتخابات میں عوام کی ترجیح قومی انتخابات سے ذرا مختلف ہوتی ہے، اور لوگ بلدیاتی پرچۂ انتخاب (بیلٹ پیپر) پر ٹھپہ لگاتے وقت نظریات، قانون سازی اور پالیسی کی تشکیل سے زیادہ گلی محلوں کے مسائل کو ذہن میں رکھتے ہیں۔
حزبِ اختلاف نے ملک کے 6 بڑے شہروں یعنی دارالحکومت انقرہ، استنبول، ازمیر، برسا، اناطالیہ اور ادانہ کو ہدف بنایا۔ حکومت مخالف جمہوری اتحاد نے انقرہ سے ایردوان کی 25 سالہ برتری کا خاتمہ کردیا، ساتھ ہی اناطالیہ اور ادانہ بھی لے اڑے۔ ادانہ میں CHPکی کامیابی کو اس اعتبار سے ایردوان کی شکست نہیں کہا جاسکتا کہ ادانہ سمیت بحر روم کا پورا ساحل سیکولر اور قوم پرستوں کا گڑھ ہے۔ ادانہ کے میئر کا تعلق AP کی اتحادی قوم پرست MHP سے تھا جہاں اس بار CHP نے کامیابی حاصل کرلی۔ اسی کے ساتھ CHP نے ازمیر پر اپنی روایتی برتری قائم رکھی۔
استنبول میں گھمسان کا رن پڑا جس کے انتخابی نتائج کا اعلان اب تک نہیں ہوسکا ہے۔ استنبول صدر ایردوان کا آبائی علاقہ ہے۔ ترک صدر نے یہیں تعلیم حاصل کی، استنبول کی فٹ بال ٹیم کے ہونہار کھلاڑی کی حیثیت سے شہرت حاصل کی، اور پھر مارچ 1994ء میں استنبول کے میئر منتخب ہوئے۔ 1998ء میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ پر ایک نظم پڑھنے کے جرم میں انھیں سیاست سے نااہل قرار دے کر جیل بھیج دیا گیا، لیکن 4 سال کے دوران شہر کے نظم و نسق خاص طور سے ذرائع آب نوشی کی ترقی، ماحولیاتی آلودگی پر قابو اور پولیس اصلاحات وغیرہ جیسے زبردست اقدامات کی بنا پر وہ آج بھی استنبول کے ہیرو تسلیم کیے جاتے ہیں۔
استنبول میں میئر کی نشست پر ایک ایک بیلٹ پیپر کا خوردبین سے جائزہ لیا جارہا ہے۔ پولنگ مکمل ہونے پر31 مارچ کی شام کو ایردوان کے امیدوار بن علی یلدرم 4773 ووٹوں کے ساتھ آگے تھے، لیکن کچھ بیلٹ بکسوں کی دوبارہ گنتی کے بعد الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ 99 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے کے بعد CHPکے امیدوار اکرم امام اوغلو کو 27889 ووٹوں کی برتری حاصل ہوگئی ہے۔ تادم تحریر31136 میں سے 64 بیلٹ بکس ابھی تک نہیں کھولے گئے۔ بن علی یلدرم نے اپنے مخالف امیدوار کی برتری کا اعتراف توکیا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ صرف 20 ہزار ووٹوں سے پیچھے ہیں اور ابھی جن علاقوں کے بیلٹ بکسوں کی گنتی باقی ہے وہاں ان کی پوزیشن خاصی مضبوط ہے۔ خیال رہے کہ میئر کے انتخاب میں 83 لاکھ سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے ہیں۔
دونوں جماعتوں نے بہت سے بیلٹ بکسوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن ان درخواستوں پر منگل کی دوپہر کو اپنا فیصلہ سنائے گا، جس کے بعد کورٹ کچہری کا راستہ بھی خارج ازامکا ن نہیں۔ لہٰذا آوے آوے اور جاوے جاوے کا شور ابھی کچھ عرصہ جاری رہنے کی توقع ہے۔
بحیثیتِ مجموعی کرد علاقوں، ترکی کے جنوبی حصے، بحرروم کے ساحل اور خلیج یونان سے متصل علاقوں میں جو سیکولر اور قوم پرستوں کا گڑھ ہیں، جناب ایردوان کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان انتخابات کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ کرد علاقوں میں علیحدگی پسندوں کی جانب سے بائیکاٹ اور دہشت گردوں کی دھمکیوں کے باوجود جوش وخروش کے ساتھ انتہائی پُرامن انتخابات ہوئے اور کردوں کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی HDP نے برتری حاصل کی۔
انتخابی نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ ترک عوام نے ان کی پارٹی پر اپنے اعتماد کی تجدید کے ساتھ معاشی معاملات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جوآنے والے دنوں میں ان کی اولین ترجیح ہوگی۔ انھوں نے فراخ دلی سے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ترکوں نے جن کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے انھیں دورکرنا ہمارا فرض ہے۔
