(گزشتہ سے پیوستہ)
جون کے بعد جولائی کا مہینہ بھی گزر رہا تھا اور ابھی تک میرے احاطے میں کوئی بھی سیاسی قیدی نہیں آیا تھا۔ جب کہ بلوچستان کے مختلف حصوں میں نیپ اور بی ایس او کے احتجاج کرنے والوں سے جیلیں بھر رہی تھیں اور اب احتجاج نے ایک نئی صورت اختیار کرلی تھی۔ 1973ء میں افغانستان میں ظاہر شاہ کے بہنوئی سردار دائود نے حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا، اُس وقت ظاہر شاہ ملک سے باہر تھے اور پھر انہوں نے روم میں پناہ لے لی تھی۔ سردار دائود نے انہیں روم میں تمام سہولتیں فراہم کردی تھیں۔ افغانستان میں اس تبدیلی کو بلوچستان اور پاکستان کے قوم پرستوں نے خوش آمدید کہا۔ پاکستان کے قوم پرستوں، بائیں بازو کے دانشوروں اور قوم پرست پارٹیوں کا رویہ عجیب و غریب تھا۔ افغانستان میں جب ظاہر شاہ حکمران تھا تو یہ گروہ ظاہر شاہ کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے تھے، اور جب سردار دائود نے تختہ الٹ دیا تو انہوں نے سردار دائود کی حکومت کی حمایت کی۔ بائیں بازو اور قوم پرستوں کے تضادات منافقت کا شاہکار تھے۔ اس نئی صورت حال سے بلوچستان کے قوم پرست بہت زیادہ خوش تھے، جبکہ شاہ پرست کچھ کچھ پریشان تھے۔ میرے ساتھ نیپ کے چمن کے صدر محمد اکبر خان اچکزئی تھے، وہ اُس وقت پریشان ہوئے جب ظاہر شاہ کا تختہ الٹ دیا گیا۔ بعد میں وہ سردار دائود کے حامی بن گئے۔ لیکن اُس وقت پاکستان کی سیاست میں زبردست بھونچال آیا جب سردار دائود کا تختہ کمیونسٹوں نے الٹ دیا اور سردار دائود کو مع اس کے خاندان کے قتل کردیا۔ اس کے بعد اُس رات کمیونسٹوں نے شب خون مارا اور40 ہزار کے قریب مخالفین اور اسلام کے حامیوں کا قتل عام کیا۔ یہ افغانستان کی ایک سیاہ رات تھی۔
اس تبدیلی کے ساتھ ہی ولی خان اور بزنجو کے حامی طلبہ اور سیاسی کارکنوں نے افغانستان کا رخ کیا۔ بعد میں نواب خیر بخش خان مری یورپ سے ہوتے ہوئے کابل پہنچ گئے، اور شیرو مری نے بھی مری قبائل کو آمادہ کیا کہ وہ بھی افغانستان پہنچ جائیں۔ مری قبائل کے 40 سے 60 ہزار لوگ افغانستان پہنچ گئے۔ یہ تاریخ کا ایک بالکل نیا باب تھا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اپنے کارکنوں کے ہمراہ کابل پہنچ گئے۔ بسم اللہ خان کاکڑ بھی کابل پہنچ گئے اور کابل کی کمیونسٹ حکومتوں سے اسلحہ لیتے رہے اور جیب خرچ بھی بھاری تعداد میں وصول کرتے رہے۔ تاریخ کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ عبدالمالک بلوچ جب لوٹے اور حکومت کے دائرہ اثر میں آگئے تو مع اپنی پارٹی کے، حکومتِ بلوچستان میں شامل ہوگئے اور وزیراعلیٰ بن گئے۔ ایک بار ان سے کہا: عبدالمالک صاحب آپ نے بلوچ نوجوانوں کو پہاڑوں پر مسلح جدوجہد کے لیے چڑھا دیا اور خود گورنر ہائوس میں پاکستان کے جھنڈے تلے پاکستان کے ترانے پر باادب کھڑے سلام کررہے ہیں!
