’’آزادی سے فرار‘‘…اردو ترجمہ عربی کتاب ’’الردۃ عن الحریۃ‘‘

کتاب : ’’آزادی سے فرار‘‘…اردو ترجمہ
عربی کتاب ’’الردۃ عن الحریۃ‘‘
مصنف : شیخ محمد احمد الراشد
مترجم : محمد طالب جلال ندوی
صفحات : 124، قیمت 200 روپے
ناشر : عکس پبلی کیشنز۔ بک اسٹریٹ، داتا دربار مارکیٹ۔ لاہور
فون : 042-37300584
0300-4827500
0348-4078844
ای میل shaurehaq@gmail.com

مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت جو صدر محمد مرسی کی قیادت میں قائم ہوئی، اس کا تختہ الٹ کر جنرل سیسی نے جو آگ اور خون کا کھیل کھیلا، اُس کی کچھ تفصیلات اخوانی دانشور شیخ محمد احمد الراشد نے بیان کی ہیں۔ اس کتاب میں صدر محمد مرسی کی تائید، مصر میں جنرل سیسی کی بغاوت کے نشیب و فراز کی داستان، اس حادثۂ کبریٰ کی دستاویزات اور گواہیاں، اسلامی حکومت کی واپسی کی بشارتیں، سیسی بغاوت میں پٹرولی بادشاہوں کی کارستانیاں بیان کی گئی ہیں۔ کتاب بھارت میں ترجمہ اور طبع ہوئی، مکتبہ شعورِ حق نئی دہلی اس کا ناشر ہے۔
ذبیح اسماعیل (المعروف بہ مولوی محمد یٰسین پٹیل فلاحی) تحریر فرماتے ہیں:
’’مختلف و متضاد عناصر میں باہم و مسلسل کشاکشوں سے بھری رزم گاہِ حیات میں سب سے بڑی، سنگین، لہو سے رنگین اور متنوع کشمکش حق و باطل کی کشمکش ہے۔ اس میں جہاں ایک فریق وسائل کی فراوانی، تعداد کی کثرت، دولت کی افراط اور ملک و جاہ پر اقتدار کے باوجود اپنی انانیت، کبر و غرور، تفاخر، کم ظرفی و تنگ دلی اور کمزوروں کے استحصال کی وجہ سے فتح یاب ہوکر بھی شکست خوردہ رہتا ہے، تاریخ کے اوراق میں دفن ہوجاتا ہے، یا تاریخ اسے وقت کی صلیب پر اس طرح لٹکا دیتی ہے کہ ہر آنے والا اس کو سنگسار کرتا ہے۔ اس کی نسل تک ختم ہوجاتی ہے۔ اور اگر کوئی بچ بھی جاتا ہے تو اس کی طرف انتسابِ عار کی وجہ سے اسے ظاہر کرنے کی ہمت ہی نہیں کرتا۔
وہیں دوسرا فریق اپنی حق پسندی، وفا شعاری، انسانیت نوازی، جذبۂ شہادت، دل سوزی و جی داری کے باعث ہمیشہ بے سرو سامانی کی حالت میں نکلتا ہے، وقت کے فرعونوں سے ٹکراتا ہے، دارو رسن پر مسکراتا ہے، قافلہ ملے تو ٹھیک، ورنہ اکیلا ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ صحرا نوردی جس کا شوق، آبلہ پائی جس کی سرشت، خودداری جس کا شعار، قائم اللیل اور صائم النہار، تنگی و فراخی ہر دو حالتوں میں یکساں معیار، قدم قدم پر رب کائنات کی نصرت سے سرشار چلتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ کامیاب ہوجائے یا اسی راہِ حق میں جان جانِ آفریں کے حوالے کردے۔ اس کی ہار میں بھی جیت ہوتی ہے، اس کی موت میں بھی حیات ہوتی ہے، وہ لاولد ہوکر بھی ہزارہا سال تک نسلوں کے لیے باعثِ فخر ہوتا ہے، کنگال ہوکر بھی مالا مال ہوتا ہے، کیونکہ چھوٹی چھوٹی نیکیوں کے ذریعے وہ بلندی کے اُس مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ اس کی آنکھ بن جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہے جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پیر بن جاتا ہے جس سے وہ چلتا ہے، درود و سلام ہو ان افراد پر، اور ان کے قافلے والوں پر۔
80 سال تک دنیا کے بدترین ظلم و جبر سے گزرنے، جان و مال کا نقصان سہنے، حکومتی پروپیگنڈے کی مار کھانے، درِ زنداں اور سرِعام عصمتوں کے لُٹ جانے، اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے باوصف اپنے کیریئر کو گنوانے کے باوجود دنیائے عرب اور خصوصاً مصر میں اخوان المسلمون کا قافلہ نہ صرف جاری و ساری رہا بلکہ زمین میں اس کی جڑیں مضبوط تر اور آسمان میں اس کی شاخیں دور تک پھیلتی چلی گئیں۔ اپنے بانی حسن البناءؒ کی شہادت کے جلو میں ہزارہا شہادتوں کا امین یہ قافلہ شبِ تاریک میں قندیلِ رہبانی کی طرح چمکتا رہا، اور ہر راہ رو کے لیے مشعلِ راہ بنتا رہا۔ یہاں تک کہ آج سے تقریباً چار سال پہلے یہودیوں کے ایک بڑے خادم ٹونی بلیئر نے اس قافلے کی دھمک محسوس کرکے یہ بیان دینا شروع کردیا کہ:
اخوان کو اچھوت کیوں رکھتے ہو؟ انہیں آگے آنے دو!
