۔’’فی الواقعی‘‘ اور’’ امر واقعی‘‘۔

ہمارے ایک بہت سینئر صحافی جن سے ہم نے بہت کچھ سیکھا، وہ اپنے اداریے میں عموماً ’’فی الواقعیٖٖ‘‘ لکھتے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب تصحیح کے بعد اُن کی تحریر دوبارہ اُن کے سامنے آتی تو وہ تصحیح کی تصحیح کرکے دوبارہ ’’فی الواقعی‘‘ لکھ دیتے تھے، جب کہ یہ لفظ ’فی الواقعٖ‘ ہے۔14 مارچ کے ایک اخبار میں نوجوان کالم نگار محمد بلال غوری نے ’’من حیث المجموعی‘‘ لکھ کر فی الواقعی کی یاد تازہ کردی۔ کالم کے ساتھ شائع ہونے والی تصویر سے ظاہر ہے کہ محمد بلال غوری جوان ہیں، اُن کے پاس اپنی تصحیح کے لیے وقت ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ غلطی پختہ ہوجائے اسے ’’من حیث المجموع‘‘ کرلیں۔ یہ عربی کے الفاظ ہیں (تابع مہمل) اور مطلب ہے: مجموعی حیثیت سے۔ عربی کی ایسی اصطلاحات کے استعمال میں ہم بھی غلطی کرجاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک اور تابع فعل ہے: ’’من کل وجہٗ‘‘ یعنی ایک وجہ سے، ایک صورت سے۔ مِن وعن کا تلفظ عموماً غلط ہی سننے میں آتا ہے۔ اس میں ’م‘ بالکسر اور ’ن‘ پر تشدید ہے، یعنی ’’مِنّ و عن‘‘ حرف بحرف، مفصل، واضح، ہوبہو، جوں کا توں۔ حرف پر یاد آیا کہ ٹی وی چینلوں پر اس کا تلفظ بھی ’ح‘ پر پیش کے ساتھ سننے میں آیا۔ اسے بالفتح کرلیں تو کچھ مشکل نہیں ہوگی۔ ’’حرف رکھنا‘‘ الزام لگانے کے معنوں میں آتا ہے۔ کمپوزر کا ترجمہ حروف چیں ہے، لیکن یہ مستعمل نہیں ہوسکا، البتہ حرف چینی عیب نکالنے کے معنوں میں پڑھنے سننے میں آتا ہے۔ قارئین ہم پر بھی اس کا اطلاق کرسکتے ہیں۔
فی الواقعی کی طرح ’’فی الواقعہ‘‘ اور ’’امر واقعی‘‘ ہے۔ لانڈھی کے ایک قاری محمد فیصل گزشتہ دنوں ہماری صورت دیکھنے آئے تو ایک بہت عمدہ کتاب ’’جنوب مغربی ایشیا کا علمی تناظر‘‘ دے گئے جو ادارہ معارفِ اسلامی کراچی نے شائع کی ہے۔ اس میں صحافت کے ایک بڑے استاد اور ادیب نے بھی ’’فی الواقعہ‘‘ استعمال کیا ہے۔ اس مضمون میں ’’اچھنبا‘‘ کا املا بھی اچنبھے میں ڈال گیا۔ ایک جملہ ہے ’’ان کا رویہ کچھ کھِِلا‘‘۔ ’کھ‘ کے نیچے بڑے اہتمام سے زیر لگایا گیا ہے جو ممکن ہے کمپوزر کی اختراع ہو، ورنہ ایک بڑے ادیب اور صحافی کو ضرور معلوم ہوگا کہ یہاں کھَلا (کھ پر زبر) کا محل تھا۔ یہ عجیب لفظ ہے جس میں زیر، زبر، پیش تینوں مستعمل ہیں لیکن ہر ایک کا مطلب مختلف ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو کھَلا اور کھِلا کا فرق معلوم نہ ہو۔ لیکن ’’کھلا کہ فائدہ عرض ہنر میں خاک نہیں‘‘۔
’نا‘ اور ’نہ‘ دونوں ہی حرفِ نفی ہیں لیکن ان کے استعمال میں ہم عموماً گڑبڑا جاتے ہیں۔ مثلاً یہ جملہ ’’ہاتھ میں کوئی نہ کوئی نئی کتاب‘‘۔ یہاں ’نا‘ بہتر ہے یا ’نہ‘، یہ فیصلہ ڈاکٹر رئوف پاریکھ پر چھوڑ دیتے ہیں کہ اردو کے بڑے استاد ہیں اور ہم ان کے خوشہ چیں۔
