پاکستان میں یہ سوال اہم ہوگیا ہے کہ کیا حکومت اور ریاستی ادارے احتساب شفاف کو یقینی بناسکیں گے؟ اور یہ جو کہا جارہا ہے کہ کسی بھی کرپٹ اور بدعنوان شخص کو معاف نہیں کیا جائے گا، کیا یہ ممکن ہے؟ کیونکہ وزیراعظم عمران خان بے لاگ احتساب کے نام پر ووٹ لے کر اقتدار کا حصہ بنے ہیں۔ لیکن اب عمران خان میں بھی مایوسی نظر آتی ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا ریاستی اور حکومتی ڈھانچہ اتنا بوسیدہ ہے کہ اس میں خود اپنے اندر شفافیت کا سوال موجود ہے۔ ایک ایسا نظام جو خود عدم شفافیت کا شکار ہوگا، وہ کیسے شفاف احتساب کو یقینی بناکر عوام کی توقعات کو پورا کرسکے گا!
یہ سمجھنا ہوگا کہ جو بھی سیاسی نظام سیاسی نظام شفاف اور جواب دہی پر مبنی نہیں ہوگا اُس میں کرپشن، بدعنوانی اور اقرباپروری کو ہی طاقت ملے گی۔ ایک مسئلہ کرپشن ہے، دوسرا مسئلہ کرپشن سے جڑے احتساب کے ان اداروں اور نظام کا ہے جو خود عملی طور پر عدم شفافیت پر کھڑے نظر آتے ہیں اورخود قابل احتساب ہیں، سیاسی حکومتیں ہوں یا فوجی حکمران طبقہ، سب نے ہی احتساب کے نظام کے ساتھ وہ کھلواڑ کیا ہے جس نے سب کچھ تباہ کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احتساب کا شور تو بہت سننے کو ملتا ہے مگر عملی اقدامات یا قانون کی حکمرانی کا پہلو بہت کمزور اور لاچار نظر آتا ہے۔ یہ سب کچھ ایسے ہی نہیں ہوا، بلکہ ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت اس ملک کے اصل طاقت ور طبقات نے احتساب کے عمل کو جان بوجھ کر کمزور رکھا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو احتساب کے تناظر میں چار پہلو اہمیت رکھتے ہیں اور اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ہم کیوں منصفانہ اور شفاف احتساب کا نظام قائم نہیں کرسکے:
(1) ہماری ترجیحات میں جوابدہی یا احتساب کے نظام کو منصفانہ اور شفاف بنانا نہیں، بلکہ ہم سیاسی سمجھوتوں یا کچھ لو اورکچھ دو کی بنیاد پر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔
(2) احتساب کے نظام کو سیاسی ہتھیار یا سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔
(3) افراد کو اداروں یا قانون کے تابع کرنے کے بجائے عملاً اداروں کو افراد کے تابع کیا جاتا ہے۔
(4) عملی طور پر احتساب کے اداروں کو مفلوج اورکمزور بناکر ان میں سیاسی بنیاد پر تقرریاںکی جاتی ہیں تاکہ سیاسی مخالفین کی وفاداریوں کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کے کھیل کو طاقت دی جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سیاسی اور جمہوری نظام میں احتساب کا عمل کسی بھی شکل میں اپنی ساکھ اور شفافیت کو برقرار نہیں رکھ سکا۔
اس ساری حکمت عملی کا قومی نقصان یہ ہوا ہے کہ جب بھی کوئی احتساب کے شکنجے میں جکڑا جاتا ہے، یا اس کو احتساب کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اپنے مخصوص سیاسی مفادات کے تحت خود کو سیاسی قیدی کے طور پر پیش کرکے سیاسی انتقام کا ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ یہ عمل احتساب کے نظام کو صرف ناکام ہی نہیں بلکہ متنازع بھی بنادیتا ہے۔معاشرے کے طاقت ور افراد چاہے ان کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو،کبھی نہیں چاہیں گے کہ یہاں احتساب کا مؤثر اور شفاف نظام قائم ہو۔کیونکہ وہ خود کو ایسے نظام میں جوابدہ سمجھتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ان اداروں کو کمزور رکھ کر ہی وہ اپنے سیاسی، کاروباری اور ذاتی مفادات حاصل کرسکتے ہیں۔ جب بھی اداروں میں موجود افراد نے آزادانہ طور پر اپنی اپنی سطح پر کچھ کرنا چاہا تو ان ہی حکمران طبقات نے ان کو مجبور کردیا کہ وہ وہی کچھ کریں گے جو اُن کو کہا جائے گا۔ ایسی صورت میں کیسے اداروں کی بالادستی یا خودمختاری کا عمل مضبوط ہوسکتا ہے؟
فوجی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ جو ظلم پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جمہوری حکومتوں نے احتساب کے تناظر میں کیا وہ ظاہر کرتا ہے کہ جمہوری حکومتیں جوابدہی یا احتساب کے نظام کو اپنے لیے بڑا خطرہ سمجھتی ہیں۔ نیب پر اِس وقت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر سیاسی جماعتیں سخت تنقید کررہی ہیں۔ ان کے بقول یہ ادارہ فوجی حکمران طبقے نے بنایا اور اس کا مقصد سیاسی انتقام ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری یہ جمہوری حکومتیں اپنے اپنے اقتدار کے ادوار میں نہ تو احتساب کا کوئی متبادل شفاف نظام دے سکیں اورنہ ہی نیب کو ختم کرکے اُس کے مقابلے میں ایک آزاد اور خودمختار ادارے کی تشکیل کو ممکن بناسکیں۔ حالانکہ دونوں جماعتوں نے میثاقِ جمہوریت میں وعدہ کیا تھا کہ وہ نیب کو ختم کرکے احتساب کے ایک آزاد اور خودمختار ادارے کی تشکیل کو یقینی بنائیں گی۔ ان دونوں بڑی جماعتوں کی طرف سے کہا گیا کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے۔ مگر دوبارہ اقتدار میں آکر وہ اپنی سابقہ غلطیوں کو بھول کر اس کھیل میں مزید بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنیں۔
یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارا بڑا مسئلہ احتساب کا منصفانہ، شفاف اور بے لاگ یا بلا امتیاز نہ ہونا ہے۔ سیاسی حکمران طبقہ ایک دلیل یہ دیتا ہے کہ غیر ریاستی اداروں یا جمہوریت دشمن افراد اور اداروں کی غیر جمہوری پالیسیوں نے اداروں کو تباہ کیا اور جمہوری تشخص کو ایک مخصوص ذہن کے ساتھ بدنام کیا۔ اس بات میں وزن ہے، مگر بات یہیں ختم نہیں ہونی چاہیے بلکہ آگے بڑھ کر ایک سوال ان جمہوری قوتوں سے بھی ہونا چاہیے کہ جب بھی ان کو موقع ملتا ہے وہ ایک منصفانہ اور شفاف نظام کے قیام یا نئی پالیسی، قانون سازی، ادارہ جاتی عمل میں مضبوطی پیدا کرنے کے بجائے اسے کمزور کیوں کرتی ہیں؟ سیاسی قیادت کو اپنی ناکامی کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ ان کی جانب سے عملاً احتساب کے نظام کو مؤثر اور شفاف بنانے کے لیے کچھ نہیں کیا جاسکا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جو جمہوری نظام کمزور ہوا ہے ،اُس کی وجہ ہماری سیاسی قیادت بھی ہے ،سارا ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر ڈال کر خود کو بچانے کا کھیل ہے۔ اس لیے اگر سیاسی قوتوں کو اپنا مقدمہ مضبوط بنانا ہے تو اس کے لیے سیاسی قیادت کو خود کو جوابدہ بنانا ہوگا تاکہ عوام کا جمہوریت اور حکمرانی کے نظام پر اعتماد بحال ہو۔
ایک مسئلہ احتساب کے نظام میں تفتیش اور تحقیقات کے نظام کا بھی ہے تفتیش کا نظام بھی غیر منصفانہ ہے۔ اب اس نظام کو شفاف کون بنائے گا، یقینی طور پر یہ کام حکومت اور حزب اختلاف دونوں کو مل کر کرنا ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت، پارلیمنٹ اور مجموعی سیاسی نظام اصلاحات کو بنیاد بناکر وہ کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں جو ان کو پہلی ترجیح کے طور پر کرنا چاہیے۔ ہمارا عدالتی، ادارہ جاتی نظام اور تفتیش کا عمل اس حد تک کمزور یا سیاسی مصلحتوں سمیت کرپشن اور بدعنوانی کا شکار ہے کہ اس سے بڑے فیصلوں کی توقع بہت کم ہے۔ کیونکہ مجموعی طور پر ادارہ جاتی نظام مکمل طور پر سیاسی مداخلتوں اور سیاسی اقربا پروریوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ نظام قانون کے مقابلے میں طاقت ور افراد کے ساتھ کھڑا ہے، اور یہی وہ سوچ ہے جو شفاف احتساب کی راہ میں حائل ہے۔
جب سیاست کسی اصول، نظریے یا سوچ وفکر کے بجائے دولت، اختیار، طاقت اور ذاتی مفادات کے حصول کا کھیل بن جائے تو اس کا عملی نتیجہ وہی کچھ نکلتا ہے جو آج ہماری سیاست میں نظر آرہا ہے۔ سیاسی جماعتیں جو جمہوریت، آئین، شفافیت اور قانون کی حکمرانی کی بنیاد پر سیاست کرتی ہیں، ان کا اپنا داخلی نظام ہی بدعنوانی کی سیاست سے جڑا نظر آتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جوابدہی پر مبنی داخلی نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔جب سب سیاست کو پیسہ بنانے کا کھیل بنادیں گے تو پھر سیاست میں وہی لوگ بالادست ہوں گے جو کرپٹ ہوں گے یا سیاست کو پیسہ بنانے کی مشین سمجھتے ہوں گے۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم موجودہ نظام اور اداروں کے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے منصفانہ احتساب کرسکیں گے، وہ غلطی پر ہیں۔کیونکہ نظام اگر خود شفاف نہ ہو تو اس سے شفافیت کی توقع رکھنا محض خوش فہمی ہی ہوگی۔ جو لوگ اقتدار یا طاقت میں ہیں وہ کیسے اپنے ہی خلاف کوئی ایسا قانون یا ادارہ بنانے کو ترجیح دیں گے جو اُن کو احتساب کے دائرۂ کار میں لاسکے؟ پارلیمنٹ کا فورم سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کے ہاتھوں یرغمال ہے ۔ احتساب کے نظام کو مؤثر اور کامیاب بنانا ہے تو یہ غیر معمولی اقدامات اورکسی بڑی سیاسی، انتظامی اورقانونی سرجری کے بغیر ممکن نہیں۔کیونکہ کرپشن کے خاتمے اوراحتساب کو یقینی بنانے کے خلاف طاقت کے مختلف مراکز میں باہمی گٹھ جوڑ ہے جو کرپٹ لوگوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