گزشتہ سے پیوستہ
قائداعظم نے ان دونوں تجاویز (کرپس پلان اور راجا جی فارمولا) پر اپنے ردعمل سے ان کی حمایت کا کوئی تاثر نہیں دیا اور غور و خوض میں منہمک رہے۔ ابھی مسلمانانِ ہند کی جبلت خود کو ہمہ گیر ہندو اکثریت میں ضم ہوکر دلت اور اچھوت بننے کو ہرگز تیار نہ تھی اور برصغیر کے طول وعرض میں ایک گوشۂ وجود کی متلاشی تھی، جہاں وہ اپنے عقائد، رسم ورواج اور روایات کو نہ صرف زندہ رکھ سکیں، بلکہ ان پر کماحقہٗ عمل درآمد بھی کریں،کیونکہ دینِ اسلام کے فرائض اور احکامات پر اسی وقت عمل درآمد ہوسکتا ہے جب مسلم امہ کو مخصوص خطہ ارضی پر مکمل اختیار ہو۔ برصغیر میں شمال مغرب اور شمال مشرق میں ایسے خطے موجود تھے جہاں مسلم آبادی کی اکثریت تھی اور جنہیں صوبوں کی حیثیت حاصل تھی، لہٰذا یہ فطری امر تھا کہ ان صوبوں کی مقامی آبادی کو نظم ونسق،اندرونی و بیرونی امور میں مکمل آزادی ہو جسے حقِ خودارادیت سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یوں بھی حکومتِ برطانیہ میں تقریباً چھے سو دیسی ریاستیں تھیں جو دفاع اور امورِ خارجہ میں سلطنت ِبرطانیہ کے تابع تھیں، تاہم انہیں مکمل اندرونی خودمختاری حاصل تھی، جن میں حیدرآباد، میسور، جموں وکشمیر، قلات، ٹراونکور کوچن (موجودہ کیرالا) اور بھوپال خاص طور پر قابل ذکر ہیں، کیونکہ ان کے سربراہوں سے سلطنت برطانیہ کے معاہدے تھے، جن کے مطابق یہ ریاستیں مذکورہ امور کے سوا دیگر تمام معاملات میں بااختیار تھیں۔ ان کے سربراہوں کو سلطنتِ برطانیہ وہی پروٹوکول (سفارتی اعزاز) دیتی تھی جو آزاد ریاستوں کے لیے مختص تھا، چنانچہ یہ قدرتی بات ہے کہ ان ریاستوں کے مسلم حکمرانوں نے نہ صرف مسلم اکثریتی علاقوں بلکہ ان ریاستوں کو بھی اپنی قلمرو میں شامل کرلیا جن کے سربراہ ان کے ہم مذہب تھے جیسے حیدرآباد، جونا گڑھ۔
آزادی کے بعد ان ریاستوں کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ ملحقہ ریاستوں یعنی ہندوستان اور پاکستان میں سے کسی ایک میں شمولیت اختیار کرلیں، بصورتِ دیگر انہیں آزادی کا بھی حق حاصل تھا۔ اُس وقت برصغیر میں دو آزاد ریاستیں ہندوستان اور پاکستان وجود میں آچکی تھیں، لہٰذا ان کا دیسی ریاستوں پر دبائو تھا کہ وہ ان میں شمولیت اختیار کریں۔ کچھ ریاستیں ایسی تھیں جن کا مسئلہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان متنازع ہوگیا تھا، مثلاً جونا گڑھ، حیدرآباد دکن اور جموں وکشمیر۔ جونا گڑھ کے عوام کی اکثریت ہندو تھی جبکہ حکمران مسلمان تھے، اور یہی صورت حال حیدرآباد دکن کی تھی، ان کا حکمران نظام میر عثمان علی خان مرہٹہ مسلمان تھا لیکن رعایا ہندو تھی۔ جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے، اس کی آبادی کی اکثریت مسلمان تھی جبکہ مہاراجا ہندو تھا۔ ٹراونکور کوچن کے راجا اور رعایا ہندو تھے لیکن وہ ہندوستان یا پاکستان میں شمولیت کے خلاف تھے۔ بھارت نے خود کو سلطنت برطانیہ کا جانشین سمجھتے ہوئے فوجی طاقت کے ذریعے جونا گڑھ اور حیدرآباد پر قبضہ کرلیا اور ٹراونکور کوچن پر دبائو ڈال کر بھارت میں شمولیت پر مجبور کردیا، لیکن نہرو نے کشمیر پر بھی فوج کشی کی۔ بعد ازاں مہاراجا ہری سنگھ پر دبائو ڈال کر 27اکتوبر 1947ء کو الحاق نامہ پر دستخط کروالیے، جس پر کشمیر میں بغاوت پھوٹ پڑی۔ ہنزہ اور گلگت نے ہندوستان سے منحرف ہوکر پاکستان میں شمولیت اختیار کرلی۔