ایک باغی لیڈر سے ایک بار پریس کلب میں ملاقات ہوئی۔ ان دنوں وہ عبدالمالک سے علیحدہ ہوگئے تھے۔ یہ ان سے میری پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ جب وہ پریس کانفرنس سے فارغ ہوئے تو پریس کلب کی کینٹین میں ان سے گفتگو ہوئی جو بڑی دلچسپ تھی۔ ان سے کہا کہ آپ کی جدوجہد جتنی تیز ہوگی اس کا فائدہ عبدالمالک بلوچ اور حاصل بزنجو اٹھائیں گے، آپ کو تو نقصان ہوگا اور ان کو فائدہ ہوگا، یہ حکومت سے آپ کی جدوجہد کو کیش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ عوام ووٹ ڈالنے نہیں آئیں گے، ڈبے خالی نکلیں گے۔ اور مکران ڈویژن میں ایسا ہی ہوا۔ باغی لیڈر مارے گئے اور ان کے بے شمار ساتھی قتل ہوگئے۔ اس کے بعد اس مسلح گروہ نے عبدالمالک بلوچ کی پارٹی اور سردار اختر مینگل کے کئی اہم لیڈروں کو قتل کیا۔ یہ کشمکش چل رہی ہے۔
یہ داستان جیل کے حوالے سے ضروری تھی، اس لیے اسے اپنی خودنوشت کا حصہ بنایا۔
کچھ عرصے بعد کوئٹہ جیل میں سیاسی قیدیوں کو لانا شروع کیا گیا، اور اکتوبر تک کوئٹہ جیل نیپ، بی ایس او، اور پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنوں سے بھر گئی۔ ابتدا میں میرے بیرک میں برات خان اچکزئی اور ان کے ساتھ دو اور ساتھی تھے، ان کا تعلق چمن سے تھا، وہ نیپ کے حامی نہ تھے۔ ان کو جیل میں اس لیے ڈالا گیا کہ ان کا ایک تصادم عبدالصمد خان اچکزئی سے ہوا۔ ان کی داستان بھی بڑی دلچسپ ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں وہ خان عبدالصمد خان کے مدمقابل تھے اور یہ چمن کی ایک صوبائی نشست کا معاملہ تھا۔ عبدالصمد خان کا اختلاف ولی خان سے ہوا تو انہوں نے نیپ چھوڑ دی اور اپنی پارٹی بنالی، اور مختلف ناموں کے بعد ان کی پارٹی پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے نام سے موجود ہے۔ 1970ء میں عبدالصمد خان نے بلوچستان کی قومی اور صوبائی نشستوں پر اپنے افراد کھڑے کیے تھے۔ قومی میں تمام امیدوار ہار گئے تھے، اس کے بعد صوبائی نشست پر خان عبدالصمد خان لڑ رہے تھے، برات خان اچکزئی ان کے مدمقابل کھڑے ہوگئے۔ یہ خان عبدالصمد کے لیے زندگی کا مشکل ترین مرحلہ تھا، اس صورتِ حال سے نکلنے کے لیے پشتون قبائل کا جرگہ چمن میں بلایا گیا جس میں عبدالصمد خان نے خطاب کیا اور کہا کہ میری پارٹی کو شکست ہوگئی، اب اس ایک نشست پر کھڑا ہوں اور میرے مدمقابل برات خان کھڑے ہیں، اس صورت حال میں میرے لیے جیتنا مشکل ہوگا، بہتر ہے کہ برات خان دستبردار ہوجائیں۔ تمام جرگہ نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا اور برات خان دستبردار ہوگئے۔عبدالصمد خان نے یہ نشست جیت لی۔ یہ اُن کا تاریخی موڑ تھا اور وہ اسمبلی میں پہنچ گئے۔ اس کے بعد برات خان کی کشمکش عبدالصمد خان سے چلتی رہی اور برات خان کا تصادم ہوگیا اور انہیں کوئٹہ جیل میں ڈال دیا گیا۔ بھٹو چونکہ عبدالصمد خان کے حامی تھے اور وہ نیپ کے خلاف پیپلزپارٹی کے لیے مضبوط سہارا تھے۔
