جولان کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنا ڈونلڈ ٹرمپ کی “عریاں” سرپرستی

مشرقی وسطیٰ کے امن کو اسرائیلی جارحیت کا سامنا

اسرائیل میں 9 اپریل کو عام انتخابات ہورہے ہیں۔ یہاں مذہب اور فرقے کی بنیاد پر درجنوں جماعتیں ہیں۔ عام طور سے کوئی ایک جماعت واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی، چنانچہ مخلوط حکومت اسرائیلی سیاست کا طرہ امتیاز ہے۔ انتخابات 5 نومبر کو ہونے تھے لیکن وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو المعروف بی بی نے پارلیمان تحلیل کرکے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کردیا۔ گزشتہ انتخابات میں وزیراعظم بی بی کی لیکڈ پارٹی 120 رکنی کنیسہ (Knesset) یا پارلیمنٹ میں 30 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر تھی اور اس نے 5 مذہبی، قوم پرست اور فرقہ وارانہ جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنالی۔ موصوف 2009ء سے ملک کے وزیراعظم ہیں۔
آئندہ انتخابات میں بی بی کو سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ وزیراعظم اور ان کی اہلیہ کے خلاف رشوت خوری اور چوری کے سنگین الزامات ہیں۔ کچھ ہی عرصہ پہلے اٹارنی جنرل نے وزیراعظم کے خلاف فردِ جرم شعبہ انصاف کو بھجوا دی ہے۔ ان کے مخالفین ووٹروں سے کہہ رہے ہیں کہ بی بی کو ووٹ دے کر وقت ضائع نہ کرو کہ ان کو باقی زندگی اب جیل میں گزارنی ہے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ قبل ازوقت انتخابات کے نتیجے میں اگر بی بی کو عوام کا اعتماد دوبارہ حاصل ہوگیا تو مقدمے کے آغاز سے پہلے لیکڈ پارٹی آئین میں ایک ترمیم کے ذریعے وزیراعظم کو مجرمانہ سرگرمیوں سمیت تمام مقدمات سے مکمل استثنیٰ فراہم کردے گی۔ اِس بار ان کے دو بڑے مخالف یعنی اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ جنرل بینی گینٹز (Benny Gantz) کی بلند حوصلہ یا Hahosen Leisrael Party اور ممتاز صحافی یار لیپڈ (Yair Lapid) کی مستقبل پارٹی (Yesh Atid Party)نے سفید و نیلا اتحاد (Blue and White) قائم کرلیا ہے۔ نیلا اور سفید اسرائیلی پرچم کا رنگ ہے۔ جیسے پاکستان میں سبز ہلالی سے مراد ہمارا قومی پرچم ہے، ایسے ہی اسرائیلی پرچم کو سفید و نیلا کہتے ہیں۔ اسرائیلی عربوں کی تنظیم الحرکۃ العربیہ للتغیر اور القائمۃ المشترکہ نے بھی عندیہ دیا ہے کہ ضرورت پڑی تو وہ حکومت سازی کے لیے سفید و نیلے اتحاد کا ساتھ دیں گے۔ خیال ہے کہ ان دو جماعتوں کی مجموعی نشستیں 12 کے قریب ہوں گی جو 120 کے ایوان میں ایک مؤثر پارلیمانی قوت بن سکتی ہے۔
بی بی معیشت اور معاشرت کے اعتبار سے بہت آزاد خیال ہیں لیکن فلسطینیوں کے معاملے میں ان کا دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہے، اسی لیے انھوں نے اُن جماعتوں کو شریکِ اقتدار کیا ہے جن کا خیال ہے کہ غزہ، بیت المقدس اور شرق اردن میں آباد فلسطینیوں کو مصر، شام، لبنان اور اردن کی طرف دھکیل دینا چاہیے۔گزشتہ چند برسوں سے فلسطینیوں کے معاملے میں بی بی کا رویہ بہت سخت ہوگیا ہے جس کے ردعمل میں غربِ اردن اور غزہ سے باہر آباد عرب نژاد اسرائیلی شہری بھی جن کی اکثریت مسیحیوں پر مشتمل ہے، سخت مشتعل ہیں۔ اسرائیل کے عرب شہری عام طور سے انتخابی سرگرمیوں میں بہت زیادہ دلچسپی نہیں لیتے لیکن اِس بار بیت المقدس اور بیت اللحم میں آباد عرب عیسائیوں میں زبردست جوش و خروش پایا جاتا ہے۔