بھارت نے جب کشمیر کو ہاتھ سے جاتا دیکھا تو اس نے پاکستان پر فوجی مداخلت کا الزام لگادیا اور 1947ء میں سلامتی کونسل میں پاکستان کے خلاف جارحیت کے ارتکاب کی شکایت دائر کردی۔ دراصل مہاراجا ہری سنگھ کے ہندوستان سے الحاق کی دستاویز جعلی تھی، لہٰذا اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔ الحاق نامہ پر بھارت کے گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن نے الحاق کو استصواب رائے عامہ سے مشروط کردیا تھا، جس کی بناء پر سلامتی کونسل نے 21 اپریل 1948ء کو اپنی تحویل میں رائے شماری کرانے کی قرارداد منظور کرلی اور 13اگست 1948ء اور 5جنوری 1949ء کو اپنی تحویل میں رائے شماری کرانے کے لیے پاکستان کی فوجوں کو واپس ہونے کا حکم دیا، لیکن آزاد کشمیر کی فوج کو اقوام متحدہ کے تابع کردیا اور امریکہ کے امیر بحرچیسٹر نمٹز کو رائے شماری کرانے کا منتظم بنادیا۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ یہ قرارداد جہاں ہندوستان کی مرضی کے خلاف تھی، وہاں اس میں ریاست جموں وکشمیر میں 21,000 بھارتی فوج کی نفری رکھنے کی ہدایت کی گئی تھی جو اقوام متحدہ کے تابع ہوتی۔
پہلے تو بھارت نے اس قرارداد کو تسلیم کرلیا، لیکن جب اس کو احساس ہوا کہ کشمیری کسی صورت رائے شماری میں بھارت کے حق میں فیصلہ نہیں دیں گے تو اس نے رائے شماری کرانے سے انکار کردیا اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ پاکستان نے امریکہ سے فوجی معاہدہ کیا ہوا ہے لہٰذا اب اس خطے کی صورت حال بدل گئیہے۔ اس سلسلے میں اس نے سوویت یونین کو ورغلا کر سلامتی کونسل میں رائے شماری کی قرارداد پر حقِ تنسیخ (ویٹو) استعمال کروا لیا۔ اس کے بعد سے اس خطے میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ تقسیم سے پہلے برصغیر میں ہندو مسلم کش مکش سے سیاسی تعطل کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی، چنانچہ چند مسلم مفکرین (جس میں حیدرآباد دکن کے عبداللطیف قابل ذکر ہیں) نے برصغیر میں مسلم ریاست کے قیام کا تصور پیش کیا، جن میں نہ صرف مسلم اکثریتی علاقے شامل تھے، بلکہ وہ علاقے بھی شامل کردیے گئے، جہاں مسلمانوں کا سیاسی غلبہ تھا لیکن مسلم آبادی اقلیت میں تھی۔
