تشکیلِ تہذیب کے مراحل

مادہ پرستانہ مغرب پرست تصور تاریخ اور قرآنی تاریخ کا فرق

’’مشر قِ قریب میں، زرخیز ہلال نما خطے میں، فلسطین سے شام اور ایشیا سے میسوپوٹیمیا تک پہلی شہری تہذیبیں وجود میں آئیں۔ اس کا سبب مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی، زرعی پیداوار میں اضافہ، اور رہن سہن کے نئے طریقے تھے۔ اس طرح خانہ بدوش اور بودو باش رکھنے والی ثقافتیں دونوں پروان چڑھیں۔ زرخیز خطوں کی تلاش میں تہذیبوں کے دائرے پھیلتے چلے گئے۔ پانی اور زرخیز زمینوں کے لیے لڑائیاں ہوئیں۔ باربرداری کے لیے اونٹ اور دیگر بہت سے جانور بڑی تعداد میں پالے گئے۔ یہ تجارت اور آمدورفت کا سب سے اہم ذریعہ تھے۔ مویشیوں کی اہمیت مذہبی رسوم اور علامتوں میں نمایاں رہی۔ خاص طور پر’گائے‘ کو قوت اور زرخیزی کی مبارک علامت سمجھا گیا۔ تقریباً 3300 قبل مسیح کے دوران مصری دریاؤں کے ساتھ ساتھ چلتے زرخیز کناروں پر فلسطین، میسوپوٹیمیا، بھارت اور چین میں انسانی تہذیبوں کی تشکیل ہوئی۔ دیہاتی بودو باش کے بعد شہری ریاستیں وجود میں آئیں۔ تاریخ میں پہلی بار فرعونی مصریوں، فارسیوں، بابلیوںاور آشوریوں کی سلطنتیں نقشے پر ابھریں۔‘‘
(Essential Visual History, National Geographic)
’’دیکھا جائے تو ابرام (حضرت ابراہیم علیہ السلام) کی کوئی سوانح موجود نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ جدید تاریخی شواہد کی روشنی میں انجیل کے مواد پرغورکیا جائے، تو اُن کی زندگی کے کچھ واقعات کی جھلکیاں مل سکتی ہیں۔ ابرام (ابراہیم علیہ السلام)، اسحاق (علیہ السلام)، جیکب (یعقوب علیہ السلام)، جوزف(یوسف علیہ السلام) کا نسلی سلسلہ دوہزار سال قبلِ مسیح میں ملتا ہے۔ یہ انیسویں صدی کے اواخر تک بالکل نامعلوم اور ناقابلِ معلوم تھا۔ انجیل مقدس اور تورات کے فرضی ذرائع پر یہ قیاس کیا گیا تھا کہ 900 سے 500 قبلِ مسیح کے دوران کسی وقت یہ ابراہیمی سلسلہ چلا تھا۔ کئی تحقیقاتی مقالوں میں دعوے کیے گئے کہ یہ شخصیات دیومالائی ہیں، یا قبائلی قصے کہانیوں کے کردار ہیں۔ تاہم پہلی عالمی جنگ کے بعد، آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی تحقیقات میں واضح ہوا کہ ابراہیمی سلسلے کی جو تاریخ روایتی (عہد نامہ قدیم) دستاویز میں پیش کی جاتی رہی ہے وہ درست ہے۔ یہ عہدنامہ قدیم کی ازسرنو دریافت تھی۔ اس طرح باپ ابرام کی شخصیت کا ازسرنو خاکہ کتاب پیدائش کی معلومات سے کسی قدر واضح ہوتا ہے۔ اسے آثارِ قدیمہ کی جدید تحقیقات سے مدد ملتی ہے۔ ان کا زمانہ دوہزار سال قبل مسیح بنتا ہے۔‘‘
(Encyclopedia Britannica,Abram)
’’عبرانی پیغمبر موسس (موسیٰ علیہ السلام) 1400 سے 1200 قبلِ مسیح کے دوران منظر پر ابھرتے ہیں۔ اپنے لوگوں کو مصر کی غلامی سے نجات دلاتے ہیں۔ کوہ سینائی سے خدا کے دس احکامات ملتے ہیں، جنہیں وہ بنی اسرائیل پرنافذ کرتے ہیں۔ انہیں یہویوں کا سب سے عظیم معلم اور پیغمبر کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہیں کہیں یہودیت کو موسیٰ ازم بھی پکارا جاتا ہے۔ مغربی عیسائی دنیا میں اُن کا اثر زندگی پر واضح طور پر محسوس کیا جاتا ہے۔ اُن کی اخلاقیات اور معاشرتی اقدار مغربی تہذیب میں محترم ہیں۔ تاہم تاریخ کی بہت ہی کم ایسی شخصیات ہیں جن کا بہت اختلافی تشریحی خاکہ مرتب ہوا ہو، موسیٰ (علیہ السلام) اُن شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ابتدائی یہودی اور عیسائی روایات میں اُنہیں تورات کا مصنف خیال کیا گیا۔ آج بھی بہت سے قدامت پرست گروہ یہی سمجھتے ہیں۔