ایک مزے کا لفظ ہے ’’عہدہ برآ نا ہونا‘‘۔ عزیزم کلیم چغتائی نے پرچۂ امتحان تھمایا ہے۔ ان کی وجہ سے ہم نے لغت سے رجوع کیا۔ عہدہ برآ ہونے کا استعمال اردو میں بہت عام ہے اور اس کا مفہوم بھی واضح ہے لیکن یہ ’برآ‘ کا لاحقہ کیا ہے؟ عہدہ برآ ہونے کا مطلب ہے: بری الذمہ ہونا، فرض ادا کرنا، وعدہ پورا کردینا۔ اس سے ’عہدہ برآئی‘ ہے یعنی فرض سے سبک دوش ہونا، غلبہ حاصل کرنا۔ رند کا شعر ہے:

رنج و غم و اندوہ کے نرغے میں ہوں یارب
کس کس سے اکیلا میں کروں عہدہ برآئی

یہاں عہدہ برآئی غلبہ حاصل کرنے کے معنوں میں آیا ہے۔ ایک لفظ ہے ’’برآنا‘‘۔ جیسے تمنا برآئی۔ مطلب ہے: حاصل ہونا، پورا ہونا۔ ممکن ہے کہ عہدہ برآ اسی ’بر آنا‘ سے ہو۔ ویسے تو ’بر‘ کسی لڑکی کے امیدوار کو بھی کہتے ہیں، اور جب وہ رشتہ لے کر جاتا ہے تو اسے ’’بردکھوّا‘‘ کہتے ہیں۔ اور کسی کی امید بر آتی ہے۔ ’بر‘ ہندی کا لفظ ہے اور مطلب ہے: چنائو، انتخاب، پسند، تمنا، مراد، دعا، برکت وغیرہ۔ علاوہ ازیں کپڑے کی چوڑائی، عرض کو بھی کہتے ہیں۔ بردار کا مطلب ہے چوڑائی رکھنے والا کپڑا۔ کبھی دوپٹے کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ کتنے بر کا ہے۔ اب تو گلے میں پڑی ہوئی دھجی کا کیا عرض پوچھنا۔
فارسی میں برکہتے ہیں: اوپر، پر، باہر، بلند، غالب… اور بعض کلمات کے شروع میں زائد بھی ہوتا ہے، جیسے برعکس، برجستہ وغیرہ۔ پھل، ثمر، چھاتی وغیرہ کو بھی کہتے ہیں اور بطور لاحقہ نامہ بر، دل بر۔
ایک لفظ ’اقدام‘ ہے جس کے استعمال میں ہم گڑبڑا جاتے ہیں۔ اخبارات میں عموماً یہ پڑھنے میں آتا ہے: حکومت نے اقدامات اٹھائے۔ یہ غلطی عام ہے۔ اصل بات یوں ہے کہ قدم کی جمع اَقدام ہے اور الف پر زبر ہے۔ عربی کا لفظ اور مذکر ہے۔ جب کہ دوسرا لفظ ’’اِقدام‘‘ ہے۔ (الف کے نیچے زیر) اس کا مطلب ہے: قدم بڑھانا، آگے جانا، یپش قدمی کرنا، ارتکاب عمل، ارادہ، قصد وغیرہ۔ اس کی جمع ہے: اقدامات۔ چنانچہ اِقدامات کے ساتھ ’اٹھائے‘ کے بجائے ’اقدامات کیے‘ لکھنا چاہیے۔ قدم یا اَقدام (بالفتح) تو اٹھائے جاتے ہیں۔ اقدامِ قتل، اقدامِ خودکشی وغیرہ میں الف بالکسر ہے۔ بر سیبلِ تذکرہ، قسم کی جمع اقسام میں بھی الف پر زبر ہے۔
عام طور پر’کئی سالوں‘، چند برسوں وغیرہ لکھا جاتا ہے۔ یہ غلط نہ ہو تو بھی غیر فصیح ہے، اور کسی کے سالے برا مان سکتے ہیں۔ بہتر ہے کہ ’کئی سال‘، ’چند برس‘ لکھا جائے۔ مفہوم پورا ہو جائے گا۔
اردو زبان کے بارے میں سعداللہ جان برق کا مضمون یا ان کا نقطہ نظر تفصیل سے شائع ہوا ہے۔ اس کی بہت سی باتوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی رائے ہے جس میں کچھ معقول باتیں بھی ہیں، اہلِ علم میں سے کوئی بات آگے بڑھانا چاہے تو کوئی حرج نہیں۔ سعداللہ جان اردو کے بارے میں مزید لکھتے ہیں:
