کراچی کی عدالتوں میں طلاق اور خلع کے مقدمات کے بارے میں ایک تحقیقی ادارے کا مطالعاتی جائزہ
محمد اسعد الدین
خدا بھلا کرے اُن لوگوں کا، جو معاشرے کو اچھا بنانے کے لیے ہمیشہ فکرمند رہتے ہیں۔ خدایا انہیں ہدایت دے جو اپنے کو سیاسی لیڈر، مذہبی راہ نما، دانش ور کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ خدا تو انہیں بھی عقل و سمجھ دے جو بڑے ہیں گھر میں، محلے میں، بستی میں۔اے ہدایت دینے والی ذات، تُو نصیحت کا کچھ سامان کر مدرسے، اسکول، کالج و یونیورسٹی کے استادوں کے لیے… اور خدایا ہمارے سماج کو سدھارنے کے دعویدار میڈیا کی عقل پر پڑا ہوا پردہ ہٹادے کہ ان سب کو کسی طرح یہ بات سمجھ میں آجائے کہ کچرا قالین کے نیچے دھکیلنے سے کمرے کی صفائی نہیں، محض دل کی تسلی ہوتی ہے، آنکھوں کو مطمئن کیا جاتا ہے۔ صفائی کے نام پر، صفائی سے اپنے آپ کو دھوکا دیتے رہنے سے جمع ہونے والا کچرا پہلے بدبو، پھر سڑاند پیدا کرکے کمرے کے ماحول کو عذاب بنادے گا۔ رہنا، ٹھیرنا دوبھر کردے گا۔ دل پہ لگی تعصب، مفاد، ڈھٹائی، بے حسی، بے شرمی کی گرہ کھل جائے تو معاشرے کو ٹھیک کرنے کے ان تمام دعویداروں کو سمجھ آجائے کہ سوسائٹی کے کسی زندہ، حساس اور سلگتے ہوئے مسئلے کو انجان بننے سے، جان چھڑانے سے ٹالا نہیں جاسکتا۔ مسئلے کی طرف سے پیٹھ موڑنے، گردن ریت میں گھسانے سے مسئلہ کبھی ’’حل‘‘ نہیں ہوسکتا۔ کاش!!… انہیں بجلی، پانی، گیس، کچرا، صفائی، مہنگائی، پی ایس ایل، پاک بھارت لڑائی، گرمی سردی کے حوالے سے روزمرہ کے موضوعات کے درمیان میں زندگی کا، پورے معاشرے کا ایک انتہائی اہم موضوع ’’خاندان کی، بحیثیت ادارہ موجودہ صورت حال‘‘ بھی ہے، جو دھیرے دھیرے خاموشی سے تباہی کے نقطۂ ابال تک پہنچ گئی ہے، لیکن اس بارے میں رسمی تذکرے، رسم پوری کرنے والے سیمینار، ورکشاپس میں سطحی تجزیے، سرسری مشاہدے، کسی دن کو مخصوص کرکے منانے، زبان کے چٹخاروں کی شکل میں دل کو تسلی دینے جیسی سرگرمی کے سوا کچھ نہیں، اس لیے کسی کو ٹھیک اندازہ بھی نہیں کہ کیسا طوفان ہے جو بلاتفریق گھروں کی چوکھٹ تک پہنچ گیا ہے۔ کیسی بلا ہے جو سروں پر منڈلارہی ہے۔ کیسی بے خبری، کیسی بدنصیبی ہے…
خاندان کو کیا ہوا؟؟ یہ بات تب تک سمجھ میں نہیں آسکتی جب تک ٹھیک ٹھیک یہ علم نہ ہو کہ خاندان ہے کیا؟؟ یہ کیوں، کیسے بنتاجاتا ہے؟ خاندان بنانے کا مقصد کیا ہے؟ لوگوں سے پوچھیے، اس حوالے سے بات کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ شوہر، بیوی اور بچوں کا ایک چھت کے نیچے، ایک ساتھ رہنے والوں کا نام ان کے نزدیک ’’خاندان‘‘ ہے۔ ذرا دائرہ بڑا کرلیں تو اس میں دادا، دادی، نانا، نانی، خالہ ماموں، چچا، تایا بھی شامل ہوجائیں، لیکن ایسے لمبے چوڑے اور ایک ساتھ رہنے والے خاندان اب خال خال ہی نظر آئیں گے۔ خاندان کی یہ تعریف ’’بظاہر‘‘ جتنی درست ہے اتنی ہی نامکمل اور ادھوری ہے۔ ’’خاندان اصل میں آسمانی ہدایت و روشنی میں بننے والا کثیر المقاصد تربیتی ادارہ ہے‘‘۔ اپنی طرز کی ایک شاہ کار اکیڈمی، جس کی خدمات، مہربانیاں، احسانات دیکھ کر عقل دنگ رہ جائے۔ ایک ایسا ادارہ جو گھر کے ایک ایک فرد کی، معاشرے، حتیٰ کہ قوموں کی لاتعداد ضروریات پوری کرتا ہے۔
