بلاول کی کراچی سے لاڑکانہ یاترا

بلاول زرداری، آصف زرداری، فریال تالپور، مراد علی شاہ، قائم علی شاہ انسداد بدعنوانی کے ادارے نیب کو کرنسی کی اسمگلنگ، سرکاری اراضی کو سستے داموں اپنے منظورِ نظر افراد کو دینے اور دیگر قابلِ تعزیر الزامات میں ماخوذ ہیں، لہٰذا اپنے بچائو کے لیے طرح طرح کے حیلوں بہانوں اور عذر لنگ کے تحت اپنی مظلومیت کا رونا رو رہے ہیں۔ ان کو گلہ ہے کہ احتساب کے نام پر ان سے سیاسی انتقام لیا جارہا ہے (ٹی وی چینل ’’آپ‘‘، “GNN” 18 مارچ 2019ء) بلاول زرداری کو خوش فہمی ہے کہ اس ٹرین مارچ سے وزیراعظم ہائوس اتنا خائف ہوگیا ہے کہ وہاں سے آہ و بکا اور چیخیں نکل پڑی ہیں۔ موصوف (بلاول زرداری) لیاری کی قومی اسمبلی کی سیٹ پر شکست کھا چکنے کے بعد انتخابات میں بے ایمانی کا الزام لگاتے ہیں، جبکہ گزشتہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے یہی الزام لگایا تھا، جس کی پی پی پی اور نواز لیگ نے پُرزور تردید کی تھی۔ یوں بھی وہ انتخابات آئین کے تحت عبوری حکومت نے کرائے تھے۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ بلاول زرداری لیاری کے حلقے سے جو پیپلزپارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، بری طرح ناکام ہوگئے اور الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق عمران خان کو ’’سلیکٹڈ وزیراعظم‘‘ کہتے ہیں، اور ان سے طنزاً استفسار کرتے ہیں کہ ان کے پچاس لاکھ مکان بنانے کے وعدے کا کیا ہوا؟ ایسی بات کوئی ناسمجھ، جھوٹا اور بے ایمان ہی کہہ سکتا ہے۔ کیا عمران خان کے پاس الٰہ دین کا چراغ ہے کہ اتنے گھر بناکر بے گھر لوگوں کے حوالے کردیں؟ لیکن یہ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کا ظرف ہے کہ انہوں نے بلاول سے نہیں پوچھا کہ تمہارے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے وعدے کا کیا ہوا جو تمہارے شہید نانا ذوالفقار علی بھٹو نے قوم سے کیا تھا؟ اس کے بعد پی پی پی تین بار اقتدار میں رہی تو اگر سب کو نہیں تو معقول اکثریت کو تو یہ چیزیں مہیا کی جاسکتی تھیں۔ لیکن روٹی، کپڑا اور مکان تو درکنار پی پی پی کا پاکستان بھوکا، ننگا اور بے مکان ہے۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ پچھلے چند برس میں سندھ کے قحط زدہ علاقے تھر میں تین ہزار سے زائد بچے بھوک اور ادویہ کے نہ ملنے سے ہلاک ہوگئے۔ جب یہ بچے دم توڑ رہے تھے تو آصف علی زرداری اور بلاول زرداری اجرک اور ٹوپی کا دن مناکر رقص کررہے تھے، اسے رقصِ ابلیس نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟ ان کی سیاست کی غرض و غایت یہ ہے کہ انہیں بدعنوانی، خیانت، خوردبرد، غبن اور رشوت ستانی کی کھلی چھوٹ دے دی جائے کیونکہ یہ ’’مقدس گائے‘‘ ہیں۔ انہوں نے مندرجہ بالا جرائم کی سزا سے بچنے کے لیے اٹھارہویں ترمیم اور جمہوریت کو بطور ڈھال استعمال کیا ہے اور کررہے ہیں۔ درحقیقت ان حضرات پر بدعنوانی کے جتنے مقدمات قائم ہوئے ہیں وہ گزشتہ حکومتوں کے زمانے میں دائر ہوئے تھے۔ اس سلسلے میں آمر پرویزمشرف اور چودھری نثار کا نام سننے میں آتا ہے۔ پرویزمشرف کی حکومت کے بعد پی پی پی کے رہنما آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی برسر اقتدار آئے تو انہوں نے شہید بی بی بے نظیر کے قاتلوں کو سزا کیوں نہ دلوائی؟ سزا تو کیا دلواتے، بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں اُن کے شیر دل بھائی مرتضیٰ بھٹوکو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سرعام قتل کردیا گیا جو آج تک معما بنا ہوا ہے۔ بلاول زرداری کو میرا حقیر مشورہ ہے کہ وہ بجائے عمران خان کو برا بھلا کہنے کے، اپنے ماموں کے قاتلوں کا سراغ لگائیں۔ لیکن وہ سراغ کیا لگائیں گے، انہوں نے تو حقیقی بھٹو کا نام غصب کرکے اپنے آپ کو بلاول بھٹو کہنا شروع کردیا ہے۔ یہ کیسا میڈیا ہے کہ بلاول کو زرداری اور بھٹو بیک وقت بنادیا۔ سچ تو یہ ہے کہ مرتضیٰ بھٹو اپنے شہید والد ذوالفقار علی بھٹو کے سچے جانشین تھے، جبکہ ان کی صاحبزادی فاطمہ اور اُن کے پسر ذوالفقار جونیئر صحیح معنوں میں بھٹو ہیں۔ علاوہ ازیں ممتاز علی بھٹو جنہیں ذوالفقار علی بھٹو ذہین عم زاد (Talented Cousin) کہا کرتے تھے، صحیح جانشین ہیں، کیونکہ وہ بھٹو دورِ حکومت میں حساس کلیدی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ وہ اس وقت بھٹو خاندان کے بزرگ ترین رہنما ہیں اور شومئی قسمت سے گمنامی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ بلاول زرداری کو کبھی توفیق نہ ہوئی کہ اپنے نانا ممتاز بھٹو سے رہنمائیحاصل کرتے۔ یہ کیسا ’’کاروانِ بھٹو‘‘ تھا جو کہ سندھ سے شروع ہو کر سندھ میں ختم ہوگیا، اور یوں ’’چاروں صوبوں کی زنجیر… بےنظیر، بے نظیر‘‘ کی سر عام تذلیل کی گئی۔ فواد چودھری نے کیا خوب کہا ہے کہ یہ ابو بچائو مارچ ہے جس سے حکومت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ جبھی تو عمران خان نے کہا کہ مخالفین یعنی نواز اور آصف ٹولہ اگر احتجاج جاری رکھنا چاہتا ہے تو ان کو میں کنٹینر فراہم کردوں گا۔ لیکن ان کی پیشکش قبول یا رد نہیں کی گئی۔
نوازشریف کو عدالت عظمیٰ نے چھے ہفتوں کی ضمانت دے دی ہے کہ وہ جس سے چاہیں اپنا علاج کروالیں، لیکن ملک سے باہر نہیں جا سکیں گے کیونکہ انہیں سات سال کی قید بامشقت بھگتنی ہے۔ لیکن تاحیات نااہل وزیراعظم کے وکیل عدالت کو مطمئن نہ کرسکے کہ نوازشریف اتنے علیل ہیں کہ اُن کا علاج پاکستان کا کوئی معالج نہیں کرسکتا۔ عدالتِ عظمیٰ کے سربراہ عالی جناب آصف سعید کھوسہ نے خواجہ حارث کے پیش کردہ ڈاکٹر لارنس کے خط کو بطورِ ثبوت تسلیم کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اولاً تو یہ گواہی کا معاملہ ہے، اور ثالثاً یہ ایک نجی مراسلہ ہے جو کہ ایک ڈاکٹر کو لکھا گیا ہے۔ اور شاید عدالت نے پہلی بار کسی سزا یافتہ کو صحت کی خرابی کی بنا پر چھے ہفتوں کی مہلت دے دی، ساتھ ہی یہ بھی حکم صادر کردیا کہ چھے ہفتوں کی مدت کے اختتام پر ضمانت خودبخود منسوخ ہوجائے گی، اور اگر مجرم نے خود کو گرفتاری کے لیے پیش نہ کیا تو اسے باضابطہ طور پر گرفتار کرلیا جائے گا۔ (پی ٹی وی، جی این این، آپ، سچ ٹی وی۔ 27-26 مارچ 2019ء)۔ اس خبر پر نون لیگ کے اراکین جو عدالت عظمیٰ اور اس کے سربراہ عالی جناب پر جانب داری کا الزام لگاتے تھے، خوشی سے پھولے نہ سمائے اور گلاب جامن، قلاقند سے بھرے ڈبوں سے مٹھائیاں نکال نکال کر ندیدوں اور بھوکوں کی طرح اپنے منہ میں ٹھونسنے اور دوسروں کے منہ میں ڈالنے میں مصروف ہوگئے۔ جبکہ یاد رہے یہ سب حضرات جو موصوف کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کررہے تھے اور بعض نے تو عدلیہ کے اراکین اور ان کے اہلِ خانہ کو کھلی دھمکیاں بھی دی تھیں، کیونکہ انہوں نے مبینہ طور پر نوازشریف کو گاڈفادر یعنی مافیا ڈان کہہ دیا تھا، ساتھ ہی انہیں آئین کی شقوں 62 اور 63 کے معیار پر کہا کہ وہ ان شقوں کی خلاف ورزی کے مرتکب ہونے کی بنا پر تاحیات نااہل ہوگئے ہیں، جس پر نواز اور زرداری ٹولہ آئین کی ان شقوں کو ماننے سے انکار کررہا ہے اور اسے کالا قانون قرار دے کر ان شقوں کی ترمیم کا ارادہ کیے ہوئے ہے۔
اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ کسی عہدے دار کے لیے نہ تو سچا اور نہ ہی ایمان دار ہونا ضروری ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نکالا جا سکتا ہے کہ کسی بھی سیاست دان کا جھوٹا اور بے ایمان ہونا اس کی نااہلی کا سبب نہیں بن سکتا۔ بہرحال چھے ہفتے کی ضمانت کے فیصلے پر یہ ٹولہ اتنا خوش ہواکہ جیسے اس کی عید ہوگئی۔ کچھ عناصر کا یہ خیال ہے کہ شاید چھے ہفتے کی مدت کے قریب وہ نوازشریف کو قریب المرگ ظاہر کرکے مزید مہلت حاصل کرلیں گے، اس طرح سزا پر عمل درآمد نہیں ہوسکے گا۔ اگر ان کا یہ خیال درست ثابت ہوا تو قانون اور انصاف کی دھجیاں اڑ جائیں گی اور بقول عمران خان کے، ملک میں ایک لاکھ پچاس ہزار قیدی سزا کاٹ رہے ہیں، جب کہ شیخ رشید کا خیال ہے کہ نواز ٹولے کو اقتدار سے بے دخلی پر بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں، پھر کیا ان کو بھی وہی مراعات ملیں گی جو بڑے لوگوں یعنی نواز اور آصف ٹولے کو ملیں (پبلک نیوز 27 مارچ 2019ء)۔ شاید یہ اتفاقیہ امر ہے کہ اسلام آباد کی عدالتِ عالیہ نے ایک فیصلے کے ذریعے چھوٹے میاں (شہبازشریف) پر سے ملک سے باہر جانے پر عائد پابندی اٹھا لی ہے (پبلک نیوز، سچ، 27,26 مارچ 2019ء)۔ کچھ عناصر نوازشریف کی عبوری ضمانت اور شہبازشریف کی ملک سے باہر سفر کرنے پر عائد پابندی کے خاتمے اور بلاول کے کاروانِ سندھ کو اس تناظر میں دیکھ رہے ہیں کہ ان اقدامات سے عمران حکومت پر سخت دبائو پڑے گا اور وہ شاید مک مکا پر راضی ہوجائیں۔ لیکن یہ خوش فہمی بھی جلد دور ہوجائے گی، کیونکہ عمران خان کی تحریک انصاف انسدادِ بدعنوانی کے منشور پر 22 سالہ جدوجہد کے بعد برسراقتدار آئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب عالمی اور علاقائی سیاست میں یہ ایک رجحان بن گیا ہے کہ بدعنوان حکمرانوں کی تطہیر کی جائے جو سعودی عرب جیسے قدامت پسند شاہی معاشرے سے شروع ہوا اور ملائشیا جیسے کثیرالقومی معاشرے میں کامیاب ہوا۔ اسی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت کو ان تمام ذرائع سے کثیر رقوم موصول ہورہی ہیں جس سے زرمبادلہ میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ لہٰذا اب چوروں، ڈاکوئوں اور جیب کتروں کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں، لیکن مرتے مرتے یہ سخت جان جراثیم ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اسی لیے میں نے اپنے ماضی کے کالموں میں تحریک انصاف حکومت میں موجود کالی بھیڑوں کی موجودگی کی نشاندہی کے ساتھ یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایسی لولی لنگڑی مخلوط حکومت سے ایک انقلابی منشور کا نفاذ کیوں کر ہوسکتا ہے! لہٰذا پارلیمانی کے بجائے صدارتی نظامِ حکومت اصلاحِ احوال کے لیے ناگزیر ہے۔