مفتی تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ کیوں کیا گیا۔۔۔!۔

کراچی میں بروز جمعہ 22 مارچ کو ملک کے نہایت محترم عالم دین76 سالہ بزرگ جسٹس (ر) مفتی محمد تقی عثمانی کو دہشت گردوں نے ٹارگٹ کرکے (جس میں انہیں اللہ نے معجزاتی طور پر محفوظ رکھا) ہمارے قومی ’تہوار‘ 23 مارچ کی ’یومِ پاکستان‘ کی تقاریب کو سبوتاژ کرنے کی ناپاک سازش کی تھی، جسے اللہ نے ناکام کردیا۔ کراچی جو ملک کا اقتصادی ’حب‘ ہے، اس میں دہشت گردی کی یہ کارروائی عین اُس دن ہوئی جس دن عزت مآب ڈاکٹر مہاتیر بن محمد پاکستان تشریف لارہے تھے۔ دہشت گردی کی اس کارروائی میں ’’جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘‘ کے مصداق مفتی محمد تقی عثمانی تو محفوظ رہے، مگر دہشت گرد اپنے تئیں ٹارگٹ مکمل کرکے بآسانی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ دہشت گردی کی اس کارروائی میں مفتی صاحب کی حفاظت پر مامور سندھ پولیس کا اہلکار فاروق جو اُن کی گاڑی میں اگلی نشست پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور اُن کی حفاظت کے لیے ساتھ چلنے والی دوسری کار میں ذاتی پرائیویٹ محافظ صنوبر خان کی قیمتی جانیں تو چلی گئیں اور دونوں کاروں کے ڈرائیور حبیب اور عمر شہاب شدید زخمی ہوگئے۔ حبیب ڈرائیور کا تو ایک بازو بھی ناکارہ ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ دونوں جاں بحق ہونے والوں کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ مرحمت فرمائے اور دونوں زخمیوں کو جلد صحت یاب کرے۔ آمین
دہشت گردوں نے مفتی محمد تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ گلشن اقبال کی مین یونیورسٹی روڈ جیسی مصروف ترین شاہراہ پر اُس وقت کیا جب وہ دارالعلوم کی ذیلی شاخ جامع مسجد بیت المکرم میں نمازِ جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمانے جارہے تھے۔ حیرت ہے کہ یہ حملہ اس کے باوجود ہوگیا ہے کہ آئی جی سندھ سیّد کلیم امام کے بقول کراچی میں دہشت گردی کے خطرے کے پانچ سو سے زائد انتباہ موجود تھے۔ اللہ نے مفتی صاحب کو محفوظ رکھ کر پاکستان کو بدامنی کے ایک بڑے خلفشار سے محفوظ رکھا، وگرنہ اس کے منفی اثرات ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ پوری مسلم دُنیا میں ہوتے۔ دہشت گردی کی یہ کارروائی بھی اسی سلسلے کی کڑی لگتی ہے جس کا آغاز سالِ گزشتہ کے آخر میں کراچی میں چین کے قونصل خانے پر حملے سے ہوا تھا، جس کے بارے میں ہمارے انٹیلی جنس اور تفتیشی اداروں کا کہنا ہے کہ اس میں ’’را‘‘ ملوث تھی۔ کراچی اور یکے بعد دیگرے ملک کے دوسرے حصوں میں دہشت گردی کی تازہ لہر اس حقیقت کی غماز ہے کہ دہشت گردی کا ناسور مکمل طور پر جڑ سے اُس وقت تک ختم نہیں ہوسکتا جب تک ملک میں ہر سطح پر اچھی حکمرانی قائم نہیں ہوجاتی۔ ہماری قومی سلامتی اور یک جہتی کو پارہ پارہ دیکھنے کی خواہش مند خارجی اور داخلی قوتوں کے گماشتوں نے مفتی تقی عثمانی کو ٹارگٹ کرکے جو پیغام دیا ہے اس کی سنگینی کا ادراک ہر سطح پر ہونا ضروری ہے۔
