کراچی ہمیشہ سے ہی غریب اور علم پرور شہر رہا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے کراچی کی یہ شناخت آج بھی برقرار رکھی ہوئی ہے۔ فلاحی کاموں اور دکھی انسانیت کی خدمت کا منصوبہ کوئی بھی شروع کرے، کراچی تعاون کرنے میں پیش پیش رہتا ہے۔ ایسا ہی ایک منظر 30 مارچ کو الخدمت کراچی چیریٹی ڈنر میں دیکھنے کو ملا۔ الخدمت نے کراچی میں اپنے فلاحی منصوبوں کے لیے تین کروڑ روپے کے عطیات جمع کرنے کا ہدف رکھا تھا، لیکن کراچی کے رہنے والوں نے ہدف سے بڑھ کر یعنی سات کروڑ روپے سے زائد کے عطیات جمع کروا کر ثابت کردیا کہ یہ خدا کے راستے میں بڑھ چڑھ کر خرچ کرنے والوں کا شہر ہے۔ ’’الخدمت‘‘ ملک کا ایک معتبر فلاحی ادارہ ہے، جو وسائل سے محروم طبقات کی بے مثال خدمات کی شاندار تاریخ رکھتا ہے۔ الخدمت کراچی اپنے فلاحی منصوبوں پر سالانہ ایک ارب روپے خرچ کرتا ہے جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں سالانہ چھے ارب روپے خرچ کرتا ہے جو اہلِ خیر کے عطیات سے پورے ہوتے ہیں۔ الخدمت کے پاس ملک بھر میں دنیاوی لالچ کے بغیر کام کرنے والے ہزاروں رضاکاروں کی ٹیم موجود ہے جو ایک ٹیلی فون کال پر رضاکارانہ کام کرنے کے لیے حاضر ہوجاتے ہیں۔ صرف الخدمت کراچی کے پاس پانچ ہزار رضاکاروں کی رجسٹرڈ تعداد موجود ہے۔ یہاں یہ ذکر غیر ضروری نہیں ہوگا کہ مسلم معاشرہ کسی دور میں بھی اہلِ خیر سے خالی نہیں رہا ہے، اور نہ ہی ایسے نیک اور پاک باز افراد اور گروہوں سے خالی رہا ہے جو دکھی انسانیت کی خدمت کو کسی نام و نمود اور دنیاوی لالچ کے بغیر فقط اللہ کی رضا کی خاطر اپناتے ہیں۔ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھی انسانیت کی خدمت کو بہترین عبادت قرار دیا ہے۔ مدینہ کی ریاست میں وسائل سے محروم طبقات کی کفالت کی ذمہ داری ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل تھی۔ خلیفۂ دوئم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ فرات کے کنارے بکری کا بچہ بھی بھوکا پیاسا مرگیا تو اللہ کے دربار میں اس کی جواب دہی عمر پر ہوگی۔ خلافتِ راشدہ کے بعد سے آج تک وسائل سے محروم طبقات کی کفالت کی ذمہ داری بڑی حد تک کسی تعطل کے بغیر پورے مسلم سماج میں اہلِ خیر دینی فریضے کے طور پر انجام دیتے رہے۔ مسلمانوں کے وقف، اسلامک ٹرسٹ، یتیم خانے، دینی مدارس اور بزرگانِ دین کے نام سے جڑا ہوا ہمارا خانقاہی نظام اور عصرِ حاضر میں مسلمانوں کے فلاحی ادارے اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر کے مسلمان آج بھی اپنی زکوٰۃ، صدقات اور خیرات کے ذریعے چیریٹی میں سب سے آگے ہیں۔
ڈنر میں الخدمت فائونڈیشن پاکستان کے صدر جناب عبدالشکور کی اس بات سے بڑی خوشی ہوئی کہ انہوں نے الخدمت کے علاوہ کام کرنے والے فلاحی اداروں کی خدمات کا اعتراف کرنے میں کسی بخل کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ کھلے دل کے ساتھ ان کو خراج تحسین پیش کیا۔ ان کی جانب سے عبدالستار ایدھی مرحوم،اخوت کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب اورانڈس اسپتال جیسے دیگر اداروں کی کارکردگی کا اعتراف قابلِ ستائش تھا۔ اگر مسلم معاشرہ اپنے فلاحی نظام کو ترقی یافتہ ممالک کی طرح مربوط کرلے، اپنے نظامِ حکومت اور اداروں کی سطح پر غربت کے خاتمے کے لیے اسکیموں کا قابلِ عمل ایسا نظام وضع کرلے جو عصرِ حاضر کے جدید تقاضوں کو پورا کرتا ہو، تو مسلم سماج میں بھی وہی نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں جو دوسری اقوام نے اپنے چیریٹی نظام کو جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے حاصل کیے ہیں۔ برصغیر میں انفرادی اور گروپوں کی سطح پر زکوٰۃ اور صدقات و خیرات کے ذریعے فلاحی کاموں کی روایت خاصی پرانی ہے۔ دینی مدارس کا تو پورا نظام ہی اس آمدنی سے چلتا ہے، البتہ برصغیر میں سید مودودیؒ کی فکر کی بنیاد پر قائم ہونے والی جماعت اسلامی ہماری مذہبی و سیاسی جماعتوں میں پہلی جماعت ہے جس نے باقاعدہ خدمتِ خلق کا شعبہ قائم کیا اور اپنے تنظیمی ڈھانچے میں اس شعبے کو بنیادی اہمیت دی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اس شعبے میں کام کرنے والے رضاکاروں کے دلوں اور ذہنوں کو شعوری طور پر سید مودودیؒ کی اس فکر سے ہم آہنگ کرکے تیار کیا۔ اس شعبے میں کام کرنا کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ یہ خود مقصد اور دین کا بنیادی تقاضا ہونے کے ساتھ ساتھ قربِ الٰہی حاصل کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ بھی ہے۔ سید مودودیؒ کی اس فکر سے متاثر پاکستان اور بیرونِ پاکستان ہزارہا افراد یہ کام سر انجام دے رہے ہیں۔ جماعت اسلامی سندھ خصوصاً کراچی اس میدان میں اپنی امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔ ویسے تو اس شعبے کے تحت 1946ء میں غیر منقسم ہندوستان کے بہار میں ہونے والے ہولناک فسادات میں ریلیف کے کاموں کے لیے پورے ہندوستان سے جماعت اسلامی کے کارکن گئے تھے، قیام پاکستان کے وقت بھی مہاجرین کے قافلوں کو ریلیف فراہم کرنے میں جماعت اسلامی کے کارکنوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ لیا تھا، تاہم منظم انداز میں اس شعبے نے سب سے پہلے صوبہ سندھ میں کام شروع کیا تھا۔ اللہ نے جماعت اسلامی کراچی کو چودھری غلام محمد (مرحوم) جیسی کرشماتی شخصیت عطاکی تھی جنہوں نے حکیم اقبال حسین (مرحوم)، حکیم محمد یامین صدیقی (مرحوم)، عبدالستار دادانی (مرحوم)، شیخ فضل مبین جیسی بلند قامت اور بلند کردار شخصیات پر مشتمل ٹیم تیار کی تھی، جن کے دل اور ذہن میں سید مودودیؒ کا یہ جملہ اپنی پوری معنویت کے ساتھ نقش ہوگیا تھا کہ ’’خدمتِ خلق مقصد کے حصول کا ذریعہ نہیں بلکہ خود مقصد اور دین کا بنیادی تقاضا ہے‘‘۔ اس شعبے کو مضبوط بنانے میں کراچی کے اہلِ خیر نے بھرپور کردار ادا کیا۔ 1950ء کے عشرے میں اس مقصد کے لیے جماعت اسلامی کی ایک کارکن خاتون نے اپنی عمارت جماعت کو دے دی تھی، جسے 1958ء میں پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کی مارشل لا حکومت میں ضبط کرلیا گیا۔ 1958ء تک ملک کے قومی ہیرو اور معروف سماجی کارکن عبدالستار ایدھی (مرحوم) جماعت اسلامی کے شعبہ خدمتِ خلق سے وابستہ تھے۔ 1958ء میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں عبدالستار ایدھی (مرحوم) نے کونسلر کا الیکشن جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر جیتا تھا۔ اگر ملک میں مارشل لا نہ لگتا تو ممکن تھا کہ ایدھی (مرحوم) زندگی بھر دکھی انسانیت کی خدمت اسی پلیٹ فارم سے کرتے رہتے۔ سب سے پہلے جماعت اسلامی نے کراچی کے شہریوں کو میت گاڑی کی سہولت فراہم کی تھی۔ آج بھی شہر میں سب سے کم معاوضہ یعنی 2000 روپے میں یہ سہولت الخدمت فراہم کررہی ہے۔ اس وقت بھی کراچی میں الخدمت کے پاس 17 میت گاڑیاں ہیں۔ حکیم محمد یامین صدیقی (مرحوم) جماعت اسلامی کراچی کے شعبہ خدمت خلق کے سربراہ تھے تو انہوں نے کراچی میں موبائل شفاخانوں کا نظام قائم کیا جو غریب بستیوں اور شہر کے مضافات میں جاکر علاج معالجے کی مفت سہولت فراہم کیا کرتے تھے۔کراچی اور اندرون سندھ جن شخصیات نے اس شعبے میں اہم کردار ادا کیا ان ناموں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس کالم میں اس کی گنجائش نہیں ہے، تاہم ان میں سے چند نام یہ ہیں: پروفیسر عبدالغفور احمد (مرحوم)، محموداعظم فاروقی (مرحوم)، ڈاکٹر افتخار احمد (مرحوم)، بدر عالم (مرحوم)، ڈاکٹر اطہر قریشی (مرحوم)، عبدالستارافغانی (مرحوم)، سید حفیظ اللہ، نعمت اللہ خان (الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے صدر بھی رہے ہیں اور جب تک ان کی صحت نے اجازت دی وہ وہیل چیئر پر بھی اس کام میں دن رات مصروف رہے)، حیدرآباد میں میاں محمد شوکت (مرحوم)، مولانا وصی مظہر ندوی (مرحوم)، کریم اللہ (مرحوم)، ٹنڈوآدم میں عبدالستار غوری (مرحوم) اور ان کے کئی دیگر ساتھی، میرپورخاص میں حافظ محمد حیات (مرحوم)، عبدالرحیم آفندی (مرحوم)، قاضی صدرالدین، ڈاکٹر معصوم، نواب شاہ میں پروفیسر سید محمد سلیم(مرحوم)، مولانا مصاحب علی(مرحوم)، سکھر میں میاں محمد علی(مرحوم)، حکیم عبیداللہ عبیدی(مرحوم)، حافظ وحید اللہ خان(مرحوم)، لاڑکانہ میں مولانا جان محمد عباسی (مرحوم)، پروفیسر عبداللہ تونیو (مرحوم)، عبدالسلام آرائیں (مرحوم)، جیکب آباد میں احمد نورمغل (مرحوم) اور شکارپور میں سید ظہیرالدین ہاشمی(مرحوم)۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ میں اس شعبے نے ریلیف کے کاموں میں جو کردار ادا کیا ہے وہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جماعت اسلامی کے بانی سید مودودیؒ کی اقامتِ دین کے لیے قائم جماعت اسلامی کے آج کے اندازِ فکر اور طریقہ کار سے لاکھ اختلاف اپنی جگہ، لیکن کوئی دیانت دار شخص اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتا کہ سید مودودیؒ کی فکر نے بیسویں صدی میں جدید تعلیمی درسگاہوں سے فارغ ہونے والے، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے ذہن میں پیدا ہونے والے دینِ اسلام، شریعت اور دین کی تعلیمات کے بارے میں شکوک و شبہات کو مؤثر انداز میں دور کرکے ان کو اسلام کی حقانیت پر مطمئن کیا جن کی یلغار مغربی فکر اور مغربی تہذیب وتمدن سے مغلوب ہونے والے طبقات نے کررکھی تھی۔ آج سید مودودیؒ کی فکر کی اثرپذیری نے جدید درسگاہوں سے نکلنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹروں، انجینئروں اور دیگر شعبوں کے ماہرین کو دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کے لیے کسی مالی منفعت، نام و نمود اور دنیاوی لالچ کے بغیر دین کا بنیادی تقاضا پورا کرنے کے لیے سرگرم عمل کیا ہوا ہے۔ سید مودودیؒ کی فکر سے متاثر صرف الخدمت کے پلیٹ فارم سے ہی دکھی انسانیت کے لیے کام نہیں کررہے ہیں بلکہ ملک اور بیرونِ ملک دوسرے بہت سے رفاہی اور فلاحی اداروں میں بھی سید مودودیؒ کی فکر کے اسیر یہ کام کررہے ہیں۔ سید مودودیؒ نے خود کہا تھا کہ خیر کا کام جو جہاں بھی کررہا ہے وہ خیر ہے اور دین کا کام ہے، اور دین کے برعکس جو کام بھی کوئی کر رہا ہو اس سے لاتعلقی اور برات کا اظہار کرنا چاہیے۔