پی پی کا ٹرین مارچ اور موجودہ سیاسی منظر نامہ

ہفتۂ رفتہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں وفاقی حکومت کے خلاف ٹرین مارچ ’’کاروان بھٹو‘‘ کے نام سے منگل 26 مارچ کو کراچی کینٹ اسٹیشن سے شروع ہوکر بدھ کی شب 27 مارچ کو پیپلزپارٹی کے سیاسی گڑھ لاڑکانہ میں اختتام پذیر ہوگیا۔ اس ٹرین مارچ کے دوران پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے کراچی کینٹ، لانڈھی، جنگ شاہی، کوٹری، حیدرآباد، ٹنڈوآدم، نواب شاہ، رانی پور، خیرپور، روہڑی اور سکھر سمیت 25 سے زائد ریلوے اسٹیشنوں پر اپنے استقبال کے لیے آنے والے بڑے بڑے عوامی اجتماعات سے خطاب کیا۔ اس ٹرین مارچ کے لیے 10بوگیوں پر مشتمل ریل گاڑی بک کروائی گئی تھی۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کے مطابق یہ ٹرین مارچ ملک سے مہنگائی، غربت اور بے روزگاری ختم کرنے کے لیے تحریکِ انصاف کی جانب سے لگائے گئے کھوکھلے نعروں کے خلاف بطور احتجاج منعقد کیا گیا تھا۔ الیکشن کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ بلاول بھٹو نے بذریعہ ٹرین مارچ اہلِ سندھ سے براہِ راست اس انداز سے خطاب کیا ہے۔ اس دوران اگر وہ ایک طرف اپنے خطابات میں وفاق کی جانب سے سندھ کے ساتھ روا رکھی گئی زیادتیوں، اس کی جانب سے سندھ کو اس کے حصے کے 120 ارب روپے کی عدم ادائی، وسائل اور سرمائے کا طے شدہ حصہ نہ دینے جیسے امور پر وفاقی حکومت کو ہدفِ تنقید بناتے رہے تو دوسری جانب میاں نوازشریف کو بھی صوبہ سندھ میں اپنا علاج کروانے کی پیشکش کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں عوام کو یہ بھی یاد دلایا کہ آمروں کے ادوارِ حکومت میں ہمیشہ پی پی کے ساتھ ظلم و زیادتی کا وتیرہ اپنایا گیا اور اس کی قیادت کو بذریعہ سازش حکومت کرنے سے روکا گیا۔ مقتدر قوتوں نے اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے پہلے ذوالفقار علی بھٹو اور پھر بے نظیر بھٹو کو اپنے راستے سے ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا، لیکن اس کے باوجود پی پی نے ملک و قوم سے وفا نبھاتے ہوئے جمہوریت کے راستے سے انحراف نہیں کیا۔ اپنی تقاریر میں بلاول بھٹو تحریک انصاف کی حکومت کو مورد الزام ٹھیراتے ہوئے کہتے رہے کہ دھاندلی کے ذریعے برسراقتدار آنے والی یہ حکومت مقتدر حلقوں کی حمایت سے جو مقاصد حاصل نہیں کرپائی ہے وہ انہیں اب نیب کے توسط سے حاصل کرنا چاہتی ہے، لیکن ہم پھر بھی عوام اور اپنے ساتھ روا رکھے گئے مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے رہیں گے۔ انہوں نے یہ سوال بھی اپنی تقاریر میں بار بار اور شدومد کے ساتھ اٹھایا کہ آخر یہ کیسا احتساب ہے کہ کیس تو کراچی کا ہو لیکن مقدمہ اس پر پنڈی میں چلایا جائے۔ اگر بے نامی اکائونٹس انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں تو گم شدہ افراد کے کیسز بھی تو اسی انداز کے ہیں۔
مختلف سیاسی مبصرین اس ٹرین مارچ کے حوالے سے اپنے اپنے طریقے سے قیاس آرائیوں اور تبصروں میں مصروف ہیں۔ ایک رائے کے مطابق بلاول بھٹو نے یہ ٹرین مارچ 4 اپریل کو اپنے نانا مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کی تیاریوں کے حوالے سے منعقد کیا ہے۔ یہ تبصرہ آرائی بھی ہورہی ہے کہ اس ٹرین مارچ کے پس پردہ اصل محرک سابق صدر آصف علی زرداری ہیں جو مختلف طریقوں سمیت اس مارچ کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی حکومت سے اپنے خلاف شروع کیے گئے کیسز میں ریلیف کے حصول کے لیے ہاتھ پائوں مارنے میں مصروف ہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ مقتدر حلقے اس بات کا تہیہ کرچکے ہیں کہ نوازشریف کے بعد اب پی پی کی قیادت کو بھی بے دست و پا بنانا ہے۔ زرداری صاحب کیوں کہ سرد وگرم چشیدہ سیاست دان ہیں، لہٰذا وہ پیشگی طور پر آمدہ و متوقع ناخوشگوار حالات سے نمٹنے کے لیے ٹرین مارچ کروا رہے ہیں۔ اگر انہیںریلیف نہ مل سکا تو ٹرین مارچ کا اگلا مرحلہ ماہ اپریل میں شروع ہوگا، روہڑی تا راولپنڈی۔
