ہمارا حالیہ دورۂ ایران بارہ سال پہلے کے دورے سے ویسے تو کئی حوالوں سے منفرد اور مختلف تھا، لیکن موجودہ دورے کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ ایران کے کئی مقتدر اداروں کے ذمہ داران اور منتظمین سے براہِ راست تبادلۂ خیال کے علاوہ نسبتاً زیادہ آزادانہ ماحول میں ایرانی معاشرے، اور خاص کر اس پر امام خمینی کے انقلاب کے اثرات کا مشاہدہ کرنے اور اس انقلاب کو قریب سے سمجھنے کا موقع ملا۔ ان ملاقاتوں میں ایک اہم ملاقات ایران کے اسلامی انقلاب کے بانیان میں سے ایک اہم بانی آیت اللہ عبدالکریم ہاشمی نژاد جنہیں بعد میں انقلاب مخالف عناصر نے ان کی امام خمینی سے قربت اور انقلابِ ایران پر ان کے گہرے اثرات کی وجہ سے قتل کردیا تھا، کے برخوردار اور حضرت امام رضا کمپلیکس مشہد کے بین الاقوامی زائرین کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ہاشمی نجات سے ہونے والی ملاقات تھی۔ ڈاکٹر ہاشمی نژاد نے ایرانی روایات کے مطابق اپنے دفتر کے دروازے پر ہمارا پُرجوش استقبال کیا۔ انہوں نے حضرت امام رضا کمپلیکس کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ حرم امام رضا علم و تدریس، تحقیق، حتیٰ کہ خدمت اور صحت کا ایک جامع مرکز ہے۔ یہاں کئی مراکز حضرت امام رضا کے نام سے منسوب ہیں اور ان کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہاں کے تمام اخراجات عطیات سے پورے ہوتے ہیں۔ حکومت کا یہاں کوئی سرکاری عمل دخل نہیں ہے۔ حضرت امام رضا کے مزار کی زیارت کے لیے سالانہ 30 ملین افراد یہاں آتے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد غیر ملکی زائرین کی بھی ہوتی ہے، جن میں عرب اور عجم کے ایشیائی ممالک کے علاوہ یورپ ،آسٹریلیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ کے زائرین شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی زائرین کا ہم تہِ دل سے استقبال کرتے ہیں۔ پاک ایران تعلقات سرکاری کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی گرم جوشی پر مبنی ہیں۔ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات اقتصادی اور سیاسی سے زیادہ مذہبی اور ثقافتی بنیادوں پر استوار ہیں۔ پاکستان سے اہلِ سنت اور اہلِ تشیع یکساں محبت اور عقیدت سے یہاں تشریف لاتے ہیں، دیگر اسلامی ممالک میں یہ یکسانیت کم پائی جاتی ہے۔
ڈاکٹر ہاشمی نژاد نے بتایا کہ 40 سال سے امریکی پابندیاں ایران کو کمزور کرنے کے بجائے اسے طاقتور بنانے کا باعث بنی ہیں۔ امریکہ کے موجودہ وزیر خارجہ مائیک پومپیو امریکہ میں مقیم ایران مخالف عناصر کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں بلکہ انہیں ہر ممکن تعاون اور سرپرستی بھی دے رہے ہیں۔ پاک ایران بارڈر ہمیشہ دوستی اور امن کا باعث رہا ہے لیکن اب پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان اور ایران کے مشترکہ دشمن بعض دہشت گرد گروپوں کو اسپانسر کرکے یہاں بھیج رہے ہیں جس کا مقصد پاک ایران تعلقات خراب کرنا ہے۔ امریکہ خطے میں گڑبڑ پھیلانے کے مذموم منصوبے پر عمل پیرا ہے، ملکوں اور مختلف گروہوں کو آپس میں لڑانا امریکی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ شام، عراق، لبنان اور یمن میں ایرانی مداخلت امریکی پروپیگنڈہ ہے، ہم ان ممالک کی درخواست پر ان کی مدد کے لیے گئے ہیں۔ لبنان پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف ہم نے لبنان کی مدد کی تھی جس کا ہم برملا اظہار کرتے ہیں۔ یہ ایرانی مدد ہی کا نتیجہ تھا کہ لبنان میں اسرائیل کو 33 دنوں کی جنگ اور ننگی جارحیت کے باوجود وہاں سے ذلیل و خوار ہوکر نکلنا پڑا تھا۔ اپنے دورۂ کابل میں امریکی صدر بش نے جب افغانستان میں ایرانی مداخلت کی بات کی تھی تو اس کے جواب میں افغان صدر حامد کرزئی نے کہا تھاکہ ایران افغانستان کا ایک اچھا دوست اور ہمسایہ ہے اور اس نے کئی مواقع پر افغانوں کی مدد کی ہے۔ ایران کا یہ مؤقف ہے کہ اس خطے کا امن خطے کے ممالک سے وابستہ ہے، اور یہ اس خطے کے ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ اپنے مسائل اور تنازعات آپس میں مل بیٹھ کر حل کریں۔40 سال سے ایران اس خطے میں امریکہ کی اعلانیہ اور خفیہ موجودگی پر اعتراض کرتا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکہ ہمارے خلاف ہے، لیکن الحمدللہ ان چالیس برسوں میں ہماری بہادر قوم نے جس پامردی اور استقامت سے امریکی جارحیت کا مقابلہ کیا ہے وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ پچھلے چالیس سال کے دوران ہماری قوم اور قیادت نے دو سپر پاورز کا غرور جس طرح خاک میں ملایا ہے اس پر ہمیں فخر ہے۔
ڈاکٹر ہاشمی نژاد نے کہا کہ ایران کا یہ یقین ہے کہ افغانستان میں امن کا تعلق علاقائی ممالک بشمول افغان حکومت کے تمام فریقین کے ساتھ مل بیٹھ کر یہ مسئلہ حل کرنے سے ہے۔ افغان حکومت کو اعتماد میں لے کر ہی ہم طالبان کے ساتھ مذاکرات کررہے ہیں، اور ہم اس عمل کو افہام وتفہیم سے تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ امریکہ طالبان سے مذاکرات کا عمل افغان حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر کررہا ہے۔ ہم نے تاجکستان میں خانہ جنگی کے خاتمے میں مدد کی اور وہاں امن قائم کیا، جو اب تک قائم ہے۔ شام اور عراق میں بھی ایران کی مثبت اور تعمیری مداخلت کے نتیجے میں امن قائم ہوچکا ہے۔ لبنان مختلف مذاہب اور اقوام کا مجموعہ ہے، لیکن ہم نے وہاں بھی امن قائم کیا۔ واضح رہے کہ لبنان طویل عرصے تک مذہبی اور نسلی بنیادوں پر خانہ جنگی کا شکار رہا، لیکن ایران کی کوششوں سے اب وہاں مستقل امن قائم ہوچکا ہے۔ جو بھی ملک ایران سے صلح کرنے کی اپیل کرے گا تو وہ ایران کو قیام امن کے لیے تیار پائے گا۔ قیام امن مقامی گروپوں اور طبقات کے باہم ارتباط اور مذاکرات ہی سے ممکن ہے۔ ہم یہ بات ببانگِ دہل کہتے ہیں کہ سعودی حکمرانوں کو امریکی آلۂ کار نہیں بننا چاہیے۔ ان کو عالم اسلام کے روحانی مرکز کے طور پر عالم اسلام کے اتحاد اور ترقی میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ جو تعلقات بڑھا رہا ہے وہ ایران سمیت پورے عالم اسلام کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ 1967ء میں اسرائیل نے تین عرب ممالک کو چھے دنوں میں شکست دی تھی، کیونکہ یہ ممالک یہ جنگ عرب قومیت کی بنیاد پر لڑ رہے تھے، جبکہ لبنان پر حملے کے بعد اسرائیل کی تمام تر جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود لبنانی قوم حزب اللہ کی قیادت میں 33 دن تک بے سروسامانی کی حالت میں لڑتی رہی، اور بالآخر اس جنگ میں اسرائیل کو شرمندگی سے پسپا ہونا پڑا، کیونکہ اس جنگ کی بنیاد نظریے پر تھی۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ اسرائیل حزب اﷲ سے ڈرتا ہے، کیونکہ حزب اللہ ایک واضح نظریے پر نہ صرف یقین رکھتی ہے بلکہ اس نے پوری قوم کو اس نظریے کے تحت جینے اور مرنے کا ایک واضح شعور اور سلیقہ بھی دیا ہے۔ اسرائیل چار سو ایٹم بم رکھتا ہے، وہ ایک منی سپر پاور ہے، لیکن پھر بھی حزب اﷲ سے ڈرتا ہے۔ یہ حزب اللہ کی اسلام سے وابستگی ہے جو اُسے اسرائیل کے لیے ایک بڑا خطرہ بناتی ہے، اگر عالم اسلام ایران کی قیادت میں متحد ہوجائے تو اسرائیل اور امریکہ دونوں کو اسلام مخالف سرگرمیوں سے روکا جاسکتا ہے۔