اس ضمن میں علامہ اقبال نے 1930ء میں الٰہ آباد کے ایک تمباکو فروش تاجر کی جی ٹی روڈ پر واقع پتھر کی عمارت میں جو ’دوازدہ منزل‘ کی حیثیت سے آج بھی موجود ہے، آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس منعقد کیا، جس میں برصغیر کے شمال مغرب میں واقع مسلم اکثریتی خطے کی وفاق ہند میں شمولیت کا مطالبہ کیا، لیکن یہ آزاد ریاست کا مطالبہ نہ تھا بلکہ اس میں مسلم اکثریتی صوبوں کو اندرونی خودمختاری دینے کی بات کی گئی تھی، نہ کہ مکمل آزادی، جو آزاد ریاستوں کا جزوِ لاینفک ہوا کرتی ہے۔ اس میں پاکستان کا نام نہیں دیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ علامہ نے اپنی وضاحت میں کہا کہ یہ لفظ( پاکستان) میں نے نہیں استعمال کیا۔ لیکن اس کے چند سال بعد اپنے انتقال سے پہلے مئی جون 1937ء میں قائداعظم کو خط لکھا کہ ہندوستان کے مسلمان جس طرح معاشی لحاظ سے زوال پذیر ہیں تو وہ دن دور نہیں جب ان کی حالت فلسطینی مسلمانوں کی سی ہوجائے گی، لہٰذا ضروری ہے کہ برصغیر کے شمال مغرب اور شمال کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک آزاد ریاست تشکیل دی جائے۔
1933ء میں کیمبرج یونیورسٹی کے ایک طالب علم چودھری رحمت علی نے ایک مقالہ NOW OR NEVER کے عنوان سے تحریر کیا، جس میں انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم قرار دیتے ہوئے ان کے لیے ایک آزاد ریاست کا مطالبہ کیا، لیکن اس میں افغانستان کی شمولیت کے باعث اسے ناقابلِ عمل سمجھاگیا۔
1938ء میں علامہ اقبال کا انتقال ہوگیا لیکن ان کے افکار نے مسلمانوں کے دلوں اور ذہنوں میں جگہ بنا لی تھی، چنانچہ اکتوبر 1938ء میں سندھ صوبائی مسلم لیگ نے ایک قرارداد میں برصغیر میں آباد مسلمانوں کی ثقافت، معیشت اور معاشرت کی بہتری کے لیے حقِ خودارادیت کی بنا پر ہندوئوں اور مسلمانوں کی آزاد ریاستوں کا مطالبہ کیا جسے انہوں نے برصغیر کے وسیع تر مفادات کے لیے ضروری سمجھا۔ صوبائی مسلم لیگ نے کُل ہند مسلم لیگ سے پُرزور مطالبہ کیا کہ وہ ایسے دستور کو بروئے کار لائے، جس میں مسلمانوں کو مکمل آزادی ہو۔ اس کے کچھ ہی عرصے میں سندھ اسمبلی نے بھی صوبائی مسلم لیگ کی اس قرارداد کو منظور کرلیا۔
اس کے دو سال بعد آل انڈیا مسلم لیگ نے 23 مارچ1940ء کو لاہور میں ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے برصغیر ہند کے شمال مغرب اور شمال مشرق میں واقع مسلم اکثریتی علاقوں پرمبنی ریاست یا ریاستوں کے قیام کا مطالبہ کیا۔ اس قرارداد میں مسلم اکثریتی منطقوں کا ذکر کیا گیا تھا، جسے میڈیا اور عوام نے سمجھا کہ اس سے آسام، بنگال، سندھ، شمال مغربی سرحدی صوبہ (موجودہ خیبر پختون خوا) اور پنجاب مراد ہے۔ لیکن ان منطقوں پر مشتمل ریاست یا ریاستیں بیک وقت اندرونی طور پر خودمختار اور آزاد رہیں گی۔ یاد رہے کہ اس قرارداد میں ریاست یا ریاستوں کے الفاظ کے استعمال کے باعث بعض عناصر ان علاقوں کی جغرافیائی ہیئت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ گمان کرتے تھے کہ دراصل اس قرارداد کا مقصد برصغیر میں مغرب اور مشرق میں دو ریاستوں کا قیام ہے، لیکن 1940ء کے عشرے میں مسلم آبادی نے اس طرح مطالبۂ پاکستان کے حق میں مہم چلائی کہ اپریل 1946ء میںمسلم لیگ کے منتخب ارکانِ مرکزی و صوبائی اسمبلی نے دلی میں ایک سرکاری اجتماع (کنونشن) میں یہ فیصلہ کیا کہ مغربی اور مشرقی منطقوں پر مشتمل صرف واحد ریاست قائم کی جا سکتی ہے۔