اس ٹرین مارچ کے دوران بلاول بھٹو نے جہاں موجودہ حکومت کو سخت ہدفِ تنقید بنایا، وہیں انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے یہ استفسار بھی کیا کہ ’’ان کے اعلان کردہ 50 لاکھ گھر کہاں ہیں؟ اور ایک کروڑ بے روزگار نوجوانوں کو ملازمتیں کب دی جائیں گی؟‘‘ پی پی کے ناقدین کے مطابق یہ سوال تو بلاول کو اپنے والد محترم آصف زرداری اور پھوپھی صاحبہ فریال تالپور سے بھی کرنا چاہیے کہ پی پی کے منشور میں لکھے گئے اور کیے گئے وعدوں خصوصاً روٹی، کپڑا اور مکان میں سے کسی ایک حصے پر بھی ایک عرصہ گزرنے کے باوجود عمل درآمد ممکن کیوں نہیں ہوسکا ہے؟ بلکہ اس کے یکسر برعکس محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پی پی کو نہ صرف وفاق میں صدارت اور حکومت ملی بلکہ تقریباً سارے ملک پر اسی کا راج تھا۔ سندھ پر تو بلاشرکت غیرے اس کی حکومت ایک دہائی سے بھی زیادہ رہی اور آج بھی ہے، لیکن اس کے باوصف اتنے عرصے میں پارلیمنٹ کو اختیار دیئے جانے کا کارنامہ سر انجام دینے کے سوا پی پی نے عوام کو ریلیف دینے کے حوالے سے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا ہے، بلکہ الٹا تمام اداروں کو بذریعہ کرپشن اور بدانتظامی تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو کی اس بات میں بلاشبہ وزن ہے کہ وفاق سندھ کو سرمائے، ملازمتوں اور وسائل میں طے شدہ حصہ نہیں دیتا ،لیکن یہ بھی تو ایک تلخ حقیقت ہے کہ سندھ کو جو تھوڑا بہت حصہ ملتا ہے اس کا بھی بیشتر حصہ بدعنوانی کی نذر ہوجاتا ہے۔ پی پی نے تو سندھ میں حق تلفی کی انتہا کرتے ہوئے خاکروبوں کی ملازمتیں بھی سفید پوش افراد کو فروخت کر ڈالیں، جس کی وجہ سے آج سندھ کے شہر اور قصبات گندگی کے ڈھیر اور ترقیاتی اسکیموں کا روپیہ ہڑپ کرنے کی وجہ سے کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ یوں تو سارے ملک کے لوگ ہی بدحالی میں مبتلا ہیں لیکن اہلِ سندھ کا حال سب سے ابتر ہے باوجود اس کے کہ ان کا صوبہ ہمہ اقسام وسائل سے مالا مال ہے۔ پی پی کے ناقدین کے مطابق یہ سب کچھ خود پی پی قیادت کی نااہلی، بے حسی اور بدعنوانی کا واضح مظہر ہے، لہٰذا بلاول بھٹو کو دورانِ ٹرین مارچ اپنے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور اپنے وزرا سے بھی یہ سوال کرنا چاہیے کہ محکمہ صحت اور شعبہ تعلیم میں ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود اسکولوں، کالجوں اور اسپتالوں میں کیوں کر بدعنوانی اور ویرانی کا راج ہے؟ سگ گزیدہ اور مارگزیدہ افراد ویکسین میسر نہ آنے کی وجہ سے آئے دن بہ کثرت کیوں لقمۂ اجل بن رہے ہیں؟ تھر میں حکومتی دعووں اور اعلانات کے باوجود ہر روز متعدد معصوم بچے خوراک کی قلت سے کیوں دم توڑ رہے ہیں؟ پی پی کے منتخب ایم این اے، ایم پی اے اور بلدیاتی ضلعی چیئرمین اور نمائندے حلقے میں رہ کر عوامی مسائل ختم کرنے کے بجائے اسلام آباد اور کراچی میں کیوں مستقل طور پر فروکش رہتے ہیں؟ ایڈز اور یرقان کے باعث کیوں کثیر تعداد میں لوگ مرتے جارہے ہیں؟ ہاریوں، کسانوں اور اہلِ سندھ کا کوئی بھی پرسانِ حال کیوں نہیں ہے؟ عوام کو صاف اور میٹھا پانی کیوں دستیاب نہیں ہے؟ علیٰ ہٰذا القیاس… سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں ممکن ہے کہ حالیہ ٹرین مارچ سے پیپلز پارٹی پر بڑھتے ہوئے دبائو میں قدرے کمی آسکے، لیکن اہلِ سندھ کو اس بنا پر کوئی فائدہ ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ اس ٹرین مارچ کی وجہ سے آصف زرداری، فریال تالپور، سید مراد علی شاہ اور دیگر رہنمائوں پر منی لانڈرنگ سمیت قائم کردہ دیگر مقدمات ختم ہوجائیں گے؟ اگر پی پی قیادت یہ خوش فہمی پالے ہوئے ہے تو یہ اس کی محض خام خیالی گردانی جارہی ہے۔ مبصرین کے مطابق وہ پیپلز پارٹی جس کے پروگرامات میں قبل ازیں عوام بہ خوشی اپنے خرچ پر جوق در جوق شرکت کیا کرتے تھے اب سیاسی زوال کی اس انتہا پر آن پہنچی ہے کہ سوشل میڈیا اور سندھی نیوز چینلز پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں ٹرین مارچ کا استقبال کرنے والی خواتین اور مردوں کو یہ شکوہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ انہیں فی کس دوہزار کے وعدے پر یہاں لایا گیا تھا لیکن محض دو دو سو روپے دے کر ٹرخا دیا گیا ہے۔ اس اثنا میں میاں نوازشریف کو چھ ہفتوں کی ضمانت پر رہا کردیا گیا ہے۔ مبصرین کے مطابق کیوں کہ مقتدر حلقے بیک وقت پیپلز پارٹی اور نوازلیگ سے محاذ آرائی نہیں چاہتے، اس لیے وقتی طور پر میاں نوازشریف کو اگر رہا کردیا گیا ہے تو دوسری جانب پیپلز پارٹی کا گھیرا تنگ کرنے کے لیے اُس کی قیادت پر قائم منی لانڈرنگ اور شوگر ملوں کے مقدمات راولپنڈی منتقل کرنے کے بعد وہاں کی عدالتوں میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو سے نہ صرف باقاعدہ طور پر پوچھ گچھ کی گئی ہے بلکہ آصف زرداری، فریال تالپور، سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ اور موجودہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو عدالت میں پیشیاں بھگتنے پر مجبور کردیا گیا ہے، اور وہ چاروناچار اس پر عمل بھی کررہے ہیں۔ موجودہ سیاسی صورت حال ملک میں ایک سیاسی عدم استحکام اور ابہام کی عکاسی کررہی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت عوام سے کیے گئے وعدوں میں سے کسی ایک کو بھی صحیح طور سے پورا نہیں کرسکی ہے۔ گویا ’’نے ہاتھ باگ پر ہے اور نہ پا ہے رکاب میں‘‘۔ وزیراعظم اور وفاقی وزرا کے اعلانات اور بیانات تو زوروں پر ہیں لیکن عوام کے دیرینہ مسائل جوں کے توں ہیں، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو حقیقت ہوگی کہ ان میں بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ٹھوس عملی اقدامات کہیں ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔ کسی کو پتا نہیں کہ آگے چل کر ملک کے سیاسی حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔ اہلِ وطن پچھلوں کو یاد کرنے اور موجودہ حکمرانوں کو کوسنے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ مہنگائی نے سچ مچ عوام کی زندگی اجیرن کرڈالی ہے۔ حالات بلاشبہ پریشان کن ہوچکے ہیں۔ بلاول بھٹو کے، دورانِ ٹرین مارچ سندھ کے مسائل و مصائب کا ذکر کرتے ہوئے سندھ اور اہلِ سندھ کے ساتھ روا رکھی گئی مبینہ زیادتیوں کو بلندآہنگ میں پیش کرنے سے بھی یہی تاثر ملتا ہے کہ آگے چل کر پی پی قیادت ’’سندھ کارڈ‘‘ کا حسبِ سابق و حسبِ روایت اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔ تاہم ٹرین مارچ کے بعد پیپلز پارٹی کا مستقبل میں کیا لائحہ عمل ہوگا، یہ امر تاحال واضح نہیں ہوسکا ہے۔ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کی حکمت عملی کیا ہے، یہ بھی تاحال پردۂ اخفا میں ہے۔ بلاول بھٹوکا ’’کاروانِ بھٹو‘‘ کے نام سے کیا گیا ٹرین مارچ جس روز لاڑکانہ جارہا تھا اسی روز اتفاق سے ایک طرف نوازشریف کی چھے ہفتوں کے لیے جیل سے رہائی کی خبر آئی تو دوسری جانب شہبازشریف کا نام ای سی ایل سے نکال دینے کا اعلان بھی ہوگیا۔ گویا مذکورہ ٹرین مارچ سے آصف زرداری کو تو کوئی ریلیف نہیں مل سکا، البتہ شریف برادران کو وقتی فائدہ ضرور میسر آگیا ہے۔ اس طرح سے آگے چل کر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اکٹھے ہونے کا جو تھوڑا بہت امکان تھا مقتدر حلقوں نے یہ ’’ترپ کا پتہ‘‘ استعمال کرکے عارضی طور پر اسے بھی ختم کرڈالا ہے۔ سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے بھی پیپلزپارٹی کی سیاسی حکمت عملی سے عدم اتفاق کا اعلان کردیا ہے۔ ’’یہ منظر دکھائے گا کیا سین… پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ‘‘