محترم جسٹس (ر) مفتی محمد تقی عثمانی کی شخصیت ملک کے اندر اور ملک سے باہر کے تمام دینی و علمی حلقوں میں محترم ہے، بلکہ پاکستان سے باہر مسلم دُنیا کے اعلیٰ تعلیمی و علمی حلقے بھی ان کے علمی مقام اور مرتبے کے معترف اور قدرشناس ہیں۔ دُنیا بھر کے اُن اعلیٰ تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں جہاں جہاں اسلام اور اسلامی بنکاری کے حوالے سے غور و فکر اور تحقیق ہورہی ہے، ان کو اس شعبے کا ممتاز و مستند اسکالر تسلیم کیا جاتا ہے۔ مفتی صاحب علومِ اسلامیہ میں مہارت کے ساتھ ساتھ عصری علوم پر بھی دسترس رکھتے ہیں۔
وہ پاکستان کے پہلے عالمِ دین ہیں جنہوں نے ’’ربا‘‘ اور ’’سود‘‘ کے مسئلے کو شریعت کی روشنی میں پوری طرح سمجھا، اور اس کے معاشی نقصانات اور سود سے پاک معیشت سے جو فوائد حاصل ہوسکتے ہیں، اس پر پوری طرح غور و فکر کیا۔ اور جو لوگ اور ادارے ’’بلا سود‘‘ بینکاری کے نظام کو عملی طور پر چلا رہے ہیں اُن کے ساتھ مل کر ان سے عملی تجربہ حاصل کیا، اور اسلامی بینکاری کا کام کرنے والے بینکوں کے شرعیہ بورڈ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے شرعیہ بورڈ میں اپنا کردار ادا کیا اور کررہے ہیں، اور اپنی زیرِ نگرانی دارالعلوم میں اسلامی بینکاری کا کام کرنے والے بینکوں کے شرعیہ بورڈ کے لیے ٹیم بھی تیار کی، جس کی تربیت کے لیے دارالعلوم کورنگی میں اسلامی بینکنگ کا باقاعدہ سینٹر قائم ہے۔ جسٹس (ر) مفتی تقی عثمانی کا تعلق ایسے علمی خانوادے سے ہے جس پر فارسی کا یہ محاورہ حرف بہ حرف صادق آتا ہے کہ

’’ایں خانہ ہمہ آفتاب است‘‘

وہ اپنے علمی خانوادے کی تیسری نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے دادا مولانا محمد یاسین (مرحوم و مغفور) دارالعلوم دیوبند کے دَورِاوّل کے طالب علم تھے، اور تعلیم سے فراغت کے بعد تاحیات دارالعلوم دیوبند میں ایک شعبے کے سربراہ کے طور پر تدریس کی خدمات انجام دیتے رہے۔ والد محترم مفتی محمد شفیع (مرحوم و مغفور) نہ صرف برِّصغیر کی بلند قامت ممتاز دینی و علمی شخصیت تھے بلکہ پاکستان کے حصول کی سیاسی جدوجہد میں بھی ان کا اہم کردار رہا ہے۔ ان کا شمار اُن ممتاز علماء میں ہوتا ہے جنہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ اور قائداعظمؒ کا باقاعدہ ساتھ دیا تھا۔ انہوں نے علامہ شبیر احمد عثمانی ؒکی قیادت میں جمعیت العلمائے ہند سے الگ ہوکر جمعیت العلماء اسلام کے نام سے الگ جماعت قائم کرکے مسلم لیگ کا عملی ساتھ دیا تھا۔
علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور مفتی محمد شفیعؒ آپس میں کزن تھے۔ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، مفتی محمد شفیعؒ کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ انہوں نے علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کے ساتھ پورے ہندوستان میں 1946ء کے انتخاب سے قبل مسلم لیگ کے اُمیدواروں کی حمایت کے لیے طوفانی دورے کیے تھے۔ مسلم لیگی اُمیدواروں کی کامیابی میں علماء و مشائخ کا کلیدی کردار تھا۔ اگر اُس وقت صوبہ سرحد (اب خیبر پختون خوا) میں مسلم لیگ کی حمایت کرنے والے علماء و مشائخ اسی طرح سرگرم عمل ہوجاتے جیسے بعد ازاں ریفرنڈم میں ہوئے تھے تو 1946ء کے انتخاب میں کانگریسی رہنما خان عبدالغفار خان (مرحوم) کے بھائی ڈاکٹر خان کی قیادت میں کانگریس کی صوبائی حکومت نہ بن پاتی۔ بعد ازاں صوبہ سرحد میں ہونے والے ریفرنڈم میں ان انتخابی حلقوں میں بھی پاکستان کے حق میں پانسہ پلٹنے میں پیر مانکی شریفؒ اور پیر زکوڑی شریفؒ کے ساتھ مل کر علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور مفتی محمد شفیعؒ کے دوروں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا جس کا برملا اعتراف آل انڈیا مسلم لیگ کی پوری قیادت نے ہی نہیں بلکہ خود قائداعظمؒ نے بھی کیا تھا۔ جمعیت العلماء ہند سے الگ ہوکر پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں شریک ہونے کی وجہ سے علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، مفتی محمد شفیعؒ اور مسلم لیگ کی حمایت کرنے والے دیگر جیّد علماء کو اپنی مادر علمی دارالعلوم دیوبند سے، جہاں وہ تدریس کے اعلیٰ مناصب پر فائز تھے، استعفیٰ دے کر الگ ہونا پڑا تھا (دارالعلوم دیوبند سے مسلم لیگ کی حمایت کرنے والے تمام علماء کے ناموں کی تفصیل کی اس کالم میں گنجائش نہیں ہے)۔ مفتی تقی عثمانی کے والدِ محترم کی شخصیت تحریکِ پاکستان کے حوالے سے بھی اہم تھی۔ وہ جمعیت العلماء اسلام کے بانی صدر علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور علامہ سیّد سلیمان ندویؒ کے انتقال کے بعد اس کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے جماعتی سیاست کو اکتوبر 1958ء میں لگنے والے پہلے مارشل لا کے بعد خیرباد کہا تھا۔ تاہم پہلے فوجی آمر حکمران جنرل ایوب خان کے مقابلے میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ میدان میں اُتریں تو ان کی اخلاقی حمایت کی تھی، اور مادرِ ملت کی نمازِ جنازہ بھی مفتی محمد شفیعؒ نے پڑھائی تھی۔ مفتی محمد شفیعؒ کا پاکستان آکر اہم کارنامہ دارالعلوم جیسے اعلیٰ تعلیمی ادارے کا قیام ہے، جہاں فرقہ واریت سے مکمل اجتناب کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے اور فقہی مسالک کے اختلاف پر جنگ و جدل کے بجائے شائستہ، اور تہذیب کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے علمی انداز میں بحث ومباحثہ اور مکالمے کی روایت قائم کی گئی ہے۔ دارالعلوم قائم کرنے اور اس کو علومِ اسلامیہ کی تعلیم کا ممتاز ترین ادارہ بنانے میں مفتی محمد شفیعؒ نے زندگی کے آخری سانس تک دن رات ایک کیے رکھے تھے۔ اب اُن کے اس یادگار تعلیمی ادارے کو چار چاند لگانے میں اُن کے دونوں چھوٹے فرزندوں محترم مفتی محمد رفیع عثمانی اور جسٹس (ر) مفتی محمد تقی عثمانی شب روز کو ایک کیے ہوئے ہیں۔ دارالعلوم کراچی کا قیام 1951ء میں عمل میں آیا تھا۔ ابتدا میں اس ادارے نے نانک واڑہ میں انگریز دَور میں قائم ہونے والے سکھوں کے ایک اسکول کی عمارت میں کام شروع کیا تھا۔ بعد ازاں 1957ء میں یہ کورنگی میں 56 ایکڑ کے وسیع رقبے پر منتقل ہوگیا۔
