امراض قلب کے اسپتال، کوئٹہ ژوب شاہراہ اور نیو گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی افتتاحی تقریب میں شرکت
وزیراعظم پاکستان عمران خان 29 مارچ کو ایک روزہ دورے پر بلوچستان آئے۔ اُن کا پہلا پڑاؤ کوئٹہ میں تھا، جہاں وہ ایئرپورٹ سے سیدھے کوئٹہ چھاؤنی چلے گئے۔ ایک دن قبل مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور اور دوسرے فوجی حکام بھی پہنچ گئے تھے۔ میجر جنرل آصف غفور نے اسی روز سدرن کمانڈ ہیڈ کوارٹر میں کوئٹہ کے صحافیوں سے ملاقات بھی کی۔ بہرکیف عمران خان کو کوئٹہ آمد کے بعد اسپتال اور ایک قومی شاہراہ کا افتتاح کرنا تھا جس کے لیے چھاؤنی میں تقریب منعقد کی گئی تھی۔ چناں چہ انہوں نے امراضِ قلب کے جدید اسپتال کے کام کا افتتاح کیا۔ اسی طرح این 50 شاہراہ جو کوئٹہ سے ژوب تک جائے گی، اسے دو رویہ تعمیر کرنے کے منصوبے کا بھی سنگِ بنیاد رکھا۔ امراضِ قلب کے اسپتال کے حوالے سے آئی ایس پی آر نے پریس ریلیز جاری کیا جس کے مطابق ’’پاک فوج اور حکومتِ بلوچستان کے اشتراکِ کار سے خوشحال بلوچستان پروگرام کے تحت کوئٹہ میں جدید ترین کارڈک سینٹر کی تعمیر کا منصوبہ وضع کیا گیا ہے جس کا مقصد متحدہ عرب امارات کے اسپانسر کردہ یو پی اے پی منصوبہ جات کے تحت مقامی آبادی کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنا ہیں۔ امراضِ قلب کا یہ اسپتال آپریشن تھیٹر، ایکو اور نیو کلیئرڈ کارڈیو سہولیات سمیت جدید ترین طبی سہولیات سے آراستہ ہوگا۔ اسپتال کو ماحول دوست بنانے کے لیے بائیو میڈیکل ورکشاپ اور ویسٹ مینجمنٹ پلان بھی تعمیر کیے جائیں گے۔‘‘
کوئٹہ میں امراضِ قلب کے اسپتال کی تعمیر کا اعلان میاں شہبازشریف نے 2008ء میں کیا تھا۔ تب وہ وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ اس پیشکش پر اُس وقت کی صوبائی حکومت نے سنجیدگی نہ دکھائی۔ غالباً 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی وفاقی حکومت کے دور میں اس اسپتال کو کوئٹہ چھاؤنی یا اس سے متصل چھاؤنی کی زمین پر تعمیر کرنے میں فوج نے دلچسپی دکھانی شروع کی۔ اس پر سول بیوروکریسی، سینئر ڈاکٹرز اور صوبے کی سیاسی جماعتیں معترض ہوئیں۔ معاملہ عدالت میں بھی گیا، جس نے شہر کے اندر اس کی تعمیر کا حکم دیا۔ اسپتال کے لیے کوئٹہ شہر کے علاقے اسپنی روڈ پر بولان میڈیکل اسپتال کے قریب 20 ایکڑ سے زائد زمین مختص ہوئی، جس پر سول و فوجی حکام کو ایک موقع پر اس مقام پر بریفنگ بھی دی گئی۔ گویا یہ طے ہوا کہ اسپتال اسپنی روڈ پر مختص اراضی پر تعمیر کیا جائے گا۔ اس دوران پنجاب حکومت کی پیشکش پس منظر میں چلی گئی اور باتیں فوج اور صوبائی حکومت کے اشتراک کی ہونے لگیں۔ چناں چہ وزیراعظم کے دورے سے ایک دن قبل معلوم ہوا کہ امراضِ قلب کا اسپتال چھاؤنی کی حدود میں تعمیر کیا جائے گا، جس کی تفصیل سطورِ بالا میں دی جاچکی ہے۔ وزیراعظم نے این 50 کا افتتاح بھی کیا، کہ یہ شاہراہ سی پیک کے تحت مغربی روٹ کا تسلسل ہے۔ یقیناً کوئٹہ ژوب شاہراہ کی تعمیر کے بعد آسانیاں پیدا ہوں گی۔ ژوب ڈیرہ اسماعیل خان اور فاٹا سے ملحق ضلع ہے، جسے کوئٹہ سے ملانے والی شاہراہ کی توسیع کے بعد پنجاب اور اسلا م آباد کا سفر بھی کم ہوکر رہ جائے گا۔ اس شاہراہ کی تعمیر سے مقامی آبادی کو بالخصوص بہت سارے فوائد حاصل ہوں گے۔
وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ جام کمال نے کہا کہ مغربی روٹ کا اب باقاعدہ افتتاح ہوگیا ہے۔ اس شاہراہ کی تعمیر کا افتتاح میاں نوازشریف دسمبر 2015ء میں کرچکے ہیں۔ مغربی روٹ کی شاہراہوں کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان اور بلوچستان کے وہ قائدین جو میاں نوازشریف کی حکومت میں اتحادی تھے، کا مطالبہ تھا کہ اس شاہراہ کو کم از کم چار رویہ بنایا جائے۔ حکومت نے انہیں یہ کہہ کر مطمئن کیا کہ فی الوقت دو رویہ پر کام شروع ہوگا، باقی ضروریات وقت کے ساتھ دیکھی جائیں گی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس شاہراہ کا افتتاح پہلے ہوچکا ہے اور یہ منصوبہ نیا نہیں ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ تعمیراتی و ترقیاتی منصوبے تسلسل کے ساتھ آگے بڑھائے جائیں، خواہ وہ کسی بھی حکومت نے شروع کیے ہوں، اس پر سیاست اور واہ واہ نہیں ہونی چاہیے۔ ملک و عوام کی خدمت ہر حکومت کا فرض ہے۔ رہی بات سی پیک کے مغربی روٹ اور اس سے جُڑے منصوبوں کی، تو یہ سب اب تک خواب و خیال ہی ہیں۔
کوئٹہ کی مصروفیات کے بعد وزیراعظم آرمی چیف کے ساتھ گوادر روانہ ہوگئے۔ وہاں نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر کا افتتاح کیا۔ یہ ایئرپورٹ اے 380 اور اس جیسے دنیا کے بڑے مسافر بردار جہاز کے لیے بھی موزوں ہوگا۔ ایک جدید ٹرمینل عمارت بھی تعمیر کی جائے گی اور ابتدائی طور پر 30 ہزار ٹن سالانہ استعداد کا حامل کارگو ٹرمینل بھی دستیاب ہوگا۔ ایئرپورٹ کا یہ منصوبہ 259 ملین ڈالر کی لاگت سے تین سال کے عرصے میں مکمل ہوگا۔ 4 ہزار 800 ایکڑ پر مشتمل یہ ایئرپورٹ پاکستان کا سب سے بڑا اور جدید ترین ایئرپورٹ ہوگا۔