رائے عامہ کے جائزوں میں کہا جارہا ہے کہ سفید و نیلے اتحاد کو 36 اور وزیراعظم کی لیکڈ پارٹی کو 30 نشستیں ملنے کی توقع ہے۔ اس صورت میں جنرل بینی گینٹز عربوں، لیبر پارٹی اور دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنالیں گے، اور نئی حکومت بی بی کے خلاف تحقیقات کا شکنجہ سخت کرکے ان کے سیاسی مستقبل کو تاریک کرسکتی ہے۔
بی بی دنیا کے دوسرے مسلم مخالفین کی طرح سیکولر و لبرل ہیں۔ آزاد معیشت ان کا نعرہ ہے جو درحقیقت بے رحم سرمایہ دارانہ نظام پر ایک ملائم نقاب ہے۔ یعنی سرمایہ کاروں و سرمایہ داروں پر کوئی پابندی نہیں۔ نہ کم سے کم اجرت، نہ مزدوروں سے زیادہ کام کرانے پر کوئی قدغن۔ ماحول و صحت سے متعلق قوانین بھی نہ ہونے کے برابر۔ یہی وجہ ہے کہ GDP اور دوسرے اقتصادی اشاریوں کے اعتبار سے تو معیشت کا رخ آسمان کی طرف ہے لیکن بقول سراج الحق غریبوں کو وہ بھی میسر نہیں جو امیر اپنے کتوں کے آگے ڈالتے ہیں۔ مزدور دشمن پالیسیوں کی بنا پر ملک کا غریب طبقہ بھی ان سے سخت ناراض ہے۔ مزدور یونینوں کی جانب سے شدید مزاحمت، غریب طبقے کی مخالفت، اور سب سے بڑھ کر کرپشن کے سنگین الزامات کی بنا پر وزیراعظم کی انتخابی مہم سخت مشکل میں ہے۔ ان کے انتخابی جلسوں میں چور چور کے نعرے سنائی دیتے ہیں۔
گزشتہ چند ہفتوں سے بی بی نے معیشت، تعلیم، عمدہ طرزِ حکمرانی کے بجائے قومی وقار، ملکی دفاع اور سب سے بڑھ کر ایران کے جوہری پروگرام کو ہدف بنالیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کی یہ نئی حکمت عملی کامیاب نظر آرہی ہے۔ بی بی صدر ٹرمپ اور دامادِ اول جیرردکشنر کے قریبی دوست ہیں، اور امریکی صدر انتخابات میں غیر جانب داری و عدم مداخلت کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر نیتن یاہو کی کھل کر حمایت کررہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی بے جا حمایت اخلاقی اعتبار سے تو غلط ہے ہی، لیکن وہ اپنے دوست کو تقویت دینے کے لیے جو اقدامات کررہے ہیں اس سے علاقے میں پہلے سے موجود کشیدگی خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے اور سارا مشرق وسطیٰ عدم استحکام کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے۔
اسرائیل کے انتخابات کے ساتھ ہی 2020ء کے امریکی انتخابات کا میدان بھی گرم ہونا شروع ہوگیا ہے۔ چنانچہ امریکی صدر کے جارحانہ اقدامات سے جہاں نیتن یاہو کی انتخابی مہم کو تقویت مل رہی ہے، وہیں صدرٹرمپ امریکہ میں اسرائیلی لابی کو بھی متاثر کررہے ہیں۔ گزشتہ برس انھوں نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے خود کو یہودی ریاست کا مخلص پشتی بان ثابت کیا، اور اب جولان کو اسرائیل کا اٹوٹ انگ تسلیم کرنے کے لیے صدارتی فرمان جاری کردیا۔
سطح سمندر سے 9 ہزار 2 سو فٹ بلند 1800 مربع کلومیٹر یہ سطح مرتفع ہضبۃ الجولان یا Golan Heights کہلاتی ہے۔ آتشیں چٹانوں پر مشتمل اس سطح مرتفع کے جنوب میں دریائے یرموک رواں دواں ہے جو شام اور اردن کے لیے آب نوشی کا ذریعہ، جبکہ مغرب میں بحیرہ طبریہ واقع ہے جو دنیا میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی نہر ہے۔ عبرانی کہانیوں کے مطابق قربِ قیامت کے آغاز پر یاجوج ماجوج بحیرہ طبریہ کا سارا پانی پی کر اسے خشک کردیں گے۔ بحیرہ طبریہ اسرائیل کو پانی کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
جولان کے دو تہائی حصے پر 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے قبضہ کرلیا تھا۔ 1981ء میں مقبوضہ جولان کو اسرائیل میں ضم کرلیا گیا، تاہم امریکہ اور اقوام متحدہ نے اسرائیلی اقدام کو تسلیم نہیں کیا اور عالمی نقشوں میں جولان اب بھی شام کا حصہ ہے۔ اس ضمن میں سلامتی کونسل کی قرارداد 242 میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ جولان شام کا حصہ ہے۔ دفاعی اعتبار سے یہ بلند مقام اسرائیل کے لیے بے حد اہم ہے کہ یہاں سے اردن، لبنان اور شام پر نظر رکھی جاسکتی ہے۔