(Encyclopedia Britannica,Moses)
’’1200 سے 539 قبل مسیح تک فلسطین میں بنی اسرائیل کی بودو باش رہی۔ یہ توحید پرست تھے۔ خداوند ’یہوا‘کی عبادت کرتے تھے۔ یہ تمام پڑوسیوں سے مختلف اور منفرد تھے۔ کئی یہودی قبائل بادشاہ طالوت کی رعیت میں جمع ہوئے، یہ 1020 قبل مسیح کا دور تھا۔ طالوت کی خودکشی کے بعد، داؤد (علیہ السلام) کو بادشاہ منتخب کرلیا گیا۔ اس انتخاب کی وجہ داؤد (علیہ السلام) کی قیادت میں فلسطینیوں پر یہودیوں کی متواتر فتوحات تھیں۔ داؤد (علیہ السلام) نے مرکز میں اقتدار کو قوت عطا کی۔ داؤد (علیہ السلام) کے بیٹے سلیمان (علیہ السلام) کا دور شان وشوکت کے باوجود روبہ زوال ہوا۔ 926 قبل مسیح میں یہ بادشاہت دو حصوں میں بٹ گئی۔ 722 قبل مسیح میں آشوریوں نے شمال پر قبضہ جمالیا۔ 587 قبل مسیح میں یہوداہ بابلیوںکے تسلط میں چلا گیا۔‘‘
(Essential Visual History, National Geographic, pg 42)
’’ہم یہ مستحکم کرچکے ہیں کہ عہد نامہ جدید تاریخی طور پر قابلِ بھروسا ہے۔ ہم یقین کرسکتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے وہی کچھ کہا ہوگا جو اُس میں لکھا ہے، اور وہی کچھ کیا ہوگا جو اُس میں لکھا ہے، یہاں تک کہ مُردے کو زندہ کرنے جیسا معجزہ بھی۔ کون ہیں یہ عیسیٰ(علیہ السلام)؟ انہوں نے اپنے بارے میں کیا بتایا ہے؟ کیا وہ عیسائی دعوے کے مطابق خدا ہیں؟ مارچ 1947ء میں یریحو فلسطین میں ایک نوجوان عرب گڈریا گلہ بانی کے دوران ایک غار تک پہنچا، اور وہاں اُسے ایک پرانے برتن میں قدیم مخطوطات ملے۔ یہ آثار قدیمہ کی تاریخ میں اہم ترین مذہبی دریافت تھی۔ 1956ء تک اس علاقے کوکھودا گیا توکئی دیگر مخطوطات ملے، جنہیں دوہزار سال پہلے یہودی فرقے Essenes نے برتنوں میں یہاں محفوظ کیا تھا۔ یہ بحر مُردارکے مخطوطات کہلاتے ہیں۔ ان میں یسعیاہ نبی کا صحیفہ شامل ہے۔ یسعیاہ نبی کے صحیفے میں مسیح کی آمد کا واضح اشارہ ملتا ہے۔ یہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت سے سو سال پرانا صحیفہ ہے۔‘‘
(I Don’t Have Enough Faith to Be an Atheist, Norman Geisler and Frank Turek pg329-330)
’’اجناس کی بڑھتی ہوئی پیداوار اور بار برداری کے نت نئے طریقوں نے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں ایک دوسرے کے قریب جمع کیا، بڑے گاؤں وجود میں آئے۔ یہ گاؤں قصبات اور پھر شہروں میں ڈھلے، اور پھر یہ سب مل کر بڑی بادشاہتوں میں ضم ہوگئے۔ تجارتی نیٹ ورکس بن گئے… جب زرعی انقلاب نے گنجان آباد شہروں اور طاقت ور سلطنتوں کے لیے پھلنے پھولنے کے بے شمار مواقع پیدا کیے۔ لوگوں نے عظیم خداؤں کی کہانیاں گھڑلیں۔ مادرِوطن کی محبت میں قصے وضع کرلیے، تاکہ معاشرتی روابط مستحکم رکھے جاسکیں۔ انسانوں نے قوتِ تخیل سے اجتماعی تعاون کے بڑے بڑے معاشرتی ڈھانچے کھڑے کردیے، یہ حیرت انگیز تھا۔ 8500 قبل مسیح میں ہزاروں نفوس پرمبنی بڑے بڑے گاؤں مستحکم ہوچکے تھے۔ چار سے پانچ ہزار قبل مسیح میں ہلال نما زرخیز خطے میں کئی معاشرے تشکیل پارہے تھے۔ 3100 قبل مسیح میں زیریں وادی نیل کنارے مصری بادشاہت قائم ہوئی۔ فرعونوںکا اقتدار ہزاروں مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا تھا۔ اسی طرح تھوڑے بہت فرق سے بابلی اور آشوری سلطنتیں وجود میں آئیں… بہت متاثر کن! مگر ہمیں معاشرتی تعاون کے ان بڑے بڑے نیٹ ورک سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ یہاں ’تعاون‘ سے کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ یہاں انصاف اور برابری کا اصول بہت ہی کم کارفرما رہا ہے۔ عموماً غریبوں اور کسانوں کا استحصال ہوا ہے۔ یہ تمام معاون نیٹ ورک میسو پوٹیمیا سے رومن ایمپائر تک، سب ’تصوراتی احکامات‘ اور ’تخیلاتی صحیفوں‘ کا نتیجہ تھے۔‘‘