… چلیے اس بات کو ایک مثال سے سمجھیے: جس طرح ہر بڑا ادارہ اپنے ادارتی سسٹم کو بہتر سے بہتر انداز میں چلانے، شاندار پروجیکٹ تیار کرنے یا رزلٹ فراہم کرنے کے لیے اپنا ایک ذیلی تربیتی ادارہ بناتا ہے جہاں وہ مقرر کردہ مخصوص شرائط پر غیر تربیت یافتہ افراد کو خاص طریقہ کار کے مطابق منتخب کرتا ہے، پھر انہیں تربیتی ادارے کے انسٹرکٹرز کی زیر نگرانی خاص انداز سے ترتیب دیئے گئے ماحول سے گزارکر، ہر طرح سے تسلی اور اطمینان کے بعد اصل اور بڑے ’’ادارے میں خدمات‘‘ انجام دینے کے لیے روانہ کردیا جاتا ہے۔ فوج اس کی نمایاں مثال ہے۔ زمینی ہو، فضائی یا سمندری فوج، سب کے اپنے اپنے ذیلی تربیتی ادارے ہیں، جہاں نئے آنے والوں میں ایک مقررہ مدت کے اندر اندر مطلوبہ خصوصیات، صلاحیت اور مخصوص قابلیت پیدا کرکے انہیں اصل ذمہ داری ادا کرنے کے لیے روانہ کردیا جاتا ہے۔ باقی تمام بڑے اداروں کو بھی دیکھ لیں، ان کی بھی یہی حکمت عملی نظر آئے گی۔ یہ سارا عمل انجام دیتے ہوئے ادارے کے مرکزی افراد اس بات کو بڑے اہتمام کے ساتھ یقینی بناتے ہیں کہ تربیتی ادارہ اور یہاں سے فارغ ہونے والے ہنرمند کی تیاری اور معیار پر کوئی مصالحت نہ کی بجائے، کیونکہ اگر وہ معیارپر کوئی سمجھوتا کریں گے، نرمی برتیں گے تو اصل مرکزی ادارے کا جلد ستیاناس ہوجائے گا۔ یعنی معیار میں کمی، کوتاہی پر خاموشی اختیار کرنا ادارے کی لٹیا ڈبونے کے مترادف ہے۔ خاندان بھی محض ایک جگہ کچھ لوگوں کے اکٹھا رہنے کا نام نہیں، بلکہ حقیقت میں خاص ترتیب اور خاص اجزا سے تیار کیا گیا ایک تربیتی ادارہ ہے۔ البتہ ایک بنیادی نکتہ جو اس کے اور باقی اداروں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق پیدا کرتا ہے وہ یہ ہے کہ دیگر ادارے فقط پرزے تیار کرتے ہیں یا پراڈکٹس… لیکن خاندان کا ادارہ زمین پر، دنیا کے سسٹم کو چلانے کے لیے انسان کو مخصوص خوبیاں دے کر حقیقتاً اللہ کا نائب بناتا ہے۔ ایک ذمہ دار، سمجھدار انسان ’’تیار‘‘ کرتا ہے جو اپنی پوزیشن کو سمجھے، اور کردار کو نبھائے…
باقی اداروں سے فارغ ہونے والا فرد اگر ٹھیک تیار نہ ہوا ہو، تربیت میں کوئی کمی، کسر رہ گئی ہو، معیار اُنیس، بیس ہو تو کیا ہوگا؟ زیادہ سے زیادہ یہی کہ پرزے خراب کردے گا، یا پراڈکٹ۔ لیکن خاندان کے ادارے سے کوئی کچا پکا، نااہل، گھامڑ بن کر معاشرے میں آئے گا تو اس کے اثرات نسلوں تک جائیں گے اور نتائج مدتوں تک بھگتنا پڑیں گے۔ آج ہمارا گھر، محلہ، بستی، علاقہ، معاشرہ ’’خاندان کے ادارے‘‘ سے تیار ہوکر نکلنے والوں کا عکس ہے۔ ایک جھلک اور تصویر ہے۔