امریکہ میں اسرائیل کے حامی ایک عرصے سے تحریک چلا رہے تھے کہ جولان کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرلیا جائے۔ گزشتہ ماہ ری پبلکن پارٹی کے تین سینیٹرز نے امریکی سینیٹ میں ایک قرارداد بھی پیش کی تھی جس میں جولان کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا، لیکن اس قرارداد پر رائے شماری نہیں ہوئی۔ 11 مارچ کو قدامت پسند سینیٹر اور صدر ٹرمپ کے پُرجوش اتحادی مسٹر لنڈسے گراہم نے اسرائیلی وزیراعظم اور اسرائیل میں امریکہ کے سفیر کے ہمراہ جولان کا دورہ کیا جہاں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے امریکی حکومت پر زور دیا کہ جولان کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرلیا جائے۔ سینیٹر لنڈسے نے کہا کہ ایک محفوظ و خوشحال اسرائیل امریکہ کے مفاد میں ہے اور دہشت گرد حملوں سے بچائو کے لیے جولان کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنا ضروری ہے۔
اسی کے ساتھ ایران کے جوہری پروگرام کا ہوّا بھی بڑی کامیابی سے کھڑا کیا جارہا ہے۔ اسرائیل میں ایران کے ایٹمی ہتھیار اور ان کے دورمار میزائل کے بارے میں شدید خوف پایا جاتا ہے۔ اس فوبیا کو بی بی اور صدر ٹرمپ خوب ہوا دے ر ہے ہیں۔ اسرائیلیوں کے جذبات سے کھیلنے کے لیے اپنی ہر تقریر میں بی بی ایرانی جوہری پروگرام کو اسرائیل کے لیے سخت خطرہ قرار دیتے ہیں، وہ صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ اگر دنیا نے اسے ختم کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا تو اسرائیل خود کارروائی کرے گا۔ نیتن یاہو کی مہم کا نتیجہ ہے کہ دائیں، بائیں، سیکولر و مذہبی تقسیم سے بالاتر ہوکر ساری اسرائیلی قوم ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں شدید جذبات رکھتی ہے۔
ایران کے جوہری ہتھیار اور شام و لبنان میں ایرانی اثرونفوذ پر مشتمل ایجنڈا لے کر امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے گزشتہ ہفتے اسرائیل، لبنان اور کویت کا دورہ کیا۔ نیتن یاہو سے ملاقات کے لیے وہ بیت المقدس تشریف لائے اور دیوارِگریہ کے سامنے بہت ہی رقت آمیز انداز میں اسرائیلی کی خوشحالی اور ایران کی تباہی و بربادی کی دعا کی۔ اس موقع پر انھوں نے فرمایا کہ اللہ نے اسرائیل کا تحفظ ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے صدر ٹرمپ کو امریکی صدر بنایا ہے۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایرانی جوہری پروگرام پر امریکہ اور نیتن یاہو کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ بی بی کی ’’بے مثال‘‘ معاملہ فہمی کی تعریف کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ گزشتہ ماہ پولینڈ میں امریکہ اور اسرائیل کے اتحادیوں کی چوٹی کانفرنس بی بی کی بصیرت کا نتیجہ تھی جب دنیا کی تمام جمہوریتیں ایران کی جارحیت کے آگے بند باندھنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل پر متفق ہوگئیں۔ ان کے خیال میں یہ ’’مبارک‘‘ اتفاق نیتن یاہو کے تدبر کا کمال تھا۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ بی بی کی قیادت میں شام سمیت مشرق وسطیٰ سے ایران کی مداخلت کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ مائک پومپیو کی پوری گفتگو بی بی کی انتخابی مہم کی تقریر تھی۔