(Sapiens, Imagined Order)
مغربی تصورِ تاریخ دوعناصر پر مبنی ہے: مادہ پرستی اور مغرب پرستی۔ یہ دونوںصرف ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ تاریخ اس تعامل میں نامکمل اور ناقابلِ فہم رہ جاتی ہے۔ مذکورہ مثالوں میں تہذیبوں کی مادی وظاہری صورت گری کی گئی ہے۔ فکر اور عقائد کا وہ حصہ لیا گیا ہے، جو دیومالائی ہے تاکہ بہ آسانی تنقید وتحقیر کی جاسکے۔ نبوت اور دعوتِ توحید کے تشکیلی مراحل دانستہ حذف کردیے گئے ہیں۔ تہذیبو ں کی پیدائش اور نشوونما میں مذہب کا کردار بے وقعت بناکر پیش کیا گیا ہے، جبکہ مادی ترقی کو ہی اصل تہذیبی جوہر قرار دیا گیا ہے۔ مسٹر ہراری نے بالکل نیا کام کیا ہے۔ وہ انسانی تہذیب ہی کو نہیں مانتے۔ وجہ سادہ سی ہے۔ وہ یہ حقیقت تسلیم کرتے ہیں کہ مذہب کے بغیر تہذیب کی کوئی تعریف، کوئی تاریخ ممکن نہیں۔ لہٰذ انہوں نے ’تہذیب‘ کی اصطلاح تک استعمال نہیں کی، بلکہ اجتماعی روابط کو معاشرتی استحکام کی مصنوعی اور غیر فطری کوشش قرار دیا ہے۔ یہ ہے اصل مادی نکتۂ نظر۔ مذاہب کے معاملے میں بنی اسرائیل تشکیلِ تہذیب کی کوششوں میں سب سے قدیم ہیں۔ ان کے ہاں یہودیت سے باہر مذہب کی کوئی تاریخ نہیں۔ عیسائیوں کے ہاں عیسائیت اور یہودیت سے باہر مذہب کا کوئی وجود نہیں۔ صرف اسلام تمام آسمانی مذاہب اور اُن سے تشکیل پانے والی تہذیبوں کے وجود کو تسلیم کرتا ہے، اُن کا ذکر کرتا ہے، اُن کی تکمیل کرتا ہے۔ یہاں موضوع تشکیلِ تہذیب کے مراحل ہیں۔ یہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک نظر آتے ہیں۔ یہ بناؤ اور بگاڑ کا سلسلہ ہے۔ مگر مغرب کے پاس اس حوالے سے کچھ علم نہیں ہے۔ تحریف شدہ متناقض اور متضاد معلومات ہیں۔ انہیں معلومات بھی نہیں کہا جاسکتا۔ یہ من مانی تحریفات کا ملغوبہ ہے۔ بے ربط قسم کی غیرمستند تفصیل ہے، جس سے سلسلۂ نبوت بنی اسرائیل کا کوئی مربوط وجامع فہم فراہم نہیں ہوتا۔ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک سب ہی افسانوی کردار نظرآتے ہیں۔ مغربی تاریخ میں انبیائے بنی اسرائیل کی عظمتوں کا ذکرغیر وقیع ہے۔ عہدنامہ قدیم وجدید پر مذہبی طبقات کا ایمان ہے۔ تاہم یہ انسانی علوم کا کوئی قابلِ تحقیق حصہ تصور نہیں کیا جاتا۔ مغربی جامعات اور تدریسی نصاب میں ان کی کوئی مسلّم علمی حیثیت نہیں ہے۔
لہٰذا ایک ایسا ذریعہ لازم آتا ہے جو تاریخ وتہذیب کے ان حقیقی معماروں کی ضروری اور مستند معلومات فراہم کرتا ہو، اور انہیں معین و مکمل حیثیت میں پیش کرتا ہو۔ مستند علم وحی یعنی قرآن حکیم بھرپور صراحت سے انبیاء کا تعارف پیش کرتا ہے۔ ان کی تعلیمات اور واقعات متواتر دہراتا ہے:
’’عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہُودؑ کو بھیجا۔ اُس نے کہا ’’اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، تمہارا کوئی خدا اُس کے سوا نہیں ہے۔ تم نے محض جھوٹ گھڑ رکھے ہیں۔ اے برادرانِ قوم، اس کام پر میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا، میرا اجر تو اس کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، کیا تم عقل سے ذرا کام نہیں لیتے؟ اور اے میری قوم کے لوگو، اپنے ربّ سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا۔ مجرموں کی طرح منہ نہ پھیرو‘‘۔ انہوں نے جواب دیا’’اے ہُودؑ، تُو ہمارے پاس کوئی صریح شہادت لے کر نہیں آیا ہے، اور تیرے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے، اور تجھ پر ہم ایمان لانے والے نہیں ہیں‘‘۔ ہُود ؑ نے کہا ’’کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہو۔ بے شک میرا ربّ سیدھی راہ پر ہے۔ اگر تم منہ پھیرتے ہو تو پھیر لو۔ جو پیغام دے کر میں تمہارے پاس بھیجا گیا تھا وہ میں تم کو پہنچا چکا ہوں۔ اب میرا ربّ تمہاری جگہ دوسری قوم کو اُٹھائے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے۔ یقیناً میرا ربّ ہر چیز پر نگراں ہے‘‘۔ پھر جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے اپنی رحمت سے ہُود ؑ کو اور اُن لوگوں کو جو اُس کے ساتھ ایمان لائے تھے، نجات دے دی اور ایک سخت عذاب سے انہیں بچا لیا۔ یہ ہیں عاد، اپنے ربّ کی آیات سے انہوں نے انکار کیا، اس کے رسولوں کی بات نہ مانی، اور ہر جبّار دُشمنِ حق کی پیروی کرتے رہے۔ آخرِکار اس دُنیا میں بھی ان پر پھٹکار پڑی اور قیامت کے روز بھی۔ سُنو! عاد نے اپنے ربّ سے کفر کیا، سُنو! دُور پھینک دیے گئے عاد، ہُود ؑ کی قوم کے لوگ۔‘‘
(سورہ ہود، 50۔60)
’’اور ثمود کی طرف ہم نے اُن کے بھائی صالحؑ کو بھیجا۔ اُس نے کہا ’’اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا اور یہاں تم کو بسایا ہے‘‘۔ اُنہوں نے کہا’’اے صالح ؑ، اس سے پہلے تُو ہمارے درمیان ایسا شخص تھا جس سے بڑی توقعات وابستہ تھیں۔ کیا تُو ہمیں اُن معبودوں کی پرستش سے روکنا چاہتا ہے جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟ تُو جس طریقے کی طرف ہمیں بُلا رہا ہے اُس کے بارے میں ہم کو سخت شبہ ہے جس نے ہمیں خلجان میں ڈال رکھا ہے‘‘۔ آخرِکار جب ہمارے فیصلے کا وقت آگیا تو ہم نے اپنی رحمت سے صالح ؑ کو اور اُن لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، بچا لیا اور اُس دن کی رُسوائی سے ان کو محفوظ رکھا۔ بے شک تیرا ربّ ہی دراصل طاقتور اور بالادست ہے۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا تھا، تو ایک سخت دھماکے نے ان کو دھر لیا اور وہ اپنی بستیوں میں اس طرح بے حس و حرکت پڑے رہ گئے کہ گویا وہ وہاں کبھی بسے ہی نہ تھے۔ سُنو! ثمود نے اپنے ربّ سے کفر کیا۔ سُنو! دُور پھینک دیے گئے ثمود! ‘‘ (سورہ ہود، 61۔68)
’’اور مَدیَن والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب ؑ کو بھیجا۔ اُس نے کہا’’اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ اور ناپ تول میں کمی نہ کرو۔ آج میں تم کو اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں، مگر مجھے ڈر ہے کہ کل تم پر ایسا دن آئے گا جس کا عذاب سب کو گھیر لے گا۔ اور اے برادرانِ قوم، ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ پُورا ناپو اور تولو اور لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دیا کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔ اللہ کی دی ہوئی بچت تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو۔ اور بہرحال میں تمہارے اوپر کوئی نگرانِ کار نہیں ہوں‘‘۔ انہوں نے جواب دیا ’’اے شعیب ؑ، کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم اُن سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟ یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنی منشا کے مطابق تصّرف کرنے کا اختیار نہ ہو؟ بس تُو ہی تو ایک عالی ظرف اور راست باز آدمی رہ گیا ہے!‘‘ شعیب ؑ نے کہا ’’بھائیو، تم خود ہی سوچو کہ اگر میں اپنے ربّ کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر تھا اور پھر اس نے اپنے ہاں سے مجھ کو اچھا رزق بھی عطا کیا (تو اس کے بعد میں تمہاری گمراہیوں اور حرام خوریوں میں تمہاراشریکِ حال کیسے ہوسکتا ہوں؟) اور میں ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ جن باتوں سے میں تم کو روکتا ہوں ان کا خود ارتکاب کروں۔ میں تو اصلاح کرنا چاہتا ہوں جہاں تک بھی میرا بس چلے۔ اور یہ جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں اس کا سارا انحصار اللہ کی توفیق پر ہے، اُسی پر میں نے بھروسا کیا اور ہر معاملے میں اسی کی طرف رُجوع کرتا ہوں۔ اور اے برادرانِ قوم، میرے خلاف تمہاری ہٹ دھرمی کہیں یہ نوبت نہ لے آئے کہ آخرکار تم پر بھی وہی عذاب آکر رہے جو نوح ؑ یا ہُود ؑ یا صالح ؑ کی قوم پر آیا تھا۔ اور لُوطؑ کی قوم تو تم سے کچھ زیادہ دُور بھی نہیں ہے۔ دیکھو! اپنے ربّ سے معافی مانگو اور اس کی طرف پلٹ آؤ، بے شک میرا ربّ رحیم ہے اور اپنی مخلوق سے محبت رکھتا ہے‘‘۔ انہوں نے جواب دیا ’’اے شعیب ؑ، تیری بہت سی باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ تُو ہمارے درمیان ایک بے زور آدمی ہے، تیری برادری نہ ہوتی تو ہم کبھی کا تجھے سنگسار کرچکے ہوتے، تیرا بل بوتا تو اتنا نہیں ہے کہ ہم پر بھاری ہو‘‘۔ شعیب ؑ نے کہا ’’بھائیو، کیا میری برادری تم پر اللہ سے زیادہ بھاری ہے کہ تم نے (برادری کا تو خوف کیا اور) اللہ کو بالکل پسِ پشت ڈال دیا؟ جان رکھو کہ جو کچھ تم کررہے ہو وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے‘‘۔ آخرِکار جب ہمارے فیصلے کا وقت آگیا تو ہم نے اپنی رحمت سے شعیب ؑ اور اس کے ساتھی مومنوں کو بچا لیا، اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو ایک سخت دھماکے نے ایسا پکڑا کہ وہ اپنی بستیوں میں بے حسّ و حرکت پڑے کے پڑے رہ گئے گویا وہ کبھی وہاں رہے بسے ہی نہ تھے۔ سُنو! مَدیَن والے بھی دُور پھینک دیے گئے جس طرح ثمود پھینکے گئے تھے۔ ‘‘(سورہ ہود، 84۔98)
’’اور دیکھو، ابراہیم ؑ کے پاس ہمارے فرشتے خوش خبری لیے ہوئے پہنچے۔ کہا، تم پر سلام ہو۔ ابراہیم ؑ نے جواب دیا، تم پر بھی سلام ہو۔ پھر کچھ دیر نہ گزری کہ ابراہیم ؑ ایک بُھنا ہوا بچھڑا (ان کی ضیافت کے لیے) لے آیا۔ مگر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے پر نہیں بڑھتے تو وہ ان سے مشتبہ ہوگیا اور دل میں ان سے خوف محسوس کرنے لگا۔ اُنہوں نے کہا’’ڈرو نہیں، ہم تو لُوط ؑ کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں‘‘۔ ابراہیم ؑ کی بیوی بھی کھڑی ہوئی تھی۔ وہ یہ سُن کر ہنس دی۔ پھر ہم نے اُس کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب ؑ کی خوشخبری دی۔ وہ بولی ’’ہائے میری کم بختی! کیا اب میرے ہاں اولاد ہوگی جبکہ میں بڑھیا پُھونس ہوگئی اور یہ میرے میاں بھی بُوڑھے ہوچکے؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے‘‘۔ فرشتوں نے کہا ’’اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو؟ ابراہیم ؑ کے گھر والو، تم لوگوں پر تو اللہ کی رحمت اور اُس کی برکتیں ہیں، اور یقیناً اللہ نہایت قابلِ تعریف اور بڑی شان والا ہے‘‘۔ پھر جب ابراہیم ؑ کی گھبراہٹ دُور ہوگئی اور (اولاد کی بشارت سے) اُس کا دل خوش ہوگیا تو اُس نے قومِ لُوط کے معاملے میں ہم سے جھگڑا شروع کیا۔ حقیقت میں ابراہیم ؑ بڑا حلیم اور نرم دل آدمی تھا اور ہر حال میں ہماری طرف رجوع کرتا تھا۔ (آخرکار ہمارے فرشتوں نے اس سے کہا) ’’اے ابراہیم ؑ، اس سے باز آجاؤ، تمہارے ربّ کا حکم ہوچکا ہے اور اب ان لوگوں پر وہ عذاب آکر رہے گا جو کسی کے پھیرے نہیں پھر سکتا۔‘‘(سورہ ہود، 69۔82)
’’یادکرو وہ وقت، جب ہم نے تم کو فرعونیوں کی غلامی سے نجات بخشی۔ اُنہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کررکھا تھا، تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے، تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے ربّ کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔ یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے سمندر پھاڑ کر تمہارے لیے راستہ بنایا، پھر اُس میں سے تمہیں بخیریت گزروا دیا، پھر وہیں تمہاری آنکھوں کے سامنے فرعونیوں کو غرقاب کیا۔ یاد کرو، جب ہم نے موسیٰؑ کو چالیس شبانہ روز کی قرارداد پر بُلایا، تو اس کے پیچھے تم بچھڑے کو اپنا معبود بنا بیٹھے۔ اُس وقت تم نے بڑی زیادتی کی تھی، مگر اس پر بھی ہم نے تمہیں معاف کردیا کہ شاید اب تم شکر گزار بنو۔ یاد کرو (ٹھیک اُس وقت جب تم یہ ظلم کررہے تھے) ہم نے موسیٰ ؑکو کتاب اور فرقان عطا کی تاکہ تم اس کے ذریعے سے سیدھا راستہ پاسکو۔ یاد کرو جب موسیٰ ؑ (یہ نعمت لیے ہوئے پلٹا، تو اُس) نے اپنی قوم سے کہا کہ ’’لوگو، تم نے بچھڑے کو معبود بناکر اپنے اُوپر سخت ظلم کیا ہے، لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو، اسی میں تمہارے خالق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے‘‘۔ اُس وقت تمہارے خالق نے تمہاری توبہ قبول کرلی کہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ یاد کرو جب تم نے موسیٰ ؑ سے کہا تھا کہ ہم تمہارے کہنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے، جب تک کہ اپنی آنکھوں سے علانیہ خدا کو (تم سے کلام کرتے) نہ دیکھ لیں۔ اس وقت تمہارے دیکھتے دیکھتے ایک زبردست صاعقے نے تم کو آلیا۔ تم بے جان ہوکر گر چکے تھے، مگر پھر ہم نے تم کو جِلا اُٹھایا، شاید کہ اس احسان کے بعد تم شکر گزار بن جاؤ۔ ہم نے تم پر اکابر کا سایہ کیا، من وسلویٰ کی غذا تمہارے لیے فراہم کی اور تم سے کہا کہ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں، اُنھیں کھاؤ، مگر تمہارے اسلاف نے جو کچھ کیا، وہ ہم پر ظلم نہ تھا، بلکہ انہوں نے آپ اپنے ہی اُوپر ظلم کیا۔ آخرکار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری اور پستی و بدحالی اُن پر مسلط ہوگئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھِر گئے۔ یہ نتیجہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے۔ یہ نتیجہ تھا اُن کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ وہ حدودِ شرع سے نکل نکل جاتے تھے۔‘‘(بقرہ)