ہمارے دورے کا ایک اہم پڑائو مشہد شہر سے تقریباً پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بعثت بازار تھا جو شاندیزکے سیاحتی مقام کو جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے۔ اس بازارکی خاص بات یہاں خشک میوہ جات اور کھانے پینے کی دیگر اشیا کی ایک بڑی مارکیٹ میں ایرانی خشک میوہ جات کی بڑی مقدار اور ہر کوالٹی کی دستیابی ہے۔ ان میوہ جات میں ہمیں پہلی بار ایک ایسا ڈرائی فروٹ دیکھنے کا موقع ملا جس میں ہر قسم کے پھل حتیٰ کہ کیلا، سنگترہ، سیب اور آڑو تک شامل تھے جنہیں مخصوص پلانٹ پر سُکھایا گیا تھا، البتہ ان کے ذائقے میں اصل پھل کی نسبت ذرہ برابر فرق نہیں تھا۔ شاندیز جاتے ہوئے ہمیں تھوڑی دیرکے لیے فروشگاہ تشریفات نامی ایک ایسے سپر اسٹورکی سیرکا بھی موقع ملا جس میں جرابوں، جوتوں اور میک اَپ کے سامان سے لے کر کپڑوں، سوٹ کیسوں اور زندگی کے استعمال کی تمام قابلِ ذکر اشیاء دستیاب تھیں۔ ان اشیا کی ایک خاص بات جہاں ان کا ایرانی میڈ ہونا تھا، وہاں ان اشیاء کی قیمت اور کوالٹی کو دیکھتے ہوئے اس اسٹور میں داخل ہونے والے کسی بھی فرد کے لیے کوئی چیز لیے بغیر یہاں سے خالی ہاتھ نکلنا تقریباً ناممکن عمل نظر آرہا تھا۔ یہ اسٹور بظاہر ایک ویرانے میں قائم ہے لیکن یہاں اتنا رش تھا کہ گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے جگہ کم پڑتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ گاڑی سے اترتے ہوئے ہمیں یہاں زیادہ سے زیادہ آدھا گھنٹہ وقت گزارنے کی اجازت دی گئی تھی، لیکن اس اسٹور میں موجود اشیاء اور ان کی ورائٹی کے سامنے ہمارا کوئی بھی شریکِ سفر ٹھیر نہیں سکا تھا، اور دیا گیا یہ آدھا گھنٹہ ایک گھنٹے پر محیط ہوگیا تھا۔ اس اسٹور سے شاپنگ کے بعد ہماری اگلی منزل خوبصورت اور صحت افزا سیاحتی مقام شاندیز تھا۔ شاندیز مشہد شہر سے خاصی بلندی پر ایک پُرفضا خوبصورت علاقہ ہے جہاں سڑک کے دونوں کناروں پر چنار کے بلندوبالا گھنے درخت ماحول کی خوبصورتی کو مزید چار چاند لگا رہے تھے۔ یہ علاقہ چونکہ قریب کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہے اور ان پہاڑیوں پر برف کی خوبصورت جمی ہوئی تہ نہ صرف آنکھوں کو خیرہ کررہی تھی بلکہ یہاں سے اٹھنے والی ٹھنڈی اور یخ بستہ ہوائیں اگر ایک طرف ماحول کی خوبصورتی اور قدرتی حسن میں اضافہ کررہی تھیں تو دوسری جانب ان ہوائوں کے سبب یہاں سردی کی شدت کو بھی بہ آسانی محسوس کیا جاسکتا تھا۔ شاندیز میں رہائشی مکانات تو نسبتاً کم ہیں البتہ یہاں ہوٹلوں، ریسٹورنٹس اور کھانے پینے کی اشیاء کی دکانوں کی کوئی کمی نہیں۔ یہاں مقامی طور پر تیارشدہ آئس کریم اور مخصوص برف سے جمے ہوئے جوس سے لطف اندوز ہونے کے بعد ابھی ہم اپنی گاڑی میں بیٹھ ہی رہے تھے کہ کئی نوجوانوں کو رنگ برنگے خوبصورت چست ٹریک سوٹ اور ہیلمٹ پہنے ہوئے سائیکلنگ کرتے دیکھا، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ نوجوان مشہد سے اپنی سائیکلوں کے ہمراہ مخصوص پک اپس پر سوار ہوکر شاندیز آئے ہیں جو ویک اینڈ پر ان کا معمول ہے، اور اب یہاں سے اترائی میں مشہد شہر تک سائیکلنگ کرتے ہوئے جارہے ہیں۔
واپسی پر سارے راستے ہم سوچتے رہے کہ زندہ اور بیدار قوموں کی اس سے بڑی نشانی اور کیا ہوسکتی ہے کہ تمام تر عالمی اور صہیونی سازشوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود ایرانی قیادت پچھلے چالیس سال کے دوران نہ صرف اسلامی انقلاب کے اثرات عام افراد تک منتقل کرنے میں کامیاب رہی ہے بلکہ وہ کھیل کود اور دیگر ثقافتی وسماجی سرگرمیوں کے ذریعے اپنی نوجوان نسل کو بھی نظریاتی طور پر اسلامی انقلاب کی پشت پر کھڑا کرنے کا کامیاب تجربہ کرچکی ہے۔