اسرائیل کے بعد جناب پومپیو لبنان آئے جہاں حزب اللہ اُن کا بنیادی ہدف تھی۔ حزب اللہ امریکہ کے لیے تو دہشت گرد ہے لیکن اسے اپنے عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ لبنان کے حالیہ انتخابات میں حزب اللہ اور اس کی اتحادی حرکۃ الامل (امید کی کرن) لبنانی قومی اسمبلی کا سب سے بڑا پارلیمانی گروپ ہے جس کے پاس 128 کے ایوان میں 30 نشستیں ہیں۔ اسپیکر نبی بیری کا تعلق بھی امل سے ہے۔ 29 نشستوں کے ساتھ لبنانی صدر میشال عون کی مسیحی جماعت التیارالوطنی الحر اور 9 آزاد ارکان بھی حزب کے حامی ہیں۔ گویا لبنانی پارلیمان میں حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کے پاس 68 نشستیں ہیں۔ اس کے مقابلے میں وزیراعظم سعد الحریری کی جماعت تیارالمستقبل کا پارلیمانی حجم صرف 20 ہے۔
اپنے لبنانی ہم منصب جبران باصل سے ملاقات کے بعد مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب میں جناب پومپیو نے مروجہ سفارتی رکھ رکھائو کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے صاف صاف کہا کہ لبنان کو اپنی آزادی اور حزب اللہ میں سے ایک کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہاکہ حزب اللہ کو سیاسی طور پر تنہا کرنے اور دیوار سے لگانے کے لیے اس کے ارکان کو کابینہ سے نکالنا ضروری ہے۔ سعدالحریری کی کابینہ میں وزارتِ صحت اور کھیل و نوجوانوں کے امور کی وزارتوں کے علاوہ پارلیمانی امور کے وزیرمملکت کا تعلق بھی حزب اللہ سے ہے۔ امریکی وزیرخارجہ نے احسان جتلاتے ہوئے جناب باسل کو باور کرایا کہ امریکہ لبنان کو80 کروڑ ڈالر کی مدد دیتا ہے، ذرا بتائیں کہ حزب اللہ نے لبنان کو کیا دیا جسے ایران 70 کروڑ ڈالر سالانہ کی امداد فراہم کرتا ہے۔ جناب پومپیو نے کہا کہ حزب اللہ اور ایران نے لبنان اور شام میں دہشت گردی کا بازار گرم کررکھا ہے اور امن کے لیے حزب اللہ کا خاتمہ ضروری ہے۔ جواب میں نرم لیکن پُراعتماد لہجے میں لبنانی وزیر خارجہ نے اپنے امریکی ہم منصب کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ دہشت گرد نہیں۔ اسے لبنانی عوام کی حمایت حاصل ہے، اور ایک منتخب جماعت کو دہشت گرد کہنا عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے۔ وزیرخارجہ جبران باصل کے ساتھ مسیحی جماعت کے پارلیمانی قائد علین عون نے بھی حزب اللہ کے بارے میں امریکہ کے مؤقف سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ایک آزاد ملک کی حیثیت سے واشنگٹن کو حزب اللہ کے بارے میں رائے قائم کرنے کا اختیار ہے لیکن اسے لبنانی عوام نے نمائندگی کا مینڈیٹ دیا ہے جس کا احترام جمہوری قوتوں کے لیے ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ حزب اللہ کے خلاف امریکہ کی کارروائی سے لبنانی عوام متاثر ہورہے ہیں۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ ہم حزب اللہ کے اتحادی ہیں اور اس کے خلاف کارروائی کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ لبنانی رہنمائوں کے اس پُرعزم لہجے پر امریکی وزیرخارجہ کو حیرت ہوئی اور وہ کسی حد تک خجل نظر آئے۔ اشک شوئی کے لیے جناب پومپیو نے لبنان کی مالی حمایت جاری رکھنے کا وعدہ کیا۔