دینی مدارس میں دارالعلوم کئی اعتبار سے اپنی بالکل منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں صفائی ستھرائی کا نظام مثالی ہے۔ کلاس روم ہوں یا طلبہ کی رہائش گاہیں… مسجد کے وضو خانے ہوں یا اس سے متصل غسل خانے… صفائی ستھرائی کی ہر جگہ جلوہ گری نظر آتی ہے۔ دارالعلوم کورنگی میں اس نامہ نگار کو جب کبھی بھی جانے کا اتفاق ہوتا ہے، یہ دیکھ کر بڑی طمانیت اور خوشی ہوتی ہے کہ مین گیٹ سے داخل ہوتے ہی ہریالی، موسمی پھول اور سڑک کے دونوں طرف کناروں پر کراچی کی آب و ہوا میں نشوونما پانے والے ناریل کے درختوں کی لمبی قطار ترتیب کے ساتھ نظرآتی ہے۔ ہر درخت پر اس کا نمبر کندہ ہے۔ دارالعلوم کورنگی میں طلبہ کو انگریزی زبان پڑھنے کی سہولت تو ساٹھ کے عشرے سے میسر تھی، البتہ اِس وقت دارالعلوم کے احاطے میں طلبہ و طالبات کے لیے میٹرک سسٹم اور اولیول سسٹم کے تحت اسکول موجود ہیں۔ دارالعلوم کورنگی اور اس کی ذیلی شاخ میں سات سے آٹھ ہزار طلبہ زیرِ تعلیم ہیں جن کے قیام و طعام کے تمام اخراجات اہلِ خیر کے عطیات سے پورے ہوتے ہیں۔ البتہ اس حوالے سے خاص بات یہ ہے کہ اس کے لیے معروف معنوں میں چندے کی اپیل نہیں کی جاتی، اور نہ ہی میڈیا میں کسی طرح کی اشتہاری مہم چلائی جاتی ہے۔ کروڑوں روپے ماہانہ کا بجٹ علومِ اسلامیہ سے محبت کرنے والے اہلِ خیر کسی اپیل کے بغیر پورا کردیتے ہیں۔ دارالعلوم کے ذمہ دار نے بتایا ہے کہ یہاں کا مالیاتی نظام بھی مثالی ہے۔ 1951ء سے لے کر آج تک ملنے والے تمام عطیات کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور حکومت کے اداروں میں بھی جمع کرایا جاتا ہے۔ ہر سال ملنے والے عطیات کی آمد و خرچ کے حساب کا چارٹرڈ اکائونٹنٹ فرم سے آڈٹ کرایا جاتا ہے۔ یہاں زیرِ تعلیم طلبہ کی ایک قابلِ ذکر تعداد ایسے متمول گھرانوں کی ہے جو اپنے طعام و قیام کے تمام اخراجات خود برداشت کرتے ہیں۔ ایسے طلبہ ہوسٹل میں کرایہ ادا کرکے الگ کمرہ حاصل کرسکتے ہیں۔ چاہیں تو وہ بجلی کا بل ادا کرکے اپنا اے سی اور اپنا فریج بھی رکھ سکتے ہیں۔ ایسے طلبہ کے لیے ماہانہ بنیاد پر کچن سے ٹوکن خریدنے کا نظام رائج ہے۔ دارالعلوم کا کچن جدید دَور کی تمام سہولیات سے آراستہ ہے۔ یہ کچن ’’اسٹیٹ آف آرٹ‘‘ کا شاہکار ہے۔ یہ ایک اہلِ خیر نے عطیہ کیا ہے۔ یہاں حفظانِ صحت کے اُصولوں کے تحت صفائی کا معیار ہمارے ملک کے فائیو اسٹار ہوٹلوں سے بھی بہتر ہے۔ دارالعلوم کا کتب خانہ بھی بڑا شاندار اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کتب خانے میں 90 ہزار سے زائد کتابیں ہیں۔
مفتی محمد شفیعؒ (مرحوم و مغفور) کے قائم کردہ اس دینی تعلیمی ادارے میں طلبہ میں پاکستان سے محبت اور اس کے قیام کی اہمیت اُجاگر کرنے پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ یہ شاید واحد دینی ادارہ ہے جہاں ہر سال پاکستان کے قومی تہواروں پر 14 اگست اور 23 مارچ کو عام تعطیل ہوتی ہے اور پرچم کشائی کی شاندار تقریب بھی ہوتی ہے۔ 22 مارچ کو مفتی تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ ہونے کے باوجود 23 مارچ کو ’’یومِ پاکستان‘‘ پرچم کشائی کی تقریب کو ملتوی نہیں کیا گیا تھا۔