وہ آئے۔ حق پسند اور حق پرست بن کر آئے۔ تاریک گلیوں اور سنگینوں کے سائے میں نہیں بلکہ عوامی مقبولیت کی شاہراہ سے آئے۔ شیطان کے دوستوں کا گمان تھا کہ اقتدار کا مزا ان کی چال تبدیل کردے گا۔ چند دنوں ہی میں یہ قافلہ راستہ بدل دے گا۔ اور اس طرح مال و جاہ کی چمک ان کی راہ کھوٹی کرکے اس مدمقابل کو ہمارا حلیف بنادے گا۔ مگر ؎

اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

وہ حکومت میں آئے۔ ایک سال تک رہے۔ مگر ان کے جانی دشمن بھی بغاوت کے بعد ان پر ایک درہم کرپشن کا الزام عائد نہ کرسکے۔ جب وہ قانونی اور عملی طور سے حکمراں تھے اُس وقت بھی انہوں نے مخالفین پر کوئی گولی نہ چلائی۔ جب ہر طرف سے ان کو گھیرلیا گیا اور باغیوں اور متمردین کے آقائوں نے پناہ کی پیشکش کی تو انہوں نے اسے پائے حقارت سے ٹھکرادیا اور اپنے پیش رو عظیم المرتبت پیغمبر حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح بزبانِ حال یہ کہتے سنے گئے کہ:
رب السجن احب الی مما یدعوننی الیہ
اے میرے رب یہ امریکی اور انگریزی گڑیاں جس چیز کی دعوت دے رہی ہیں اس سے تو بہتر ہے میں جیل چلا جائوں۔
اللہ رب العالمین کی قسم! مرسی آپ کامیاب ہوگئے۔ اقتدار تو آنی جانی چیز ہے، لیکن مردِ مسلم کی جس غیرت و حمیت کا آپ نے مظاہرہ کیا، اس نے ہمارے سینوں کو فخر سے پھلادیا۔ ان شاء اللہ آپ دوبارہ آئیں گے اور پہلے سے بڑھ کر قوت کے ساتھ آئیں گے۔ اگر آپ نہ آسکے تو آپ کا کوئی جانشین آئے گا، لیکن آپ نے اللہ کے دین کو وقار بخشا ہے تو ان شاء اللہ آپ کو اور آپ کے مرشدِ عام محمد بدیع اور اُن کے ہم نشینوں کو اللہ تعالیٰ اس سے بہت زیادہ بڑا وقار بخشے گا۔
مصری انقلاب جہاں ایک بہت بڑا معجزہ تھا، وہیں تمرد و بغاوت کے ذریعے فوجی حکومت کی واپسی اسی قدر بڑا المیہ ہے۔ اسلام مخالف قوتیں خود اپنے بنائے ہوئے اصولوںکو پامال کرکے اسلام کو روکنے کی کوشش کررہی ہیں۔ البتہ سازشی و بزدل دشمنوں کا جدید طریقۂ واردات یہ قرار پایا ہے کہ اپنے منصوبوں میں وہ مسلمانوں کے خون سے رنگ بھرتے ہیں اور اس خوں ریزی کا ذریعہ بھی کسی نام نہاد مسلمان کو ہی بناتے ہیں، تاکہ مسلمان آپس میں خوں ریزی کرتے رہیں اور باطل اسی سے گنگا اشنان کرتا رہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری ایمان داری اور دل سوزی کے ساتھ گزرے ہوئے واقعات کا تجزیہ کرکے مستقبل کا اندازہ لگایا جائے، اور ایسی پالیسی اختیار کی جائے کہ باطل کی چالیں اس پر اوندھی گرجائیں۔ اس کے لیے جہاں علم و فکر اور عقیدے و جذبے کی ضرورت ہے، وہیں اس کے لیے حلم و بردباری، حکمت و دوراندیشی اور صبر و جاں کاہی کی بھی ضرورت ہے۔