صدر ٹرمپ کی خصوصی دعوت پر بی بی 25 مارچ کو واشنگٹن تشریف لائے۔ نیتن یاہو کے اس دورے کا بنیادی مقصد اسرائیلی مفاد کے لیے کام کرنے والی امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی (AIPAC)کی سالانہ کانفرنس میں کلیدی خطاب تھا۔ کانفرنس میں شرکت کے لیے یورپی ممالک کے کئی وزرا اور جرنیل آئے ہوئے تھے۔ دلچسپ و حیرت انگیز بات کہ برنی سینڈرز سمیت ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ کے کئی خواہش مندوں نے اِس سال AIPACکانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا جس کی بنیادی وجہ مشرق وسطیٰ کے بارے میں صدر ٹرمپ کی یک طرفہ پالیسی کے حوالے سے ڈیموکریٹک پارٹی کے تحفظات ہیں۔ ڈیموکریٹس کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ ایرانی مداخلت کے نام پر یمن میں خلیجی ممالک کے آپریشن کی اندھا دھند حمایت کررہے ہیں جس کی وجہ سے یمنی عوام شدید مشکلات میں ہیں اور وہاں ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی سینیٹ بھاری اکثریت سے قرارداد بھی منظور کرچکی ہے۔ اسی طرح برنی سینڈرز کا خیال ہے کہ حزب اللہ کو لبنانی حکومت سے نکالنے پر زور نہ صرف غیر جمہوری ہے بلکہ اس کے نتیجے میں لبنان شدید سیاسی بحران کا شکار ہوسکتا ہے۔
جیسے ہی اسرائیلی وزیراعظم امریکہ آئے، تل ابیب کے شمال مغرب میں راکٹوں کے حملے میں بچوں سمیت ایک ہی خاندان کے 6 افراد زخمی ہوگئے۔ حماس نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے، لیکن بی بی نے بلاتحقیق غزہ پر شدید بمباری کا حکم دے دیا۔ اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے حماس کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے غزہ پر بمباری کی مکمل حمایت کی۔ بی بی نے جذباتی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اپنی بہادر فوج کی قیادت کرنے کے لیے میں اپنا دورہ مختصر کرکے وطن واپس جارہا ہوں۔ بی بی کی موجودگی میں صدر ٹرمپ نے اس صدارتی فرمان پر دستخط کیے جس کے تحت جولان کو اسرائیل کا اٹوٹ انگ تسلیم کرلیا گیا، اور جس قلم سے انھوں نے فرمان پر دستخط کیے اسے اسرائیلی عوام کے نام کردیا۔
اسرائیلی حزبِ اختلاف کو نیتن یاہو کے لیے امریکی حمایت پر سخت تشویش ہے۔ صدر ٹرمپ یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ صرف بی بی ہی شام و لبنان میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثررسوخ کا سدِباب کرسکتے ہیں اور یہ معاملہ اسرائیلیوں کے لیے بے حد حساس ہے۔ سینیٹر لنڈسے گراہم کے دورۂ جولان، امریکی وزیرخارجہ کی بیروت میں دوٹوک گفتگو اور اب غزہ پر وحشیانہ بمباری سے اسرائیل میں ایک جنگی جنون پیدا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے میڈیا پر کرپشن کی داستانیں غیر اہم ہوتی نظر آرہی ہیں۔ ایران، حزب اللہ اور حماس کے بارے میں بی بی کے نفرت انگیز بیانیے کی کاٹ کے لیے سفید و نیلا اتحاد بھی اپنی توپوں کا رخ ایران کی طرف کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ اگر نیتن یاہو ایران و حماس کا ہوّا کھڑا کرکے عوام کی توجہ کرپشن اور بدعنونی سے ہٹانے میں اسی طرح کامیاب رہے تو انتخابات میں ان کی کامیابی یقینی ہے۔ اسرائیل میں انتخابی فضا کو یکسر بدلنے میں صدر ٹرمپ نے اہم کردار ادا کرکے دوستی کا حق ادا کردیا ہے۔ دوست آں باشد کہ گیرد دستِ دوست۔

………………………

اب آپ مسعود ابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comپر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

تل ابیب پر میزائل حملے اور پیش آمدہ حالات و سوالات

حالیہ چند ایام میں غزہ کی پٹی سے داغے گئے میزائلوں سے دو بار صہیونی ریاست کا نام نہاد دارالحکومت تل ابیب لرز اٹھا۔ 25 مارچ بروز سوموار کو غزہ کے عوام نے آنکھ کھولی تو انہیں ہر طرف یہ خبر سننے کو ملی کہ غزہ سے داغے گئے دو میزائل اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں گرے، جس کے نتیجے میں 7 صہیونی زخمی ہوگئے۔ میزائل حملے کے بعد اسرائیلی فوج نے غزہ کی برّی اور بحری ناکہ بندی کردی اور تمام گزرگاہوں پر آمد ورفت روک دی۔