برات خان ایک لحاظ سے میرے جیل فیلو تھے بلکہ میرے کمرے میں تھے۔ میرے ساتھ ان کے علاوہ علی احمد کرد اور امان بازئی بھی تھے۔ان کا تعلق پیپلزپارٹی سے تھا۔ بعد میں وہ بھٹو کے مخالف ہوگئے اور ہمارے ہمراہ تھے، وہ بھی تقریر کے جرم میں گرفتار ہوئے تھے۔ اب وہ شیرپائو کی پارٹی میں سرگرم ہوگئے۔ جیل میں برات خان اچکزئی کا رویہ سیاسی قیدیوں سے بہت ہی فیاضانہ تھا۔ کوئٹہ جیل میں مری قیدیوں کو کپڑے اور خوراک کا انہوں نے بہت اچھا انتظام کیا، وہ انہیں رقم بھی فراہم کرتے رہے، اور جب ہمیںکوئٹہ جیل سے مچھ جیل اور دیگر جیلوں میں بھیجا گیا تو انہوں نے ہم میں سے ہر ایک کو اچھی خاصی رقم دی۔ برات خان معاملہ فہم اور سیاسی ذہن کی شخصیت تھے۔ وہ ظاہر شاہ اور بعد میں سردار دائود کے حامی بن گئے تھے، اور جب سردار دائود کو قتل کردیا گیا اور کمیونسٹوں کی حکومت بن گئی تو وہ کمیونسٹوں کے سخت مخالفین میں سے تھے، وہ مجاہدین کی حمایت کرتے رہے اور مالی وسائل اور اسلحہ بھی فراہم کرتے رہے۔
ایک دلچسپ واقعہ جو یادگار رہے گا۔ کوئٹہ میں قوم پرستوں اور کمیونسٹوں نے مل کر ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن بنا لی، اس کا اہم مقصد افغانستان میں کمیونسٹوں کی حمایت کرنا تھا۔ DSF کا ایک اجلاس کوئٹہ میں ہوا، اور انہوں نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ ہم پشین کے تمام مہاجرین کیمپوں سے افغان مہاجرین کو نکال باہر کریں گے، اور تمام طلبہ سے کہا گیا کہ جمع ہوجائیں، ہم پشین جائیں گے۔ اس اعلان کے ایک دن بعد برات خان اچکزئی چمن سے اپنے مسلح لوگوںکو لے کر پیشن پہنچے اور پورا علاقہ کلاشنکوفوں کی فائرنگ سے گونج اٹھا اور تمام بازار بند ہوگئے۔ برات خان اچکزئی نے اعلان کیا کہ ہم دیکھیں گے کہ کون افغان مہاجرین کو پشتون علاقوں سے نکالتا ہے۔ برات خان کے اس اعلان نے دہشت اور خوف کی ایسی فضا قائم کی کہ کوئی قوم پرست پارٹی یا طلبہ تنظیم پشین جانے کی جرأت نہ کرسکی۔ ان کے اس کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ جیل سے رہا ہوئے تو اُن سے کئی بار نواب بگٹی کے ہاں ملاقات ہوئی۔ سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد میں کئی شخصیات کا کردار یادگار رہے گا۔ ایک بار مجاہدین اور مری قبائل کا تصادم ہوا، تو مری قبیلے کا خاصا نقصان ہوا۔ مجاہدین نے ان سے کہا کہ آپ افغانستان میں آرام سے رہیں اور ہمارے مدمقابل نہ آئیں۔ اس تصادم کے بعد مری قبیلہ وہاں پناہ گزین رہا اور پھر جنرل نجیب کے قتل کے بعد حکومتِ پاکستان کے زیرسایہ پاکستان لوٹ آئے، جبکہ خیربخش مری C-130 میں حکومت ِ پاکستان کی آشیرباد کو قبول کرتے ہوئے واپس آگئے۔ یہ انتظام پاکستان کی آئی ایس آئی نے کیا تھا، اور بلوچستان جماعت اسلامی کے امیر عبدالحق بلوچ نے خیربخش مری کو مری قبائل کی آبادکاری کے لیے 3 لاکھ کا چیک پیش کیا جسے انہوں نے قبول کرلیا۔