پیش نظر یہ کتاب جس کو ایک اخوانی دانشور محمد احمد الراشد نے ترتیب دیا ہے، اس ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر آپ حیرت و استعجاب کے ساتھ ساتھ امید و استقلال سے لبریز دل و دماغ پائیں گے۔ باطل کی سازشوں کے ساتھ اہلِ اسلام کے صبر اور قربانی کا اندازہ کریں گے۔ قوت و جاہ کے باوجود باطل کے بودے پن، بے کسی اور بے بسی، اور قوتِ ایمانی سے سرشار قافلۂ سخت جاں کا نظارہ کریں گے۔ طاقت رکھنے کے باوجود صبر کی حکمت عملی، اقدام کے وقت میں ہوش، اور انتہائی سختی میں پُرجوش رہنے کا سلیقہ اس کتاب سے ملے گا۔
راقم الحروف نے جب اس کتاب کو پڑھا تبھی سے اس کی خواہش تھی کہ اردو داں طبقے تک یہ پہنچے۔ اس سلسلے میں عزیزم محمد طالب جلال ندوی کی محنت وصلاحیت کا اعتراف نہ کرنا ناقدری ہوگی۔ اپنی نوخیزی اور کم عمری کے باوجود اس مسجع و مقفیٰ ادبی و تحریکی کتاب کا ترجمہ کرنا ایک مشکل کام تھا، جو انہوں نے بخوبی نبھایا۔ اللہ تعالیٰ ان کے قلم کو اور قوت عطا فرمائے تاکہ وہ دین کی مزید خدمت کرسکیں، اور ان کی اس کوشش کو شرفِ قبولیت بخشے (آمین)۔ ساتھ ہی صدیق حبیب اور حاذق طبیب ڈاکٹر اکرم السلام فلاحی کا شکریہ ادا کرنا ہم پر واجب ہے جن کی نظرثانی نے کتاب کی افادیت دوچند کردی۔
ان شاء اللہ شعورِ حق کی جانب سے بہتر سے بہتر علمی و فکری کتابوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ہم اپنے قارئین کے شکریے کے ساتھ ان سے استدعا کرتے ہیں کہ زیرنظر کتاب کے تعلق سے حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے ایک بار پوری کتاب پڑھ لیں۔ پیش کردہ واقعات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اور حکمت تو مومن کی گمشدہ متاع ہے۔ اگر ان واقعات اور ان کے تجزیات کے بعد ہمیں اپنی رائے بدلنی پڑے تو کیا قباحت ہے۔ سچائی پر کسی کی اجارہ داری تو نہیں۔
ہم نے اس کتاب کی ضخامت کو کم کرنے کی غرض سے اس سے ملحق تمام ضمیموں کو حذف کردیا ہے۔ ان ضمیموں کی حیثیت محض اضافی شہادتوں کی تھی، اور ان میں سے بیشتر انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ بلکہ پوری کتاب الردۃ عن الحریۃ کے نام سے انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔‘‘
کتاب 12 ابواب پر مشتمل ہے:
مصر کے حریت پسند…
تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا، اے عقاب!