’’اور اے محمدؐ، اس کتاب میں مریم کا حال بیان کرو، جبکہ وہ اپنے لوگوں سے الگ ہوکر شرقی جانب گوشہ نشین ہوگئی تھی اور پردہ ڈال کر اُن سے چھُپ بیٹھی تھی۔ اس حالت میں ہم نے اس کے پاس اپنی رُوح کو (یعنی فرشتے کو) بھیجا اور وہ اس کے سامنے ایک پورے انسان کی شکل میں نمودار ہوگیا۔ مریم یکایک بول اُٹھی کہ ’’اگر تُو کوئی خدا ترس آدمی ہے تو میں تجھ سے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں‘‘۔ اُس نے کہا ’’میں تو تیرے ربّ کا فرستادہ ہوں اور اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دُوں‘‘۔ مریم نے کہا ’’میرے ہاں کیسے لڑکا ہوگا جبکہ مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں ہے، اور میں کوئی بدکار عورت نہیں ہوں‘‘۔ فرشتے نے کہا’’ایسا ہی ہوگا، تیرا ربّ فرماتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لیے بہت آسان ہے اور ہم یہ اس لیے کریں گے کہ اُس لڑکے کو لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں اور اپنی طرف سے ایک رحمت، اور یہ کام ہوکر رہنا ہے‘‘۔ مریم کو اس بچے کا حمل رہ گیا اور وہ اس حمل کو لیے ہوئے ایک دُور کے مقام پر چلی گئی۔ پھر زچگی کی تکلیف نے اُسے کھجور کے ایک درخت کے نیچے پہنچا دیا۔ وہ کہنے لگی’’کاش میں اس سے پہلے ہی مر جاتی اور میرا نام و نشان نہ رہتا‘‘۔ فرشتے نے پائنتی سے اُس کو پکار کر کہا ’’غم نہ کر، تیرے ربّ نے تیرے نیچے ایک چشمہ رواں کردیا ہے۔ اور تُو ذرا اِس درخت کے تنے کو ہلا، تیرے اوپر تروتازہ کھجوریں ٹپک پڑیں گی۔ پس تُو کھا اور پی، اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر۔ پھر اگر کوئی تجھے نظر آئے تو اس سے کہہ دے کہ میں نے رحمان کے لیے روزے کی نذر مانی ہے، اس لیے آج میں کسی سے نہ بولوں گی‘‘۔ پھر وہ اس بچے کو لیے ہوئے اپنی قوم میں آئی۔ لوگ کہنے لگے’’اے مریم! یہ تو تُو نے بڑا پاپ کرڈالا۔ اے ہارون کی بہن، نہ تیرا باپ کوئی بداطوار آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی کوئی بدکار عورت تھی‘‘۔ مریم نے بچے کی طرف اشارہ کردیا۔ لوگوں نے کہا ’’ہم اِس سے کیا بات کریں گے جو گہوارے میں پڑا ہوا ایک بچہ ہے؟‘‘ بچہ بول اُٹھا ’’میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اُس نے مجھے کتاب دی، اور نبی بنایا، اور بابرکت کیا جہاں بھی میں رہوں، اور نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا جب تک میں زندہ رہوں، اور اپنی والدہ کا حق ادا کرنے والا بنایا، اور مجھ کو جبّار اور شقی نہیں بنایا۔ سلام ہے مجھ پر جب کہ میں پیدا ہوا اور جب کہ میں مروں اور جب کہ زندہ کرکے اُٹھایا جاؤں‘‘۔ یہ ہے عیسیٰ ابنِ مریم، اور یہ ہے اُس کے بارے میں وہ سچی بات جس میں لوگ شک کررہے ہیں۔ اللہ کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ وہ پاک ذات ہے۔ وہ جب کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا، اور بس وہ ہوجاتی ہے۔ (اور عیسیٰ ؑ نے کہا تھا کہ)’’اللہ میرا ربّ بھی ہے اور تمہارا ربّ بھی، پس تم اس کی بندگی کرو، یہی سیدھی راہ ہے‘‘۔ مگر پھر مختلف گروہ باہم اختلاف کرنے لگے۔ ‘‘(مریم)
انسانی علوم اور علمِ وحی دونوں مشرق وسطیٰ کو تہذیبوں کا گہوارہ سمجھتے ہیں۔ دونوں تہذیبوں کی تشکیل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک کے ادوار کا کردار کلیدی قرار دیتے ہیں۔ مگرانسانی علوم کا انحصار آثار پر ہے۔ جبکہ علم وحی تہذیب کی نشوونما، نگہداشت، صحت، اور بقا یا فنا کے مراحل صراحت سے بہ تکرار واضح کرتا ہے۔ کوئی تہذیب کس طرح کامیاب ہوسکتی ہے؟ علم وحی میں اصول بالکل واضح ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کون ہیں؟ موسیٰ علیہ السلام کون ہیں؟ عیسیٰ علیہ السلام کون ہیں؟ اس کا علم صرف قرآن حکیم سے حاصل ہوتا ہے، یعنی دنیا کی بڑی تہذیبوں کی بڑی شخصیات سے آگاہی صرف علم وحی کے ذریعے ممکن ہے۔