بلوچستان میں افغان کمیونسٹوں کی حکومت کے حوالے سے بعض اہم واقعات ہیں جن کو قلمبند ہونا چاہیے۔
پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صوبائی صدر کابل چلے گئے اور کمیونسٹ کیمپ میں شامل ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد وہ امریکن CIA کے قریب چلے گئے۔ کیوں کہ انہوں نے ڈبل کراس کیا، KGB کو اس کا علم ہوگیا، وہ انہیں کمیونسٹ ملک میں لے گئے جہاں ان سے اہم راز اگلوا لیے اور انہیں ایک تالاب میں ڈبوکر مار دیا گیا۔ ان کا تعلق خانوزئی سے تھا۔ ان کی لاش خفیہ طریقے سے لاکر خانو زئی میں رات گئے دفن کردی گئی۔
وہ سارے خواب بکھر گئے جو پاکستان میں روس نواز پارٹیوں، طلبہ تنظیموں اور دانشوروں نے دیکھے تھے۔ بعد میں برات خان اچکزئی قتل ہوگئے۔
ہمارے قریب کے احاطے میں ایک اور ممتاز قبائلی شخصیت سخی دوست خان کی تھی، وہ نواب بگٹی کے قیدی تھے۔ ان پر بھی نیپ کو مالی سہولت فراہم کرنے کا الزام تھا۔ جب وہ جیل سے چھوٹ گئے تو نواب بگٹی کے قریب ہوگئے اور نواب نے انہیں اپنی پارٹی کے ٹکٹ پر بلوچستان اسمبلی میں پہنچا دیا۔ جس طرح ان کا نام تھا، حقیقت میں وہ سخی تھے۔ حیرت انگیز طور پر ان کا ہاتھ کھلا ہوا تھا۔ وہ اسمبلی میں خاموش رہے اور پارٹی کے ساتھ تھے۔ انہوں نے بھی جیل میں سیاسی قیدیوں اور مری قبائل کے قیدیوں کی بہت مدد کی۔ جیل میں خوراک کا انتظام ان کے ذمہ تھا۔ یہ میرے جیل فیلو تھے۔ بعد میں بھی ان سے ملاقاتیں رہیں۔
جوں جوں وقت آگے بڑھ رہا تھا کوئٹہ جیل سیاسی قیدیوں اور نوجوان طالب علموں سے بھرتی جارہی تھی۔ اب میرے کمرے میں ایک دن علی احمد کرد کو لورالائی سے لایا گیا۔ عطا اللہ بزنجو طالب علم کو بھی میرے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔
اب میری قیدِ تنہائی کا دور ختم ہوگیا اور White House آباد ہوگیا۔ یوں جیل میں اب ایک نیا دور شروع ہوا اور مجھے نیپ کے ان سیاسی لیڈروں سے قریب ہونے کا موقع ملا۔ اُن کے اندرونی تضادات اور انحرافات سب میری نگاہوں میں آگئے اور میں ان اہم واقعات کا عینی شاہد بن گیا۔ میرا جیل جانے کا تجربہ بڑا اہم تھا۔ بلوچستان میں قوم پرست تحریکوں اور قوم پرست لیڈروں کی اندرونی کہانی کو قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ یوں بلوچستان کو سمجھنے میں آسانی ہوئی اور میری معلومات میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ قوم پرست اور کمیونسٹ تحریک کے پس منظر سے مجھے بہت آگہی حاصل ہوئی۔
ایک دلچسپ واقعہ پر اپنی اس بات کو ختم کروں گا۔
چونکہ میں قبائلی سرداروں اور نوابوں سے ملتا رہا ہوں، ایک دن جماعت اسلامی کے دفتر گیا تو جماعت کے جنرل سیکریٹری عبدالستار خان نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نواب مری اور نواب بگٹی سے کیوں ملتے ہیں؟
ان سے کہاکہ اب نہ کوئی پیغمبر آئے گا اور نہ کوئی فرشتہ نازل ہوگا، اب ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنی سوچ اُن تک پہنچائیں۔
(جاری ہے)