کیسے؟ اور کن طریقوں سے بغاوتی انقلاب ناکام ہوجائے گا؟
مصر کے بغاوتی انقلاب میں امریکی کردار
بغاوتی انقلاب میں ناصری اور سیکولر کردار
بغاوتی انقلاب میں اسرائیلی یہودیوں کا کردار
بغاوتی انقلاب میں اہلِ صحرا و خلیج کا کردار
بغاوتی انقلاب میں ایرانی و شیعی کردار
بغاوتی انقلاب میں جعلی اسلام کا کردار
بغاوتی انقلاب میں قبطی عیسائیوں کا کردار
غیرجانب دار رپورٹیں اور مراجع و مصادر
مسئلہ کی سنگینی اور ہماری دعوتی ذمہ داریاں
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبائو گے
خاتمۂ کلام
کتاب اس قابل ہے کہ اس کا بغور مطالعہ کیا جائے اور صورتِ حالات سے آگہی حاصل کی جائے۔
کتاب نیوز پرنٹ پر طبع کی گئی ہے۔ مجلّد ہے۔

ہندوستانی گرائمر

کتاب : ہندوستانی گرائمر
مصنف : بنجمن شلزے
(Benjamin Schulzino)
ترتیب و ترجمہ و تعلیقات : ڈاکٹر ابواللیث صدیقی
صفحات : 282 قیمت 300روپے
ناشر : ڈاکٹر تحسین فراقی۔ ناظم مجلسِ ترقیِ ادب
فون نمبر : 042-99200856,99200857
ای میل : majlista2014@gmail.com
ایک جہاں جناب اطہر ہاشمی صاحب کا قیمتی کالم ’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘ تسلسل سے مطالعہ کرتا ہے، اُن میں اِن سطور کا راقم بھی شامل ہے۔ فرائیڈے اسپیشل فروری 2019ء شمارہ 8 کے کالم میں انہوںنے محسن نقوی صاحب کے خط کا اقتباس درج کیا ہے:
’’اردو گرائمر کی دوسری معروف کتاب 1743ء میں شائع ہوئی، اس ایک جرمن مشنری بنجمن شلزے نے مرتب کیا تھا۔ یہ بھی لاطینی زبان میں تھی لیکن اردو کے الفاظ اردو ہی کے رسم الخط میں درج تھے۔ یہ کتاب بھی ایک ایسے شخص کے نقطہ نظر سے لکھی گئی تھی جو لاطینی کو ام السنہ گردانتا تھا۔ شلزے کو جتنی بھی ہندوستانی (اردو) آتی تھی اس پر بنگالی کا اثر نمایاں تھا اور بہت سے الفاظ جو اس نے اردو یا ہندوستانی کے نام پر درج کیے ہیں دراصل بنگالی الفاظ ہیں‘‘۔
یاد آیا کہ ہندوستانی گرائمر کے نام کی ایک کتاب مجلس ترقی ادب کی طرف سے تبصرے کے لیے آئی ہوئی ہے۔ تلاش کرنے پر کتابوں کے ڈھیر شریف سے کتاب برآمد ہوگئی، اس کا تعارف پیش خدمت ہے۔
ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے کتاب بڑی محنت سے ترجمہ اور ایڈٹ کی۔ ڈاکٹر صاحب کو اس کتاب کا مخطوطہ انڈیا آفس لائبریر ی میں ملا۔ 42 صفحات کا مطالعہ انگلینڈ میں اور باقی کا پاکستان میں مائیکرو فلم کی مدد سے کیا۔ زیرنظر کتاب میں اسی مخطوطے کو ایڈٹ کرکے اس کا ترجمہ اردو میں کیا گیا ہے اور اس پر تعلیقات لکھی گئی ہیں۔ اصل کتاب لاطینی زبان میں تھی جس کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا۔ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اول میں حروفِ تہجی سنسکرت، بنگلہ، گورکھی وغیرہ، اور حروف تہجی ہندی۔ باب دوم: اسم کا بیان، اسم کی گردان، اسما کی ساخت، بیان صفت کا، اسمِ عدد (صفتِ عددی) گنتی عدد ترتیبی۔ باب سوم: ضمائر… ضمیر اشارہ (قریب)، ضمیر اشارہ (بعید)، ضمیر استفہامی۔ باب چہارم: فعل کی بحث۔ باب پنجم: حروفِ عطف کا بیان۔ ص 137 سے ص 164 تک نہایت قیمتی حواشی اور تعلیقات لکھے ہیں۔
اصل انگریزی مخطوطہ بھی شامل ہے جو بائیں ہاتھ سے 118 صفحات تک طبع ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مبسوط مقدمہ تحریر کیا ہے۔ کتاب سفید کاغذ پر ٹائپ میں طبع ہوئی ہے۔ یہ دوسرا ایڈیشن ہے جو 1977ء کے بعد طبع ہوا ہے، یعنی تقریباً چالیس سال بعد۔ جو خریدنا چاہے فوراً خرید لے ورنہ چالیس سال انتظار کرنا پڑے گا۔
کتاب مجلّد ہے۔ بڑے سائز کی ہے۔ قیمت 300 روپے، سمجھ لیں مفت ہے۔