’’اس نیک شہرت کے ساتھ ساتھ یہ اشوری بادشاہ نہایت ہی ظالم اور خونریز بھی تھے۔ اردگرد کے علاقوں کو تاخت و تاراج کرکے لوٹنا اور خون بہانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ مالِ غنمیت میں یہ بادشاہ ان اقوام کے لوگ بھی پکڑ کر لاتے اور غلام بناتے تھے، خاص طور پر بنی اسرائیل کی دونوں سلطنتیں یہودیہ اور اسرائیلہ تو ان کا ہمیشہ نشانہ بنتی رہیں، اسرائیلہ کی سلطنت پہلے ان اشوری بادشاہوں نے تہس نہس کی تھی، بعد میں بابل کے کلدانی بادشاہ بخت نصر نے یہودیہ کی سلطنت کو بھی ملیامیٹ کرکے بنی اسرائیل کو مکمل طور پر کچل دیا۔
ان جنگوں میں جو غلام لائے جاتے تھے، وہ اتنے زیادہ ہوگئے کہ ان کے لیے ایک الگ کیمپ ’’اریدو‘‘ کے نام سے بسایا گیا۔’’ار‘‘ کے معنی شہر کے، اور’’ایدو‘‘ بمعنی غلام۔
ادھر آہستہ آہستہ ان بادشاہوں نے سوچا کہ ان غلاموں یا یرغمالیوں سے کچھ کام کیوں نہ لیا جائے، چنانچہ ان کو اپنے ساتھ لشکری بناکر جنگوں پر لے جایا جانے لگا اور مالِ غنیمت میں سے تھوڑا سا حصہ ان کو دیا جاتا تھا، باقی بادشاہ کا ہوتا تھا۔ یہیں سے دنیا میں پہلی بار معاوضہ دار یا تنخواہ دار لشکر کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ’’اریدو‘‘ شہر کی وجہ سے ان کو اریدو کہا جانے لگا۔ یہ لفظ پھر لشکر سے منسوب ہوگیا اور دوسرے ممالک اور زبانوں میں بھی مروج ہوگیا۔ ترکی میں اس کی شکل ’’اردو‘‘ ہوگئی جو آج بھی تقریباً تمام ایشیائی ممالک میں ’’لشکر‘‘ یا فوج کے لیے مروج ہے۔ افغانستان میں بھی مختلف حصوں کے لیے اردوئے فلاں اور اردوئے فلاں کے الفاظ رائج ہیں۔اب فوج یا لشکر میں تو ہر قوم و ملت کے اور زبان و نسل کے لوگ ہوا کرتے ہیں، چنانچہ ان ساری زبانوں کے مال مسالہ پر مبنی زبان کا نام بھی اردو ہوگیا۔جس طرح اس کے بولنے والے ہر قوم و نسل کے ہوسکتے ہیں، اسی طرح اس کے الفاظ یا لغات یا مال کی بھی نہ کوئی حد ہے اور نہ تخصیص۔ چونکہ ہند کے کچھ خاص علاقوں میں اس کی پرورش و پرداخت ہوئی ہے اور وہیں پر یہ تحریری اور ادبی زبان بنی ہے، اس لیے ان علاقوں کے لوگوں کو اولیت کا درجہ حاصل ہے، لیکن زبان یہ سب کی ہے۔معروف معنوں میں یہ ایک صحیح اور حقیقی بین الاقوامی یا بین اللسانی زبان ہے۔ پھر وہی بات دہرائیں گے کہ ہر کسی کی ہے اس لیے کسی کی نہیں ہے، اور کسی کی نہیں ہے اس لیے ہر کسی کی ہے۔پاکستان میں اس کے ساتھ سیاسی اور سرکاری طور پرکچھ ’’برا‘‘ ہوا ہے جس نے اس معصوم، نہایت کارآمد اور ہمہ صفت زبان کے لیے کچھ لوگوں میں نفرت اور ناپسندیدگی کے گوشے بنادیے ہیں۔ لیکن وہ سیاست اور سرکاری غلط کاریوں کا شاخسانہ ہے۔ بجائے خود اردو اب بھی ایک بین القومی اور پیاری زبان ہے۔جہاں تک اس میں بیرونی الفاظ کی آمد اور چلن کی بات ہے تو ہمارے خیال میں اس پر نہ کوئی قدغن لگانا درست ہے اور نہ ہی ممکن۔‘‘