غزہ کی پٹی میں کسی فلسطینی گروپ کی طرف سے آخری اطلاعات تک اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔ اسرائیلی میڈیا میں آنے والی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ غزہ سے داغے گئے میزائل 100 کلومیٹر دور جا گرے جس کے نتیجے میں متعدد مکانات تباہ ہوگئے۔ اسرائیلی حکومت نے اربوں ڈالر مالیت سے میزائل شکن نظام جگہ جگہ نصب کررکھا ہے مگر ’آئرن ڈوم‘ نامی یہ سسٹم بھی ناکام رہا۔
فلسطینی تجزیہ نگار اور دانشور عدنان ابوعامر نے جو القدس اسٹڈی سینٹر میں اسرائیلی امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، مرکزِ اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غزہ سے سوموار کے روز شمالی تل ابیب پر میزائل حملہ اچانک اور حیران کن ہے۔ اگرچہ غزہ کی سرحد پر کشیدگی اور جزیرہ نما النقب میں فلسطینی اسیران پر ڈھائے جانے والے مظالم ان میزائل حملوں کا سبب ہوسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی ریاست کی ناکہ بندی بھی فلسطینیوں کے راکٹ حملوں کا سبب ہے۔ یہ میزائل حملے اس بات کا اشارہ ہیں کہ آنے والا  وقت خاصا کشیدہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ سے میزائل حملوں کے بعد اسرائیل بعض اہم امور کی طرف توجہ مرکوز کرے گا۔ کچھ احتیاطی تدابیر کے طور پر آئرن ڈوم کی صلاحیت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ غزہ کی پٹی پر فضائی اور زمینی حملے بھی متوقع ہیں۔
اگر اسرائیل غزہ پر بمباری شروع کرتا ہے تو کوئی نہیں جانتا کہ یہ جنگ کتنا طول پکڑے گی اور اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ اسرائیل کی طرف سے جنگ مسلط کیے جانے کا امکان زیادہ ہے۔ تاہم اسرائیل میں آنے والے دنوں میں ہونے والے انتخابات جنگ ٹال بھی سکتے ہیں۔
علاقائی اور عالمی سطح پر بعض حلقے غزہ میں جنگ روکنے کے لیے حرکت میں آئیں گے، کیونکہ موجودہ حالات میں اگر جنگ ہوتی ہے تو امریکہ کی طرف سے صدی کی ڈیل کا نام نہاد منصوبہ آگے نہیں بڑھایا جاسکے گا۔ دانشور عدنان ابوعامر نے کہا کہ غزہ سے اسرائیلی دارالحکومت پر میزائل حملے سے بعض سنجیدہ نوعیت کے سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اسرائیلی فوج اور عسکری حلقوں کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ میں یہ بحث جاری ہے کہ آخر صہیونی انٹیلی جنس ادارے کیوں یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ غزہ سے میزائل حملے کرنے والا گروپ کون ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ صہیونی ریاست یہ کیوں نہیں سوچتی کہ غزہ کی پٹی پر دبائو بڑھانے اور ناکہ بندی کا سلسلہ جاری رکھنے سے امن کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی۔
اس کے علاوہ اسرائیل کا آئرن ڈوم سسٹم کیوں کر ناکام ہے اور ایک ماہ میں دوسری بار فلسطینی میزائل صہیونی دارالحکومت تک کیوں کر پہنچ گئے؟ اس کے علاوہ اگر جنگ چھڑتی ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا اور وہ جنگ کتنا عرصہ مزید جاری رہے گی؟
ابو عامر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام ایسے سوالات ہیں جن کا جواب آسان نہیں۔ غزہ سے تل ابیب پر میزائل حملوں نے صہیونی عسکری اداروں کو مایوسی اور خوف میں مبتلا کردیا ہے، اور وہ جواب میں غزہ پر کسی بھی قسم کی جارحیت کرسکتے ہیں۔
(بشکریہ، مرکزِ اطلاعات فلسطین)