اپنی تشکیل سے آج تک اسلام ، عیسائیت اور یہودیت غالب اور بڑی تہذیبیں رہی ہیں۔ غلبے سے مراد انسانوں پر اثر رسوخ اور عقائد واعمال کی توضیح ہے۔ حجم کے اعتبار سے بھی عیسائیت اور اسلام آج کی غالب ترین تہذیبیں ہیں۔ آج بھی دنیا کی مؤثر ترین ہستیاں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، عیسیٰ علیہ السلام، اور موسیٰ علیہ السلام ہی ہیں۔ مغربی دنیا کا سب سے بڑا تہوار آج بھی کرسمس ہے۔ آج بھی مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا تہوار عیدالفطر اور عیدالاضحی ہیں۔ آج بھی تواریخ عیسوی اور ہجری میں ہی پڑھی اور لکھی جاتی ہیں۔ کوئی سائنس، کوئی نظریہ ارتقاء تاریخ کی وضاحت کے اہل نہیں ہوسکے ہیں۔ مبینہ طور پر چاند پر قدم رکھنے کی کوئی عالمی یاد نہیں منائی جاتی۔ آئن اسٹائن کی عالمی سالگرہ پر چراغ روشن نہیں کیے جاتے۔ کسی فلسفی، کسی سائنس دان، کسی ماہر فلکیات، کسی سلیکون ویلے ٹائیکون، کسی فیس بک مالک، اور کسی گوگل کی کوئی تہذیبی حیثیت نہیں ہے، بلکہ یہ سب تہذیب کے تابع ہیں۔ گوگل بھی ہر تہذیبی تقریب پر علامتی ڈوڈل لگانے پر مجبور ہوتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کو متوجہ کیا جاسکے۔ کرسمس پر علی بابا اور دیگر عالمی دکاندار اشیاء سجاکر بیٹھ جاتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ خریدار مل سکیں۔ کہیں کسی کولمبس، کسی نپولین، کسی ہٹلر، کسی چرچل، کسی بُش، کسی بلیئر، اور کسی ٹرمپ کی کوئی تہذیبی وقعت نہیں۔ تاریخ تہذیبوں کی تشکیل و تکمیل کا دوسرا نام ہے۔ اس تشکیل میں مادی ترقی کا کوئی نمایاں مقام نہیں۔ انسانی تہذیب کی روح مادی صورتوں پرہمیشہ غالب رہی ہے، اور غالب رہے گی۔
رئیس المؤرخین علامہ ابن خلدون اور دیگر مسلم مؤرخین کے ہاں انبیاء اور اُن کی اقوام کے درمیان تہذیبی بناؤ اور بگاڑ کی تفصیل ملتی ہے۔ شجرۂ نسب سے لے کر واقعات کی جزئیات تک پائی جاتی ہیں۔ یہاں اس تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔ مضمون کا مدعا تفصیل نہیں بلکہ تکمیلِ تاریخ ہے۔ یہ وضاحت بار بار سمجھنا ضروری ہوگی کہ قرآن مثالوں کے ذریعے تاریخ کی تکمیل کرتا ہے۔ قرآنِ مبین میں جن انبیاء کا ذکر ہے، وہ تمام انبیاء رُسل کا تمثیلی خلاصہ ہیں، خواہ وہ چین میں مبعوث ہوئے ہوں یا ہندوستان میں، یا پھر فارس اور یونان بھیجے گئے ہوں۔ درحقیقت انبیاء کی دعوت اور قوموں کا بناؤ اور بگاڑ انسانی تہذیب کی تشکیل ہے، جو متواتر تطہیر سے دوچار ہوتی ہے۔ یہ حضرت نوح علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک کا دور ہے۔ اسے نامعلوم مخطوطات اور تحقیقات کے جدید ترین طریقوں سے معلوم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا مکمل فہم صرف ’علم وحی‘ یعنی قرآن حکیم سے حاصل کیا جاسکتا ہے، ظاہر ہے اس کے لیے قرآن پر ایمان لانا ناگزیر ہوگا۔ یعنی علم وحی کے بغیر تکمیلِ تاریخ کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ یعنی حالتِ کفر میں تفویض شدہ علم کا حصول ممکن نہیں۔ یہ عین منطقی اور فطری ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد تہذیب کے مجموعی انحطاط کا دور شروع ہوتا ہے، جو بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم تک جاتا ہے۔ اس طرح تکمیلِ تاریخ کا سلسلہ تشکیلِ تہذیب سے انحطاطِ تہذیب اور پھر تکمیلِ تہذیب تک پہنچتا ہے۔