یہ فیصلہ بنگال کی صوبائی اسمبلی کے ارکان (جن کی اکثریت تھی) کے اصرار پر کیا گیا تھا۔ اس کی معروضی وجہ یہ تھی کہ ان دنوں کانگریس اور ہندو مہاسبھا نے برصغیر کے طول و عرض میں ایک پُرتشدد مہم چلا رکھی تھی جس کے ردعمل کے طور پر مسلم آبادی بھی قائداعظم کی قیادت میں ذات، پات، فرقہ و مسلک کے اختلاف کو بھلا کر کلی طور پر متحد ہوچکی تھی، جیسا کہ ڈاکٹر امبیڈکر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ میں مسٹر جناح کی یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ ہندو اور مسلمان زبان، ثقافت اور رسم و رواج کے فرق کے باعث ایک دوسرے سے جدا ہیں، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو بنگال کے مسلمان پنجاب کے مسلمانوں سے قربت کیوں رکھتے،جن سے وہ زبان اور ثقافت کے لحاظ سے بالکل جدا ہیں، بلکہ انہیں تو بنگالی ہندوئوں سے قربت رکھنی چاہیے، جن سے وہ زبان، ثقافت اور رسم و رواج میں مماثلت رکھتے ہیں۔
(Dr.B.R AMBEDKAR, PAKISTAN OR PARTITION OF INDIA, 3RD ED (BOMBAY: MURPHY AND THACKER COMPANY 1946), P.18)
یہ بحث قائداعظم محمد علی جناح کے دو قومی نظریہ کے تناظر میںچھڑ گئی تھی۔ قائداعظم نے اصرار کیا تھا کہ مسلمان اپنے عقائد، زبان، ثقافت، طرز تعمیر، فنون لطیفہ اور جملہ تصورات کے اعتبار سے علیحدہ قوم ہیں، کیونکہ ان میں سے ایک کا ہیرو دوسرے کا قومی دشمن تصور کیا جاتا ہے۔ مثلاً محمد بن قاسم اور راجا داہر، شیوا جی اور اورنگ زیب۔
بعد ازاں ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے کابینہ کے روبرو ایک یادداشت پیش کی تھی، جس میں برصغیر میں اولاً وفاقی حکومت کے قیام کی تجویز کے ساتھ اس کی کثیرالقومی اکائیوں کے ذکر کے ساتھ مطالبہ کیا گیا تھا کہ جو علاقے اول الذکر وفاقی حکومت میں شمولیت نہیں چاہتے انہیں اپنی علیحدہ ریاست کا اختیار دیا جائے۔ ان حقائق کے ادراک کے لیے ان کا تاریخی پس منظر جاننا بہت ضروری ہے۔ جب آل انڈیا نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ میں مخالفت بہت بڑھنے لگی تو برصغیر کی رائے عامہ کو اپنے وطن کی آزادی کے امکان معدوم ہوتے نظر آئے اور سلطنت برطانیہ نے 1927ء میں سائمن کمیشن بھیجا تاکہ وہ مقامی رہنمائوں سے تبادلہ خیالات کرنے کے بعد حکومت برطانیہ کو اپنی سفارشات کے ذریعے اصل صورت حال سے آگاہ کرے، لیکن کانگریس نے کمیشن کے بائیکاٹ کا اعلان کرکے آزادیِ ہند کو گویا سبوتاژ کرنے کی کوشش کی، لیکن کمیشن کے ارکان نے برصغیر کی صورت حال کے بارے میں تجزیاتی سفارشات لندن کو ارسال کردیں۔