مغربی میڈیا کی طرح رائے عامہ کے پاکستانی ذرائع ان انتخابی نتائج کو ایردوان کی شکست اور ان پر عدم اعتماد کا اظہار قرار دے رہے ہیں۔ یہ درست کہ ترکی کے 6 بڑے اور اہم شہروں میں سے AKP نے صرف شمالی اناطولیہ کے شہر برصا میں کامیابی حاصل کی ہے جو ملک کا چوتھا بڑا شہر ہے، لیکن بڑے شہروں میں کامیابی کے باوجود حزب اختلاف کے لیے نتائج ان کی توقعات کے مطابق نہیں۔ رائے عامہ کے تمام جائزے جمہوری اتحاد کو حکمران عوامی اتحاد سے ایک آدھ پوائنٹ آگے بتارہے تھے، لیکن حزب اختلاف کے مجموعی ووٹ 38 فیصد سے بھی کم رہے۔
میئر کی نشستوں پر شکست کے باوجود ان 6 بڑے شہروں کے 728 میں سے AKPکے منتخب ہونے والے کونسلروں کی تعداد 538 سے زیادہ ہے۔ AKPکی اصل قوت ترکی کے دیہی علاقے ہیں جہاں ایردوان کی گرفت برقرار رہی، تاہم استنبول، اناطالیہ اور ادانہ میں CHP کی شاندار کارکردگی نے صدر ایردوان کو اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلا کردیا ہے۔ اقتصادیات کو بہتر بنانے کے لیے صدر ایردوان سیاحت کے فروغ کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اِس سال کے پہلے دو مہینوں کے دوران ترکی آنے والے سیاحوں کی تعداد میں 7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ترکی آنے والے 75 فیصد سیاح استنبول ائرپورٹ کے راستے ملک میں داخل ہوئے۔ استنبول کی شہری انتظامیہ سیاحوں کے استقبال اور انھیں بہتر سہولت فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ استنبول ترکی کا دروازہ اور عثمانی ثقافت کا امین ہے۔ شہر سے اسلام پسندوں کے انتظامی کنٹرول کا خاتمہ شہر کے نظریاتی تشخص کو گہنا سکتا ہے۔
صدر اردون دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے لیے امید اور امت کے لیے یک جہتی کا استعارہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ اتوار کو ترکی کے انتخابات کا جہاں تل ابیب اور واشنگٹن نے بہت باریکی سے جائزہ لیا، وہیں غزہ اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر بھی لوگ ساری رات ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھے رہے۔ بنگلہ دیش کے روہنگیا کیمپوں میں بھی خاصا جوش و خروش پایا گیا۔ مستضعفین کا ساتھ دینے کی بنا پر صدر ایردوان دنیا بھر کے متکبرین کا نشانہ ہیں اور ترکی اس وقت مشکل ترین حالات سے گزر رہا ہے۔ شام میں خانہ جنگی کی بنا پر اس کی مشرقی و جنوبی سرحدیں غیر مستحکم ہیں۔ بحر روم میں اپنے معدنی حقوق کے لیے صدر ایردوان کا سینہ تان کر کھڑا ہونا یورپی یونین کو پسند نہیں۔ جنوب مشرق میں عراق سے متصل سرحد پر کرد دہشت گرد سرگرم ہیں۔ شمال مشرق میں آرمینیا اور ترکوں کی کشیدگی صدیوں پرانی ہے۔ فلسطینیوں کی پُرجوش حمایت کی بنا پر اسرائیل اور صدر ٹرمپ صدر ایردوان کی جان کے دشمن ہیں۔ 3 سال پہلے ان کے خلاف فوجی بغاوت بھی کیا جاچکی ہے۔ بھاری فوجی اخراجات کے ساتھ امریکہ و یورپی یونین کی جانب سے پابندیوں نے ترک معیشت کو شدید مشکلات میں مبتلا کردیا ہے۔
اب جبکہ بڑے شہر حزبِ اختلاف کے کنٹرول میں آگئے ہیں، CHP اور سیکولر عناصر معاشی بہتری کے لیے ایردوان کے اقدامات کو سبوتاژ کرسکتے ہیں۔ ان کی جماعت کے کچھ اکابرین جناب طیب ایردوان کو عملی سیاست سے علیحدگی کا مشورہ دے رہے ہیں۔ موصوف استنبول کے میئر، وزیراعظم اور صدر کی حیثیت سے گزشتہ 26 برس سے اقتدار میں ہیں۔ اس عرصے میں انھوں نے ملک کی تعمیرنو اور نظریاتی تشخص کے لیے بلاشبہ بہت عمدہ کام کیا ہے۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اب CHP نے بھی سیکولرازم کے نعرے کو عملاً ترک کردیا ہے۔ ان کے بعض مخلص دوستوں کے خیال میں وقت آچکا ہے کہ جناب ایردوان قیادت سے باوقار انداز میں سبک دوش ہوکر نوجوان سیاست دانوں کی تربیت پر توجہ دیں۔
…………………
اب آپ مسعود ابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comپر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