خاندان آج کس معیار کے افراد تیار کررہا ہے؟ اس بارے میں جاننے سے پہلے آسمانی ہدایت کے توسط سے بننے والے شاہ کار اور بے مثال ادارے کی ہماری سوسائٹی میں کیا درگت بن رہی ہے، کس حال میں، کس صورت حال سے آج خاندان دوچار ہے، خاندان کی ٹوٹ پھوٹ، سوسائٹی، بالخصوص بچوں پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے ریسرچ کرنے والے ادارے ’’فارایور‘‘ کی تحقیق سے حقیقت کا، مسئلے کی شدت اور ہولناکی کا اندازہ ہوتا ہے۔ فارایور کی ریسرچ کے مطابق: کراچی میں جنوری 2005ء سے دسمبر 2008ء تک 64,800 خلع و طلاق کے مقدمات عدالتوں میں رجسٹرڈ ہوئے، جنوری 2009ء سے ستمبر 2012ء تک 72,500 کیس رجسٹرڈ ہوئے، 2013ء میں جنوری سے 31 دسمبر 2013ء تک 5073 مقدمات داخل ہوئے اور جن میں سے 3588 خاندان خلع کی ڈگری کے بعد ٹوٹ گئے۔ 2014ء میں جنوری سے اکتوبر تک 6159 جوڑے ایک دوسرے سے اپنی جان چھڑانے کے لیے عدالتوں میں پہنچے… ذرا ملاحظہ کیجیے انسان ساز، سکون فراہم کرنے والے تربیتی ادارے کی ٹوٹ پھوٹ کس رفتار سے ہورہی ہے!!! 2016ء میں شہر میں خلع و طلاق کے ذریعے اپنے آپ کو نکاح کے بندھن سے آزاد کروانے والوں کی تعداد 9000 تھی، جب کہ یہ تعداد 2017ء میں 9600 ہوگئی، اور گزشتہ برس یعنی 2018ء میں اپنے اپنے رشتوں کو ختم کرنے کے لیے 10,500 جوڑوں نے عدالتوں کا رخ کیا۔ اس حوالے سے ضلع شرقی میں 3043 مقدمات، ضلع وسطی میں 2100، ضلع جنوبی کی عدالتوں میں 1648مقدمات اور ضلع جنوبی کی عدالتوں میں 2150 مقدمات داخل ہوئے، اسی حوالے سے ایک تحقیق کے مطابق: 1995ء تک خلع کا تناسب محض 5 فیصد تھا جبکہ یہ شرح بڑھ کر 2005ء میں 48 فیصد ہوگئی، اور گزشتہ دس برسوں میں ’’چائلڈ کسٹڈی کیسز‘‘ میں 110 فیصد کے لگ بھگ اضافہ ہوگیا۔ خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کی صورت حال کو سرسری انداز میں کہا جائے تو یہ محض کچھ ہندسے ہیں، بظاہر اعداد و شمار ہیں۔ شوہر، بیوی، بچوں پر مشتمل کنبہ، جو ایک ساتھ رہتے تھے، پھر عدالتوں کے سہارے یا اس کی مدد کے بغیر ہی ازخود فیصلہ کرتے ہوئے الگ ہوگئے، لیکن حقیقت کی آنکھیں پوری طرح کھول کر دیکھیں تو پتا چلے گا کہ سوسائٹی کو بہترین انداز میں چلانے کے لیے ’’ایکسپرٹ ہیومن ریسورس‘‘ تیار کرنے والے انسٹی ٹیوٹ تھے جو ٹوٹ گئے یا توڑ دیئے گئے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے بلدیہ کا عملہ بھاری مشینری استعمال کرتے ہوئے اونچی، مضبوط عمارتیں لمحوں میں مسمار کردیتا ہے، خاندان کے کرتادھرتائوں نے بھی اپنی اپنی سوچ، رویوں اور حرکتوں کو مشینری کی طرح استعمال کرتے ہوئے خاندان کی عمارت کو توڑ کر ہی چھوڑا۔ طلاق و خلع کی ایسی رفتار، اتنی تعداد!! ہمارے سماج میں ایسی کوئی مثال نظر آتی ہے؟؟ ہرگز نہیں… صدیوں سے انسان شادی کے ذریعے خاندان بنارہے ہیں لیکن اسے ختم کرنے کا یہ انداز کبھی سنا، نہ دیکھا، نہ کہیں پڑھنے کو ملا۔ ’’فارایور‘‘ کی ریسرچ کے مطابق: ختم ہونے والے رشتوں کی اس تعداد میں تمام ہی مسالک، مکاتبِ فکر کے افراد شامل ہیں۔ ماڈرن بھی ہیں، روایتی بھی، دیندار بھی ہیں، باعمل دیندار بھی، معاشی طبقات میں لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے، مڈل کلاس، اپر مڈل کلاس، حتیٰ کہ ایلیٹ کلاس کے لوگ حادثے سے دوچار ہیں۔ غیر مطلق ان پڑھ بھی، واجبی تعلیم یافتہ، اوسط درجے کے پڑھے لکھے بلکہ ماسٹرز اور اس سے بھی زیادہ ’’ویل ایجوکیٹڈ‘‘ بھی متاثرین میں شامل ہیں۔ کچھ گروپ ڈسکشنز اور انٹرویوز کے نتیجے میں یہ ایک پہلو بھی سامنے آیا کہ گریجویشن لیول کے تعلیم یافتہ افراد (مرد و خواتین دونوں) میں شادی کے بعد ابتدائی تین سال میں خلع، طلاق کا رجحان و تناسب دیگر کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ ہے۔ خاندان کے ٹوٹنے، بکھرنے کی رفتار، صورت حال اور مختلف واقعات سامنے آنے کے بعد ہماری سوسائٹی کا عام رویہ کیا ہوتا ہے؟؟ ظاہربیں نگاہ سے محض چند ظاہری پہلوئوں کا جائزہ۔ ظالم مرد کے عورت پر ظلم کا دکھڑا، سوشل و الیکٹرانک میڈیا کے کردار کے نام پر فاتحہ، شوہر بیوی کی گھریلو زندگی میں خاندان کے دیگر افراد کی مداخلت کی مثالیں، روایتی ساس بہو جھگڑوں کے تذکرے، شخصی خامیوں، کوتاہیوں کے واقعات، اس میں مزید کچھ چیزیں شامل کرکے گلی کے کونے پر جمنے والی چوکڑی کی سطح سے لے کر، بڑے سیمینارز، ورکشاپس، کانفرنسز تک… بس بات کرنے کے انداز کے فرق کے ساتھ انہی پہلوئوں پر اپنے اپنے خیالات، دانشوری کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر دیکھنے، سوچنے، موجودہ اور متوقع نقصانات کا حساب کتاب کرنے کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا، لیکن… کیا دو افراد کا مخصوص روایات، طریقہ کار کے مطابق کچھ لوگوں کو گواہ بناکر، کئی افراد کی موجودگی میں ایک معاہدے کے تحت اکٹھے ہوکر خاندان بنانا، پھر کسی ایک یا دونوں افراد (شوہر، بیوی) کا بڑے جتن اور بہت سے لوگوں کی کوششوں سے بننے والے ادارے کو ریت کے گھروندے کی طرح ایک ہی ہلے میں توڑ دینے کا معاملہ اس قدر سادہ ہے؟ اتنا آسان ہے؟ ایسا نہیں ہے!! مشکل لیکن یہ ہے کہ زندگی کے اور معاملات کی طرح ہمارے معاشرے کی اکثریت، عوام کیا خواص بھی اصل، مکمل تصویر کو نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی دیکھنے پر آمادہ ہیں جس کی وجہ سے بس واقعات اور ظاہری وجوہات ؟؟؟ رہتے ہیں۔
یہ افلاطونی فلسفہ نہیں کہ بات دماغ میں نہ آسکے۔ بس عقل و نظر پر بندھی ہوئی پٹی اتر جائے تو مشکل آسان اور مسئلہ بہت حد تک حل ہوجائے گا… انسان مرد ہو یا عورت، بنیادی طور پر4 چیزوں کا مجموعہ ہے: (1) روح، (2) جسم، (3) عقل، اسے ذہن کہیے یا دماغ، اور (4) جذبات۔ یہ تمام عناصر بظاہر الگ الگ مگر حقیقت میں ایک دوسرے کے ساتھ بڑے زبردست طریقے سے ’’جڑے‘‘ ہوئے ہیں۔ ان چاروں عناصر کی ضروریات، مطالبے اپنی جگہ… لیکن ایک بنیادی ضرورت سب کی مشترک بھی ہے اور شدید بھی… اور وہ ہے ’’سکون‘‘۔ آپ انسان کے ایک ایک عمل، ؟؟؟ کو دیکھیے اور اسے پورا کرنے کے انداز اور طریقہ کار کو باہم ملاکر غور کیجیے، ایک ہی حقیقت سمجھ میں آئے گی: سکون کا حصول۔ انسان کھاتا ہے، پیتا ہے… سونے، جاگنے، بھوک مٹانے کے لیے بھاگ دوڑ، سر چھپانے کے لیے چھت کے نام پہ مکان، کوٹھی، بنگلہ کا انتظام، تفریح کے لیے کھیل میںحصہ لینا، کبھی ڈراموں، فلموں سے دل بہلانا، عبادات کا اہتمام، مرضی اور پسندکا لباس پہننا، دوستوں سے گپ شپ… غرض کون سا کام ہے جو ’’سکون‘‘ کی ضرورت پوری کرنے سے خالی ہے؟ کیونکہ مجموعہ 4 عناصر کا ہے تو کبھی جذباتی سکون کی طلب انسان کو دوڑائے دوڑائے پھرتی ہے، انسان پتا نہیں کیا کیا جتن کرتا ہے جذباتی سکون کے لیے، حتیٰ کہ جب بہت کچھ کرنے کے بعد بھی سکون نہیں حاصل ہوتا تو دوائیں کھانا شروع کردیتا ہے۔ کبھی عقل کو سکون کی ضرورت پیش آتی ہے تو پڑھنے، سوچنے، غور کرنے، اپنے خیالات کے حوالے سے بحث مباحثے کرکے ذہنی سکون کا سامان فراہم کرتا ہے۔ جسم اپنے مطالبات اور فرمائشوں کی فہرست سامنے لاکر رکھتا ہے تو انسان اچھے گھر، بڑی گاڑی، استعمال کی عام چیزوں کے حوالے سے بہترین سے بہترین انتخاب کرتا ہے کہ کہیں جسم کو شکایت نہ ہو۔ ان تمام چیزوں کا اہتمام کرنے کے بعد بھی طبیعت کو قرار نہ ملے، دل بوجھل رہے تو پھر… مسجد کا رخ کرتا ہے، تسلی اور اطمینان کے لیے اللہ سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ رحمان کے بنائے ہوئے نقشے کے مطابق انسان کے جسمانی، جذباتی، ذہنی اور روحانی مطالبے فطری ہیں، ان کو ’’جائز‘‘، معقول اور بتائے گئے طریقہ کار کے مطابق پورا کرنا ضروری بھی ہے۔ لیکن شیطان کے ڈیزائن کیے ہوئے ’’مادہ پرستی‘‘ کے ماڈل کے مطابق زندگی میں اصل چیز ’’صرف‘‘ جسم ہے، باقی سب کچھ ضمنی ہے، اور ساری بھاگ دوڑ جسم کے آرام اور آسائش کے لیے ہے۔ انسانی زندگی کی تعریف میں جب جسم ہی سب کچھ ٹھیرا تو اسی کے ساتھ ’’لذت‘‘ اور ’’مزے‘‘ کے تصورات کی پیدائش ہوئی۔ یہ تصورات پھر خوفناک ہتھیار بنے اور خاندان کی تشکیل کے لیے نکاح کا عمل بری طرح اس ہتھیار کا نشانہ بنا۔ انسان کے بنیادی حقیقی تقاضوں کی تکمیل، سب سے بڑھ کر سکون حاصل کرنے کا اس قدر اہم ذریعہ کہ جسے نبیٔ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے آدھا دین قرار دیا، وہ غیر محسوس انداز میں سکون کے بجائے لذت اور مزے کے حصول کی ایک شکل بنتا چلا گیا۔ سکون انسان کی ایسی ہی مستقل اور ناگزیر ضرورت ہے جیسے سانس لینا۔ جبکہ مزے اور لذت کی عمر بہت مختصر ہوتی ہے… انسان لذت کے ایک ہی انداز سے بہت جلد اکتا جاتا ہے، بے زار اور بور ہوجاتا ہے، پھر وہ سوچتا ہے کہ کون سا نیا انداز یا طریقہ اختیار کروں کہ جس سے لذت حاصل کرسکوں۔ یہ سوچ و فکر جب زندگی کے انتہائی اہم ادارے خاندان کی تعمیر کے موقع پر، اس کی بنیاد رکھنے کے حوالے سے ذہن پر حاوی ہوئی، معیار بنتی گئی تو اس کا نتیجہ مغرب میں جو نکلنا تھا سو نکل کر سامنے آگیا۔ اب اس نتیجے نے ہمارے معاشرے، ہمارے گھروں کا رخ کرلیا۔ صورت حال ہمارے سامنے ہے۔ مغرب نے تو جیسے تیسے آزادی کی قیمت سمجھ کر، کچھ ریاست کے بل بوتے پر، کچھ قوانین اور اداروں کے سہارے اس بوجھ کو اٹھالیا، لیکن ہمارے معاشرے کا کیا ہوگا؟ یہاں تو ریاست، قوانین، اداروں سب کے انجر پنجر ڈھیلے ہیں…!!