چنانچہ برطانیہ نے اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کیا کہ کیوں ناں لندن میں ہندوستانی رہنمائوں کا ایک اجتماع منعقد کیا جائے تاکہ اس مسئلے کا کوئی حل برآمد ہو۔ اس کے بعد 1930ء 1931ء اور1932ء میں لندن میں گول میز کانفرنس منعقد ہوئیں جو ناکام رہیں، ان میں مسلمانوں کی نمائندگی آغا خان نے کی، جبکہ محد علی جناح کو مدعو نہیں کیا گیا، گو وہ لندن میں موجود تھے۔ اُس وقت قائداعظم نے کہا تھا کہ اگر ہندوستان میں وفاقی نظام قائم نہیَںکیا جاتا تو کوئی دوسرا نظام 24 گھنٹے سے زیادہ نہیں چل سکتا۔ اس وقت یہ واضح ہوگیا تھا کہ سلطنت برطانیہ کو ہی ہندوستان کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا ہوگا، چنانچہ انہوں نے 1935ء Governement of India Act نافذ کردیا جو1909ء اور 1919ء کے قوانین سے بہتر تھا۔
ان واقعات سے ایک عشرہ قبل آل انڈیا نیشنل کانگریس نے اقلیت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی اور جواہر لعل نہرو سے رپورٹ تیار کرنے کی گزارش کی۔ یہ نہرو کمیٹی کہلائی اور اس نے اپنی رپورٹ میں ہندوستان جیسے متنوع اور متضاد عناصر پر مبنی ملک کے لیے وفاقی کے بجائے وحدانی نظام تجویز کیا جو مسلمانوں کے لیے اس لیے ناقابلِ قبول تھا کہ ان کی مرکزی اسمبلی میں ایک تہائی نشستیں بھی مختص نہیں کی گئیں، بلکہ سرتیج بہادر سپرو جیسے غیر جانب دار سیاست دان نے کہا کہ بھئی اگر جناح ضدی بچہ اور اپنا حق مانگتا ہے تو اس کو ایک تہائی نشستیں دے دو اور معاملہ ختم کرو۔ مگر نہرو نہ مانا۔ اس کے بعد قائداعظم نے 1929ء میں اپنا جوابی لائحہ عمل جو 14 نکات پر مشتمل تھا، پیش کیا۔ اس کی رو سے وفاقِ ہند کی حکومت نیز وفاقی اکائیوں میں وزارتوں میں ایک تہائی مسلمان نشستیں مخصوص ہونی چاہئیں۔ جبکہ صوبہ سندھ کو ممبئی پریزیڈنسی سے الگ کیا جائے اور سلطنت برطانیہ کے دوسرے صوبوں کی مساوی حیثیت دی جائے۔ اسی طرح صوبہ سرحد جہاں لیفٹیننٹ گورنر اس کا سربراہ ہوا کرتا تھا، اسے بھی دوسرے صوبوں کے برابر حیثیت دے کر بحال کیا جائے۔ ہندوستان میں صوبوں کی تشکیلِ نو کرتے وقت مسلم اکثریتی صوبوں کی حیثیت بر قرار رکھی جائے۔
اُس وقت برصغیر ہند کی کُل آبادی 30 کروڑ تھی، جس میں دس کروڑ مسلمان تھے جبکہ بیس کروڑ ہندو۔ ہندوئوں میں اچھوت جو اب ’دلت‘ کہلاتے ہیں، کی تعداد سولہ کروڑ تھی، اور انہوں نے ALL-PARTY INDIA SCHEDULED CASTE بنائی جس کے سربراہ بی آر امبیڈکر تھے۔ اس کے علاوہ شریمنی اکالی دل جس کے سربراہ ماسٹر تارا سنگھ تھے، جبکہ دیسی عیسائیوں، دوغلے انگریزوں (ANGLO INDIAN) اور پارسیوں کی جماعتیں بھی تھیں، لیکن ان سب پر ہندو اکثریت اتنی غالب تھی کہ انہیں دھونس سے خاموش کیے رہتی تھی، کسی جماعت میں ہمت نہیں تھی کہ کانگریس کو چیلنج کرتی۔ صرف مسلم قوم وہ واحد قوت تھی جس نے ہندو اکثریت کا ہمیشہ ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کبھی ان کے آگے نہیں جھکی۔ چنانچہ محمد علی جناح نے جواہر لعل نہرو کے اس دعوے کو کہ ہندوستان میں دو طاقتیں ہیں، ایک سلطنت برطانیہ جو غیر ملکی ہونے کی حیثیت سے ہندوستان پر کوئی حق نہیں رکھتی اور دوسری آل انڈیا نیشنل کانگریس، جو تمام ہندوستانیوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے، للکارا اور کہا کہ ایک طاقت اور ہے اور وہ برصغیر کے مسلمان عوام ہیں، جن کی واحد نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ ہے۔
اُس وقت پنڈت جواہر لعل نہرو کو لاف وگزاف کا موقع ہاتھ آیا اور انہوں نے خوب مذاق اڑایا کہ انگریزوں کے پٹھوئوں کو بھی دعویٰ ہے کہ ان کی بھی کوئی حیثیت ہے۔ اُن دنوں سلطنت برطانیہ نے 1935ء کے ایکٹ کے تحت صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں کے لیے انتخابات کرائے، جس میں گیارہ میں سے سات صوبوں میں کانگریس بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی، چنانچہ پارلیمانی نظام کے تحت اس نے وزارتیں بنائیں، جس میں مسلم لیگ کو دعوت نہیں دی۔ اس رویّے سے کانگریس کے ناپاک عزائم بے نقاب ہوگئے۔ جب انہوں نے عددی اکثریت کے زور پر ہندی کے نام پر سنسکرت زدہ غیر مانوس زبان کو مسلط کردیا جو پرائمری اور ثانوی جماعتوں میں واحد وسیلہ تعلیم کے طور پر نافذ کردی گئی۔ اس کے نتیجے میں جملہ طلبہ جن میں ہندو بھی شامل تھے، سخت مشکلات کا شکار ہو گئے، کیونکہ اُس وقت اردو مروجہ ذریعہ تعلیم کے علاوہ تھانہ کچہری کی بھی زبان تھی۔ اس سے مسلمانوں کے لیے روزگار کا بحران پیدا ہوگیا اور بہت سے لوگ راتوں رات ناخواندہ ہوکر رہ گئے۔ پھر آئے دن بھارت میں ہندو اکثریتی صوبوں میں انتہاپسند کٹر ذہنیت کے افسران کلکٹر، کمشنر بننے لگے، جنہوں نے مسلم دشمنی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اسی لیے جب 1939ء میں دوسری عالمی جنگ چھڑنے پر سلطنت برطانیہ نے محوری طاقتوں (جرمنی، اطالیہ اور جاپان) کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا تو کانگریس آپے سے باہر ہوگئی اور کہا کہ برطانوی سامراج کو بھارت کی طرف سے اعلان جنگ کرنے کا کوئی ادھیکار نہیں ہے، یہ اختیارات تو صرف کانگریس کی موجودہ حکومت کو ہیں۔ اس پر سلطنتِ برطانیہ کی آنکھیں کھل گئیں کہ میری بلی مجھی کو میائوں… لہٰذا ان کو اقتدار سے دست برار ہونے پر مجبور کردیا، جبکہ کانگریس کا دعویٰ تھا کہ اس نے تنگ آکر خود علیحدگی اختیار کی ہے۔
مجھے 22 دسمبر 1939ء کا وہ دن آج تک یاد ہے جب آل انڈیا مسلم لیگ نے ہندوستان کے شہر شہر، قریہ قریہ میں یوم نجات منایا تھا۔ اُس وقت مسلم عوام کا یہ عالم تھا کہ جیسے ان کے سر سے ایک بلا ٹل گئی ہے۔ اس کی سخت سزا ہندوئوں نے مسلمان اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کو دی، مسلمانوںکے گھروں کو جلایا اور راستہ چلتے مسلمانوں کو چھرا گھونپ کر لٹادیا جاتا تھا اور ان کی خون آلود لاشیں پڑی رہتی تھیں۔ اسے قارئین دو قومی نظریے کی توثیق کے مترادف سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے۔
(ختم شد)